نواسہ رسول ؐ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام تاریخ بشریت کی وہ عظیم اور مقدس ہستی ہیں، جنہوں نے بقائے بشریت اور احیائے اسلام کے لئے مقدس لہو کا ایک ایک قطرہ سرزمین کربلا پر قربان کردیا۔ ۶۰ ہجری میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے دین و انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو ٹھکانے لگانے کے خاطر ایک مصمم، پرعزم اور مضبوط تحریک کی بنیاد ڈال دی، جس نے اسلام اور انسانیت کی نجات میں بے نظیر کردار ادا کیا۔ یہ تحریک اہداف، نظریات اور افکار کی تحریک تھی۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑنے ’’اصلاح جد امت‘‘ کے لئے ایسا فولادی، مثالی اور محکم ارادہ کیا، جو اس وقت کی تاریخ بدلا سکا اور نہ آج تک کی تاریخ دہرا سکا۔
تحریک کربلا کو دائمی اور لافانی حیثیت روز عاشورہ حاصل ہوئی۔ جب ۷۲ جانبازوں کو شہید کرنے کے لئے دسیوں ہزار اشقیاء میدان کارزار پہنچے۔ بزدل یزیدی افواج پھر بھی کانپ رہے ہیں، ان بزدلوں کی غیرت، جرائت اور ہمت کا جنازہ نکلا تھا، ۱۳ سالہ قاسم ابن حسن جیسے ننھے مجاہد جوان سالہ اکبر ابن حسین اور بزرگ حبیب ابن مظاہر جیسے جری و شجاع جب بزدل فوج پر حملے کر رہے تھے، یزیدی صفوں میں طوفان برپا ہو رہا تھا۔ صفیں کی صفیں واصل جہنم ہو رہے تھے۔ ایک جری و شجاع کو شہید کرنے کے لئے ہزاروں اشقیاء جمع ہوتے تھے۔
عاشورہ کے روز کربلا کے تپتے ریگزار پر حق و باطل کا جو معرکہ ہوا، یہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں تھا۔ نہ ہی امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ جان بچانے کے لئے کربلا آئے تھے۔ جس انداز سے اس عاشورہ کو پیش کیا جا رہا ہے، یہ قیام امام عالی مقام کے منافی ہے۔ عاشورہ کے دن میدان کربلا میں جو واقعہ پیش آیا، وہ اس الہیٰ اور لافانی تحریک کا عروج ہے، جس کی بنیاد امام عالی مقام نے مضبوط ارادے کے ساتھ ڈالی، جو خالص اسلامی اصول و قواعد پر مبنی ہے۔ ایک منظم اور مضبوط تحریک جس کا سردار و علمبردار امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام ہے، جس کا نگہبان ابوالفضل عباسؑ جیسا شجاع و دلیر ہے۔
تحریک کربلا نے صاف اور واضح لفظوں میں اصلاح امت کی بات کی۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے آزادی، عزت، احترام اور وقار کی بات کی۔ اس سے بھی بڑھ کر دین ناب محمدی ؐ کی بات کی۔ کربلا کی تحریک عسکری اور فوجی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ اسلامی اور انسانی ثقافت کی تحریک تھی۔ وہی ثقافت جو یزید پلید اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوئی تھی۔ اس ثقافت کی بقاء پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی قیادت میں روشن، پُرسکون اور ہشاش بشاش کربلائی چہروں نے اپنے لہو مقدس سے اس ثقافت کو سیراب کرکے زندہ کیا اور جام شہادت نوش فرما کر اسلام و انسانیت کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا۔
شہدائے کربلا نے شہادت کو آفت نہیں بلکہ سعادت، نیک بختی اور نعمت سمجھا۔ قید و بند کی مشقتیں، شہادتیں، ظلم و ستم، خیموں کا جلنا، تازیانے، طعنے، چادریں چھیننا۔۔۔۔۔ اس کے باوجود کربلا کے سماج کو زیبائی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ کیونکہ اس الہیٰ سماج کے اہداف بلند تھے، یہ سماج انسانیت شناس بھی تھا، زمان شناس بھی تھا، دین شناس بھی اور حجت شناس بھی تھا۔ یہاں کوئی مادی لالچ نہیں تھا۔ نہ حکومت ری کی، نہ ذر و دینار کی۔ اس نڈر سماج کو اگر فکر تھی تو وہ اسلام و انسانیت کی فکر تھی۔ اس تحریک میں جتنے بھی جانباز تھے، وہ شجاعت، استقامت، مجاہدت، مزاحمت اور صبر و استقلال کے اعلیٰ ترین نمونہ تھے، وہ شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے دلدادہ تھے۔ انہوں نے پُرسکون انداز میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سالار کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کو مدینہ سے کربلا تک کے سفر میں متعدد افراد نے یہ کہہ کر ترک سفر کا مشورہ دیا تھا کہ خون خرابہ ہوگا۔لیکن اسلام اور انسانیت کے عظیم علمبردار، مجاہد اعظم، سالار نہضت، سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ میرے قیام کا مقصد ہی اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی امت کی اصلاح ہے۔ اس کے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ امام عالی مقام ؑ نے اپنے اہل و عیال اور اصحاب و انصار کے ہمراہ ۲۸رجب سنہ ۶۰ ہجری سے لیکر روز عاشورہ تک اور پھر روز عاشورہ جو مثالی قربانیاں پیش کیں، آج چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک ان قربانیوں کی مثال تاریخ دہرا نہ سکی۔
چھ ماہ کا شیر خوار علی اصغر ؑ بھی دین کی نصرت کے خاطر اپنے گلوئے مبارک پر ایسا تیر کھا رہا ہے، جس کے احساس سے بشریت آج بھی لرز رہی ہے اور تا روز ابد لرزتی رہے گی۔ ان لامثال اور لازوال قربانیوں سے یہ مقدس تحریک کامیاب ہوگئی۔ سر کٹانے کے باوجود حسینی افکار اور حسینی نظریات دنیا پر چھا گئے، حسینی ثقافت حسینی کلچر اور حسینی معاشرہ قائم ہوگیا۔تلوار پر خون کی فتح ہوئی۔ اس کے باوجود یزید پلید زندہ رہ جانے کے باوجود بھی اہداف و نظریات کی یہ جنگ ہار گیا۔ یزید گالی بن گیا اور یزید نحوست اور کثافت کی مثال بن گیا۔
امام عالی مقام ؑ اور آپ کے جانثاروں نے جو قربانیاں پیش کیں، وہ پوری بشریت اور ہر دور کے لئے مشعل راہ بن گئیں۔ امام عالی مقام ؑ نے بیعت یزید پلید کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مثلي لا يبايع مثلہ‘‘ یعنی "مجھ (حسین) جیسا تجھ (یزید) جیسے کی بیعت کبھی نہیں کرے گا۔" امام عالی مقام کا یہ جملہ تا روز قیامت آنے والی نسلوں کے لئے روڈمیپ بن گیا۔ قیام کربلا کا لب لباب یہی ہے کہ ہر دور کے یزید کو للکارا جائے اور ہر دور کے یزید کی بیعت بہادرانہ انداز میں ٹھکرائی جائے۔ احیائے اسلام اور بقائے انسانیت کا علمبردار بننا حسینیت ہے۔مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا حسینیت ہے، انسانیت کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر عزت، احترام اور وقار بخشنا حسینیت ہے، ذلت کو ٹھکرا کر عزت اور آزادی کی زندگی گزارنا حسینیت ہے۔
افسوس صد افسوس ہم نے حسینیت کے اصل پہلوؤں پر پردہ ڈال کر حسینیت کو صرف مجلسوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عزاداری عبادت ہے اور عزاداری میں وہ طاقت ہے، جس سے ہم حسینیت کے اصل اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔ یزید وقت کو للکار سکتے ہیں اور یہ مظلوم کی ایک مضبوط آواز بن سکتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ تاجران خون حسین ؑ نے عزاداری سے اس کی روح نکال لیا ہے۔ اس رزم کو رسم میں تبدیل کرکے عزاداری کو پیشہ بنایا ہے۔ کربلا میں روز عاشورہ اور عاشورہ کے بعد یزید پلید اور اس کے کارندوں نے اہلبیت ؑ پر جو مظالم ڈھائے ہیں، تاریخ شرمندہ ہے، انسانیت شرمسار ہے۔ اس پر جتنا بھی واویلا کیا جائے، سینہ پیٹا جائے کم ہے۔
ان مظالم سے ہر صاحب دل کا جگر پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ جو لوگ شہدائے کربلا کا درد جانتے ہیں، انہیں آج فلسطین کے مظلوموں کے درد کا احساس ہو رہا ہے اور یہی احساس آج فلسطین میں کام آرہا ہے۔ عزاداری سرمایہ ہے، جب تک جان اور جہاں ہے، تب تک یہ عزاداری شان و شوکت سے برپا ہوگی۔ پس علمائے کرام و ذاکرین کرام سے مودبانہ التماس ہے کہ وہ عزاداری کے ساتھ ساتھ تحریک کربلا کے اصل اہداف و مقاصد کو بیان کرنے کی کوشش کریں۔
تحریک کربلا کو دائمی اور لافانی حیثیت روز عاشورہ حاصل ہوئی۔ جب ۷۲ جانبازوں کو شہید کرنے کے لئے دسیوں ہزار اشقیاء میدان کارزار پہنچے۔ بزدل یزیدی افواج پھر بھی کانپ رہے ہیں، ان بزدلوں کی غیرت، جرائت اور ہمت کا جنازہ نکلا تھا، ۱۳ سالہ قاسم ابن حسن جیسے ننھے مجاہد جوان سالہ اکبر ابن حسین اور بزرگ حبیب ابن مظاہر جیسے جری و شجاع جب بزدل فوج پر حملے کر رہے تھے، یزیدی صفوں میں طوفان برپا ہو رہا تھا۔ صفیں کی صفیں واصل جہنم ہو رہے تھے۔ ایک جری و شجاع کو شہید کرنے کے لئے ہزاروں اشقیاء جمع ہوتے تھے۔
عاشورہ کے روز کربلا کے تپتے ریگزار پر حق و باطل کا جو معرکہ ہوا، یہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں تھا۔ نہ ہی امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ جان بچانے کے لئے کربلا آئے تھے۔ جس انداز سے اس عاشورہ کو پیش کیا جا رہا ہے، یہ قیام امام عالی مقام کے منافی ہے۔ عاشورہ کے دن میدان کربلا میں جو واقعہ پیش آیا، وہ اس الہیٰ اور لافانی تحریک کا عروج ہے، جس کی بنیاد امام عالی مقام نے مضبوط ارادے کے ساتھ ڈالی، جو خالص اسلامی اصول و قواعد پر مبنی ہے۔ ایک منظم اور مضبوط تحریک جس کا سردار و علمبردار امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام ہے، جس کا نگہبان ابوالفضل عباسؑ جیسا شجاع و دلیر ہے۔
تحریک کربلا نے صاف اور واضح لفظوں میں اصلاح امت کی بات کی۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے آزادی، عزت، احترام اور وقار کی بات کی۔ اس سے بھی بڑھ کر دین ناب محمدی ؐ کی بات کی۔ کربلا کی تحریک عسکری اور فوجی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ اسلامی اور انسانی ثقافت کی تحریک تھی۔ وہی ثقافت جو یزید پلید اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوئی تھی۔ اس ثقافت کی بقاء پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی قیادت میں روشن، پُرسکون اور ہشاش بشاش کربلائی چہروں نے اپنے لہو مقدس سے اس ثقافت کو سیراب کرکے زندہ کیا اور جام شہادت نوش فرما کر اسلام و انسانیت کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا۔
شہدائے کربلا نے شہادت کو آفت نہیں بلکہ سعادت، نیک بختی اور نعمت سمجھا۔ قید و بند کی مشقتیں، شہادتیں، ظلم و ستم، خیموں کا جلنا، تازیانے، طعنے، چادریں چھیننا۔۔۔۔۔ اس کے باوجود کربلا کے سماج کو زیبائی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ کیونکہ اس الہیٰ سماج کے اہداف بلند تھے، یہ سماج انسانیت شناس بھی تھا، زمان شناس بھی تھا، دین شناس بھی اور حجت شناس بھی تھا۔ یہاں کوئی مادی لالچ نہیں تھا۔ نہ حکومت ری کی، نہ ذر و دینار کی۔ اس نڈر سماج کو اگر فکر تھی تو وہ اسلام و انسانیت کی فکر تھی۔ اس تحریک میں جتنے بھی جانباز تھے، وہ شجاعت، استقامت، مجاہدت، مزاحمت اور صبر و استقلال کے اعلیٰ ترین نمونہ تھے، وہ شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے دلدادہ تھے۔ انہوں نے پُرسکون انداز میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سالار کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کو مدینہ سے کربلا تک کے سفر میں متعدد افراد نے یہ کہہ کر ترک سفر کا مشورہ دیا تھا کہ خون خرابہ ہوگا۔لیکن اسلام اور انسانیت کے عظیم علمبردار، مجاہد اعظم، سالار نہضت، سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ میرے قیام کا مقصد ہی اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی امت کی اصلاح ہے۔ اس کے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ امام عالی مقام ؑ نے اپنے اہل و عیال اور اصحاب و انصار کے ہمراہ ۲۸رجب سنہ ۶۰ ہجری سے لیکر روز عاشورہ تک اور پھر روز عاشورہ جو مثالی قربانیاں پیش کیں، آج چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک ان قربانیوں کی مثال تاریخ دہرا نہ سکی۔
چھ ماہ کا شیر خوار علی اصغر ؑ بھی دین کی نصرت کے خاطر اپنے گلوئے مبارک پر ایسا تیر کھا رہا ہے، جس کے احساس سے بشریت آج بھی لرز رہی ہے اور تا روز ابد لرزتی رہے گی۔ ان لامثال اور لازوال قربانیوں سے یہ مقدس تحریک کامیاب ہوگئی۔ سر کٹانے کے باوجود حسینی افکار اور حسینی نظریات دنیا پر چھا گئے، حسینی ثقافت حسینی کلچر اور حسینی معاشرہ قائم ہوگیا۔تلوار پر خون کی فتح ہوئی۔ اس کے باوجود یزید پلید زندہ رہ جانے کے باوجود بھی اہداف و نظریات کی یہ جنگ ہار گیا۔ یزید گالی بن گیا اور یزید نحوست اور کثافت کی مثال بن گیا۔
امام عالی مقام ؑ اور آپ کے جانثاروں نے جو قربانیاں پیش کیں، وہ پوری بشریت اور ہر دور کے لئے مشعل راہ بن گئیں۔ امام عالی مقام ؑ نے بیعت یزید پلید کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مثلي لا يبايع مثلہ‘‘ یعنی "مجھ (حسین) جیسا تجھ (یزید) جیسے کی بیعت کبھی نہیں کرے گا۔" امام عالی مقام کا یہ جملہ تا روز قیامت آنے والی نسلوں کے لئے روڈمیپ بن گیا۔ قیام کربلا کا لب لباب یہی ہے کہ ہر دور کے یزید کو للکارا جائے اور ہر دور کے یزید کی بیعت بہادرانہ انداز میں ٹھکرائی جائے۔ احیائے اسلام اور بقائے انسانیت کا علمبردار بننا حسینیت ہے۔مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا حسینیت ہے، انسانیت کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر عزت، احترام اور وقار بخشنا حسینیت ہے، ذلت کو ٹھکرا کر عزت اور آزادی کی زندگی گزارنا حسینیت ہے۔
افسوس صد افسوس ہم نے حسینیت کے اصل پہلوؤں پر پردہ ڈال کر حسینیت کو صرف مجلسوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عزاداری عبادت ہے اور عزاداری میں وہ طاقت ہے، جس سے ہم حسینیت کے اصل اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔ یزید وقت کو للکار سکتے ہیں اور یہ مظلوم کی ایک مضبوط آواز بن سکتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ تاجران خون حسین ؑ نے عزاداری سے اس کی روح نکال لیا ہے۔ اس رزم کو رسم میں تبدیل کرکے عزاداری کو پیشہ بنایا ہے۔ کربلا میں روز عاشورہ اور عاشورہ کے بعد یزید پلید اور اس کے کارندوں نے اہلبیت ؑ پر جو مظالم ڈھائے ہیں، تاریخ شرمندہ ہے، انسانیت شرمسار ہے۔ اس پر جتنا بھی واویلا کیا جائے، سینہ پیٹا جائے کم ہے۔
ان مظالم سے ہر صاحب دل کا جگر پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ جو لوگ شہدائے کربلا کا درد جانتے ہیں، انہیں آج فلسطین کے مظلوموں کے درد کا احساس ہو رہا ہے اور یہی احساس آج فلسطین میں کام آرہا ہے۔ عزاداری سرمایہ ہے، جب تک جان اور جہاں ہے، تب تک یہ عزاداری شان و شوکت سے برپا ہوگی۔ پس علمائے کرام و ذاکرین کرام سے مودبانہ التماس ہے کہ وہ عزاداری کے ساتھ ساتھ تحریک کربلا کے اصل اہداف و مقاصد کو بیان کرنے کی کوشش کریں۔
تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی