امام ابو حنیفہ (رہ) حنفی مسلک کے موسس و رئیس

Rate this item
(3 votes)

امام ابو حنیفہ، اس عنوان سے کہ آپ نے اھل سنت کے مذاھب میں سے پہلے مسلک کی بنیاد رکھی ہے، مذاھب اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت اور مقام کے حامل ہیں لہذا ان کے نسب، نشو و نما و پرورش، سماجی حیثیت، اساتذہ، اجتہاد کی روش، فقہ کی تدریس کی روش، شاگردوں کی تربیت وغیرہ کی شناخت و معرفت ہمیں حنفی مذہب اور اس کی خصوصیات و امتیازات کو سمجھنے میں مددگار و معین ثابت اور اس سے نزدیک کر سکتی ہے۔

امام ابو حنیفہ اور ان کا سماجی طبقہ

اکثر و بیشتر منابع ان کا اور کے اجداد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن زوطی (۱)، یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام منابع ان کے نام کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، سوائے خطیب بغیدادی (۲) کے، جبکہ ان کے جد کے سلسلے میں تمام منابع ان کا ذکر زوطی کے نام سے کرتے ہیں، الجواہر المضیئہ کے مصنف (۴) امام آپ کے سلسلہ نسب کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن کاوس بن ھرمز بن مرزبان بن ہھرام بن کہرکز بن ماحین۔ (۵)

بعض منابع نے آپ کے جد کا زوطی کی بجای ماہ (۶) تحریر کیا ہے۔ (۷) اکثر مصادر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ کا تعلق بابل سے تھا، مسلمانوں کے ذریعہ کابل کی فتح احتمالا ان کے جد کے زمانے میں ہوئی ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اسیر ہو کر بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور پھر آزاد ہو کر ان کے غلاموں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ (۸) البتہ بعض منابع نے آپ کو اصالتا نساء، ترمذ اور انبار کا بھی لکھا ہے۔ (۹)

روایات کے یہ اختلافات سبب بنے کہ سراج ھندی (۱۰) درج ذیل روش سے ان میں مناسبت و ھماھنگی پیدا کریں وہ لکھتے ہیں: امام ابو حنیفہ کے جد کا تعلق کابل سے تھا اور پھر انہوں نے وہاں سے نساء اور ترمذ کی طرف نقل مکانی کیا اور ترمذ میں ثابت کی پیدائش اور نشو و نما ہوئی۔ (۱۱) جبکہ امام ابو حفیفہ کے پوتے اسماعیل بن حماد آپ کی اسارت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اجداد سے ساتھ ہرگز بھی ایسا کچھ پیش نہیں آیا ہے۔(۱۲) روایت میں آیا ہے کہ ثابت کے باپ کسی تہوار اور جشن کے موقع پر امام علی علیہ السلام کی خدمت میں پہچے اور آپ کو تحفے کے طور پر فالودہ پیش کیا تو امام امیر المومنین علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ہمارے لیے ہر روز تہوار اور جشن کا روز ہے۔ (۱۳) اور یہ بھی نقل کیا جاتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے ان کے اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی تھی، جس کے اثرات و برکات ابو حنیفہ میں ظاہر ہوئے۔ (۱۴)

بہر حال ابو حنیفہ ایک جہت سے ایرانی النسل ہیں اور آپ کے اجداد اس ملک کے مشرقی علاقہ میں ساکن تھے، منابع میں آپ کے صرف ایک بیٹے کا ذکر ملتا ہے جس کا نام حماد ہے اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ کی طرف بھی کوئی اشارہ ذکر نہیں ہوا ہے۔ اکثر مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ آپ ۸۰ سن ھجری قمری میں (۱۵) کوفہ میں پیدا ہوئے۔ (۱۶) اور سن ۱۵۰ ھجری قمری میں بغداد میں وفات پائی۔ (۱۷) مطابق ۷۰۰ سے ۷۶۷ سن عیسوی۔

امام ابو حنیفہ کے مالی حالات اچھے تھے، ان کے پیشے اور کام جانوروں کی کھال کی تجارت سے ان کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے جس میں تاریخی و رجالی حوالے سے انہیں صاحب مقام و صاحب ثروت و سخاوت کہا گیا ہے اور ان کے اجداد کے بارے میں جیسا کہ امام علی علیہ السلام (۱۹) کو تحفہ دینے والی روایت سے پتہ چلتا ہے، اس سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی مالی لحاظ سے معاشرہ کے مرفہ اور خوشحال لوگوں میں شامل تھے۔

 

امام ابو حنیفہ کی تعلیم اور اساتذہ

اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد (۲۰) کے گھرانے کے مالی حالات مضبوط تھے، طبیعی ہے کہ ان کے والد کی خواہش اور آرزو ہوگی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں حالانکہ ان کے گھرانے میں حصول علم کا کوئی رواج نہیں تھا لہذا اس امر کے حصول کے اسباب کا فراہم ہونا لازمی و ضروری تھا۔ ابتداء میں تو آپ مسجدوں میں کبھی کبھی تشکیل پانے والے دروس اور جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے اور انہیں جلسات میں انہیں اپنی استعداد کا علم ہوا اور علماء بھی ان کی ذکاوت کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں حصول علم و دانش کی طرف رغبت دلائی۔ در حقیقت ان کا شوق شعبی (۲۱) جیسے دانشمند کی تشویق کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گیا اور آپ ہمہ تن اس کے حصول میں لگ گئے۔

اس دور میں علمی و تعلیمی حلقے تین شعبوں میں نمایاں تھے:

۱۔ اصول عقائد کی بحث میں، معاشرہ کے مختلف فرق و مذاہب کے اعتقادات پر بحث و گفتگو کی جاتی تھی۔

۲۔ علماء حدیث کے حلقے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو ان کی فقہی جہات پر توجہ دئیے بغیر نقل اور بیان کرتے تھے اور احتمالا اس طرح کے حلقے کوفے میں زیادہ نہیں تھے۔

۳۔ کتاب و سنت سے فقہی مسائل کے استنباط کے حلقے۔ (۲۲)

ابو حنیفہ نے شروع میں ایک مدت تک اصول عقاید کے دروس و حلقات میں شرکت کی۔ اس زمانہ کی بین النہرین کی سیاسی فضا اور فرقہ گرایی نے علم کلام کو ایک کشش عطا کر دی تھی، لیکن مختلف اسباب (۲۳) کی بناء پر انہوں نے علم کلام کو ترک کر دیا اور فقہ کی طرف زمینہ فراہم ہونے کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گئے۔ خطیب بغدادی اس تبدیلی کی دلیل پیش کرتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں:

پھر میں نے علم کلام میں مہارت حاصل کی اور علم کے معروف افراد میں میرا شمار ہونے لگا، میرا حلقہ درس حماد بن حسن بن ابی سلیمان (۲۴) کے حلقہ درس سے نزدیک تھا، ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے طلاق کے بارے میں سے ایک فقہی سوال کیا، جس کا میں جواب نہیں دے سکا اور اسے معلوم کرنے کے لیے حماد کے پاس بھیجنا پڑا اور میں نے اس سے کہا کہ جواب ملنے کے بعد وہ مجھے ضرور بتائے کہ کیا اسے کیا جواب ملا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا لیکن میں نے اس کے بعد سے یہ فیصلہ کیا کہ میرے لیے علم کلام بہت ہو گیا اور حماد کی شاگردی اختیار کر لی اور کچھ عرصہ کے بعد میں اس کے بہترین شاگردوں میں شامل ہو گیا، اس لیے کہ میں درس میں محنت کرتا، اس کا مباحثہ کرتا، یہاں تک کہ میں نے مسلسل دس سال ان کے درس میں گزارا۔ (۲۵)

المنتظم فی التواریخ الملوک و الامم کے مصنف (۲۶) نے آپ کے درس قفہ میں شرکت کی ایک اور وجہ بیان کی ہے، جس میں ان کے فقہ کی طرف متوجہ ہونے کا سبب معاشرہ میں فقہ کی اہمیت اور فقہاء کے جوانی و پیری میں احترام و اکرام کو قرار دیا ہے۔ (۲۷) منابع تاریخی ابو حنیفہ کو تابعین مین شمار کرتے ہیں، تابعی وہ ہے جس نے صحابہ کو دیکھا ہو، جبکہ اس بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، قاضی ابو یوسف (۲۸) سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میں سن اسی ھجری قمری میں پیدا ہوا اور سن ۹۶ ھجری قمری میں اپنے والد کے ہمراہ حج کا سفر کیا اور جب ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو میں ایک وہاں ایک بڑا حلقہ درس دیکھا، میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ حلقہ درس کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عند اللہ بن جزء زبیدی، صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، میں آگے بڑھا اور میں نے انہیں رسول خدا (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے سنا: من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ و رزقہ من حیث لا یحتسب۔ (۲۹)

اگر چہ حماد بن ابی سلیمان کا شمار ابو حنیفہ کے مہم ترین استادوں میں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے دوسرے اساتذہ سے کسب علم و دانش کیا ہے۔ جمال الدین یوسف مزی (۳۰) صاحب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال نے ابو حنیفہ کے اساتذہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں بہت سے مشہور افراد جیسے طاووس بن کیسان (۳۱)، عاصم بن النجود (۳۲)، عکرمہ مولی ابن عباس (۳۳)، محمد بن مسلم شہاب زھری (۳۴) اور اسی طرح سے شیعہ اماموں میں سے ابی جعفر محمد بن علی بن حسین (۳۵) اور زید بن علی بن حسین (۳۶) کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۳۷)

خلیفہ عباسی ابو جعفر منصور نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا: حماد بن ابی سلیمان اور عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کے شاگردوں سے۔ (۳۸) اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے مہم ترین اور مشہور ترین استاد اور شیخ حماد بن ابی سلیمان تھے اور انہوں نے فقہ و دانش کو ابراہیم نخعی (۳۹) سے حاصل کیا۔ ابراہیم کا شمار اپنے زمانہ کے سب سے دانا اصحاب رای میں ہوتا ہے ان کا انتقال سن ۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی میں ہوا۔ اسی طرح سے ابو حنیفہ نے فقہ میں شعبی کے محضر سے استفادہ کیا، جبکہ ابراہیم اور شعبی نے شریح (۴۰)، علقمہ بن قیس (۴۱) اور سروق بن اجدع (۴۲) سے استفادہ کیا اور اور یہ سب عبد اللہ بن مسعود (۴۳) اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ اور ان دونوں صحابیوں نے کوفے میں سکونت کے عرصہ میں فقہ کے مضبوط ستون کی بنیاد ڈالی۔ (۴۴) البتہ عبد اللہ بن مسعود کی طولانی اقامت کا اس میں زیادہ اہم اور موثر کردار رہا ہے۔ (۴۵)

مجموعی طور پر یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کا فقہی مبناء، جس نے بعد میں نام پیدا کیا، عبد اللہ بن مسعود کے ذریعہ وجود میں آیا، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے جملہ اساتذہ میں سے ایک زید بن علی زین العابدین تھے، جو اثنا عشری شیعوں کے چوتھے امام علی بن حیسن علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ زید جو زیدیہ مسلک کے رئیس شمار ہوتے ہیں، بہت سے علوم میں صاحب کمال تھے، وہ علم قراءات قرآن،فقہ و عقائد میں اپنے زمانہ کے مہم اور برجستہ عالم تھے اور معتزلہ ان کا شمار اپنے شیوخ میں سے کرتے ہیں۔ (۴۶) اور معتزلی نے جس کے افکار و آرا سے اثر قبول کیا ہے، اس علمی اتصال کے نتیجہ میں شاید فقہ حنفی اور معتزلہ کے افکار عقلائی کے درمیان ریشہ و رابطہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ روایت میں ملتا ہے کہ ابو حنیفہ نے دو سال تک زید بن علی علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ہے اور اسی طرح سے ابو حنیفہ شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے سے علمی رابطہ رکھتے تھے۔ (۴۷) اور ابو حنیفہ کے کوفہ سے مکہ، ابن ھبیرہ (۴۸) اور بنی امیہ سلاطین کی سختی کے سبب ھجرت، انہیں مکہ میں ابن عباس سے فقہ میں استفادہ کا موقع میسر آیا، اس لیے کہ ابن عباس کے شاگرد مکہ میں صاحبان درس تھے۔ (۴۹) نقل کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنی علمی زندگی میں تقریبا ساٹھ ہزار مسئلے اور بعض روایات کے مطابق تین لاکھ فقہی مسئلے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ (۵۰) امام ابو حنیفہ نے اپنی زندگی میں مشہور شاگردوں کی تربیت اور فقہ کو مدون و مرتب کیا جس کا اکثر نمونہ ان کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی کی کتاب میں ظاہر ہوا ہے، (۵۱) اور اس کے علاوہ بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، یا ان کی طرف ان کتابوں کی نسبت دی گئی ہے، جیسے کتاب الصلاۃ جسے کتاب العروس بھی کہا جاتا ہے، کتاب المناسک، کتاب الرھن، کتاب الشروط، ظاہرا یہ کتابیں اپنے موضوع کے حوالہ سے نظیر نہیں رکھتیں۔ کتاب الفرائض، الرد علی القدریۃ، رسالۃ الی البستی، کتاب العالم و المتعلم و کتاب فقہ الاکبر، آخری دو کتابیں عقائد اور علم کلام کے بارے میں ہیں۔ (۵۲)

 

امام ابو حنیفہ کے فقہی مبانی کو متاثر کرنے والے اسباب

مہم ترین اسباب جنہوں نے امام ابو حنیفہ کے فقہی مبانی پر اثر ڈالا درج ذیل ہیں:

الف: ابو حنیفہ جس معاشرہ میں رہتے تھے انہوں نے اس سے اثر قبول کیا، فقہ اور فتوی میں فضا، ماحول، زمان اور مکان کا بڑا دخل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن قیم جوزی (۵۳) نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں، جس کا موضوع اصول فقہ اور اجتہاد ہے، اس کی تیسری جلد کی پہلی فصل کو ان مباحث سے مخصوص کی ہے: فتوی میں تغییر و تفاوت کا زمان و مکان و حالات و نیات و نتائج کے سبب پیش آنا۔ (۵۴) اس جہت سے بین النہرین کے معاشرہ، فضا اور ماحول کے مد نظر، خاص طور پر کوفہ میں اہل رای کے فقہی رشد و شکوفائی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ (۵۵) اس لیے کہ ماحول اور فضا کا اثر صرف سیاسی، فلسفی و ادبی افکار تک محدود نہیں ہوتا بلکہ فقیہ کی زندگی میں بھی ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے کا اس کا رابطہ اس فضا اور ماحول سے قریبی ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تبیین احکام کے ذریعہ سے ان کی مشکلات کے لیے راہ حل پیش کرے، وسیع اسلامی سر زمین جو مخلتف ممالک، ثقافت، نسل، آداب اور عادات کا مجموعہ تھی، یہ تمام باتیں بین النہرین کے درمیان اقوام میں با ہمی ارتباط اور قدیم نسل ہونے کی وجہ سے ان کا اثر ابو حنیفہ کی زندگی پر ہونا نا گزیر امر تھا، جس نے ان کے فقہی افکار و نظریات پر اثر ڈالا۔

ب: امام ابو حنیفہ کی زندگی میں اس ایک خاص دور کا بیحد اثر رہا ہے، جس میں وہ مشہور علماء کلام کے حلقہ درس میں شرکت کرتے تھے، ان درسی حلقوں میں قضا و قدر، ایمان، صحابہ کی روش جسے موضوعات پر بحث ہوتی تھی، علم کلام میں عقل اور عقلی مباحث ایک خاص حیثیت کے حامل تھے۔

علم کلام سے مربوط مناظروں کے نتیجہ سے معتزلہ کا ظہور میں آنا بے دلیل نہیں تھا اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر چہ ابو حنیفہ کا عقیدہ معتزلہ کے مخالف تھا، لیکن عقل محور افکار کا اثر، قرآن پر زیادہ توجہ دینا اور حدیث پر زیادہ توجہ نہ دینا، کہا جا سکتا ہے کہ علم کلام کے حلقہ درس کے زیر اثر تھا جیسا کہ بعد میں چوتھی صدی ھجری قمری میں اشاعرہ و معتزلہ کے درمیان نہایت اساسی و بنیادی اختلاف نظر کے با وجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معتزلہ کے افکار کے مطالب کا اثر اھل سنت کے درمیان نطر آتا ہے اور خود اھل سنت میں نظریات کی نرمی و اعتدال کا مشاہدہ ہوتا ہے اور یہ تاثیر ان روشوں سے استفادہ کی وجہ سے تھی جو معتزلہ نے علم کلام میں وارد کر دی تھیں۔ (۵۶)

ج: ایک روایت کے مطابق ابو حنیفہ نے مکتب کوفہ میں اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی صحبت میں اٹھارہ سال گزارے اور ان سے فقہ کا علم حاصل کیا، اس مکتب کا اپنا ایک خاص رنگ تھا، جس کی ابتدا میں عبد اللہ بن مسعود جیسے صحابی وہاں موجود تھے، وہ عراق کے پہلے استاد تھے جن کے پاس خلیفہ دوم جیسا علم، روشن فکری اور خاص دقت نظر موجود تھی، ان کے بعد بھی ابو حنیفہ کے زمانہ تک تمام اساتذہ و تلامذہ نے اس مکتب کی تقویت و ترقی کے لیے محنت کی، ہر فرد نے اپنی بضاعت بھر کوشش کی، تا کہ حدیث اور رای سے اس مکتب کو تقویت دے، یہاں تک کہ اھل رای کے حقیقی وارث حماد بن ابی سلیمان نے اس کے تمام افکار و نظریات جا احاطہ کیا اور اسے ابو حنیفہ کے سپرد کیا اور ابو حنیفہ نے اسے مذھب کی شکل دی اور ایک مستقل پہچان اور ممتاز حیثیت کے ساتھ جہان اسلام کے سامنے پیش کیا۔ (۵۷)

بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر اس طرح سے کیا ہے: فقہ کی بنیاد عبد اللہ بن مسعود نے رکھی، علقمہ بن قیس نخعی نے اس درخت کی آبیاری کی، ابراہیم نخعی نے اسے ثمر تک پہچایا، حماد بن ابی سلیمان نے اس سے کاٹا اور ابو حنیفہ نے اس سے پکایا، یعنی اس کے اصول و فروع کو ابو حنیفہ نے وسعت عطا کی اور اس تک پہچنے کے راستے کو بتایا اور اس کے ابواب و فصول کو مدون و مرتب کیا اور تمام لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ (۵۸)

د: ابو حنیفہ کی بازار سے نزدیکی شناخت اور رابطے نے ان کے فقہی نظریات پر سیدھا اثر ڈالا اور فقہ معاملات میں ان کے فتاوی و نظریات کافی حد تک واقعیت پر مبنی ہوتے تھے۔ (۵۹) یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ بصیرت معاملات کے وقت مشاہدے سے پروان چڑھی نہ کہ فقط درسی حلقے میں علمی بحث و گفتگو سے، اور اس بات کے مد نظر کہ بین النہرین کے جنوبی و مرکزی شہر ساسانیان کے زمانہ سے ہی تجارت کے گرم اور پر رونق بازار رہے ہیں اور مسلمانوں کے اس سر زمین پر وارد ہونے اور سیاسی سرحدوں کے ختم اور ایرانیوں کے اپنے ایک شہر سے دوسرے شہر جیسے اصفہان و خراسان، جو جادہ ابریشم سے نزدیک تھے اور اسی طرح سے بڑی تعداد میں عرب مسلمانوں کی مہاجرت، جو تجارت میں کافی تجربہ رکھتے تھے، اس خطے میں تجارت کے فروغ کا سبب بنی۔ اور اس رونق نے مسلمان فقہاء کو نئے سوالات اور مسائل سے رو برو کیا جو اس سے پہلے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اور یہاں پر یہ بات نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ابو حنیفہ نے مکمل طور پر درس و تدریس میں مشغول ہونے کے بعد بھی بازار سے اپنے رابطے کو منقطع نہیں کیا اور شراکت میں تجارت بھی جاری رکھی۔ (۶۰)

 

فقہ حنفی یا فقہ اھل رای کی روش و خصوصیت

جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنے فقہی نظریات میں اس مکتب و مدرسہ کے پیروکار تھے جس کی بنیاد عبداللہ بن مسعود نے کوفہ میں رکھی تھی اور ان کے شاگردوں نے اسے پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، عبداللہ بن مسعود کے شاگرد بھی ان کی طرح سے جہاں پر بھی قرآن مجید سے حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نص نہیں پاتے تھے، وہاں اپنی رای اور نظر سے اجتہاد کرتے تھے اور اس روش کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں نے اس روش کے قاعدوں کو منظم و منضبط کیا، امام ابو حنیفہ اس بارے میں اس طرح سے بیان کرتے ہیں:

میں اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں اور اگر کسی امر کو اس میں نہیں پاتا ہوں تو سنت رسول خدا (ص) کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اگر سنت میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا ہے تو سخن صحابہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ان میں سے جس پر چاہتا ہوں عمل کر لیتا ہوں اور دوسرے کے کلاموں اور باتوں کو ان کی باتوں پر ترجیح نہیں دیتا ہوں، لیکن اگر بات ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، (۶۱)، حسن بصری (۶۲)، عطاء بن ابی ریاح (۶۳) اور سعید بن مسیب (۶۴) تک پہچ جاتی ہے، تو یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے تو میں بھی ان کی طرح سے اجتہاد کرتا ہوں۔ (۶۵)

کوفہ کے فقہی مدرسہ کی شہرت اھل رای کے مکتب کے نام سے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ روی کے معنا کیا ہیں؟ جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

منابع و مآخذ:

Zota .۱

۲۔ خطیب بغدادی، احمد بن علی بن ثابت بغدادی (۳۹۲۔ ۴۶۳) مطابق (۱۰۰۲۔۱۰۷۲) پانچویں صدی کے مورخ نے حدیثیں جمع کرنے کے لیے مخلتف شہروں کا سفر کیا۔

۳۔ خطیب بغدادی، ابی بکر احمد بن علی، کتاب تاریخ بغداد و مدینہ السلام۔ جلد ۱۳ صفحہ ۶ حدیث ۳۲۵۔

۴۔ عبد القادر بن ابی الوفاء قریشی متوفی ۷۷۵ ھ مطابق ۱۳۷۵ عیسوی۔

۵۔ عبدالقادر بن ابی الوفاء، کتاب الجواہر المضیئۃ، جلد ۱ صفحہ ۸۵۔

Mah.۶

۷۔ ابن خلکان، ابی العباس شمس الدین احمد بن محمد، کتاب وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، جلد ۵ صفحہ ۴۰۵۔

۸۔ بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب فتوح البلدان جلد ۲ صفحہ ۴۸۹۔

۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ترجمہ احمد بن محمد سنجری، جلد ۳ صفحہ ۳۵۹۔

۱۰۔ عمر بن اسحاق بن احمد بن غزنوی، سراج الدین ابو حفص ھندی ان کے بعد فقیہ حنفی مصری (۷۰۴۔ ۷۷۳) ھجری مطابق (۱۳۰۵۔۱۳۷۲) عیسوی، کتاب تفسیر القرآن، مجموعہ فتاوی و شرح ھدایۃ فی الفقہ، مرغینانی و ۔ ۔ ۔ ۔

۱۱۔ تقی الدین تمیمی، کتاب الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ جلد ۱ صفحہ ۸۶۔

۱۲۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۱۳۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۱۴۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۶۔

۱۵۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۲۔

۱۶۔ اسماعیل پاشا بغدادی، کتاب ھدیۃ العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنفین، جلد ۲ صفحہ ۴۹۵۔

۱۷۔ محمد بن اسحاق الندیم معروف نہ ابی یعقوب براق، کتاب الفہرست، تحقیق، رضا تجدد، صفحہ ۲۵۵۔

۱۸۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۵۔

۱۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۲۰۔ منابع میں امام ابو حنیفہ کے مادری خاندان، ان کے مالی حالات اور سماجی طبقہ کے بارے کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

۲۱۔ عامر بن الشراجیل الشعبی (۱۹۔ ۱۰۳) ھجری قمری مطابق (۶۴۰۔ ۷۲۱) عیسوی، راویان حدیث اور تابعین میں سے ہیں، ضرب المثل کے حفظ میں شہرت رکھتے ہیں، کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہی انتقال کیا، خلیفہ اموی عبد الملک بن مروان سے مراسم پیدا ہونے کے بعد اس کے دوست و مصاحب ہوئے، اس کے بعد عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں قاضی مقرر ہوئے، فقیہ و محدث و شاعر بھی تھے۔

۲۲۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۸۔

۲۳۔ شاید اس دور کے دوسرے علوم کے ماہر علماء کی علم کلام اور اس کی خاص خصوصیات کی بناء پر، جس میں معنویت کم اور جدال کا شائبہ زیادہ پایا جاتا ہے، اور یہ کہ اس کی ضرورت سماج کے ایک خاص طبقہ کو ہوتی ہے فقط، اس سے مخالفت کے اسباب میں سے شمار کئے جا سکتے ہیں۔

۲۴۔ حماد بن ابی سلیمان، علامہ، فقیہ اور عراق کے امام ہیں، ابراہیم نخعی کے شاگرد ہیں، (۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی) میں انتقال ہوا، صاحب مال و تجمل تھے۔ (سیر اعلام البنلاء جلد ۵ صفحہ ۲۳۱)

۲۵۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۳ صفحہ ۳۳۳۔

۲۶۔ ابن جوزی، عبد الرحمان بن علی، (۵۰۸۔ ۵۹۷) ھجری قمری مطابق (۱۱۱۴۔۱۲۰۱) عیسوی کثیر التالیفات ہیں۔

۲۷۔ ابن جوزی، ابو الفرج، عبد الرحمان بن علی کتاب المنتظم فی التواریخ الملوک والامم ص ۲۲۹۳۔

۲۸۔ یعقوب بن ابراہیم، ابو یوسف (۱۱۳۔۱۸۲) ھجری قمری مطابق (۷۳۱۔۷۹۸) عیسوی، ھارون رشید کی طرف سے قاضی القضاۃ تھے اور امام ابو حنیفہ کے سے معروف شاگرد ہیں۔

۲۹۔ ترجمہ، جو بھی اللہ کے دین کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ابن دبیثی، تاریخ بغداد کے ذیل میں، جلد ۱ ص ۴۹۔

۳۰۔ جمال الدین یوسف مزی، (۶۵۴۔۷۴۲) ھجری قمری مطابق (۱۲۵۶۔۱۳۴۱) عیسوی، محدثین میں سے ہیں، حلب میں پیدا ہوئے اور کسب علم کے لیے کثرت سے سفر کیا اور آخر میں دمشق میں مستقر ہوئے اور ۵۰ سال تک حدیث کا درس کہتے رہے۔

۳۱۔ طاوس بن کیسان، (۳۳۔۱۰۶) ھ ق مطابق (۶۵۳۔۷۲۴) ع، بزرگان تابعین میں سے ہیں، فقہ و حدیث میں نہایت پر جرات، فارس کے رہنے والے تھے جبکہ پرورش یمن میں ہوئی۔

۳۲۔ عاصم بن ابی النجود، مشہور سات قاریوں میں سے ایک ہیں، متوفی (۱۲۸ ھ مطابق ۷۴۵ ع) تابعین میں سے ہیں، قراءات اور حدیث میں قابل اعتماد تھے۔

۳۳۔ عکرمہ ابن عباس کے غلام ہیں، بربر قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، متوفی (۱۰۷ ھ ق مطابق ۷۲۶ ع) تابعین میں سے ہیں اور تفسیر میں قابل اعتماد ہیں۔

۳۴۔ محمد بن مسلم بن عبد اللہ بن شہاب زھری (۵۸۔۱۲۴) ھ ق مطابق (۶۷۸۔ ۷۲۴۲) ع، حدیث کو مدون اور مرتب کرنے والے پہلے محدث ہیں، بزرگان فقہ و حدیث اور مدینہ کے تابعین میں سے ہیں، شام میں مستقر تھے اور عمر بن عبد العزیز، خلیفہ اموی کے مورد توجہ تھے۔

۳۵۔ محمد بن علی ملقب بہ باقر، شیعوں کے پانچویں امام معصوم ہیں، (۵۷۔۱۱۴ ھ ق) مطابق (۵۷۳۔۶۷۷)ع۔

۳۶۔ زید بن علی (۸۰۔ ۱۲۰ ھ ق) مطابق (۶۹۹۔۷۳۸ ع) زیدیہ مذہب کے رئیس و پیسوا اور اپنے زمانہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔

۳۷۔ مزی۔ کتاب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد ۲۹ ص ۴۱۸، ۴۱۹۔

۳۸۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۳۳۰۔

۳۹۔ ابراھیم بن زید نخعی (۴۶۔۹۶ ھ ق) مطابق (۶۶۶۔۷۱۵ ع) بزرگ تابعین میں سے ہیں اور اپنے زمانہ میں فقیہ عراق تھے۔

۴۰۔ شریح بن حارث کندی، متوفی (۷۸ ھ ق مطابق ۶۹۷ ع) صدر اسلام کے مشہور ترین قضاۃ میں سے ہیں۔

۴۱۔ علقمہ بن قیس نخعی ھمدانی متوفی (۶۲ ھ ق مطابق ۶۸۱ ع) فقیہ عراق اور ابن مسعود کے شاگرد تھے۔

۴۲۔ مسروق بن اجدع ھمدانی وادعی ثقہ تابعین میں سے ہیں، یمن کے رہنے والے ہیں اور کوفہ میں مستقر تھے، امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے۔

۴۳۔ عبد اللہ بن مسعود متوفی ( ۳۲ ھ ق مطابق ۶۵۳ ع) فضل و عقل اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قربت کے سبب بزرگ صحابہ میں سے ہیں، اھل مکہ ،سابق الاسلام اور صاحب سر رسول (ص) ہیں۔

۴۴۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۶

۴۵۔ ذھبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، کتاب سیر اعلام النبلاء جلد ۱ ص ۴۵۱۔

۴۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۲ ص ۶۵۔

۴۷۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۸۔

۴۸۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔

۴۹۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔

۵۰۔ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد ابی بکر دمسقی، (۶۹۱۔ ۷۵۱ ھ ق مطابق ۱۲۹۲۔۱۳۵۰ ع) فقیہ حنبلی معروف بہ ابن قیم جوزی، مفسر و محدث، حافظ، نحوی، اصولی، متکلم و ۔ ۔ ۔ ۔

۵۱۔ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی (۱۳۱۔ ۱۸۹ ھ ق مطابق ۷۴۸۔۸۰۴ ع) امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے خاص شاگردوں میں سے اور کثیر التصانیف ہیں۔

۵۲۔ کتاب ھدیۃ العارفین اسماء المولفین و آثار المصنفین، اسماعیل پاشا بغدادی جلد ۲ ص ۴۹۵۔

۵۳۔ کتاب اعلام الموقعین، ابن قیم جوزی۔

۵۴۔ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابو بکر معروف بہ ابن قیم جوزی، کتاب اعلام الموقعین عن رب العالمین جلد ۳ ص ۳۔

۵۵۔ اھل رای، ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو حدیث کو قبول کرنے میں سخت گیری سے کام لیتے ہیں اور قیاس و استحسان سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔

۵۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۱ ص ۱۴۶۔

۵۷۔ مصطفی ابراھیم الزلمی، فقہ مذاھب میں اختلاف کی بنیادیں، ترجمہ حسین صابری صفحہ ۴۶۔

۵۸۔ المعلم پطرس بستانی، کتاب بستانی عربی انسائکلوپیڈیا جلد ۲ ص ۴۵۶۔

۵۹۔ برٹولڈ اشیولر، تاریخ ایران اوائل اسلام میں، ترجمہ مریم میر احمدی جلد ۲ ص ۲۲۰۔

۶۰۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۶ حدیث ۳۲۵۔ و ابن حجر عسقلانی، کتاب تھذیب التھذیب جلد ۱۰ ص ۴۰۱۔

۶۱۔ محمد بن سیرین بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۵۳۔ ۷۲۹ ع) فقیہ و محدث، ابتداء میں بزاز تھے مگر بعد میں تقوی و تعبیر خواب میں شہرت حاصل کی۔

۶۲۔ حسن بن یسار بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۴۲۔ ۷۲۸ ع) تابیعین میں سے ییں، اھل بصرہ کے امام اور فقیہ، محدث، اھل عبادت و شجاع تھے، بصرہ میں انتقال ہوا۔

۶۳۔ عطاء بن اسلم بن اسلم بن صفوان (۲۷۔ ۱۱۴ ھ ق مطابق ۶۴۷۔ ۷۳۲ ع) مکہ کے محدث، مفسر اور فقیہ تھے۔

۶۴۔ سعید بن مسیب بن حزن ۱۳۔۹۴ ھ ق مطابق ۶۳۴۔ ۷۱۳ ع) تابعین کے سید و سردار اور مدینہ کے سات فقہاء میں سے ہیں، محدث و فقیہ و صاحب تقوی و ورع تھے۔

۶۵۔ مزی، کتاب تھذیب الکمال، جلد ۲۹ ص ۴۴۳

Read 7238 times