اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین ، معصوم بچوں اور غل و زنجیروں میں جکڑے ہوئے امام زین العابدین سید الساجدین حضرت علی بن الحسین علیہ السلام کو قیدیوں کی شکل میں جب یزید پلید کے محل میں داخل کیا گیا تو سات سو کرسی نشین سامنے تھے ، ان ہستیوں کو قیدی اور غلاموں کی شکل میں دربار میں لایا گیا تھا اور مزید اذیت دینے کے لئے یزید نے ایک درباری خطیب کو منبر پر بلایا ، اس بکے ہوئے شخص نے خاندان بنی امیہ ، معاویہ اور یزید کی مدح و سرا نیز خاندان اہلبیت ، امیرالمومنین اور امام حسین علیہم السلام کی برائیاں اور مذمت شروع کردی ، اسی قید و بند کی حالت میں بھرے دربارمیں امام علیہ السلام نے اس درباری خطیب کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا «ویلک ایھا الخاطب لقد اشتریت مرضاۃ المخلوق بسخط الخالق فتبوأ مقعدک من النار» (۱) اے بولنے والے وای ہو تجھ پر تونے مخلوق کی خوشنودی مالک کے غضب کے بدلے خریدی ہے تونے اپنا ٹھکانہ جھنم کو قرار دیا ہے اور یہ کہہ کر آپ نے بھی خواہش ظاہر کی کہ ان لکڑیوں کے ڈھیر پر جاکر کچھ بیان کریں جس میں اللہ کی رضا اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہو ۔
امام علیہ السلام اس جملے کے ذریعہ یزید اور مخاطبین کو یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ تمہارے افعال ، تمہارے کردار اور تمہاری باتوں میں خدا کا غضب ہے اور ہمارے افعال ، ہمارے کردار اور ہماری باتوں میں خدا کی خوشنودی ہے اور بشریت کو خدا کے غضب کے راستے سے ہٹا کر خدا کی رضایت و خوشنودی کے راستے پر آنے کیلئے ہمارا راستہ چننا ہوگا اور تمہارے راستے سے دوری اختیار کرنا ہوگی۔
یزید راضی نہیں ہو رہا تھا لیکن لوگوں کے اصرار پر اس نے امام علیہ السلام کو بھی کچھ بولنے کی اجازت دی ، امام علیہ السلام نے جو کہ ایک قیدی کی شکل میں تھے اپنا تعارف کچھ اس طرح سے کروایا : اللہ نے ہمیں چھ چیزیں عطا کیں ہیں اور سات فضیلتوں سے شرفیاب کیا ہے ، اللہ نے ہمیں علم ، حلم و بردباری ، جود و سخاوت ، فصاحت زبان ، شجاعت و دلاوری اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا کی ہے ، امام علیہ السلام نے یہاں پر جن صفات کا بیان کیا ہے یہ وہ صفات ہیں جن کا ایک اسلامی حاکم ، اسلامی قیادت ، خلیفہ و امام میں ہونا ضروری ہے لہذا امام علیہ السلام اس نورانی کلام کے ذریعہ یزید ، درباریوں اور معاشرے کو بتا دینا چاہتے تھے کہ اصلی اسلامی قیادت رسول کی جانشینی اور امامت ہمارا حق ہے اور تو اے یزید غاصب ہے تجھے رسول کا جانشین ہونے کا اعلان نہیں کرنا چاہئے ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: نفس المهموم، ص ۲۴۲
۲: مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج ۴۵، ص ۱۳۷-۱۳۹