اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی اور خدا کی حجت دو طرح کی ہوتی ہے : ناطق اور صامت۔ ناطق، ”پیغمبر خدا“ اور صامت ” ولی و امام“ ہوتا ہے
شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے کا نام اسماعیل تھا ، ان کا اپنے والد کی حیات میں انتقال ہوگیا تھا ، آپ نے اپنے بیٹے کی موت کو سب کے سامنے بیان کیا ، یہاں تک کہ مدینہ کے حاکم کو بھی گواہ بنایا ، بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ اسماعیل مرے نہیں بلکہ انہوں نے غیبت اختیار کی ہے ،وہ دوبارہ ظہور کریں گے اور وہی مہدی موعود ہیں، اور چھٹے امام نے ان کے مرنے پر جو گواہ بنائے ہیں وہ منصور عباسی کے ڈر کی وجہ سے عمدا یہ کام کیا ہے ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ امامت ، اسماعیل کا حق تھا جو ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے محمد کی طرف منتقل ہوگیا ، اسماعیل اگرچہ اپنے والد کی حیات میں انتقال فرماگئے لیکن وہ امام ہیں، اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل اور ان کی نسل میں منتقل ہوگئی ہے ، مذکورہ دو فرقے ایک مدت کے بعد ختم ہوگئے لیکن تیسرا فرقہ ابھی باقی ہے اور اس کی کچھ شاخیں بھی ہوگئی ہیں، اسماعیلیوں کا ایک فلسفہ ہے جو ستارہ پرستوں کے فلسفہ سے مشابہ ہے اور عرفانی ہندی اس میں ملا ہوا ہے ، یہ لوگ معارف و احکام اسلامی میں ہر ظاہرو باطن اور ہر تنزیل کے لئے تاویل کے قائل ہیں ۔
اسماعیلیوں کا عقیدہ
اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی اور خدا کی حجت دو طرح کی ہوتی ہے : ناطق اور صامت۔ ناطق، ”پیغمبر خدا“ اور صامت ” ولی و امام“ ہوتا ہے جو کہ پیغمبر کا وصی ہوتا ہے ، بہر حال حجت ، ربوبیت کی مظہر ہے ۔
حجت کی بنیاد ہمیشہ سات عدد کے ارد گرد گھومتی ہے ، اس طرح سے کہ ایک بنی مبعوث ہوتا ہے جو نبوت (شریعت) اور ولایت رکھتا ہے ، اس کے بعد اس کے سات وصی ہوتے ہیں اور سب کا مقام ایک ہوتا ہے صرف ساتویں وصی کے پاس مقام نبوت ہوتا ہے اور دوسرے تین مقام ہوتے ہیں: نبوت، وصایت (وصی ہونا) اور ولایت، پھر اس کے بعد سات وصی ہوتے ہیں ، ان میں سے ساتویںکے پاس پھر وہی تین مقام ہوتے ہیں، اسی ترتیب سے ان کی یہ نبوت اور ولایت چلتی رہتی ہے ۔
وہ لوگ کہتے ہیں : حضرت آدم (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو وہ نبی بھی تھے اور ولی بھی، ان کے بعد سات وصی ہوئے اور ساتویں وصی حضرت نوح (علیہ السلام) تھے جن کے پاس نبوت، وصایت اور ولایت کا عہدہ تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت نوح کے ساتویں وصی تھے، حضرت موسی (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے ۔ حضرت عیسی (علیہ السلام)، حضرت موسی (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے، حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، حضرت عیسی (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے اور محمد بن اسماعیل، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتویں وصی تھے ۔ لہذا اس بناء پرحضرت علی (علیہ السلام)، حسین، علی بن الحسین (امام سجاد)امام محمد باقر، امام جعفر صادق ، اسماعیل ، اور محمد بن اسماعیل سات وصی ہیں، (یہ لوگ امام حسن (علیہ السلام) کو امام نہیں مانتے) ۔ محمد بن اسماعیل کے بعد محمدبن اسماعیل کی نسل سے سات افراد وصی ہوئے جن کے نام پوشیدہ ہیں، اور ان سات افراد کے بعد مصر کے فاطمین ہیں، جن میں سے اول ”عبیداللہ مہدی“ ہیں جنہوں نے مصر کے فاطمین کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین پر حجت خدا کے علاوہ ان کے بارہ خاص حواریین ہوتے ہیں، لیکن باطنیہ (دروزیہ) کا ایک گروہ نقباء میں سے چھے افراد کو امام سمجھتے ہیں، (۱) ۔
۱۔ شیعہ در اسلام ، ص ۶۸۔
اسماعیلیوں کی کارکردگی
۲۷۸ ہجری میں (افریقہ میں عبیداللہ مہدی کے ظہور سے چند سال قبل ) خوزستان کا رہنے والا ایک شخص جس نے کبھی بھی اپنا نام و نشان ظاہر نہیں کیا ، کوفہ کے اطراف میں ظاہر ہوا ، یہ شخص دن میں روزہ اور رات میں عبادت کرتا تھا ،اور لوگوں کو اسماعیلی مذہب کی دعوت دیتے تھے ، اس طرح اس نے بہت سے لوگوں کو اپنے اطراف میں جمع کرلیا اور اپنے چاہنے والوں میں سے بارہ افراد کو نقباء کے عنوان سے انتخاب کیا اور خود شام کی طرف روانہ ہوگیا ،اس کے بعد اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی ، اس نامعلوم شخص کے بعد ”احمد“ معروف بہ ”قرمط“ عراق میں اس کی جگہ پر بیٹھا ، اس نے باطنیہ کی تعلیمات کو منتشر کیا اور جیسا کہ مورخین کہتے ہیں: اس نے نماز پنجگانہ کی جگہ پر ایک نئی نماز اسلام میں قائم کی ، غسل جنابت کو لغو کیا، شراب کو مباح کیا،اسی دوران باطنیہ کے ایک گروہ نے قیام کیا اور لوگوں کو اپنے اردگرد جمع ہونے کی دعوت دی۔
جو لوگ ان سے دور رہتے تھے ان کی جان و مال کا کوئی احترام نہیں کرتے تھے ، اسی وجہ سے عراق ، بحرین، یمن اورشامات کے شہروں میں انہوں نے قیام کیا اور لوگوں کا خون بہایا ، اور ان کے مال کو غارت کرلیا، کئی بار حج پر جانے والے قافلوں کو لوٹا اور ہزاروں حاجیوں کو قتل کیا ۔
”ابوطاہر قرمطی“ کاشمار باطنیہ کے بزرگوں میں ہوتا ہے ،اس نے ۳۱۱ ہجری میں بصرہ پر قبضہ کیا، اور لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے مال و دولت کو لوٹنے میں کوئی کمی نہیں رکھی ، ۳۱۷ ہجری میں باطنیہ کے ایک گروہ کے ساتھ موسم حج میں مکہ کی طرف روانہ ہوا اور حکومت کی فوج سے مختصر سی جنگ کرنے کے بعد مکہ میں داخل ہوگیا ، اہل مکہ اور جدید حاجیوں کو قتل کیا ، یہاں تک کہ مسجد الحرام اور کعبہ میں خون جاری ہوگیا ، غلاف کعبہ کو اپنے دوستوں کے درمیان تقسیم کیا ،کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال کر یمن لے آیا جو کہ ۲۲ سال تک قرامطہ کے پاس رہا ۔
ان کے برے اعمال کی وجہ سے تمام مسلمانوں نے قرامطہ سے برائت اختیار کرلی اور ان کو مسلمان ہونے سے خارج کردیا ، یہاں تک کہ ”عبداللہ مہدی“ فاطمیوں کا بادشاہ جس نے اس زمانہ میں افریقہ میں ظہور کیا تھا اور اپنے آپ کو مہدی موعود اور اسماعیلیوں کا امام کہتا تھا اس نے بھی قرامطہ سے بیزاری اختیار کرلی۔
مورخین کے بقول مذہب باطنیہ کی شناخت یہ ہے کہ وہ اسلام کے ظاہری احکام و قوانین کو عرفان باطنی سے تاویل کرتے ہیں اور شریعت کے ظواہر کو ان لوگوں سے مخصوص کرتے ہیں جو کم عقل اور معنوی کمال سے بہت دور ہیں، ان تمام صفات کے باوجود کبھی بعض قوانین ان کے امام سے صادر ہوتے ہیں (۱) ۔
۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۶۹۔