اصلاح اُمّت کا جو مِشن لے کر امام حسین (علیہ السلام) مدینے سے روانہ ہوئے تھے وہ دسویں محرم سن 61 ھجری کو ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح کی ایک تحریک اور ظہور امام زمانہؑ تک جاری رہنے والے ایک Movement کی شکل اختیار کرلی- عزاداری اسی Movement اور تحریک کا نام ہے- قیامت تک آنے والی نسلیں جنہیں امام کی آوازِ استغاثہ سنائی دے رہی ہے اور جو یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کی کاش ہَم کربلا میں ہوتے، وہ آج بھی امامؑ كے اِس مِشن اور تحریک کا حصّہ بن سکتے ہیں-
عزاداری کا مقصد وہی ہے جوامام حسینؑ کے مِشن کا مقصد تھا۔ یعنی اصلاحِ اُمّت۔ امامؑ کی وصیّت کی روشنی میں اصلاحِ امّت کے لئے جو طریقئہ کار ہونا چاہئے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ یعنی اچھائیوں کی طرف بلانا اور برایئوں سے روکنا۔ اچھایئوں اور برایئوں کا معیار طے کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت پر نظر رکھنا ہوگا-
عزاداری ایک ایسی تحریک ہے جس نے صدیوں سے مخالف ہواؤں، ظلم و بربریت کے طوفانوں اور سازشوں کے سیلابوں کے باوجود ہمیں زندہ رکھا، ہماری پہچان کو باقی رکھا، ہمارے دین و ایمان کوسلامت رکھا اور ہمارے حوصلوں کو بلند رکھا- یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ظاہری اور باطنی شیاطین عزاداری پر حملے کر رہے ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس تحریک کو کمزور کر دیں تاکہ ان کے لئے اصل دین کو ختم کرنا ممکن ہو سکے۔ لہٰذا یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہمیشہ شیاطین کی سازشوں سے چوکننے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ کہیں ہماری عزاداری امامؑ کے مقصد سے دور تو نہیں ہو رہی ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ نماز فحش اور لغو باتوں سے دور کرتی ہے۔ اگرہم دیکھیں کہ ہمارے اندر فحش اور بےحیائی کی باتیں پنپ رہی ہیں تو ہمیں اپنی نماز کو چک کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری نماز کا طریقہ رسول اللہؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو۔ کیا ہم نماز میں وہ شرائط پورے کر رہے ہیں جو اس کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہیں؟ جیسے جیسے ہم اپنی نماز کو بہتر سے بہتر طریقے سے ادا کریں گے ویسے ویسے ہم فحش اور لغو باتوں سے دور ہوتے جائیں گے۔
یہی عزاداری کا بھی معاملہ ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے معاشرے میں سدھار آرہا ہے۔ پہلے جتنی خرابیاں پائی جاتی تھیں اب اتنی خرابیاں نہیں رہ گئیں ہیں تو سمجھیں کہ ہم صحیح طریقے سے عزاداری کر رہے ہیں- لیکن اگر اس کے برعکس ہمیں اپنے معاشرے میں پہلے سے زیادہ خرابیاں دکھائی دیں تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ ہم عزاداری کرنے میں کہاں کوتاہی کر رہے ہیں۔
اس بات کو ایک مثال کے ذریعے اور واضح کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آج کل فضا میں آلودگی اتنی زیادہ بڑہ گئی ہے کہ انسان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے ایک شخص نے اپنے گھر میں ایئر پیوریفایر(Air Purifier) لگایا- جس کی وجہ سے گھٹن کم ہوئی اور اس نے سکون کی سانس لی- لیکن کچھ ہی مہینوں بعد دیکھا کہ پھر سے دم گھٹنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس شخص نے مشین کے جانکار کو بلایا کہ دیکھ کر بتائے کہ مشین کیوں کام نہیں کر رہی ہے۔ شائد اس کا فلٹر(Filter) صاف کرنے کی ضرورت ہو-
اسی طرح اگرہم دیکھیں کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے آلودہ ہو رہا ہے، عقائد فاسد ہو رہے ہیں، اعمال برباد ہو رہے ہیں، اخلاقی معیار گر رہا ہے، بدعتیں پھیلائی جا رہی ہیں، حرام کو حلال سمجھا جا رہا ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ظالم حکمرانوں کی طرفداری کی جا رہی ہے اور ماحول میں گھٹن محسوس ہو رہی ہو تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ عزاداری کرنے میں ہم سے کہاں کمی ہو رہی ہے؟ ہماری عزاداری ماحول کو آلودگی سے پاک کیوں نہیں کر رہی ہے؟ معاشرے کوpurify کیوں نہیں کر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جانے انجانے میں ہماری عزاداری کا مقصد اصلاحِ امّت کے بجائے کچھ اور ہو گیا ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے عزاداری میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم عزاداری کرنے میں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت کو بھول گئے ہوں؟
کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اُس طرح سے عزاداری کریں جس طرح معصومینؑ جاہتے ہیں اِس کے باوجود ہمارا معاشرہ ایک مثالی اورideal معاشرہ نہ بنے-
آیئے ہم اپنی عزاداری پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کہاں پر ہم مقصد سے دور جا رہے ہیں- سب سے پہلے ہم شروع کرتے ہیں ایّامِ عزا کی تیاری سے۔ عام طور سے ہم ذی الحجہ کے مہینے سے بلکہ بعض اوقات رمضان المبارک سے محرم کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ بانیانِ مجلس ذاکرین سے بات کرنے اورامامبارگاہوں کی صاف صفائی اور رنگ روغن کروانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، ذاکرین مسوّدہ تیار کرنے میں، شعرا نئے کلام کی فکرمیں، سوزخوان و نوحہ خوان حضرات سلام و نوحوں اور مراثی کے انتخاب اور بیاضیں درست کرنے میں غرض کہ ہر عزادار اپنے اپنے حصے کے کاموں کو خلوص کے ساتھ بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سب انتظامات میں ہم اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہمارا focus مقصد عزا سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عزاداری کی تیاری شروع کرنے سے پہلے ہم اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ ہماری مدد کرے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کسی لمحے مقصدِ عزا سے ہمارا focus نہ ہٹے- پھر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے وعدہ کریں کہ ہم اس سال ایّام عزا سے خود اپنی اصلاح شروع کریں گے، اپنے گھروالوں اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی اپنی طاقت بھر پوری کوشش کریں گےـ امام حسینؑ سے کہیں کہ مولا ہم گناہگار ہیں لیکن ہم آپ کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہیں۔ مولا جس طرح آپ نے جنابِ حُر کو معاف کرکے اپنے مِشن میں شریک کر لیا ہمیں بھی اپنے اس عظیم تحریک کا حصہ بنا لیجئے- اسی طرح امامِ زمانہؑ سے وعدہ کریں کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کو رنج ہو- اُن سے التجا کریں کہ مولا! ہمیں اس لائق بنا دیجئے کہ ہم شہدائے کربلا سے امامِ وقت کی اطاعت کا سلیقہ سیکھ سکھیں اور آپ کے احکام کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے نائبین کی طرف رجوع کرسکیں-
اب آیئے ہم چلتے ہیں اُن لوگوں کی طرف جو کسی نہ کسی انداز سے عزاداری میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً :
1- بانیانِ مجلس: بانیانِ مجلس کا عزاداری میں بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ اُن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ذرا سی چوک کی وجہ سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے اس لئے انھیں بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہےـ
(الف) عزاداری کے لئے فنڈ کا انتظام: اگر بانیِ مجلس عزاداری کے اخراجات اپنے جیب سے اٹھا رہا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ مال جائز طریقے سے حاصل کیا ہو اور اس پر خمس باقی نہ ہو۔ اور اگر چندے سے انتظام کیا جا رہا ہے تو امانتداری کا پورا خیال رہے۔ چوری کی بجلی استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔
(ب) ذاکر کا انتخاب: ذاکر کے انتخاب میں بعض لوگوں کا معیار یہ ہوتا ہے کہ ذاکر مشہور ہو تاکہ مجمع زیادہ ہو، ذاکر ایسا ہو کہ واہ واہ اور داد و تحسین سے چھتیں اُڑجایئں- ایسی ہی مجلسوں کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جہاں مجمع زیادہ ہو اور واہ واہ زیادہ ہو۔ جبکہ ہمیں ایسے ذاکر کا انتخاب کرنا چاہیئے جوعالمِ باعمل ہو، با اخلاق ہو، وعدہ خلافی نہ کرتا ہو، ضروریاتِ دین کے خلاف نہ بولتا ہو، مجلس میں شرکت کرنے والوں کی توہین نہ کرتا ہو، سوالات اور حوالہ پوچھے جانے پر ناراض نہ ہوتا ہو، مراجع کرام کی توہین اور اُن کے احکام کے خلاف نہ بولتا ہو، ذکرِ معصومین اور ذکر کربلا کے ذریعہ اصلاح امّت کی کوشش کرتا ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو اور سیرتِ معصومین کو سماج میں رائج کرنے کی کوشش کرتا ہو۔
(ج) بعض اوقات تبرک تقسیم کرنے میں دکھاوے، نام و نمود اور دوسروں سے مقابلے کا خیال ذہن میں آجاتا ہے جس سے نیک عمل بھی برباد ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہمیں چاہیئے کہ کوئی بہت خاص اورعجوبی چیز بانٹنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ایسی چیز تقسیم کریں جس طرح کی چیزعام طور سے لوگ مجالس میں تقسیم کرتے ہوں۔ ہاں اہم بات یہ ہے کہ تبرک تقسیم کرنے میں عوام اور خواص میں فرق نہ کریں اور نہ کسی بچّے کو جھڑکیں۔ یہی خیال نذرِ مولا اور حسینی لنگر میں بھی رکھنا چاہیئے کہ عوام اور خواص میں فرق نہ کریں، سب ایک ساتھ ایک دسترخوان پر کھائیں۔ مجلس میں آنے والے سب حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا کے مہمان ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے لئے سب خاص ہیں۔ سب لائق احترام ہیں۔
(د) ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے دوسروں کو اذیت ہو۔ مثلاً ایسا ساؤنڈ باکس لگائیں جس سے صرف عزاخانے کے اندر آواز رہے۔ کسی کی دیوار پر پوسٹرلگانے سے پہلے اس کے مالک کی اجازت لیں، اگر آس پاس کوڑا پھیل گیا ہو تو مجلس کے بعد اسے صاف کروا دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
2- سوزخوان، نوحہ خوان اور شعراء اہلبیتؑ: نظم کے ذریعہ پیغاماتِ کربلا اور افکارِ معصومینؑ کو نشرکرنا اتنا اہم کام ہے کہ معصومینؑ نے ایسے شعراء کی حوصلہ افزائی کی ہے اور انعامات سے نوازا ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری بھی بہت زیادہ۔ ہمیں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا کوئی شعر معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف نہ جا رہا ہو۔ دشمنانِ دین کی سازشوں کو کامیاب بنانے میں مددگار نہ ہو رہا ہو۔ امّت کی اصلاح کے بجائے ان کے عقائد کو خراب نہ کر رہا ہو، بے عملی کی دعوت نہ دے رہا ہو۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جنھیں بیان کرنے کے لئے ایک الگ مضمون بلکہ ایک کتابچہ کی ضرورت ہے۔
3- ذاکرینِ اہلبیتؑ: جب بھی کسی حکومت کو کوئی تحریک چلانی ہوتی ہے تو وہ حکومتی سطح پر کروڑوں روپئے خرچ کرتی ہے، اشتہاروں، جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سب کچھ تھوڑے ہی عرصے تک چلتا ہے۔ اور پھر جب فنڈ ختم ہو جاتا ہے تو لوگوں کا جوش بھی ختم ہو جاتا ہے اور پھرتحریک بھی دم توڑ دیتی ہے۔ لاکھوں سلام ہو جنابِ زینبؑ کی دور بین نگاہوں پرکہ جنھوں نے عزاداری کی بنیاد رکھی۔ لاکھوں درود ہو ائمہِ معصومینؑ پر جنھوں نے عزاداری کو معاشرے میں رائج کیا اور اسے promote کیا۔ ایک ایسا system تیار کیا کہ ظہورامامؑ زمانہ تک نہ تو کبھی فنڈ کی کمی ہو اور نہ عزاداروں کے جوش و خروش اور جذبے میں کبھی زوال آئے۔ حالات کی سختیاں ہوں، ظالم حکونتوں کی ستم آرائیاں ہوں، دہشت گردوں کی بمباریاں ہوں یا کوئی اور مصیبت، سلسلئہ عزا کبھی کمزور ہوتا ہوا نہیں دکھائی دیا بلکہ جیسے جیسے مشکلیں بڑھتی گیئں عزاداروں کا جوش اور ولولہ بھی بڑھتا گیا۔ تحریک عزا اور پائیدار ہوتی رہی۔ اس سسٹم میں بانیانِ مجلس فنڈ کا انتظام کرتے ہیں، عزاداروں کو اکٹھا کرتے ہیں، تبرک کا اہتمام کرتے ہیں، ذاکرین کی زاد راہ اور نذرانے کا بند و بست کرتے ہیں اور فرش بچھا کر منبر کو ذاکرین کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ اب معصومینؑ کی تعلیمات اور پیغاماتِ کربلا نشر کریں۔ لیکن اگر کوئی ذاکراپنی ذمہ داری کو بھول جائے اور منبر سے ایسے نظریات پیش کرے جو معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف ہوں تو پھر اس سے ہونے والے نقصانات کی تلافی ممکن نہیں- اگر ہم نے منبر سے کوئی غلط نظریہ پیش کردیا اور بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ہو سکتا ہے کہ توبہ و استغفار کے بعد اللہ معاف کر دے لیکن اپنی غلطی کی تلافی کے لئے ایسے سیکڑوں لوگوں کو ہم کہاں تلاش کریں گے جن کے ذہنوں میں ہماری وجہ سے غلط نظریات بیٹھ گئے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں علماء کے لباس میں بہت سے ایسے لوگ آگئے ہیں جو منبر سے اصلاح کرنے کے بجائے باطل نظریات اور فاسد عقائد پیش کر رہے ہیں- عوام کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کراپنی لفاظیوں سے انھیں مرعوب کرلیتے ہیں۔ ان کے خلوص اور محبت کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوے انھیں معصومینؑ کے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے سنجیدہ، ذمہ دار، مخلص اور باعمل علماء معاشرے کی اصلاح کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کئے رہتے ہیں تو دوسری طرف غیر ذمہ دار نام نہاد علماء و ذاکرین ان کی کوششوں پر پانی پھیرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اصلاحِ اُمّت کا کام یقیناً بہت بڑا challenge ہے۔ اس رکاوٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ذمہ دار اور سنجیدہ علماء مل کر معاشرے کا جائزہ لیں، سماج میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے لائحئہ عمل تیار کریں۔ ہرسال کسی ایک برائی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایئں اوراس کے لئے ایک منظم تحریک چلائیں۔ صرف منبر سے نہیں بلکہ زمینی سطح پر اتر کے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں، ہرعلاقے میں باعمل ذاکرین، سنجیدہ شعراء، سمجھدار بانیانِ مجالس، انجمنوں کے بیدار اراکین کی ٹیم تیار کریں اور ان کی رہنمائی کریں اور ان کے ساتھ مل کر اس راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ یقیناً یہ کام مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ جیسے جیسے لوگوں کی نگاہوں میں حق واضح ہوتا جائے گا لوگ خود بہ خود اہل حق کو پہچاننے لگیں گے۔ ماحول خراب کرنے والوں کے چہرے سے بھی نقاب ہٹ جائے گی۔ اللہ خیرالماکرین ہے۔ وہ سازش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
4- ماتمی انجمنیں: نوجوانی کا زمانہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان سب سے زیادہ کام کر سکتا ہے۔ اگر نوجوان باعمل اور نیک ہوں تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور اگر نوجوان بگڑ جائیں تو قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں محبتِ اہلبیتؑ کی شمع روشن ہے۔ اہلبیتؑ کے لئے اپنی جان بھی دینا پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ زمانہ گواہ ہے کہ جب بھی ہمارے نوجوان مراجع کرام اورعلماء حق کی رہنمائی میں آگے بڑھتے ہیں وہ بڑے بڑے انقلاب لے آتے ہیں۔ عزاداری میں بھی ہمارے نوجوان بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ بس ضرورت ہے تو مراجع کرام اور علماء حق کی رہنمائی میں منظم ہونے کی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شہرمیں سیکڑوں یا ہزاروں نوجوان علماء حق کی سر پرستی اور رہنمائی میں منظم طریقے سے دو مہینے آٹھ دن حسینیت کی تبلیغ کریں اس کے بعد بھی شہر میں کوئی شخص واقعئہِ کربلا سے نا واقف ہو؟ ہم جلوس میں خود ہی نوحے پڑھتے ہیں اور خود ہی سمجھتے ہیں۔ کیا ہمارے جلوس کے قریب سے گزرنے والوں تک حسینیت کا کوئی پیغام پہنچتا ہے؟ غیروں کی کیا بات کی جائے خود ہمارے بچّے تعلیمات کربلا سے کتنا واقف ہیں اگر پوچھا جائے توشائد افسوس ہو۔
بہت دیرہوچکی ہے مزید تاخیرمناسب نہیں ہے۔ ہمیں پلان (plan) کرنا ہوگا کہ کس طرح سے ہم کربلا کا پیغام گھر گھر پہنچائیں۔ پلیکارڈ (placard)کے ذریعے، پوسٹرس(posters) اور ہورڈنگس (hoardings)کے ذریعے، لٹریچر(literature) تقسیم کر کے، فلاحی کاموں کے ذریعے، جلوسوں میں ڈیسیپلین(discipline) اور اچھے اخلاق اور انسانیت کا مظاہرہ کر کے ہمیں حسینیت کا پیغام دوسری قوموں تک پنہچانا ہوگا۔
ایامِ عزا اپنے اندر نصرتِ امامؑ کا جذبہ بیدار کرنے کا زمانہ ہے۔ مجالس میں بیٹھ کرعلماء کا بیان غور سے سنیں۔ اگر کوئی بات نہ سمجھ میں آئے تو پوچھیں۔ مجلس کے دوران باہر کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے والوں کو ادب کے ساتھ فرش عزا پر بیٹھنے کے لئے کہیں۔ خود اپنی بھی اصلاح کریں اور اپنے بھایئوں کو بھی اچھے انداز سے نیکی کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں۔
سوا دو مہینے عزاداری کے ذریعے ہم نے اپنی فکروں کو پاک کیا، دِلوں کی مَیل کو صاف کیا، روح کو طاہر کیا اورغفلتوں سے بیدار ہوے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ایامِ عزا کے بعد ہم سال کے باقی دنوں میں پھر سو جائیں؟ نہیں، ہمیں اپنے مولا کے لئے کام کرنا ہے تمام انجمنوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ایامِ عزا میں بھی اور اس کے بعد بھی نیک کاموں میں ایک دوسرے تعاون کریں۔ ایامِ عزا کے بعد معاشرے کی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے پروگرام بنائیں اوراس پرعمل کریں۔ ہرانجمن آپس میں کام تقسیم کر لے۔ مثلاً کوئی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کام کرے تو کوئی قوم کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے۔ کوئی سماجی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اٹھے تو کوئی دوا اورعلاج کی دشواریوں کو آسان بنانے کے لئے۔ غرض کہ معاشرے میں نہ جانے کتنی ایسی مشکلیں ہیں جن کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہماری قوم کے نوجوان اٹھیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف نظم و ضبط اور پلانگ (planning) کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اصلاح امّت اور مقصدِ کربلا کا ایک حصہ ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ یا اللہ تجھے امام حسین علیہ السلام کا واسطہ، ان کی مصیبتوں کا واسطہ، ان کی قربانیوں کا واسطہ کہ ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم امام مظلومؑ کے مقصد اور مشن کے لئے اس طرح سے کھڑے ہو سکیں کہ امامِ زمانہؑ ہمارا شمار اپنے ناصروں میں کر لیں۔