ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے رہبر و رہنماء معصومین ہیں، یعنی ایسی ہستیاں اور شخصیات جن کا کردار و عمل، جن کا سونا جاگنا، جن کا کھانا پینا، جن کا چلنا پھرنا، جن کا بولنا اور چپ رہنا، جن کا ہر ہر عمل رہتی دنیا تک اسوہ کی حیثیت سے موجود رہیگا اور کسی کو جراءت نہ ہوگی کہ وہ ان کے کسی بھی عمل پہ انگلی اٹھائے۔ پروردگار عالم نے یہ کائنات خلق کی، اس میں انسانوں کی رہنمائی کیلئے اپنے پسندیدہ بندوں کو بھیجا، انبیاء، اوصیاء، آئمہ، اولیاء کا ایک سلسلہ قائم کیا۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم نے اس دامن کو پکڑا، جو کامل و اکمل اسوہ کی صورت ہمارے رہبر و رہنماء اور منتخب ہیں۔ رسول خدا ؐکی ذات اقدس اور ان کے بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی ہستی، جن کے فضائل و مناقب اور عظمت و بلندی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
ان کی ذات گرامی کیساتھ ہم خود کو مربوط و منسلک کرتے ہیں، ان سے محبت کے دعوےدار ہیں، ان سے حب اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، بالخصوص جب ان کے ایام ہائے ولادت و شہادت ہوتے ہیں تو ہم اپنے اپنے انداز سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں معصومین ؑ کی سیرت و کرادر کو نمایاں کرنا چاہیئے۔ نئی نسل تک ان کی زندگیوں کے روشن پہلوئوں کو عملی شکل میں دکھانا چاہیئے کہ عمل ہی اصل تبلیغ و ترویج ہوتا ہے، زبانی کلامی باتوں کا اثر وقت ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐکے فرامین کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن اور اہل بیت ؑایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دونوں مل کر انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مینارہ نور ہیں۔
ان کے دامن سے تمسک ہی ابدی سعادت و کامیابی کی ضمانت ہے، کیونکہ آنحضرتؐ نے اپنی مشہور حدیث ثقلین میں ارشاد فرما دیا: "انی اوشک ان ادعی فاجیب، وانی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ، وعترتی، کتاب اللہ حبل ممدود من السماالی الارض، وعترتی اھل بیتی، وان اللطیف الخبیر اخبرنی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بما تخلفونی فِیھِما" یعنی: "مجھے جلدی دعوت دی جانے والی ہے اور میں اس پر لبیک کہنے والا ہوں، میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت، کتاب الہیٰ آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے۔ میری عترت، میرے اہل بیت ہیں اور لطیف و خبیر اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) تک پہنچ جائیں۔ پس تم دیکھنا میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔"
علی علیہ السلام اہل بیتؑ کی اہم شخصیت ہیں، اس حدیث میں انہیں اور قرآن کو لازم و ملزوم اور علی ؑکو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ اِسی مطلب کو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: "علی مع القرآن، والقرآن مع علی، لا یفترقان حتی یردا علی الحوض" یعنی: "علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہیں، یہ دونوں آپس میں جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں۔" وصی رسول، امیر کائنات امام علی علیہ السلام کا جتنا بھی مقام و منزلت ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ ان کی طرف رجوع کریں تو آپ ؑ اپنی ساری عزت اور شرف کو اس طرح سے بیان کر رہے ہیں آپ فرماتے ہیں: "إِلَهِی کَفَی بِی عِزّاً أَنْ أَکُونَ لَکَ عَبْداً وَ کَفَی بِی فَخْراً أَنْ تَکُونَ لِی رَبّاً أَنْتَ کَمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِی کَمَا تُحِبُّ"، "اللہ میری عزت کے لئے کہ بس یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے یہی بہت ہے کہ تو میرا رب ہے تو ویسا ہی ہے، جیسا میں چاہتا ہوں اور مجھے بھی ویسا قرار دے جیسا تو چاہتا ہے۔"
امام نے ہمیں یہ بتا دیا کہ ساری عزت خدا کا بندہ ہونے میں ہے، اس سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے اور ہمارا سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ خدا ہمارا رب ہے، مولائے کائنات کے فضائل کو آپ کی شجاعت و سخاوت وغیرہ کے بارے میں ہم بہت پڑھتے اور سنتے ہیں، لیکن اگر ہمیں موقع اور فرصت ملے تو آپ کی عبادت کے بارے میں بھی غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ آپ سے بڑا کوئی عابد نہیں ہے، زین العابدین اور سید الساجدین اگرچہ چوتھے امام کا لقب ہے، لیکن جب آپ عبادت کرتے کرتے تھک جاتے تھے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا، آپ سے کہا جاتا تھا کہ آخر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں تو آپ فرماتے تھے: "من یقوی علی عبادة علی (ع)"، "علی علیہ السلام کی طرح کون عبادت کرسکتا ہے۔" اگرچہ آپ ہر لحظہ بارگاہ خداوندی میں خود کو حاضر پاتے تھے، مگر نماز کے وقت بارگاہ خداوندی میں جاتے ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔
ایک روایت کہیں پڑھی ہے کہ اصبغ ابن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ علی کی تعریف کرو، ضرار تعریف کرنا شروع کرتے ہیں اور تعریف کرتے کرتے کہتے ہیں: "رَحِمَ اَللَّهُ عَلِيّاً كَانَ وَ اَللَّهِ طَوِيلَ اَلسَّهَادِ قَلِيلَ اَلرُّقَادِ يَتْلُو كِتَابَ اَللَّهِ آنَاءَ اَللَّيْلِ وَ أَطْرٰافَ اَلنَّهٰارِ وَ لَوْ رَأَيْتَهُ إِذْ مُثِّلَ فِي مِحْرَابِهِ وَ قَدْ أَرْخَى اَللَّيْلُ سُدُولَهُ وَ غَارَتْ نُجُومَهُ وَ هُوَ قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ اَلسَّلِيمِ وَ يَبْكِي بُكَاءَ الحزین قَالَ فَبَكَى مُعَاوِيَةُ وَ قَالَ حَسْبُكَ يَا ضِرَارُ كَذَلِكَ كَانَ وَاَللَّه عَلِيٌّ رَحِمَ اَللَّهُ أَبَا اَلْحَسَنِ" (امالی صدوق ص 625 ناشر- کتابچی تہران): "خدا علی پہ رحمت نازل کرے، وہ رات کو زیادہ جاگتے تھے اور کم سوتے تھے۔ پوری رات اور دن میں بھی قرآن کی تلاوت کرتے تھے، اگر علی کے اوپر نظر ڈالتے تو وہ محراب میں نظر آتے اور جب رات ہو جاتی تھی تو اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ایسے تڑپتے تھے، جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے، ضرار تعریف کرتے جا رہے تھے کہ ایک مرتبہ معاویہ رونے لگا اور کہتا ہے کہ ضرار بس کرو، خدا کی قسم علی ایسے ہی تھے۔ خدا ابوالحسن کے اوپر رحمت نازل کرے۔"
مولائے متقیان امام علی ابن ابی طالب ؑ کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر دوڑائیں ہم حیرت کدہ میں داخل ہو جائیں گے۔ آپ کی ہستی ہی ایسی ہے، جس پر لوگوں نے خدا ہونے کا گمان کیا، جبکہ بندگی و اطاعت ایسی کہ خود آئمہ طاہرین بیان کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ کوئی ان کی عبادت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگرچہ آپ نے فرمایا کہ: "میں نے تیری عبادت نہ ہی جنت کے لالچ میں کی ہے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا، اس لئے تیری عبادت کی۔" افسوس کہ ایسی ہستی سے خود کو منسوب کرنے والے، امیر المومنین ؑسے نسبت کی بنا خود کو مومنین میں شمار کرنے کے دعویدار اس قدر گمراہی کے راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں کہ دشمنان تشیع، دشمنان اہلبیت کو انگلیاں اٹھانے کا موقعہ ملتا ہے۔
دشمنان مکتب و مذہب جعفریہ کو طعن دیں، مذہب پر سوال اٹھائیں، جشن کے نام پر رجب و شعبان میں اب بہت زیادہ بے ہودگی، غیر اسلامی، غیر قرآنی امور سرانجام پاتے ہیں، ایسے امور جن کا کسی امام، کسی معصوم، کسی ہستی کے اسوہ زندگی میں سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر ایسا مکتب جعفری کے نام پر کیوں کیا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی خیالات، ذاتی انداز، ذاتی عقیدت کے انداز کو مکتب سے منسوب کرکے کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ کیا اس کی اجازت ہونا چاہیئے، میں تو کہوں گا کہ ہرگز نہیں۔ ایسے لوگوں کو ملت سے کھل کر جدا کرنا چاہیئے، ان سے لاتعلقی سامنے لائی جائے، تاکہ دشمن کو زبان درازی کا موقعہ نہ ملے اور جہاں کہیں بھی جشن برپا کیا جائے، اس میں اسلامی، امامی، جعفری ثقافت کو نمایاں کیا جائے، بالخصوص آئمہ کی سیرت و کردار کو اجاگر کیا جائے۔
اہل علم، اہل محراب و منبر کو چاہیئے کہ وہ میدان میں نکلیں، ایسے معاملات میں جتنی تاخیر کریں گے، معاشرے میں خرابیاں جڑ پکڑیں گی اور بدعات، خرافات قوی ہو جائیں گی۔ جن کو وقت گزرنے کیساتھ دین کا حصہ بنا لیا جائے گا، تب جو نسل ہوگی، وہ کسی کی بھی نہیں سنے گی۔ لہذا آج کردار ادا کرنا ہوگا، میدان میں نکلنا ہوگا، معاشرہ کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے وقت، مال، توانائی، خرچ کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہی اسوہ امیر المومنین و آؑئمہ طاہرین ؑہے۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ کی سیرت کی روشنی میں ذمہ داریاں
Published in
اسلامی مناسبتیں