عید فطر کا معنی
عید کی ایک اہم وجہ جشن و خوشحالی ہے یعنی جب انسان اوج پر جاتا ہے تو اس کی فطرت پاک ہوجاتی ہے اور یہ ایک مبارک واقعہ ہوتا ہے ۔
عید کا مطلب بازگشت ہے بازگشت یعنی اصل فطرت کی طرف لوٹ آنا اور اس کے مطابق انسان اپنی حقیقت اور پاک فطرت پر واپس لوٹ آتا ہے اور عید یعنی اسی بات کی خوشی اور انعام کا نام ہے۔
عید فطر روحانی سال کا آغاز ہے
یہ احساس درست نہیں کہ ہم رمضان کے اختتام کو عید سمجھے اور اگلے سال تک رمضان سے خداحافظی کرے بلکہ ہم تازہ رمضانی ہوگیے ہیں اور جو زخیرہ میسر آیا ہے اگلے سال تک کا خرچہ ہے۔
حقیقت میں عرفاء کے نزدیک سال کا آغاز شب قدر سے ہوتا ہے اور اس معنی میں ہم ابھی تو روحانی سال کے ابتدائی ایام میں ہیں لہذا کہنا چاہیے کہ عید سے سال نو کا آغاز ہوتا ہے اور اگلے سال تک کا خرچہ ہم نے جو رمضان سے لیا ہے اس کو اگلے رمضان تک کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
اگر دیکھنا ہے کہ اس مہینے میں ہمیں کیا کچھ نصیب ہوا ہے تو دیکھنا چاہیے کہ اگر ہمیں گناہوں سے نفرت ہونے لگا ہے تو پھر اچھی علامات ہیں۔
جو پرہیزگار اور متقی نمازی ہے انکو بھی دیکھنا چاہیے کہ جو نماز وہ رمضان سے قبل یا رمضان کے آغاز میں ادا کرتا تھا اب کی نماز سے فرق کرتی ہے کہ نہیں، زیادہ توجہ اور روحانیت سے ادا کرتے ہیں کہ نہیں اگر تبدیلی آئی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ انکو رمضان میں خرچہ ملا ہے اور اگر کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتے تو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بقول انکو صرف بھوک وپیاس اور کم خوابی ملی ہے۔
جنہوں نے اس مقدس مہمانی سے استفادہ کیا ہے جب قرآن پڑھتا ہے تو دل نرم ہوتا ہے جب خدا کا نام لیتا ہے تو سکون ملتا ہے رمضان کے خاص عنایات ہیں اس کو درک کرنا چاہیے۔
ہمیں اس روحانی سرمایے کی قدر کرنی چاہیے اور اس کا ایک راستہ قرآن سے زیادہ مانوس ہونا اور مقدس زیارات کو جانا اور خدا سے روحانی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا اور اولیاء خدا سے توسل کرنا ہے وگرنہ رمضان کے بعد یہ سارے سرمایے برباد ہوسکتے ہیں۔/
* جامعہ المصطفی کے علمی بورڈ کے رکن مهدی رستمنژاد کی نیوز ایجنسی (ایکنا) سے گفتگو
اسلام میں تین عیدیں ہیں جو خود رسول اکرم (ص) کی زبان مبارک سے بیان ہوئی ہیں؛ ان میں عید الاضحی، عید فطر اور عید غدیر ہے اور عید غدیر زیادہ تر اهل بیت(ع) کی روایات میں موجود ہے جس کو عید الله اکبر کہا گیا ہے۔