معتزلہ کی نظر میں قرآن کا اعجاز

Rate this item
(2 votes)

معتزلہ کی پیدائش دوسری صدی کے پہلے حصہ میں ہوئی ہے ۔ اور ساتویں ہجری تک یہ فکر باقی رہی۔ اوراس نے بہت ہی اچھے مطالب ،اسلامی دنیا کے سامنے پیش کئے.

خلاصہ

ملل و نحل ، کلامی اور تاریخی کتابوں میں معتزلہ اوران کے اکثر بزرگ علماء پر قرآن کریم کے معجزہ نہ ہونے کا الزام لگایا ہے اور کہا گیاہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا معجزہ نہیں سمجھتے ،یہ مقالہ اس لئے لکھا گیا ہے تاکہ اس مرسوم نظریہ پرمختلف کتابوں میں موجود قرائن و شواہد کے ذریعہ نقد و تنقید کی جائے، اس امید کے ساتھ کہ معتزلہ کی شناخت کے بعد اس میں نئے باب کا ضافہ ہوسکے ۔

معتزلہ کی پیدائش دوسری صدی کے پہلے حصہ میں ہوئی ہے ۔ اور ساتویں ہجری تک یہ فکر باقی رہی ۔ اور اس نے بہت ہی اچھے مطالب ،اسلامی دنیا کے سامنے پیش کئے جن میں سے اکثر مطالب ، مذہبی تعصب کی وجہ سے ختم ہوگئے ۔

توحید، عدل، منزلة بین منزلتین، وعد و وعید، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، معتزلہ کے اصولوں میں شمار ہوتے ہیں ، مسعودی (١) اس متعلق لکھتے ہیں: '' فھذا ما اجتمعت علیہ المعتزلہ و من اعتقد ما ذکرنا من ھذہ الاصول الخمسة کان معتزلیا: فان اعتقد الاکثر او ا لاقل لم یستحق اسم الاعتزال ، فلا یستحقہ الا باعتقاد ھذہ الاصول الخمسة '' (٢) لیکن معتزلہ صرف انہی پانچ اصل پر کیوں پاپند تھے اور انہوں نے دوسرے اہم اصولوں کو کیوںہاتھ نہیں لگایا ان سب چیزوں کو بیان کرنے کی اس مقالہ میں گنجائش نہیں ہے ۔

بعض غلط چیزوں کا معتزلہ کی طرف نسبت دینا اور ان کو تعصب سے دیکھنے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی قرآن کے معجزہ نہ ہونے کو اکثر معتزلہ کی طرف نسبت دینے لگے ۔ سب سے پہلے اس متعلق جس شخص نے صراحت کے ساتھ بیان کیا وہ الفرق بین الفرق کے مولف ، عبدالقاہر بغدادی (٣) ہیں : '' زعم اکثر المعتزلہ ان الزنج والترک والخزر قادرون علی الاتیان بمثل نظم القرآن و بما ھو افصح منہ و انما عدموا العلم بتالیف نظمہ و ذلک العلم مما یصخ ان یکون مقدورا لھم '' (٤) ۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں : '' زعم النظام مع اکثر القدریة ان الناس قادرون علی مثل القرآن و علی ما ھو ابلغ منہ فی الفصاحة والنظم'' (٥) یہ نسبتیں باعث بنی کہ مشہور مستشرق گلدزیھر(٦) نے بھی اس بات کی معتزلہ کی طرف نسبت دی : '' جی ہاں معتزلہ کے علماء میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو قرآن کے معجزہ نہ ہونے یا معجزہ ہونے کو ضعیف قرار دیتے ہیں (٧) اور انہوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے عبدالقاہر بغدادی کے اسی قول کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ایک بات ابوالعلاء معری(٨) کے رسالة الغفران سے لیا ہے اور کہا ہے : '' ابوالعلاء نے اس بات کا مذاق اڑاتے ہوئے نقل کیا ہے جو قرآن کے معجزہ ہونے کو ضعیف کرنے کی علامت ہے (٩) ۔ اس کے جواب میں کہنا ضروری ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ ابوالعلاء معری ، معتزلی نہیں ہے بلکہ معتزلہ کے سرسخت مخالف ہے (١٠) دوسری بات یہ ہے کہ ابوالعلاء نے رسالة الغفران میں ان باتوں کا مذاق اڑایا ہے ،لیکن قرآن کے معجزہ ہونے کے باب میں انہوں نے قرآن کے مشہور طاعن ابن راوندی کے خلاف (١١) بیان کیا ہے اور اس میں کوئی مسخرہ والی بات نہیں ملتی ۔

قرآن کے معجزہ ہونے کے سلسلہ میں نظریات

قرآن کے معجزہ ہونے کے متعلق اسلامی مذاہب کے علماء کے درمیان اختلاف ہے جن میں سے اہم اقوال کو ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں:

١ ۔ صرفہ : یعنی خداوند عالم نے لوگوں سے اس قدرت کو سلب کرلیا ہے کہ وہ قرآن کے مثل کوئی چیز پیش کرسکیں، اس نظریہ کو ماننے والی اہم شخصیات یہ ہیں: معتزلہ میں نظام، جاحظ، رمانی، ابو اسحاق نصیبی (١٢) ۔ شیعوں میں شیخ مفید (١٣) ، سید مرتضی (١٤) اور محقق طوسی (١٥) ۔ ظاہریہ میں ابن حزم اندلسی (١٦) ۔ اشاعرہ میں ابواسحاق اسفراینی (١٧) ۔ زیدیہ میں ابن مرتضی (١٨) ۔

٢ ۔ قرآن مجید کی بلاغت، قرآن کا معجزہ ہے ۔ اس نظریہ کو اکثر اشاعرہ نے قبول کیا ہے ۔

٣ ۔ قرآن مجید کی فصاحت معجزہ ہے ۔ ابوعلی ، ابوہاشم جبائی، قاضی عبدالجبار اور حاکم جشمی(١٩) نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔

٤ ۔ قرآن کا نظم معجزہ ہے ۔ جاحظ، زمخشری، ابوالقاسم بلخی ، (٢٠) سکاکی، ابوبکر باقلانی (٢١) نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔

٥ ۔ غیب کی خبریں اور قرآن مجید میں تناقض و اختلاف نہ ہونا اس کے معجزہ ہونے پر گواہ ہیں (٢٢) ۔

اعجاز قرآن سے متعلق معتزلہ کی کتابیں

١ ۔ تاریخ اور فہرست لکھنے والوں نے اس متعلق سب سے پہلی لکھی جانے والی کتاب کو جاحظ معتزلی (متوفی ٢٥٥) کی طرف نسبت دی ہے ، انہوں نے محمد بن احمد بن ابی دائود (٢٣) کو اس طرح لکھا :

میں نے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا کر قرآن کے استدلال اور تمام اعتراضوں کے جوا ب میں ایک کتاب تمہارے لئے لکھی ، لیکن تم نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے کہ تمہیں قرآن کے نظم سے متعلق استدلال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں قرآن کے مخلوق (٢٤) ہونے پر ایک رسالہ کی ضرورت ہے (٢٥) ۔

خیاط ( متوفی ٣٠٠) اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : '' ولایعرف کتاب فی الاحتجاج لنظم القرآن و عجیب تالیفہ و انہ حجة'' ۔ زمخشری اور میر سید شریف جرجانی (٢٩) نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے لیکن اس وقت یہ کتاب موجود نہیں ہے گویا یہ کتاب نابود ہوگئی ہے ۔ جاحظ کی دوسری دو کتابیں ہیں جن کا نام آیة القرآن (٣٠) اور حجج النبوة ہے ان میں سے پہلی کتاب موجود نہیں ہے اور دوسری کتاب حاحظ کے رسائل کے ضمن میں چھپی ہے ۔

٢ ۔ محمد بن یزید واسطی (٣١) کی کتاب '' اعجاز القرآن فی نظمہ و تالیفہ '' جو آج تک دیکھنے کو نہیں ملی ہے (٣٢) ۔

٣ ۔ احمد بن علی بن اخشید (٣٣) کی کتاب '' نظم القرآن '' یہ کتاب بھی موجود نہیں ہے (٣٤) ۔

٤ ۔ ''النکت فی اعجاز القرآن، مولف علی بن عیسی الرمانی (متوفی ٣٨٦) ۔ اعجاز قرآن سے متعلق تین رسالوں کے ضمن میں چھپی ہے ۔

٥ ۔ اعجاز القرآن، مولف ابوعمر سعید باھلی بصری (٣٥) یہ کتاب بھی ہم تک نہیں پہنچی ہے (٣٦) ۔

٦ ۔ قاضی عبدالجبار (متوفی ٤١٥) انہوں نے المغنی کی سولہویں جلد میں اعجازقرآن سے متعلق مفصل بحث کی ہے ۔

٧ ۔ اعجاز سورہ الکوثر، زمخشری (متوفی ٥٣٨) یہ کتاب حامد الخفاف کی تحقیق کے ساتھ مصر میں چھپی ہے ۔

٨ ۔ بیان الاعجاز فی سورة قل یا ایھا الکافرون ،مطرزی خوارزمی ۔ یہ کتاب حمد بن ناصر الدخیل کی تحقیق کے ساتھ سعودی عرب میں چھپی ہے ۔

یہ کتابیں معتزلہ کی تفسیری کتابوں کے علاوہ ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر ختم ہوگئی ہیں ۔ سبکی نے طبقات الشافعیہ میں نقل کیا ہے کہ ابویوسف قزوینی معتزلی (٣٧) کے کتب خانہ میں ابوالقاسم بلخی ،ابوعلی جبائی، ان کے بیٹے ابوہاشم، ابومسلم محمد بن بحر معتزلی (٣٨) کی تفاسیر کو حاصل کیا جاسکتا ہے (٣٩) ۔ اور یہ تفسیریں ابوبکر الاصم (٤٠) ، ابوالقاسم اسدی (٤١) ابوالنقاش (٤٢) موسی الاسواری (٤٣) شحام (٤٤) اور کشاف کے علاوہ دوسری تفاسیر ہیں ۔ البتہ ان سب تفسیروں میں سے تفسیر الکشاف اور ابومسلم اصفہانی اور ابوعلی جبائی کی تفسیریں باقی ہیں جن کو سید محمد رضا غیاثی نے ''بررسی آراء و نظریات تفسیری ابومسلم اصفہانی کے نام سے ایک کتاب میں جمع کیا ہے ۔

اعجاز قرآن کے سلسلہ میں معتزلہ کے بزرگ علماء کانظریہ

ابوھذیل علاف (٤٥) : قاضی عبدالجبار ، ابوہذیل سے اس طرح نقل کرتے ہیں : '' و اعلم ان ما نقول ما ذکر عن شیخنا ابی ھذیل بانہ قال : قد علمنا ان العرب کانت اعرف بالمتناقض من الکلام من ھولاء المخالفین و کانت علی ابطال امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ احرص و کان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یتحداھم بالقرآن و یقرعھم بالعجز عنہ و یتحداھم بانہ لوکان من عند غیراللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا و یورد ذلک علیھم تلاوة و فحوی لانہ کان علیہ السلام ینسبہ الی انہ من عنداللہ الحکیم و انہ مما لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ و یدعی انہ دلالة و ان فیہ الشفاء فلوکان الامر فی تناقض القرآن علی ما قالہ القول لکانت العرب فی ایامہ الی ذلک اسبق فلما رایناھم قدعدلوا عن ذلک الی غیرہ من الامور، علمنا زوال التناقض عنہ و سلامتہ علی اللغة '' (٤٦) اس عبارت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوھذیل ، قرآن میں تناقض نہ ہونے کو قرآن کے معجزہ ہونے پر دلیل سمجھتے ہیں اور وہ قائل ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے مشرکین کو چیلنج کیا اورجب وہ قرآن کریم کی نظیر نہ لا سکے تو دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔

نظام (٤٧) : نظام کا صرفہ کا نظریہ قرآن کے اعجاز سے متعلق ان کے مشہور نظریات میں سے ہے ۔ سب سے پہلے جس نے صرفہ کی گذارش دی ہے وہ فراء ہے (٤٨) پھر جاحظ نے رسالہ خلق القرآن (٤٩)اور خیاط نے الانتصار (٥٠) میں اس کی نسبت نظام کی طرف دی ہے ۔ ابوالحسن اشعری نے مقالات الاسلامیین میں لکھا ہے : '' و قال النظام الآیة و الاعجوبة فی القرآن ، ما فیہ من الاخبار عن الغیوب۔ فاما التالیف و النظم ، فقد کان یجوز ان یقدر علیہ العباد لولا ان اللہ منعھم بمنع و عجز احدثھما فیھم ''(٥١) ۔ اس کے بعد باقی مولفین نے ان سے نقل کیا ہے (٥٢) اس کتاب میں منقول مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام ، قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے تھے ۔ اس دلیل کی وجہ سے کہ غیب اور لوگوں کے دلوں کی خبر دی ہے، لیکن یہاں پراس کا بنیادی اعتراض ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چیلنج سے سازگار نہیں ہے ، کیونکہ نظام ، صرفہ کے قائل ہیں ۔ صرفہ نظام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے : نظام ، عدم اعجاز میں ایک اعجاز کے قائل ہیں ، یعنی خود قرآن کریم نظم اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ نہیں ہے ، لیکن لوگوں کوقرآن کریم کے مثل لانے سے عاجز کردینے کے اعتبار سے ابدی معجزہ ہے جس کی خداوند عالم نے قرآن کریم کے متعلق اعمال کیا ہے ۔

ابو موسی مردار (٥٣) : معتزلہ کی کتابوں میں قرآن کریم کے اعجاز کے متعلق مردار کا کوئی نظریہ نہیں ملتا، لیکن عبدالقاہر بغدادی نے ان کے متعلق لکھا ہے : ''وکان ھذا المردار زعم ان الناس قادرون علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن و بما ھو افصح منہ کما قال النظام'' (٥٤) ۔ دوسری جگہ انہوں نے لکھا ہے : '' وکان (المردار) قد افتتح دعوتہ بان قال لاتباعہ ان الناس قادرون علی مثل القرآن و علی ما ھو احسن منہ نظما '' (٥٥) پھر ابومظفر اسفراینی (متوفی ٤٧١) ، شہرستانی (متوفی ٥٤٨) نے کتاب الملل والنحل میں اس بات کو نقل کیا ہے : '' الثالثة : قولہ فی القرآن ،ان الناس قادرون علی مثل القرآن فصاحة و نظما و بلاغة و ھو الذی بالغ فی القول بخلق القرآن'' (٥٧) سمعانی (٥٨) نے بھی الانساب میں اس بات کو نقل کیا ہے (٥٩) ان سے پہلے ابوبکر باقلانی نے اعجاز القرآن میں اس قول کو مجمل طور سے بیان کیا ہے:

'' ولیس الصرفة اعجب من قول فریق منھم : ان الکل قادرون علی الاتیان بمثلہ و انما تاخروا عنہ لعدم العلم بوجہ ترتیب لو تعلموہ لوصلوا الیہ بہ ولا اعجب من قول فریق منھم: انہ لافرق بین کلام البشر و کلام اللہ تعالی فی ھذا الباب و انہ یصح من کل واحد منھا الاعجاز علی حد واحد ''(٦٠) ۔

گویا عبدالقاہر اور شہرستانی نے انہی سے لیا ہے ، اور دوسروں نے انہی کی پیروی کی ہے (٦١) ۔

جب ہم باقلانی کی اعجاز القرآن سے پہلے کی تالیفات میں مراجعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ انتساب نظر نہیں آتا ۔ یہاں تک کہ ابوالحسن اشعری نے جو کہ فرقہ اشاعرہ کے موسس ہیں، اپنی کسی کتاب میں اس کی نسبت ابوموسی مردار کی طرف نہیں دی ہے اور یہی نہیں بلکہ مقالات الاسلامیین میں اعجاز قرآن کریم کی بحث میں اس مطلب کو بیان نہیں کیا ہے ۔ ابن راوندی نے بھی صرفہ نظام کو نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض کیا ہے لیکن اس متعلق ابو موسی مردار کا کوئی کلام نقل نہیں کیا ہے ، جب کہ خیاط نے اپنی کتاب کے تین صفحوں کو انہی مطالب سے مخصوص کیا ہے جن کو ابن راوندی نے ابوموسی مردار کی طرف نسبت دی ہے ، لیکن قرآن کے معجزہ نہ ہونے سے متعلق ابوموسی نے کچھ نہیں لکھا ہے (٦٢) ۔ اسی طرح ابن حزم اندلسی (جو کہ باقلانی کے ہم عصر ہیں لیکن اشاعرہ میں سے نہیں ہیں ) نے صرفہ نظام کو بیان کیا ہے ، لیکن انہوں نے بھی ابوموسی کا کوئی کلام نقل نہیں کیا ہے (٦٣) عبدالقاہر اس قدر متعصب ہے وہ کہتا ہے:

مردار ، خلفاء کی مجلس میں نہیں جاتے تھے اور ان سے پیسہ نہیں لیتے تھے ، لہذا مجھے تعجب ہے کہ خلفاء نے ان کو کیوںقتل نہیں کیا ہے، جس نے خلفاء کی مجلس میں نہ جانے کی بدعت کو قائم کیا ہے (٦٤)لہذا جو واجب القتل ہے اس کی با نسبت یہ بہت کم قیمت ہے جس کو ضرور ادا کرنا چاہئے ۔

حاحظ (٦٥) : جاحظ نے حجج النبوة میں کہا ہے :

'' لان رجلا من العرب لو قرا علی رجل من خطبائھم و بلغائھم سورة واحدة، طویلة او قصیرة، لتبین لہ فی نظامھا و مخرجھا وفی لفظھا و طبعھا انہ عاجز عن مثلھا و لو تحدی بھا ابلغ العرب لظھر عجزہ عنھا... و لو اراد انطق الناس ان یؤلف من ھذا الضرب سورة واحدة، طویلة او قصیرة، علم نظم القرآن و طبعہ و تالیفہ و مخرجہ لما قدر علیہ ولو استعان بجیمع قحطان و معد بن عدنان '' (٦٦) ۔

دوسری جگہ پر اس طرح بیان کیا ہے :

قرآن کریم نے اپنے نظم و تالیف کی وجہ سے شعراء اور فصحاء کو مقابلہ کی دعوت دی ہے ،لیکن کسی نے اس کو مثبت جواب نہیں دیا ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ ادعا کرتا کہ میں بعض موارد میں اس کے مثل لے آیا ہوں (٦٧) ۔

البیان والتبین میں کہا ہے :

'' ولا بد من ان نذکر فی الجزء الثالث، اقسام تالیف جمیع الکلام و کیف خالف جمیع الکلام الموزون و المنثور و ھو منثور غیر مقفی علی مخارج الاشعار والاسجاع و کیف صار نظمہ من اعظم البرہان و تالیفہ من اکبر الحجج''(٦٨) ۔

لیکن افسوس کہ وہ اس وعدہ کو بھول گئے اور تیسری جلد میں شعوبیہ اور ان کا جواب دیتے ہیں ،اس عبارت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاحظ ، قرآن کو اشعار اور اسجاع کے مطابق سمجھتے ہیں ،یعنی وہ قرآن میں مسجع کے قائل ہیں ،لہذا ابوبکر باقلانی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:

جو بھی قرآن کریم میں سجع و صنع کاقائل ہے اس کو یہ قبول کرلینا چاہئے کہ قرآن میں نظم و تالیف کا کوئی اعجاز نہیں ہے اور خدا اوربشر کے کلام میں کوئی فرق نہیں ہے (٦٩) ۔

جاحظ ، خود قرآن کو معجزہ سمجھتے ہیں اورقرآن کریم کے نظم و تالیف کو معجزہ کی طرح سمجھتے ہیں جس کے مثل کوئی نہیں لاسکتا (٧٠) وہ صرفہ کو بھی قرآن کے سلسلہ میں قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

'' ...ومثل ذلک ما رفع من اوھام العرب و صرف نفوسھم عن المعارضةللقرآن بعد ان تحداھم الرسول بنظمہ ...و فی کتابنا المنزل الذی یدلنا علی انہ صدق، نظمہ البدیع الذی لا یقدر علی مثلہ العباد'' (٧١) ۔

البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ جاحظ ،ونظام کے برخلاف قرآن کریم کو ذاتی معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ افکار کی پریشانیوں کی وجہ سے خداوند عالم نے عرب کو قرآن کا معارض نہ لانے پر مجبور بنادیا ہے ۔ اس بناء پر صرفہ جاحظ ، صرفہ نظام سے جدا ہے ۔ یحیی بن حمزة علوی (٧٢ ) ''الطراز'' میں کہتے ہیں : ''تین قسم کا صرفہ موجود ہے : صرفہ نظام، صرفہ جاحظ اور صرفہ سید مرتضی'' ۔ اس کے بعد تینوں کی تحقیق کرتے ہیں اوران کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہیں (٧٣) اگر چہ صرفہ کی چوتھی قسم بھی پائی جاتی ہے جو کہ صرفہ ابن حزم ہے (٧٤) ۔

ہشام الفوطی (٧٥) اور عباد بن سلیمان (٧٦) کے بہت سے مطالب موجود نہیں ہیں ۔ اشعری ان استاد و شاگرد کے نظریات کے متعلق ،قرآن کے اعجاز کے سلسلہ میں لکھتا ہے :

قال ھشام و عباد : لا نقول ان شیئا من الاعرض یدل علی اللہ سبحانہ : و لا نقول ایضا ان عرضا یدل علی نبوة النبی(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)ولم یجعلا القرآن علماللنبی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) و زعما ان القرآن اعراض(٧٧) ۔

اشعری کے کلام سے ظاہر ہے کہ یہ دونوں قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کی نبوت کی دلیل نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ اس کو حادثات کا جزء سمجھتے ہیں اور حادثات کو کسی چیز کی دلیل قرار نہیں دیتے ۔ لیکن قاضی عبدالجبار نے ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے اس مطلب کو بیان کیا ہے ، کہا ہے:

یہ دونوں افراد قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے منکر نہیں ہیں، لیکن چونکہ یہ اعراض کے سلسلہ میں کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتے، لہذا اس وجہ سے انہوں نے یہ قبول کرلیا کہ قرآن کریم پیغمبرا کرم کے بعد آپ کی نبوت پر دلالت نہیں کرتا ۔ البتہ یہ دونوں افراد جبرئیل کے نازل ہونے کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلیل سمجھتے ہیں اور اس طرح سے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کو بھی قبول کرتے ہیں (٧٨) ۔

قاضی عبدالجبار نے عباد اور ہشام کی طرف جو نسبت دی ہے اگر یہ صحیح ہے تو ان دونوں کے نزدیک جبرئیل کا نازل ہونا خود ایک امر خارق العادة ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت پر دلالت کرتا ہے اور جب تک آپ پیغمبر تھے ، قرآن کریم آپ کی نبوت پر دلالت کرتا تھا لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد دلالت نہیں کرتا۔نظریہ اعراض کی وجہ سے یہ دونوں افراد اس نظریہ کے قائل ہوئے ہیں : '' جسم وہی جوہر اور جدا نہ ہونے والے اعراض ہیں، لہذا اگر کوئی عرض جسم سے جدا ہوجائے تو جسم نہیں رہے گا اور کسی دوسری چیز پر بھی دلالت نہیں کرے گا ۔ اور چونکہ قرآن کریم آواز ہے اور جسم سے جدا ہوگیا ہے لہذا کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا (٧٩) ابوبکر باقلانی اور عبدالقاہر جرجانی (٨٠) نے بھی اسی نسبت کو مجمل طریقہ سے بیان کیا ہے (٨١) ۔

ابو علی جبائی (٨١): ابو علی جبائی کی اس وقت کوئی کتاب موجود نہیں ہے ، لیکن قاضی عبدالجبار نے کتاب '' المغنی'' میں جگہ جگہ ابوعلی کب کتاب کا ذکر کیا ہے، منجملہ وہ کہتے ہیں : ہمارے شیخ ابوعلی قائل ہیں کہ طویل کلام اور کثیر تالیف میں جس نے علوم کو سیکھا ہو اس شخص کے لئے تناقض و اختلاف کو رفع کرنا بعید ہے لہذا قرآن کریم، خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہیں ہوسکتا جو کہ خود عالم بنفسہ ہے (٨٣) ۔

لیکن اعجاز قرآن کریم کے متعلق ابوعلی جبائی کا جو قول مشہور ہے وہ قرآن کریم کی فصاحت کا قول ہے ۔ اس بات کو علامہ حلی نے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے: ''فقال الجبائیان ان سبب اعجاز القرآن فصاحة'' یہ بات قاضی کے کلام سے بھی سمجھ میں آتی ہے، لیکن انہوں نے صراحت کے ساتھ اس بات کو کسی بھی جگہ ابوعلی کی طرف نسبت نہیں دی ہے ۔

ابوہاشم جبائی (٨٤) : ابوہاشم کی کتابیں بھی ا ن کے والد کی طرح موجود نہیں ہیں، اور ابوہاشم کے نظریات سے متعلق جوبات ہم جانتے ہیں وہ دوسروں سے منقول ہے ، قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں :

و قال شیخنا ابوہاشم (٨٥) : والعادة انقضت بان انزلہ جبرئیل علیہ فصار القرآن معجزا لنزولہ و علی ھذا الوجہ و لا ختصاص الرسول بہ، لان نزول جبرئیل ھو معجز، لکنہ لو انزل مالیس بمعجز لکان لا یعلم صدق رسول اللہ ...(٨٦) ۔

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہاشم جبرئیل کے نازل ہونے کو معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن یہ معجزہ اگر معجزہ جیسے کلام کی طرح نہ ہو تو پیغمبر کی صداقت پر دلالت نہیں کرے گا، اس وجہ سے ابوہاشم ، قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے ہیں اور اس کے اعجاز کو انہوں نے قرآن کریم کی فصاحت میں دیکھا ہے (٨٧) ابوہاشم ، قرآن کریم میں تناقض نہ ہونے کو معجزہ کی دلیل سمجھتے ہیں (٨٨) ۔

رمانی (٨٩) : رمانی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے : اعجاز قرآن کی سات قسمیںہیں ، انہی اقسام میںسے بلاغت، غیب کی خبریں اور صرفہ ہے (٩٠) اس کے بعد وہ اپنے پورے رسالہ کو قرآن کریم کی بلاغت سے مخصوص کرتے ہیں ، یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے مسجع ہونے کو فواصل کے نام سے تعبیر کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:

'' الفواصل حروف متشاکلة فی المقاطع توجب حسن افھام المعانی والفواصل ، بلاغة والاسجاع عیب و ذلک لان الفواصل تابعة للمعانی و اما الاسجاع فالمعانی تابعة لھا (٩١) ۔

دوسرے ادیبوں نے بھی انہی کی تقلید کی ہے اورقرآن کریم کی مسجع و مقفی عبارت کو ''فواصل'' کا نام دیا ہے، جس طرح ابوبکر باقلانی، عبدالقاہر جرجانی اور ابن ابی اصبع نے فواصل کا نام دیا ہے ۔ یہ بھی صرفہ نظام کو قبول کرتے ہیں اور اس کو قرآن کریم کے اعجاز کی عقلی قسموں میں سے سمجھتے ہیں (٩٢) ۔ پس رمانی کے نزدیک بلاغت، قرآن کریم کے اعجاز پر اہم دلیل ہے ، ایسی بلاغت جس پر بعد میں اشاعرہ نے بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔

قاضی عبدالجبار (٩٣) : قاضی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی کتابیں موجود ہیں ان کی اکثر کتابیں یمن میں موجود ہیں، قاضی عبدالجبار ، قرآن کریم کے اعجاز پر صرف فصاحت کو دلیل سمجھتے ہیں ، صرفہ اور غیب کی خبروں وغیرہ سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کریم سے مقابلہ کی دعوت دی ہے لہذا کوئی ایسی دلیل ہونا چاہئے جوپورے قرآن کو شامل ہو۔ اور یہ قسمیں قرآن کریم کے بعض حصہ کو شامل ہیں، البتہ یہی قسمیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہیں ، لیکن اعجاز قرآن کی دلیل نہیں ہیں(٩٤) ۔

زمخشری (٩٥) : آقائے صاوی الجوینی کی دو کتابیں منھج الزمخشری فی تفسیر القرآن اور بیان اعجاز قرآن ہیں، اورانہوں ان میں اس کے متعلق مفصل تحقیق کی ہے ، یہ فرماتے ہیں : زمخشری قرآن کریم کو دو طرح سے معجزہ سمجھتے ہیں: ایک نظم کے اعتبار سے اور دوسرے غیب کی خبروں کے اعتبار سے (٩٦)اور خود زمخشری اپنی کتاب الکشاف میں جگہ جگہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں (٩٧) اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم میں ایسا نظم ہے جواس کے معانی سے موثق کریقہ سے وابستہ ہے اور یہی قرآن کریم کے اعجاز پر دلیل ہے (٩٨) ۔

مطرزی خوارزمی (٩٩) یہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں:

'' وجمع فی ھذہ الکلم المعدودة والجمل المحدودة بین اسباب الفصاحة و ارکان البلاغة من الحذف و الاضمار ...'' (١٠٠) ۔

ان کی اس عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کریم کے اعجاز پر فصاحت و بلاغت کودلیل سمجھتے ہیں ۔

سکاکی (١٠١) : سکاکی مفتاح العلوم میں کہتے ہیں :

'' واعلم ان شان الاعجاز عجیب یدرک و لا یمکن وصفہ ... و مدرک الاعجاز عندی ھو الذوق و ان علمی المعانی والبیان ھما الوسیلة الاکتساب الذوق الذی تدرک بہ مواطن الجمال البلاغی علی انھما لا یکشفان کشفا تاما علی وجہ الاعجاز لتعذر الاحاطہة بکل اسرار القرآن البلاغیة (١٠٢) ۔

سکاکی کی نظر میں قرآن کریم کی بلاغت ، معجزہ کی دلیل ہے، لیکن اس بلاغت کو سمجھنا انسانوں کے ذوق سے وابستہ ہے ۔

معتزلہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اس طرح کہ ٧٣٠ ہجری میں ابن بطوطہ نے خوارزم کا سفر کیا وہ کہتے ہیں:

شہر اورگنج کے اکثر علماء معتزلی تھے ،لیکن یہ اپنے مذہب اور اعتقادات کو ظاہر کرنے سے پرہیز کرتے تھے، کیونکہ سلطان محمد اوزبک اور اس کے حکام کو شہر اورگنج میں اشاعر مذہب کو مانتے تھے (١٠٣) ۔

اس کلامی فرقہ سے جوچیز ابھی باقی بچی ہے وہ ان کی بہت ہی کم کتابیں ہیں ، البتہ ان سے منسوب اقوال دوسرے فرقوں کی کلامی کتابوں میں موجود ہیں ۔

نتیجہ :

جو کچھ کہاگیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام معتزلی قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے تھے لیکن قرآن کریم کے اعجاز کی قسموں میں ان کو اختلاف تھا جو کہ فطری امر ہے ۔ لیکن چونکہ اشاعرہ ان کے بہت زیادہ مخالفت تھے لہذا انہوں نے معتزلیوں کی طرف ناروا نسبتیں دی ہیں، اور چونکہ اشاعر مذہب کے مصنفین و مولفین بہت زیادہ تھے اس لئے ان کے نظریات کی طرف زیادہ توجہ کی گئی ہے اس وجہ سے معتزلہ کی طرف قرآن کریم کے معجزہ نہ ہونے کی نسبت رائج ہوگئی ہے ۔

حاشیہ جات :

١ ۔ ابوالحسن علی بن حسن مسعودی(متوفی ٣٥٦ھ) شاید پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود کے پوتے ہیں ۔ یہ بغداد کے رہنے والے تھے اور مصر میں مقیم تھے ، فسطاط میں ان کی قبر ہے ۔ مسعودی نے بہت سے اسلامی شہروں کا سفر کیا ہے ۔ ان کی مشہور کتاب مروج الذب والتنبیہ والاشراف ہے ، ان کے مذہب میں علماء کو ا ختلاف ہے : زرکلی ، ذہبی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ معتزلی ہیں، طبقات الشافعیہ نے اس بات کو ''قیل'' (کہا گیاہے) کی صورت میں بیان کیا ہے ۔ بعض علماء ان کو شیعہ سمجھتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے شیعہ اماموں کو لفظ '' امام'' سے یاد کیا ہے ، ایک گروہ ان کو اسماعیلی سمجھتا ہے ، کیونکہ انہوں نے اپنی اکثر و بیشتر عمر کا حصہ مصر میں خلفائے فاطمی کی حکومت میں گذارا ہے ۔

٢ ۔ مروج الذہب ، جلد ٣، ص ٢٢٢، طبع درالاندلس، بیروت ١٣٨٥ ۔

٣ ۔ ابومنصور عبدالقاہر بن طاہر بن محمد تمیمی بغدادی ، فقیہ، متکلم، ادیب ، شافعی ، اشعری مذہب۔ ابواسحاق اسفراینی کے شاگرد اور ابومظفر اسفراینی کے استاد ہیں، ان کا ٤٢٩ ہجری میں اسفراین میں انتقال ہوا۔

٤ ۔ الفرق بین الفرق، ص ١٤٠، تحقیق محمد راہد الکوثری، نشر الثقافة الاسلامیة، مصر۔

٥ ۔ عبدالقاہر بغدادی ، اصول الدین، ص ١٤٨، دارالکتب بیروت۔

٦ ۔ مستشرق مجاری یھودی الاصل، شاگرد محمد عبدہ و طاہر الجزایری، متوفی ١٩٢١ ۔

٧ ۔ گلدزیھر، مذاہب التفسیر الاسلامی، ص ١٤٢ ، ترجمہ عبدالحلیم نجار ، طبع دار اقرا، ١٤٠٥ ۔

٨ ۔ ابوالعلاء احمد بن عبداللہ بن سلیمان تنوخی، شاعر اور عرب کا نابینا متفکر، حلب کے نزدیک معرة النعمان میں ان کی ولادت ہوئی ،انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ انزوا میں گذرا ہے اور بہت سے بزرگوں کی ہجو کی ہے ۔ لیکن کسی کی بھی مدح نہیں کی ہے ۔ ان کا ٣٦٣ ہجری میں اسی جگہ انتقال ہوا۔ اس نے معتزلی، جبری مذہب، مزدکی، شیعہ، قرمطی، برہمایی دروزی اور اہل تقیہ کی طرف بے دینی کی نسبت دی ہے ۔ ان کا لزومیات کا دیوان ١٣٠٣ ہجری میں ہندوستان میں چھپا ہے ۔ ابوالعلاء کے سلسلہ میں زیادہ معلومات کے لئے رجوع کریں : الجامع فی اخبار ابی العلاء المعری و آثارہ۔ تالیف محمد سلیم الجندی، طبع ، دمشق۔

٩ ۔ مذاہب التفسیر الاسلامی، ص ١٤٣ ۔

١٠ ۔ ابوالعلاء ، عقل پر عمل کرنے والے ہیں، اور بعض اصولوں میں معتزلہ کے ساتھ ہیں، لیکن انہوں نے اپنے ایک شعر میں معتزلی ہونے کو منع کیاہے: و معتزلی لم اوافقہ ساعة۔ اقول لہ فی اللفظ دینک اجزل۔ مراجعہ کریں: الجامع فی اخبار ابی العلاء ، ج ١، ص ٤٠٥ ۔

١١ ۔ احمد بن یحیی بن اسحاق ریوندی، نیشاپور کے دیہات ریوند کے رہنے والے، معروف بہ ابن راوندی، اپنی عمر کے اوائل میں معتزلی تھے ، پھر اعتزال سے پلٹ گئے اور معتزلہ کے خلاف بہت سی کتابیں لکھیں ۔ ان کی کتاب فضیحة المعتزلہ بہت مشہور ہے ۔ قرآن کریم کے باب میں معتزلہ کی تاویلات کے خلاف انہوں نے کتاب الدامغ لکھی ہے ۔ ان کی کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچی ہے ۔ یہ اسلامی مذاہب کے درمیان ملحد اور زندیق کے نام سے مشہور ہے ۔

١٢ ۔ ابو اسحاق ابراہیم بن عیسی النصیبی کا شمار بصرہ کے معتزلہ میں ہوتا ہے اور ابوحیان توحیدی کے ہم عصر ہیں ۔ ابوحیان نے المقابسات اور مثالب الوزیرین میں ان کی بہت برائی کی ہے ۔ حاکم جشمی کہتے ہیں: یہ سید مرتضی کے استاد ہیں ۔

١٣ ۔ اوائل المقالات، ص ١٨، تحقیق ڈاکٹر مہد ی محقق، طبع دانشگاہ تہران، ١٣٧٢ ۔

١٤ ۔ الذخیرہ فی علم الکلام، ص ٣٧٨، تحقیق سید احمد حسینی، طبع جامعہ مدرسین، ١٤١١ ۔

١٥ ۔ کشف المراد، ص ٣٨٤، طبع موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١٣٩٩ ۔

١٦ ۔ ابن حزم اندلسی، قرطبہ میں پیدا ہوئے ۔ یہ فروع میں شافعی اور اصول میں ظاہری تھے ۔ اشعری اور صوفیوں کے مخالف تھے ۔ ان کا ٤٥٦ ہجری میں انتقال ہوا۔ الفصل، جلد ٣، ص ٣١ ۔ طبع دار الجیل بیروت۔

١٧ ۔ ایجی نے المواقف (جلد ٨، ص٢٤٦) کی شرح میں کہا ہے: صرفہ کے قائلین میں سے ایک شخص ابواسحاق سفراینی ہے، جو ہم ( اشاعرہ) میں سے ہے ۔ لیکن عبدالقاہر بغدادی کے دو طرح عمل کرنے کی وجہ سے اس کے لکھنے والے کو تعجب میں ڈالا ہے، وہ اصول الدین میں نظام کو صرفہ کا قائل ہونے کی وجہ سے کافر جانتے ہیں، جب کہ ان کے استاد ابواسحاق اسفراینی بھی صرفہ کے قائل ہیں ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابوبکر باقلانی نے اعجار القرآن میںنظام پر حملہ کیا ہے کہ وہ صرفہ کے کیوں قائل ہیں، جب کہ وہ جانتے تھے کہ ابوالحسن باہلی کے درس میں ان کے ہمشاگرد یعنی ابواسحاق اسفراینی بھی صرفہ کے قائل ہیں ۔ لیکن ان کے متعلق ایک بات بھی نقل نہیں کی ہے ، اس سے بھی بڑھ کر آقای توفیق الفکیکی کا نظریہ ہے جس کوانہوں نے رسالة الاسلام مجلہ میں بیان کیا ہے کہ سید مرتضی اور شیخ مفید صرفہ کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ انہوں نے یہ بات بحث جدل کی وجہ سے کہی ہے ۔ ڈاکٹر مہدی محقق نے بھی اوائل المقالات کے حاشیہ پر استاد توفیق الفکیکی کے متعلق کہا ہے : استاد توفیق نے ایک مقالہ قیم اور خوبی رسالة الاسلام میں قرآن کے اعجاز کے متعلق لکھا ہے جب کہ استاد توفیق ، شیخ مفید ، سید مرتضی،خواجہ نصیر الدین طوسی اور علامہ حلی کے لئے اچھے امانتدار نہیں ہیں، اور ان کے نظریات کو صرفہ کے باب میں بیان نہیں کیا ہے لیکن ان کے نظریات کو فصاحت و بلاغت کے باب میں بیان کیاہے ۔

١٨ ۔ المہدی لدین اللہ احمد بن یحیی بن مرتضی ، یمن میں زیدیوں کے دو امام ہیں،(متوفی ٨٤٠) ۔ صاحب طبقات المعتزلہ والبحر الزخار۔

١٩ ۔ امام حاکم ابو سعد محسن بن محمد بن کرامة جشمی بیہفی، محمد بن حنفیہ کے پوتے، متوفی ٤٩٤ ہجری ۔ اور قاضی عبدالجبار کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔ اصول میں معتزلی مذہب ہیں اور زیدیہ میں شمار ہوتے ہیں ۔

٢٠۔ عبداللہ بن احمد بن محمود ، معروف بہ ابوالقاسم کعبی یا بلخی معتزلہ کے بزرگ متکلمین میں آپ کا شمار ہوتا ہے ، آپ عبدالرحیم خیاط کے شاگرد، بلخ خراسان میں مقیم ، طبرستان کے علویوں کے کاتب ہیں متوفی ٣١٩ ۔ آپ کے اور ابن قبہ شیعی کے ایک دوسرے کے جوابات مشہور ہیں ۔ ان کی کتاب المقالات ، طبقات المعتزلہ کے ضمن میں چھپی ہے ۔

٢١ ۔ قاضی ابوبکر بن طیب بن باقلانی کا شمار اشاعرہ کے بزرگ متکلمین میں ہوتا ہے یہ بصرہ میں پیدا ہوئے اور بغداد میں مقیم تھے ، ابوالحسن باہلی بصری اور ابن مجاہد کے شاگرد ہیں ،ابن فورک اور ابواسحاق اسفراینی کے ہم کلاسی ہیں، متوفی ٤٠٣ ہجری ۔ شیخ مفید کے ساتھ ان کے مباحثیں مشہور ہیں ۔

٢٢ ۔ مراجعہ کریں : اعجاز القرآن باقلانی، دلائل الاعجاز، اسرار البلاغة و رسالة الشافعیة عبدالقادر جرجانی ۔ الاتقان سیوطی، تحریر التحبیر ابن ابی صبع مصری ۔ شرح مقاصد، جلد پنجم ۔ شرح المواقف ایجی، جلد ٨، ص ٢٤٤ ۔ ایجی نے نظم قرآن کریم کو بعض معتزلہ اور بلاغت کو جاحظ کی طرف منسوب کیا ہے جو کہ برعکس ہے ۔ المنتقذ من التقلید، جلد اول۔ الذخیرة سید مرتضی ۔

٢٣ ۔ ابو ولید محمد بن احمد بن ابی دائود ، متوکل کے زمانہ میں بغداد کے قاضی تھے ۔ متوفی ٢٣٩ہجری ۔

٢٤ ۔ امامیہ قرآن کریم کے سلسلہ میں لفظ خلق اور مخلوق کواستعمال نہیں کرتے ، بلکہ امام رضا علیہ السلام کی ایک روایت کی بناء پر کلمہ محدث کو استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن معتزلہ خلق قرآن کریم پر بہت زیادہ اصرار کرتے ہیںجس کی وجہ سے واقعہ محنت رونما ہو ۔

٢٥ ۔ رسائل جاحظ، ج ٣، ص ٢٨٧ ۔ رسالة خلق قرآن، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون۔

٢٦ ۔ ابوالحسین عبدالرحیم خیاط، رئیس معتزلہ بغداد۔ جعفر بن حرب اور جعفر بن مبشر کے شاگرد اور ابوالقاسم بلخی، صاحب کتاب الانتصار کے استاد ہیں ، فرقہ خیاطیہ انہی سے منسوب ہے ۔

٢٧ ۔ الانتصار، ص ٢٢٦، تحقیق محمد حجازی، مکتبة الثقافة الدینیة ، مصر ۔

٢٨ ۔ اعجاز القرآن کریم، ص ٦، ص تحقیق سید احمد صقر ۔

٢٩ ۔ الکشاف ، ص ١٥ ۔

٣٠۔ ابن ندیم ، الفہرست ، ص ٢٠٨ ۔ الحیوان ، جلد ٣، ص ٨٦ ۔

٣١ ۔ ابوعبداللہ محمد بن یزید واسطی، شاگرد ابوعلی جبائی، معتزلہ بغداد کے بزرگ، متوفی ٣٠٦ ہجری ۔

٣٢ ۔ الفہرست، ص ٢١٨ ۔

٣٣ ۔ ابوبکر احمد بن علی بن معجور ، معروف بہ ابن اخشید، فقیہ، متکلم و مفسر ، بصرہ کے معتزلہ کے رئیس، ابوعبداللہ صیمری کے شاگرد، شافعی مذہب، متقی اور پرہیزگار تھے آپ کے والد عباسی حکومت کے گورنر تھے ۔ متوفی ٣٢٦ ۔

٣٤ ۔ الفہرست ، ص ٢٢٠۔

٣٥ ۔ ابو عمر محمد بن سعید باہلی بصری، قاضی بصرہ ، ابوعلی جبائی کے استاد، متوفی ٣٠٠ ہجری سے قبل، وعظ و نصیحت میں بہت زیادہ مشہور تھے ۔ اس طرح کہ متکلمین بھی آپ کی نصیحت کو سن کر گریہ کرتے تھے ۔ ان کا شمار بصرہ کے معتزلہ میں ہوتا ہے ۔

٣٦ ۔ الفہرست ، ص ٢١٩ ۔

٣٧ ۔ ابو یوسف عبدالسلام بن محمد بن یوسف قزوینی، شاگرد قاضی عبدالجبار، بصرہ کے معتزلہ، متوفی ٤٨٨ ۔

٣٨ ۔ ابومسلم محمد بن بحر اصفہانی، کاتب، نحوی، ادیب ، معتزلی مذہب کے متکلم و مفسر ۔ عباسی حکومت کے رجالی، عبدالرحیم خیاط کے شاگرد، علویان طبرستان کے دبیر، متوفی ٣٢٢ ۔

٣٩ ۔ طبقات الشافعیہ، ج ٥، ص ١٢١ ۔

٤٠۔ ابوبکر عبدالرحمان بن کیسان الاصم، واصل بن عطاء کے شاگرد، تفسر میں ابوعلی جبائی کے استاد اور ابوھذیل سے اس نے بہت سے مناظرے کئے ہیں ۔ یہ حضرت امیر (علیہ السلام) کو ان کے بہت سے افعال میں خاطی اور معاویہ کو اس کے بعض افعال میں صحیح سمجھتا تھا ۔ ابوبکر الاصم معتزلی، ابوالعباس الاصم اشعری کے علاوہ کوئی اور ہے اور یہ ابو مظفر اسفراینی کا استاد ہے ۔

٤١ ۔ عبیداللہ بن محمد جرو اسدی، معروف بہ ابوالقاسم اسدی، شاعر، نحوی اور عضدالدولة دیلمی کے کاتب، ابوعلی فارسی اور ابوسعید سیرافی کے شاگرد ہیں ، ان کا شمار بغداد کے معتزلہ میں ہوتا ہے متوفی ٣٨٧ ہجری ۔

٤٢ ۔ ابوبکر محمد بن حسن بن محمد ، بغداد کے معتزلی ، متوفی ٣٥١ ۔ ان کی تفسیر کا خطی نسخہ دارالکتب مصر اور برطانیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے ۔

٤٣ ۔ ابو علی موسی بن سیار اسواری، ابوھذیل اور نظام کے شاگرد، یہ زبان عربی اور فارسی میں تفسیر کہتے تھے ۔ انہوں نے تیس سال تک قرآن کریم کی تفسیر بیان کی لیکن تفسیر پوری نہیں ہوئی ۔ ان کے انتقال کی تاریخ معلوم نہیں ہے ۔

٤٤ ۔ ابویعقوب یوسف بن عبیداللہ بن شحام، معتزلہ بصرہ کے رئیس، ابو علی جبائی کے استاد، ابوھذیل علاف کے شاگر تھے، متوفی ٢٦٧ ۔

٤٥ ۔ محمد بن ھذیل بن عبداللہ ، معتزلہ کے سب سے پہلے راہنماوں میںسے ہیں ۔ چونکہ ان کا گھر گھانس بیچنے والوں کے محلہ میں تھا اس لئے ان کو علاف کہتے تھے ۔ یہ عثمان الطویل کے شاگر د ہیں ۔ بحث جدل میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ ابوھذیل کی وفات کو ٢٢٧، ٢٣٠ اور ٢٣٥ ہجری نقل کیا ہے لیکن ٢٣٥ ہجری کا قول جس کو سید مرتضی اور ابن مرتضی نے نقل کیا ہے ، یقینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ قاضی عبدالجبار کہتے ہیں : جب علاف دنیا سے گئے تو خلیفہ عباسی واثق نے ان کے تعزیت کے جلسہ میں شرکت کی ۔ اور واثق کا انتقال ٢٣٢ ہجری میں ہوا ہے ۔ لہذا علاف کا انتقال واثق سے پہلے ہوا ہے ۔ اس بناء پر ٢٣٠ ہجری کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

٤٦ ۔ المغنی ، ١٦ ، صفحہ ٣٨٧ ۔

٤٧ ۔ ابراہیم بن سیار بن ہانی، معروف بہ نظام، ابوہذیل علاف کے بھانجے اور شاگرد تھے ، بصرہ سے بغداد گئے اور فلسفہ کی جن کتابوں کا اسی وقت ترجمہ ہوا تھا ان کامطالعہ کیا ۔ پھر بصرہ واپس آکر ابوہذیل سے مناظرہ کیا ۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے معتزلہ کے مباحث میں فلسفہ کو داخل کیا اور اپنے خاص نظریات کو اس میں بیان کیا ۔ ان کی تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے:

الف : ڈاکٹر طہ حاجری کتاب '' الجاحظ حیاتہ و آثارہ '' میں اس طرح نقل کرتے ہیں : اکثر و بیشتر تراجم اور تاریخ کی کتابوں نے لکھا ہے : نظام کا ٣٦ سال کی عمر میں ٢٢١ یا ٢٣١ ہجری میں انتقال ہوا ، لیکن بہت سے شواہد و قراین کے باوجود ان دونوں میں سے ایک بات غلط ہے ۔

ب : معجم الادباء (جلد ٥، ص ١٦٩) نقل کرتے ہیں کہ ہارون الرشید کے سامنے نظام اور ضرار بن عمر کے درمیان مناظرہ ہوا اور چونکہ ہارون الرشید ان کی بحثوں سے کچھ نہ سمجھ سکا تو اس نے ان کو کسائی نحوی کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مناظرہ ١٩٠ ہجری سے پہلے رونما ہوا ہوگا کیونکہ کسائی کا ١٨٩ ہجری میں انتقال ہوا ہے اور ہارون الرشید کا ١٩٣ ہجری میں انتقال ہو ا ہے ۔ اور اگر یہ قبول کرلیں کہ نظام کا ٣٦ سال کی عمر میں ٢٢١ ہجری میں انتقال ہوا ہے تو ان کی ولادت ١٨٥ ہجری میں ہونا چاہئے اور مناظرہ کے وقت ان کی عمر تین یا چار سال کی ہوگی اور ہارون الرشید چار سال کے بچہ کی پیچیدہ گفتگو کو نہیں سمجھ پایا ۔

ج : سید مرتضی ،امالی (جلد ١، ص ١٨٩) اور '' المنیة'' (ص ١٥٢) میں نقل کرتے ہیں کہ نظام کے والد ان کو خلیل بن احمد فراہیدی کے پاس پڑھنے کے لئے لے گئے اور اس وقت نظام جوان تھے ۔ جب کہ خلیل بن احمد کا ١٧٠ سے ١٧٥ ہجری کے درمیان انتقال ہوا ہے ۔ یعنی نظام کے پیدا ہونے سے پانچ یا دس سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔ نظام جس وقت جوان تھے اس وقت وہ خلیل بن احمد کے درس میں حاضر ہوتے تھے ۔

٤٨ ۔ ابوزکریا یحیی بن زیاد بن عبداللہ ، معروف بہ فرائ، نحو میں کوفیوں کے امام، مامون کے بیٹوں کے استاد، متوفی ٢٠٦ ہجری قمری ۔ فراء کے شیعہ ہونے کے سلسلہ میں رسالة الاسلام مجلہ (١٥/٩٦)میں مراجعہ فرمائیں ۔ معانی القرآن ، ص ٣٠١، ڈاکٹر عبدالرئوف مخلوف کی کتاب الباقلانی و کتاب اعجاز القرآن ، ص ٣٧ کے نقل کے مطابق۔

٤٩ ۔ رسائل جاحظ جلد ٣، ص ٢٨٧ ۔

٥٠۔ الانتصار ، ص ٦٨ ۔

٥١ ۔ مقالات الاسلامیین ، ص ٢٧١ ۔

٥٢ ۔ اعجاز القرآن ، ص ٤٦، کشف المراد ، ص ٣٨٤ ۔ الاتقان ، ص ١٠٠٦ ۔ التبصیر فی الدین، ص ٧٢ ۔ الملل و النحل بغدادی ، ص ٩٨ ۔ الفرق بین الفرق ، ص ٨٧، ٩٧ ۔

٥٣ ۔ ابوموسی ، عیسی بن صبیح ، ملقب بہ مردار یا مزدار، معروف بہ راہب معتزلہ، شاگرد بشر بن معتمر، رئیس معتزلہ بغداد، استاد جعفر ین، متوفی ٢٢٦ ق۔

٥٤ ۔ الفرق بین القرآن ، ص ١٠٠۔

٥٥ ۔ الملل و النحل ، ص ١٠٩، تحقیق ڈاکٹر البیر نصر نادر۔

٥٦ ۔ ابو مظفر طاہر بن محمد اسفراینی، شافعی اشعری مذہب۔ انہوں نے نظام الملک کی پیشنہاد پر توس کا سفر کیا۔ التبصیر فی ا لدین، ص ٧٢، عالم الکتب۔

٥٧ ۔ الملل والنحل ، ص ٦٧ ۔

٥٨ ۔ ابوسعد عبدالکریم بن محمد تمیمی سمعانی، اشعری مذہب، متوفی ٥٦٢، صاحب کتاب معروف الانساب۔

٥٩ ۔ عبداللہ بن صالح، الملل والنحل الواردة فی کتاب الانساب ، ص ٦٧ ۔

٦٠ ۔ اعجاز القرآن، ص ٤٦ ۔

٦١ ۔ مثل محمد بن یوسف کرمانی، (م ٧٨٦) کتاب الفرق الاسلامیہ میں شاگرد عضدالدین بن ایجی ، ص ٢١ ۔

٦٢ ۔ الانتصار ، ص ١١٧ ۔ ٣١ ۔

٦٣ ۔ الفصل فی الملل والاھواء والنحل ، ٣/ ٢٥ ۔ ٣١ ۔

٦٤ ۔ الملل والنحل ، ص ١٠٩ ۔

٦٥ ۔ عمروبن بحر جاحظ ، متوفی ٢٥٥، بصرہ کے متکلم اور ادیب، نظام کے شاگرد، مختلف تصنیفات کے مالک۔ وہ کہتے ہیں : ہمارے زمانہ میں بصرہ کی یہ حالت تھی کہ سب لوگ متکلم ہونا پسند کرتے تھے لہذا ہم نے بھی علم کلام سیکھا۔

٦٦ ۔ رسائل جاحظ، رسالة حجج النبوة، ج٣، ص ٢٢٩ ۔

٦٧ ۔ گذشتہ حوالہ، ص ٢٥١ ۔

٦٨ ۔ البیان والتبیین، ج ١، ص ٢٤٢، تحقیق حسن سندوبی ۔

٦٩ ۔ اعجاز القرآن ، ص ٨٤ ۔

٧٠ ۔ جاحظ کے نزدیک اعجاز قرآن کے سلسلہ میں، مراجعہ کریں : بینات ، شمارہ ١٦ و ١٧ ۔

٧١ ۔ الحیوان، ج ٤، ص ٨٩ ، ٩٠ ۔ جلد ٦، ص ٢٦٩ ۔

٧٢ ۔ الامام المؤ ید، یحیی بن حمزہ زیدی، متوفی ٧٤٩، یمن میں زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے ۔ بہت زیادہ تالیفات کے مالک۔ ان کے متعلق ڈاکٹر احمد محمود صبحی کی کتاب'' الامام المجتہد یحیی و آراء الکلامیہ '' ابھی چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ۔

٧٣ ۔ الطراز المتضمن لاسرار البلاغة و حقایق الاعجاز، جلد ١، ص ٥ ۔ جلد ٣، ص ٣٩١ ۔ رسالة الاسلام، ج ٤، ص ٥٩ ۔

٧٤ ۔ الفصل ، ج ٣، ص ٣١ ۔

٧٥ ۔ ابو محمد ہشام بن عمروالفوطی، شاگرد ابوہذیل علاف، بصرہ کے معتزلہ، اعراض و فنا میں خاص عقیدہ کے مالک، متوفی ٢٣٠ ہجری قمری ۔

٧٦ ۔ عباد بن سلیمان، شاگرد ہشام الفوطی، بصرہ کے معتزلہ، خاص عقاید کے مالک، ان کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہے ۔

٧٧ ۔ مقالات الاسلامیین ، ص ٢٧١ ۔

٧٨ ۔ المغنی، ج ١٦، ص ٢٤٢ ۔

٧٩ ۔ مقالات الاسلامیین ، ج٢، ص ٦ ۔

٨٠ ۔ عبدالقاہر جرجانی، متوفی ٤٧١ ۔ اشعری مذہب کے متکلم، شافعی مذہب کے فقیہ، نحو میں ابو علی فارسی کے شاگرد۔ دلائل الاعجاز، رسالة الشافعیہ اور اسرار البلاغہ کے مولف۔

٨١ ۔ اعجاز قرآن،ص ٢٣ ۔ رسالة الشافعیة، ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن کے ضمن میں، ص ١٤٢، کتاب دلائل الاعجاز کے ضمن میں، ص ٦٢٥ ۔ دلائل الاعجاز کے محقق اس کتاب کے مقدمہ میں کہتے ہیں : ''اعجاز القرآن کے اثبات سے پہلے عبدالقاہر جرجانی کی پوری کوشش اعجازقرآن کی اقسام کے سلسلہ میں جاحظ اور قاضی عبدالجبار کے قول کی مخالفت ہوتی تھی ، یہاں سے اشاعرہ اور معتزلہ کا اختلاف اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے ۔

٨٢ ۔ ابوعلی محمد بن عبدالوہاب جبائی، معتزلہ بصرہ کے سب سے بڑے متکلم، ابویعقوب شحام کے شاگرد، متوفی ٣٠٣ ۔ ابو علی کی تفسیر ابن طاووس کے پاس تھی وہ ان کے متعلق کہتے ہیں: ابو علی نے بنی ہاشم کے ساتھ قلم وبیان سے جنگ کی ہے لیکن ابن طاووس کا یہ کلام ، حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت میں ابوعلی کے نظریہ کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بصرہ کے معتزلیوں کا بغداد کے ساتھ سب سے اہم اختلاف حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) کا تینوں خلفاء سے افضل ہونے کی وجہ سے تھا ۔ بصرہ میں ابوہذیل ، عثمان پر حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت کے قائل تھے ، لیکن واصل، عمرو ، عثمان طویل، جاحظ ، شحام اور اصم وغیرہ خلفاء کو حضرت علی (علیہ السلام) پر افضل سمجھتے تھے ۔ ابو علی جو کہ بصرہ کے معتزلہ کے رئیس تھے، نے بغداد کا سفر کیااور پھر اس بات کے قائل ہوجاتے ہیں کہ اگر طائر والی خبر صحیح ہے تو علی (علیہ السلام) خلفاء سے افضل ہیں ۔ ان کے بعد معتزلہ میں سے کسی ایک نے بھی حضرت امیر علیہ السلام کی افضلیت کو خلفاء پر قبول نہیں کی ہے اسی وجہ سے قاضی عبدالجبار ، عثمان کو معتزلہ میں شمار نہیں کرتے تھے ۔

٨٣ ۔ المغنی ، ج ١٦ ، ص ٣٢٨ ۔

٨٤ ۔ ابوہاشم عبدالسلام بن ابوعلی جبائی، رئیس فرقہ بھشمیہ، بصرہ کے معتزلی، متوفی ٣٢١، اپنے والد کے شاگرد، خاص عقاید کے مالک، ان کی کتاب جامع صغیر ، ابن طاووس کے پاس تھی ۔

٨٥ ۔ بعض تراجم اور تذکرہ لکھنے والوں نے قاضی عبدالجبار کو ابوہاشم کا شاگرد بیان کیا ہے ۔ جب کہ یہ بات تین دلیلوں کے ذریعہ صحیح نہیں ہے :

١ ۔ ابوہاشم متوفی ٣٢١ ۔ اور قاضی عبدالجبار متولد ٣٢٠ ہیں ۔

٢ ۔ ابوہاشم معتزلہ کے نویں طبقہ میں شمار ہوتے ہیں اور قاضی عبدالجبار ، گیارہویں طبقہ میں ۔

٣ ۔ حاکم جشمی عیون کی شرح میں کہتے ہیں : قاضی اپنی زندگی کے اوائل میں اشعری مذہب تھے ، پھر ابوعبداللہ بصری اور ابواسحاق عیاش کی شاگردی اختیار کی اور معتزلی ہوگئے ۔ اس بناء پر ہمیں قبول کرنا چاہئے کہ قاضی ، ابوہاشم کے شاگرد نہیں تھے بلکہ ان کاشمار فرقہ بھشمیہ میں ہوتا تھا۔

٨٦ ۔ المغنی ، ج١٦، ص ٢٣١ ۔

٨٧ ۔ کشف ا لمراد ، ص ٣٨٤ ۔ المغنی ، ١٦، ص ١٩٧ ۔

٨٨ ۔ المغنی ، ١٦، ص ٣٢٨ ۔

٨٩ ۔ ابوالحسن علی بن عیسی الرمانی نحوی معتزلی (٢٦٩ ۔ ٣٨٦) ابن اخشید کے شاگرد، ابوہاشم جبائی کے مخالف اور نحو میں ابو علی فارسی کے شاگرد ہیں ۔

٩٠ ۔ ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن ، ص ٦٩ ۔

٩١ ۔ گذشتہ حوالہ ، ص ٨٩ ۔

٩٢ ۔ گذشتہ حوالہ ، ص ١٠١ ۔

٩٣ ۔ عبدالجبار بن احمد ہمدانی اسد آبادی، شہر رے میں آلو بویہ کے قاضی آل، ابوعبداللہ بصری اور ابواسحاق عیاش کے شاگرد ، معتزلہ کے سب سے بڑے متکلم، متوفی ٤١٥ ۔

٩٤ ۔ شرح اصول خمسہ، ص ٥٨٦، ٥٨٩، ٦٠٠۔ المغنی، ١٦، ص ١٦٤ ۔ رسائل العدل والتوحید، ص ٢٣٨، بینات میں شمارہ ١٩، اس متعلق حسین علی ترکمانی کا ایک مقالہ چھپا ہے ۔

٩٥ ۔ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری، اہل خوارزم، متوفی ٥٣٨، لغوی ، مفسر اور متکلم معتزلی، بغداد کے معتزلی ، ضبی اصفہانی کے شاگرد اور حنفی مذہب ۔

٩٦ ۔ منہج الرمخشری، ص ٢١٦، دار المعارف ، مصر۔

٩٧ ۔ الکشاف ، ج١ ،ص ٤٢٤ ۔

٩٨ ۔ منہج الزمخشری، ص ٢٩٥ ۔

٩٩ ۔ ابوالفتح ناصرین ابوالمکارم عبدالسید بن علی مطرزی خوارزمی، متوفی ٦١٠۔ حنفی معتزلی، اور زمخشری کے شاگردوں کے شاگرد۔ مشرق کے معتزلہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔

١٠٠۔ بیان الاعجاز فی سورة قل یا ایھا الکافرون، ص ٣٦ ، تحقیق حمد بن ناصر الدخیل ، ریاض ۔

١٠١ ۔ ابویعقوب یوسف بن ابی بکر بن محمد بن علی خوارزمی، معروف بہ سکاکی، صاحب مفتاح العلوم، حنفی مذہب ۔ روضات الجنات میں بیان ہوا ہے : ہم ان کے اساتید اور شاگردوں کو تلاش نہیں کرسکے ۔

١٠٢ ۔ مفتاح العلوم ، ص ٢٢١ ۔

١٠٣ ۔ رحلة ابن بطوطة، ج١ ،ص ٢٣٣ ۔

مآخذ : فصلنامہ ہفت آسمان شمارہ ٤ ۔

Read 6664 times