اسماعیلیوں کے فرقے

Rate this item
(1 Vote)

مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھےان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے”بُہرہ“کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے

عبیداللہ مہدی نے ۲۹۶ ہجری میں افریقہ میں ظہور کیا اور اسماعیلیوں کو اپنی امامت کی دعوت دی ، فاطمی حکومت کی تاسیس کی ، اس کے بعد اس کی نسل نے مصر کو دارالخلافہ قرار دیا اور سات پشت تک انہوں نے اسماعیلیہ کی سلطنت اور امارت کو قائم رکھا ، ساتویں خلیفہ مستنصر باللہ جو کہ سعد بن علی تھا اس کے دو بیٹوں نزار اور مستعلی میں خلافت اور امامت پر جھگڑا ہوا اور بہت ہی زیادہ کشمکش اور جنگ و جدال کے بعد مستعلی غالب آگیا اور اپنے بھائی نزار کو گرفتار کرکے زندن میں ڈال دیا اور قید خانہ ہی میں اس کا انتقال ہوا ، اس کشمکش کی وجہ سے فاطمین کے چاہنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہوکئے : نزاریہ ، مستعلیہ ۔

الف : نزاریہ : حسن صباح کے ماننے والوں کو نزاریہ کہتے ہیں، یہ مستنصر کے نزدیکی افراد تھے ، مستنصر کے بعد نزار کی حمایت کرنے کی وجہ سے مستعلی نے ان کو مصر سے نکلنے کا حکم دیا ، یہ لوگ ایران آگئے اور قزوین کے اطراف میں قلعہ الموت میں داخل ہوئے ، قلعہ الموت اور اطراف کے دوسروں قلعوں پر قبضہ کرکے حکومت کرنے لگے ، شروع میں انہوں نے نزارکی طرف دعوت دی اور (۵۱۸ ہجری) میں حسن ”رودباری کی بڑی امید“ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ”کیا محمد“ کی بیعت کی اور اس طرح حسن صباح کے قوانین اور طریقہ پر حکومت کرتے رہے ،اس کے بعد اس کا بیٹا ”حسن علی ذکرہ الاسلام“ چوتھا بادشاہ ہوا ۔

یہاں تک کہ ہلاکوخان مغل نے ایران پر حملہ کیا ،اس نے اسماعیلیوں کے قلعہ کو فتح کرکے تمام اسماعیلیوں کو قتل کردیا ، قلعہ کو مسمار کرکے زمین کے برابر کردیا ۔ اس کے بعد ۱۲۵۵ ہجری میں آقا خان محلاتی جو کہ نزاری تھا اس نے ایران کے بادشاہ محمد شاہ قاجار کے خلاف شورش کی اورکرمان کے نزدیک جنگ میں شکست کھاکر بمبئی کی طرف فرار کرگیا اور باطنی نزاری کی دعوت کو اپنی امامت میں منتشر کیا اور اس کی دعوت اب تک باقی ہے اوراس وقت فرقہ ”نزاریہ“ کو ”آقاخانیہ“ کہاجاتا ہے ۔

ب : مستعلیہ : مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھے ،ان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اور ۵۵۷ ہجری قمری میں یہ فرقہ ختم ہوگیا اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے ”بُہرہ“ کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے ۔

ج : دروزیہ : گروہ دروزیہ ، شامات کے پہاڑوں میں مقیم ہیں ، اوائل میں یہ لوگ ، فاطمین مصر کی پیروی کرتے تھے لیکن فاطمیوں کے چھٹے خلیفہ کے دور میں ”نشتگین دروزی“ کی دعوت کے بعد باطنیہ سے ملحق ہوگئے ۔ دروزیةکی امامت متوقف ہوئی اور وہ غیبت کرکے آسمان پر منتقل ہوگیا اور دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آئے گا ، اگر چہ بعض لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ قتل ہوگیا تھا!

د : مقنعہ : یہ لوگ شروع میں ”عطاء مروی“ معروف بہ ”مقنعہ کی پیروی کرتے تھے جو کہ مورخین کے بقول ابومسلم خراسانی کے پیروکار تھے اور ابومسلم کے بعد اس نے ادعا کیا کہ ابومسلم کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ہے ،اس نے ایک عرصہ کے بعد نبوت کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا ! آخر کار ۱۶۲ ہجری میں جب قلعہ کیش کا محاصرہ کرلیا گیا اور اس کو اپنے قتل ہونے کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلائی اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اس آگ میں جل کر مرگیا ۔ ”عطاء مقنع“ کے پیروکاروں نے ایک مدت کے بعد اسماعیلیہ مذہب کو اختیار کرکے فرقہ باطنیہ سے ملحق ہوگئے(۱) ۔

 

۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۷۱۔

Read 4069 times