ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔
اسلامی مذاہب کی پیروی کرنے والوں کی شناخت اور ائمہ مذاہب کے مشترک روابط کی طرف توجہ کرنا جو کہ سب کے سب ہم عصر تھے یا ایک دوسرے کے زمانہ سے نزدیک تھے، مختلف مذاہب کی پیروی کرنے والوں کے دل سے کدورت اور حسادت دور کرنا کا بہترین ذریعہ ہے اور ان کے درمیان صلح و سلامتی اور اتحاد ایجاد کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے کیونکہ تمام مذاہب کا تعلق ایک دین سے ہے اور یہ سب امت اسلام سے وابستہ ہیں ۔
اس سلسلہ میں فقہ، حدیث اور کلام میں اسلامی مذاہب کے مشترک مآخذ اور منابع کا مطالعہ، ان مذاہب کے راہنماؤں کے اسایتد، مشایخ اور شاگردوں کی سوانح حیات سے ایک بنیادی سبق ملتا ہے ۔
اس مقالہ میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی شخصیت اور افکار کا تعارف اور اہل بیت پیغمبر اکرم کے مذہب کے راہنماؤں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے متعلق بحث کریں گے اور بتائیں گے کہ یہ بزرگ شخصیت جو کہ خود مسلمانوں کے ایک گروہ کے راہنما تھے اور ہیں ، انسانی رفتار و کردار اور بہترین درس و تحقیق سے برخوردار تھے ، ان کا شمار اہل بیت کے دوستوں میں ہوتا تھا اوریہ ائمہ (علیہم السلام) سے بہت زیادہ قریب تھے ۔
امام ابوحنیفہ کی فردی خصوصیات
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان (زوطی) بن مرزبان (ماہ)، مذہب حنفی کے امام تھے ، ان کے مذہب کے ماننے والے آج پوری دنیا میں سب سے بڑے اسلامی فرقہ کے عنوان سے یاد کئے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان کو امام اعظم کا لقب دیا گیا ہے ۔
ان کے داد ”زوطی“ بن مرزبان (ماہ) ایرانی تھے ، مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں اسیر ہو کر عراق چلے گئے تھے ۔
ان کے دادا ”زوطی“ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے زمانہ میں عید نوروز کی مناسبت سے آپ کو ہدیہ کے طور پر فالودہ دیا تھا ، آپ نے فرمایا : ”نوروز لنا کل یوم“ ۔ اور ان کے لئے دعاء کی کہ خدایا ان کو اور ان کے خاندان کو برکت عطاء فرما(مدبک ، ج ۱۱، ص ۱۰) ۔
ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔
آپ بہت ہی خوش لباس ، باوقار، ثروت مند اور سخی انسان تھے اور آپ فقراء کی مدد کرنے کے علاوہ فقہاء، شیوخ اور محدثین کی مدد بھی کرتے تھے ۔
ابوحنیفہ بہت زیادہ سفر کرتے تھے ، کئی مرتبہ حج کرنے کیلئے بیت اللہ الحرام گئے اور ۱۳۰ ہجری کے بعد ایک مدت تک حرمین شریفین کے مجاور رہے ۔
ابوحنیفہ کی فکری شخصیت
ابوحنیفہ نے اس دوران زندگی بسر کی جس وقت اسلامی فتوحات کے ذریعہ بہت سے ممالک پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوتی جارہی تھی اور مختلف قومیں اور ملتیں، مختلف تہذیب و ثقافت کے ساتھ ان کی سیاسی، فکری اوراجتماعی زندگی میں داخل ہو رہے تھے ۔ عربی ،ایرانی، عیسائی ، رومی اور یونانی تہذیب و ثقافت کا مرکز شہر کوفہ تھا ، فارسی او رایرانی قوم کی حالت (کہ ابوحنیفہ کاتعلق بھی انہی سے تھا) اسلام کی دنیا میں ایسی تھی کہ عرب ان کو اپنے دوسرے درجہ کے شہری کا رتبہ دیتے تھے اور حکومت کے اہم کاموں میں ان کو دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ،حکومت اور جنگ کے کاموں کو خود انجام دیتے تھے اور پست و خستہ کردینے والے کام دوسرے درجہ کے لوگوں سے انجام دلاتے تھے ،اس کی وجہ سے ان کو اس بات کا موقع مل گیا تھا کہ وہ اپنے با استعداد اور مستعد افراد کو علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول کرسکیں، ان میں سے کچھ افراد علم کلام، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں بہت ہی برجستہ اور بہترین عالم بن گئے ۔
ابوحنیفہ بھی انہیں افرادمیں سے ایک تھے ،انہوں نے اپنی زندگی کے آغاز میں قرآن کریم حفظ کیا اور شعبی کی نصیحت کی وجہ سے تجاری کاموں کو کم کرکے علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے ۔
ابوحنیفہ اور علم کلام
امام ابوحنیفہ نے مدرسہ میں داخل ہونے کے بعد پہلے لکھنا پڑھنا سیکھا اس کے بعد ادبیات اور علم کلام وغیرہ حاصل کیا اور اس علم میں ان کو پورے شہر میں شہرت حاصل ہوگئی ۔ انہوں نے شہر کوفہ میں اس علم کو حاصل کیا جو اس وقت مختلف کلامی افکار و نظریات اور مختلف تہذیب و ثقافت جیسے ایرانی، عربی، رومی، عیسائی، اسلامی اور زردستی تہذیب کا مرکز تھا ۔ اور مختلف نظریات کے علماء سے مناظرہ اور گفتگو کی ۔ انہوں نے اس کام کے لئے متعدد بار بصرہ کا سفر کیا اور خوارج، معتزلہ، اور دوسرے فرقوں سے بحث و مناظرہ کیا اوراسی زمانہ میں انہوں نے صرف و نحو ، شعر اور حدیث سے آشنائی حاصل کی ۔
علم فقہ حاصل کرنا
ابھی ابوحنیفہ کی عمر بیس یا بائیس سال کی تھی جب آپ نے علم فقہ کرنا شروع کیا اور اس زمانہ میں انہوں نے مشہور اور نامدار فقہاء سے علم فقہ حاصل کیا اس کے علاوہ علم فقہ حاصل کرنے کیلئے متعدد سفر کئے جس سے ان کو بہت سے تجربے حاصل ہوئے ۔
ان کے فقہ کے اصلی استاد حماد بن ابی سلیمان ہیں جن سے ابوحنیفہ بہت زیادہ متاثرہیں ۔
ابوحنیفہ نے اٹھارہ سال یعنی ۱۰۲ ہجری سے ۱۲۰ ہجری تک حماد سے علم حاصل کیا اور ان کے علم فقہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا ۔
جس وقت ۱۲۰ ہجری میں حماد کا انتقال ہوا تو ابوحنیفہ ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور اپنے شاگردوں کی تربیت کرنے لگے ۔
ابوحنیفہ کی فقہ کی خصوصیت رائے و گمان ، قیاس اور استحسان پر عمل کرنا ہے ، اس لحاظ سے وہ اہل حدیث کے مد مقابل تھے ۔ ابوحنیفہ کی رائے ، قیاس اور استحسان کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کوفہ پر علوم عقلی حاکم تھے اور کوفہ کے بہت کم لوگوں کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث پر دسترسی حاصل تھی۔
ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی
امام ابوحنیفہ نے اموی حکومت میں ۵۲ سال اور عباسی حکومت میں ۱۸ سال زندگی بسر کی ، اگر چہ انہوں نے حکومت کے خلاف کسی بھی قیام میں شرکت نہیں کی لیکن قلبی اعتبار سے علویوں کی طرفداری کرتے تھے اور مختلف طرح سے ان کا ساتھ دیتے تھے ۔خاندان پیغمبر اکرم سے ان کو اس قدر محبت تھی کہ بعض لوگ ان کو زیدی شیعہ سمجھتے تھے ، وہ جنگ جمل میں علی (علیہ السلام) کو حق پر سمجھتے تھے ،طلحہ اور زبیر کو خطاء و غلطی کرنے والوں میں شمار کرتے تھے ۔ ان سے نقل ہوا ہے : ” ما قاتل احد علیا الا و علی اولی بالحق منہ“ ۔ کسی نے بھی علی سے جنگ نہیں کی مگر یہ کہ علی ان میں سب سے زیادہ حقدار اور سزاور تھے ۔
الازہر یونیورسٹی کے بزرگ شیخ اور فقہ مقارن کے استاد محمد ابو زہرہ نے اسلامی مذاہب کے راہنماؤں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے ،اس کتاب میں ان کے متعلق لکھا ہے :
”ان ابا حنیفہ شیعی فی میولہ و آرائہ فی حکام عصرہ، ای انہ یری الخلافة فی اولاد علی من فاطمة، و ان الخلفاء الذین عاصروہ قد اغتصبوا الامر منھم و کانوا لھم ظالمین“ ۔ ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے حکام کے برخلاف شیعہ افکار ونظریات کی طرف مائل تھے ، وہ خلافت کو علی بن ابی طالب اور حضرت زہرا (علیہما السلام) کی اولاد کا حق سمجھتے تھے اور اپنے زمانہ کے خلفاء کو علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کی اولاد کا حق غاصب کرنے والے اور ان پر ظلم کرنے والے شمار کرتے تھے (الامام ابوحنیفہ ، حیاتہ و عصرہ، آراؤہ و فقھہ، ص ۱۴۷) ۔
بنی امیہ کے ساتھ جنگ میں علویوں کی حمایت
ابوحنیفہ ، اولاد علی کے طرفدار تھے اور ان سے محبت کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ بنی امیہ سے حسد کرتے تھے کیونکہ بنی امیہ نے علویوں پر بہت زیادہ ظلم کیا تھا ۔ وہ حکومت میں بنی امیہ کے کسی حق کے قائل نہیں تھے اور ان کے کسی منصب کو انہوں نے قبول نہیں کیا ۔
موفق مکی خوارزمی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے : اموی حکومت کے عہد میں کوفہ کا والی ،یزید بن عمر بن ہبیرہ تھا،اس کے زمانہ میں عراق میں ایک فتنہ برپا ہوا تو اس نے تمام فقہاء کو جمع کیا ان میں ابن ابی لیلی ، ابن شبرمہ اور داؤد بن ہند بھی تھے ،ان میں سے ہر ایک کو منصب و عہدہ سے نوازا، اس کے بعد ابوحنیفہ کو بلوایا اور اس کا ارادہ تھا کہ حکومت کی مہر ان کے ہاتھ میں دیدے تاکہ جو بھی وہ ارادہ کرے اور جو بھی خط لکھے اس پر ابوحنیفہ مہر لگائے ۔
ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ۔ ابن ہبیرہ نے قسم کھائی کہ اگرانہوں نے قبول نہیں کیا تو میں ان کو ماردوں گا ۔ مجلس میں موجود فقہاء نے بھی ان کو نصیحت کی اورقسم دی کہ اس کو قبول کرلو ۔ ابوحنیفہ نے کہا میں کس طرح قبول کروں کیا میں بے گناہوں کے قتل پر دستخط کروں؟
ابن ہبیرہ نے ان کو قید خانہ میں ڈال دیا اور قید خانہ کا سردار روزانہ ان کے کوڑے لگاتا تھا ، بہر حال کسی نہ کسی طرح ابوحنیفہ قیدخانہ سے باہر نکلے اور مکہ کی طرف بھاگ گے اور امویوں کے آخری زمانہ تک مکہ میں زندگی بسر کرتے رہے (مکی، ص ۲۳ و۲۴) ۔
آل علی کے جو انقلابی ، بنی امیہ سے جنگ کرتے تھے ابوحنیفہ ان کی مدد کرتے تھے ۔
ابن البزازی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے :
جس وقت زید بن علی نے ہشام بن حکم پر خروج کیا توابوحنیفہ نے کہا : ” ضاھی خروجہ خروج رسول اللہ یوم بدر“ ۔ ان کا قیام ،جنگ بدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قیام سے مشابہ ہے ۔ ان سے کہاگیاتو آپ نے ان کے قیام کی مدد کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا : لوگوں کی امانتیں میرے پاس تھیںمیں نے ابن ابی لیلی کو سونپنا چاہی تو انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں ڈر گیا کہ اگر اس واقعہ میں قتل ہوگیاتو لوگوں کی امانتیں مجہول رہ جائیں گی ۔ نیز کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ لوگ ان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے جس طرح ان کے والد کو اکیلاچھوڑ دیا تھا تو ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کرتا ، کیونکہ وہ امام برحق ہیں ۔ لیکن میں ان کی مالی مدد کرتا ہوں ۔ ابوحنیفہ نے دس ہزار درہم (اور ایک قول کے مطابق تین ہزار درہم) زید کے لئے بھیجے اور اپنے سفیر سے کہا کہ میری طرف سے ان سے معذرت کرنا (ابن بزازی ، ج ۱، ص ۵۵) ۔
بنی عباس کے زمانہ میں علویوں کی حمایت
بنی عباس کی حکومت سے ابوحنیفہ خوشحال تھے اور ان کی حمایت بھی کی کیونکہ وہ ان کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان اور بنی علی کے خونخواہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے علویوں کی مظلومیت کودیکھی تھی اور عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سمجھتے تھے جو ہاشمی خاندان سے کھڑے ہوئے تھے اور اپنے چچازاد بھائیوں سے محبت کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو امید تھی کہ بنی عباس ، علویوں کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں گے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لیںگے ۔ اس وجہ سے فطری سی بات تھی کہ بنی عباس کے حکومت میں آنے سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کی بیعت کرلی ۔ مناقب مکی میں بیان ہوا ہے :
جس وقت ابوالعباس سفاح کوفہ آیا تو ابوحنیفہ بھی کوفہ میں تھے،اس نے علماء کو اکھٹا کیا اور ان سے بیعت لی۔ تمام فقہاء ،ابوحنیفہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ ابوحنیفہ نے اپنی اورتمام علماء کی طرف سے کہا : الحمدللہ الذی بلغ الحق من قرابة نبیہ و امات عنا جور الظلمة و بسط الستنا بالحق قد بایعناک علی امر اللہ والوفاء لک بعھدک الی قیام الساعة فلا اخلی اللہ ھذا الامر من قرابة نبیہ ․․․۔میںخدا کا شکر ادا کرتا ہوں کے انہوں نے حق کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے رشتہ داروں میں پہنچایا اور ہمارے ظالموں کوقتل کیا اور حق بیان کرنے کیلئے ہماری زبان کوکھولا ، ہم نے خدا کے حکم سے تمہاری بیعت کی ہے اور قیامت تک ہم اس عہد پر باقی رہیں گے ،خداوند عالم اس امر کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان سے دور نہ کرے (مکی ، ج ۲،ص ۱۵۱ ۔ ابن بزازی ، ج ۲، ص ۲۰۰) ۔
ابوحنیفہ ، عباسی حکومت کے ساتھ رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اولاد علی پر ظلم کررہے ہیں اور ان کے درمیان دشمنی ہوگئی ہے ، خاص طور سے اس وقت جب محمد بن عبداللہ بن حسن معروف بہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم نے منصور کے خلاف قیام کیا ۔ یہ دونوں ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور ابوحنیفہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اوران کے مقابلہ میں تمام علویوں سے تعصب کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ نے ان دونوںبھائیوں کی حمایت کی اور لوگوں کوبھی ان کی حمایت کرنے کی تشویق و ترغیب کی اور جس کا بھائی ، ابراہیم کے ساتھ شہید ہوا تھا ، اس سے کہا :
”قتل اخیک حیث قتل یعدل قتلہ لو قتل یوم بدر و شہادتہ خیر لہ من الحیاة“ ۔ جہاں پر تمہارے بھائی شہید ہوئے ہیں ان کا درجہ بدر کے شہداء کے برابر ہے اور ان کی یہ شہادت ان کی زندگی سے بہتر ہے ۔
بہرحال جب منصور نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی کو قتل کردیا تو ابوحنیفہ نے عباسیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا اور ان کی مخالفت کرنے لگے ،اور یہ نہیں بلکہ وہ اپنی مخالفت کو منبر اور درس کے درمیان سب کے سامنے ظاہر کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو محمد بن عبداللہ معروف بہ ” نفس زکیہ“سے اس قدر محبت تھی کہ جب بھی ان کا نام آتا تھا ، ان کی آنکھوں سے آنسون جاری ہوجاتے تھے ۔
خاندان پیغمبر سے محبت کرنے کی دلیل
خاندان پیغمبر سے محبت اور دوستی کرنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے کچھ اسباب کو ہم مندرجہ ذیل بیان کریںگے :
الف : ابوحنیفہ نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے علم اور فقہ سے بہت زیادہ علم حاصل کیا ۔ابوحنیفہ کی ولادت ، نشو ونما اور تعلیم و تربیت کوفہ میں ہوئی ، کوفہ امام علی بن ابی طالب کی حکومت اور شیعوں کا مرکز تھا ،وہاں پر فقہ علی(علیه السلام) رائج تھی، ابوحنیفہ بھی اس فقہ سے آشنا او متاثر تھے ۔
تاریخ بغداد میں ذکر ہوا ہے کہ ایک روز ابوحنیفہ ، منصور کے پاس گئے ،اس وقت منصور کے پاس عیسی بن موسی بھی موجود تھے ۔ منصور نے ابوحنیفہ سے کہا : اے نعمان ! تم نے اپناعلم کہاں سے حاصل کیا ، ابوحنیفہ نے کہا : میں نے اپناعلم ،عمرسے ان کے اصحاب کے ذریعہ، علی سے ان کے اصحاب کے ذریعہ او رعبداللہ بن مسعود سے ان کے اصحاب کے ذریعہ حاصل کیا ہے (ابوزہرہ ، ص ۵۹) ۔
ابوحنیفہ نے مکہ میں امام علی (علیہ السلام) کے بہترین شاگرد عبداللہ بن عباس کے تفسیری مکتب سے بھی بہت زیادہ استفادہ کیا ہے (گذشتہ حوالہ، ص ۶۱) ۔
ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) سے ابوحنیفہ کاعلم حاصل کرنا
اگر چہ اس کے اصلی استاد حماد بن ابی لیلی سلیمان تھے لیکن انہوں نے دوسرے افراد خصوصا اہل بیت (علیہم السلام )، سے بھی علم حاصل کیا ہے اوران کے نام ابوحنیفہ کے مشایخ میں ذکر ہوئے ہیں ، ان استاتید کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ امام زید بن علی بن الحسین (رضی اللہ عنہ) ، متوفی ۱۲۲۔ مذہب زیدی کے راہنماجو کہ علم قرائت ، تفسیر اور دوسرے تمام اسلامی علوم میں بہت بڑے عالم تھے ۔ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دو سال ان کے پاس علم حاصل کیا اوران کے متعلق کہا ہے : ”زید بن علی اور ان کے اصحاب کو دیکھا ہے ان کے زمانہ میں کوئی بھی ان سے زیادہ فقیہ، عالم، سریع الجواب اور خوش گفتار میں نے نہیں دیکھا وہ بے نظیر تھے ۔ (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۴) ۔
۲۔ امام محمد بن علی الباقر (علیہ السلام) (متوفی ۱۱۴) ۔ ائمہ اہل بیت کے پانچویںامام۔ ابوحنیفہ کے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے علمی روابط تھے (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۵) ۔
۳۔ امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) (متوفی ۱۴۸) ، ائمہ اہل بیت کے چھٹے امام۔ آپ ابوحنیفہ کے استاد تھے او رمشہور ہے کہ ابوحنیفه نے دو سال آپ کے پاس تعلیم حاصل کی اور ابوحنیفہ نے کہا ہے : لولاالسنتان لھلک النعمان۔ اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا ۔ وہ امام صادق (علیہ السلام) کو بہت ہی احترام کے ساتھ پکارتے تھے اورکہتے تھے : ”جعلت فداک یابن رسول اللہ “ ۔ جن احادیث کو ابوحنیفہ نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے وہ ان کے شاگردوں کی کتابوں میں ثبت ہوئی ہیں ۔
مناقب مکی میں بیان ہوا ہے : ابوجعفر منصور دوانیقی نے ابوحنیفہ سے کہا : اے ابوحنیفہ ! لوگ جعفر بن محمد کے متعلق فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں ،تم مشکل مسائل تیار کرو تاکہ ان کے ساتھ مناظرہ کرسکو ۔ ابوحنیفہ کہتے ہیں میں نے چالیس مشکل سوال تیار کئے اورجس وقت وہاں پہنچا تو جعفر بن محمد صادق کو ابوجعفر کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ، میرے دل میں ان کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ کبھی منصور سے بھی نہیں ہوئی تھی ، میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔
منصور نے کہا : اے ابوعبداللہ ! یہ ابوحنیفہ ہیں، جعفر بن محمد نے کہا : جی ہاں ۔ پھرمیری طرف رخ کیا اور کہا : اے ابوحنیفہ ! اپنے سوالوں کو ابوعبداللہ سے معلوم کرو۔ میں سوال کرتا تھا اور وہ جواب دیتے تھے ،اس مسئلہ میں تم یہ کہتے ہو ، اہل مدینہ یہ کہتے ہیں اور ہمارا نظریہ یہ ہے ۔ کبھی ان کی رائے ہمارے موافق ہوتی ، کبھی اہل مدینہ کے موافق ہوتی اور کبھی دونوں کے مخالف ہوتی ۔ میں نے تمام مسائل کے جواب معلوم کئے اورانہوں نے اسی طرح جواب دئیے ،اس کے بعد ابوحنیفہ کہتے ہیں : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد“ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ اور عالم نہیں دیکھا اور کہتے ہیں : ” ان اعلم الناس اعلمھم باختلاف الناس“ ۔ سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو لوگوں کے تمام اختلافات کا علم رکھتا ہو۔
۴۔ ابومحمد عبداللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب (متوفی ۱۴۵) ۔
ابن بزازی اور موفق مکی خوارزمی نے مناقب ابوحنیفہ میں کہا ہے : ابوحنیفہ نے ان کی شاگردی اختیار کی ، عبداللہ بن حسن بہت بڑے عابد،عالم اور خاندان اہل بیت کے جلیل القدر شخص تھے ، علماء ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، وہ ابوحنیفہ سے دس سال بڑے تھے،ابوحنیفہ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے ان کا ۱۴۵ ہجری میں ۷۵ سال کی عمر میں منصور کے قیدخانہ میں انتقال ہوا ۔
۵۔ ابوحنیفہ نے ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ان کے شاگردوں جیسے جابر بن یزید جعفی سے بھی علمی استفادہ کیا ہے ،اگر چہ ابوحنیفہ کا عقیدہ جابر کے عقیدہ سے الگ تھا ۔
ابوجعفر منصور نے جب یہ دیکھا کہ ابوحنیفہ ان کی خلافت کے مخالف ہیں تو ان کو قتل کرنے کے بہانہ تلاش کرنے لگا ۔ اسی وجہ سے اس نے ابوحنیفہ کو بغداد کے منصب قضاوت کی پیشکش کی لیکن ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ،ان کو پیشنہاد دی کہ ملک کے قاضیوں کو وہ معین کریں ، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، پھر حکم دیا کہ تمام قاضی اپنی مشکلات میں تمہاری طرف مراجعہ کریں اور آپ اپنے فتووں سے ان کی راہنمائی کریں، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، ان کے لئے تحفہ و تحائف بھیجے لیکن انہوں نے ان سب کو قبول کرنے سے منع کردیا ۔ پھر منصور کے حکم سے ان کو قیدخانہ میں ڈالدیا گیا اور ایک سو دس کوڑے لگائے ۔ قیدخانہ سے رہا ہونے کے بعد ابوحنیفہ میںدرس کہنے کی ہمت و طاقت نہیں تھی اور انہی پریشانیوں اور اذیتوں کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان زندان میں منصور نے زہر دلوایا اور قتل ہوگئے ۔
ج : مسلمانوں کے نزدیک خاندان پیغمبر کی محبوبیت اور مظلومیت
بنی امیہ کی حکومت قائم ہونے اور اسلامی حکومت کا موروثی اور سلطنتی حکومت میں تبدیل ہونے کی وجہ سے خاندان پیغمبر پر بہت ظلم و ستم ہوا ان کو جلاوطن اور اسیر ہونا پڑا ، خصوصا واقعہ کربلا اور امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد ان کی مظلومیت اور محبوبیت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہوگئی ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی امت کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ لوگ ان کو امت میں سب سے بہتر سمجھتے تھے اور حکومت کو انہی کا حق سمجھتے تھے ، اسی وجہ سے شروع میں عباسیوں نے بھی اپنی حکومت کا ہدف ”الرضا من آل محمد“ اعلان کیا تھا یعنی پیغمبر کرم کے خاندان سے ایسے شخص کی حکومت جس سے سب لوگ راضی ہوں ۔ لیکن جب بنی عباس کی حکومت مضبوط ہوگئی تو وہ اس نعرہ کو بھول گئے اور بنی امیہ سے زیادہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ۔
ابوحنیفہ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا
ہمیں ابوحنیفہ کی علمی اور سیاسی زندگی کاسے سبق حاصل کرنا چاہئے ،ہمارے زمانہ کے لوگ بھی ان کے اصلی نظریات میں غور و فکر اور ان کی سیاسی زندگی کے فراز و نشیب کا مطالعہ کرکے اپنے لئے نمونہ عمل بنا سکتے ہیں ۔
مولف کی نظر میں ابوحنیفہ کی زندگی کے بنیادی سبق مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ تنوع استاد : ابوحنیفہ نے اپنی علمی اور طالب علمی کی زندگی میں ہر صاحب فکر و نظر سے استفادہ کیا ہے اور استاد کے انتخاب میں کبھی بھی تعصب سے کام نہیں لیا ہے ۔
انہوں نے اپنے زمانہ کے بہت سے دانشوروں سے علم حاصل کیا ہے چاهے وہ ان کے ہم عقیدہ رہے ہوں اور چاہے ان کے عقیدہ کے مخالف ہوں ۔ بعض علماء نے ان کے اساتید کی تعداد چار ہزار بیان کی ہے ، اگر چہ اس عدد میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مختلف اساتید اور شخصیات سے درس حاصل کیا ہے ،ان میں سے بعض اساتید اہل حدیث ہیں ، بعض اہل رائے اوربعض صاحب نظریات و فکر ۔ لیکن ابوحنیفہ نے شاگردی کے مقام میں ان سب کے سامنے زانوئے علم و ادب تہہ کئے ہیں اور ان سے مختلف علوم سیکھے ہیں ۔
۲۔ انصاف علم : ابوحنیفہ علم و دانش حاصل کرتے وقت اپنے اساتید کا احترام کرتے تھے، جب بھی آپ نے کسی متفکر اور عالم سے مناظرہ کیا ہے تو علمی فیصلوں میں کبھی بھی انصاف سے دور نہیں ہوئے ، اگر وہ علم میں ان سے افضل و برترتھا تو اس کو تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جیسا کہ امام صادق (علیہ السلام) سے مناظرہ و گفتگو کے بعد انہوں نے انصاف کے ساتھ اعلان کیا : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد “ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ عالم اور فقیہ نہیں دیکھا ۔ یہ اقرار اور اعتراف اس وقت ہے جب کہ امام صادق (علیہ السلام) ان کے ہم عمر ہیں ۔
۳۔ گفتگو اور مباحثہ کا طور طریقہ : اپنے علم کو بڑھانے میں ابوحنیفہ کا ایک امتیاز یہ تھا کہ وہ گفتگو اور مباحثہ میںمناظرہ کرتے تھے ،ابوحنیفہ نے بہت سے شہروں میں سفر کئے ،انہی میں سے ایک شہر بصرہ ہے آپ نے بصرہ میں بہت سے مکاتب فکر کے لوگوں سے گفتگو کی اوراس طرح سے مختلف نظریات کو حاصل کیا اور اپنے علم کو محکم کیا ۔
۴۔ اجتہاد جمعی یاشوری کی روش : ابوحنیفہ کے درس کہنے کا طریقہ دوسرے اساتید کے برخلاف تھا جس میں صرف استاد بیان کرتا تھا اور شاگرد سنتے تھے، وہ اپنے درس میںپہلے ایک موضوع پیش کرتے تھے ، پھر اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ اس موضوع کے متعلق تمہارے نظریات کیاہیں ، ابوحنیفہ درس کے آخر میں تمام نظریات سے نتیجہ اخذ کرتے تھے اور اس موضوع کا صحیح جواب، ان تمام نظریات کے درمیان سے استنتاج کرتے تھے ۔
درس میں بیان شدہ موضوعات کا صحیح جواب حاصل کرنے کیلئے کبھی ایک ہفتہ لگ جاتا تھا اورکبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا تھا ،اسی وجہ سے مکتب ابوحنیفہ ، انہی کے نظریات کا ایک شخصی مکتب نہیں ہے بلکہ ایسا مکتب ہے جس میں خود ان کے نظریات اور ان کے شاگرد جیسے ابویوسف القاضی ، محمد بن حسن شیبانی ، ہذیل اور دوسرے شاگر د وں کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔
۴۔ عقل و فکر کا استعمال اور تقلید سے دوری : ابوحنیفہ نے اپنے فقہی مکتب کو قائم کرنے میں سب سے زیادہ اپنی اور اپنے شاگردوں کی عقل و فکر سے کام لیا ہے اور اپنے مکتب کے علمی قوانین کو انہی کے ذریعہ استنتاج کرتے تھے ، اپنے اساتید کی تقلید ا ور متقدمین کی آنکھیں بند کرکے پیروی نہیں کرتے تھے ،اسی وجہ سے ان کو رائے وقیاس کے مکتب کا موسس کہا جاتا ہے ۔
ابوحنیفہ کی سیاسی اور عملی زندگی کی کچھ خصوصیتیں تھیں جن کی ہر شخص پیروی کرسکتا ہے :
۵۔ اپنے زمانہ کے ناگوار حادثات میں مسئولیت اورذمہ داری کا احساس : ابوحنیفہ نے اپنی زندگی کے دوران یعنی بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں کبھی بھی گوشہ عافیت میں نہیں بیٹھے، اور لوگوں پر حکام کے ظلم کے سامنے کبھی بھی اپنی آنکھوں کو بند نہیں کیا ، بلکہ ذمہ داری کے ساتھ تمام حوادث کا معائنہ کرتے تھے اور حکام کے غلط کاموں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔
مآخذ
۱۔ ابوحنیفہ، امام محمد ابوزہرا، دارالفکر العربی، قاہرہ، ۱۹۹۱۔
۲۔ مناقب ابی حنیفہ، موفق مکی۔
۳۔ المناقب لابن البزازی۔