فاطمیہ کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے ، رحلت پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کیا حالات پیش آئے ، ان حالات اور واقعات کا ہمارے عقائد اور ہمارے دین سے کیا تعلق ہے ، اور کیوں بعض حضرات مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فاطمیہ کو ختم کردیں یا حداقل ان ایام کی اہمیت کو کم اہمیت یا کم فروغ بنادیں ؟ کیونکہ فاطمیہ تشیع کی بنیاد اور عقائد کے ایک اہم مسٔلہ کو حل کر رہی ہے اور اس مسٔلہ کا تعلق امامت و ولایت اہلبیت طاہرین علیہم السلام جیسے عظیم ، اہم اور بنیادی مسٔلہ سے ہے جس کے بارے میں نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن دوسرے میری عترت جو میرے اہلبیت ہیں اور جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچے۔ (۱)
حدیث ثقلین میں نبی گرامی اسلام ، امت کی نجات کا ذریعہ قرآن اور اہلبیت کو پہچنوا رہے ہیں اور امت کو قرآن اور ان ذوات مقدسہ سے متمسک ہونے کا دستور دے رہے ہیں اور اس بات پر تاکید فرما رہے ہیں کہ میرے بعد گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان قرآن اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے دامن کو تھام لے ان سے متمسک ہوجائے اور جب تک انسان ان کا دامن تھامے ہوئے ہے گمراہی سے بچا ہوا ہے اور جہاں ان کا دامن ہاتھ سے چھوٹا انسان گمراہی کے دلدل میں گرتا چلا جائے گا۔
اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (۲)
امام حسین علیہ السلام بھی اسی مطلب کی جانب ایک حدیث میں اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللہ جل ذکرہ نے انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ اس کی شناخت حاصل کریں اور جب اس کو پہچان لیں گے تو اس کی عبادت کریں گے اور اگر اس کی عبادت کریں گے تو اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔
ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا : اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے اللہ کی معرفت کیا ہے ؟ امام نے فرمایا : ہر عصر کے لوگوں کا اپنے زمانہ کے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔ (۳)
جاری ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: صحیح ترمذی ، ج ۵ ، ص ۶۶۲ و ۳۲۸ ؛ مستدرک حاکم ، ج ۳ ، ص ۱۰۹ ، ۱۱۰ ، ۱۴۸ ، ۵۳۳ ؛ سنن ابن ماجه ، ج ۲ ، ص ۴۳۲ ؛ مسند احمد بن حنبل ، ج ۳ ، ص ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ ، ۵۹ ، ج ۴ ، ص ۳۶۶ ، ۳۷۲–۳۷۰ ؛ فضائل الصحابه ، احمد بن حنبل ، ج ۲ ، ص ۵۸۵ ؛ خصایص نسایی ، ص ۲۱، ۳۰ ؛ صواعق المحرقه ، ابن حجر هیثمی ، فصل ۱۱، بخش ۱ ، ص ۲۳۰ ؛ کنزالعمال ، متقی هندی ، ج ۱، ص ۴۴ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۱۱۳ ؛ طبقات الکبری ، ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۹۴؛ مجمع الزوائد ، هیثمی ، ج ۹، ص ۱۶۳ ؛ تاریخ ابن عساکر، ج ۵، ص ۴۳۶ ؛ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ؛ ینابیع الموده ، قندوزی حنفی ، ص ۳۸ ، ۱۸۳ ، مختلف عبارتوں کے ساتھ ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ۔
۲: کلینی ، کافی ، ج۳، ص۵۸ ؛ شیخ صدوق ، کمال الدین ، ج۲، ص۴۰۹۔ ابن حنبل ، مسند احمد ، ج ۲۸، ص ۸۸۔ ابوداؤد ، مسند ، ج ۳ ، ص ۴۲۵۔ مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیة۔
۳: الشيخ الصدوق ، علل الشرائع ، ج ۱ ، ص ۹ ، حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ۔
مصنف: سید باقری