فرقہ اسماعیلیہ

Rate this item
(0 votes)

اسماعیل کی وفات کے بعد تقریبا ڈیڑھ صدی تک اسماعیلوں کے ائمه پوشیدہ رہے اورتاریخ اسماعیلیہ میں اس دوران کو دورہ ”ستر“ کہتے ہیں ۔ اس زمانہ میں ان کے امام کا نام اور جگہ صرف انہی لوگوں کو معلوم ہوتی تھی جو ان کے زیادہ نزدیک اور معتبر ہوتا تھا

پوشیدہ ائمہ :

اسماعیل کی وفات کے بعد تقریبا ڈیڑھ صدی تک اسماعیلوں کے پوشیدہ رہے اور تاریخ اسماعیلیہ میں اس دوران کو دورہ ”ستر“ کہتے ہیں ۔اس زمانہ میں ان کے امام کا نام اور جگہ صرف انہی لوگوں کو معلوم ہوتی تھی جو ان کے زیادہ نزدیک اور معتبر ہوتا تھا اوردوسرے اسماعیلیوں کو اپنے پوشیدہ امام کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا تھا ، لہذا پوشیدہ (مستور) ائمہ کے متعلق اطلاعات بہت کم ہیں ، مورخین کے نزدیک اس عصر کے ائمہ کے ناموں میں بھی اختلاف ہے ، فاطمیون کے عقیدہ کے مطابق پوشیدہ ائمہ کے نام یہ ہیں : محمد بن اسماعیل ، عبداللہ، احمد حسین و عبیداللہ ۔

دروز کی روایت کے مطابق : محمد بن اسماعیل دوم، محمد دوم، احمد ، عبداللہ ، محمد سوم، حسین، احمد دوم و عبیداللہ (پانچ اماموں کے بجائے نو (۹) امام۔

نزاریہ کی روایت کے مطابق : محمد بن اسماعیل ،احمد ، محمد دوم،عبداللہ اور عبیداللہ۔ لیکن اکثر اسماعیلی مورخین نے اسماعیل کے بعد مستور (پوشیدہ) ائمہ کے نام اس طرح بیان کئے ہیں : محمد بن اسماعیل، عبداللہ بن محمد، احمد بن عبداللہ، حسین بن احمد جو کہ پردہ میں آخری امام ہیں(۱) ۔

روسی محقق نے لکھا ہے : دوسری اورتیسری صدیوں کے درمیان اسماعیلیہ دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،ان میں سے ایک پہلے کی طرح محمد بن اسماعیل اعقاب کی موت کے بعد ان کو پوشیدہ امامت کے عنوان سے قبول کرتا رہا اور چوتھی صدی کے بعد اس گروہ کو اسماعیلیہ فاطمیہ کہا جاتا تھا ۔ دوسرے گروہ کے ماننے والوں کا عقیدہ تھا کہ بہت سے ائمہ کی تعداد بھی انبیاء مرسل (آدم، نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اورحضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)) کی طرح سات سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ، اسی وجہ سے محمد بن اسماعیل کو آخری امام شمار کرتے ہیں ۔ ان کے عقیدہ کے بعد محمد بن اسماعیل کے بعد کوئی امام نہیں آئے گا ۔ اور اب صرف ساتھویں پیغمبر قائم المہدی کے منتظر رہنا چاہئے جو کہ قیامت سے کچھ عرصہ پہلے ظہور کریں گے ۔ یہ فرقہ جو کہ صرف ساتھ اماموں کو قبول کرتا ہے ”سبعیہ“(سات امامی) کے نام سے مشہور ہے اور مدتوں بعد تیسری صدی میں ان کو ”قرمطیان“ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

وہ مزید کہتے ہیں : ایک مدت تک اسماعیلیوں کی تقسیم قطعی اور یقینی نہیں تھی ،کیونکہ ائمہ مستور (پوشیدہ) کو ضخیم پردوں میں چھپا رکھا تھا اور پوشیدہ ائمہ کا باہر کے لوگوں سے مستقیم کوئی رابطہ نہیں تھا ، یہاں تک کہ کوئی ان کا نام تک نہیں جانتا تھا ، اس بناء پردہ میں پوشیدہ امام کو قبول کرنے یاقبول نہ کرنے کی وجہ سے ان دونوں فرقوں میں کوئی اختلاف یا دشمنی نہیں ہوتی تھی اور ان سب کوعام طور سے کبھی اسماعیلی اور کبھی ”سبعیہ“ اور کبھی ”قرمطیہ“ کہتے تھے ۔ اور چوتھی صدی کے شروع تک یہی حالت باقی رہی (۲) ۔

مورخین نے عام طور سے پوشیدہ ائمہ کے متعلق اپنی اطلاعات کو اسماعیلی بہت بڑے مورخ داعی ادریس عماد الدین بن حسن (متوفی ۸۷۳) مولف کتاب ”عیوان الاخبار“ سے حاصل کی ہیں ۔اور ان معلومات کے صحیح اور غلط ہونے کے متعلق کوئی علم نہیں ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں اسماعیلی ائمہ تقیہ کی بناء پر پردہ میں زندگی بسر کررہے تھے اور ان کی حقیقت سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا (۳) ۔

مستودع اور مستقر امام :

اسماعیلیوں کی اصطلاح میں امام کی دو قسمیں ہیں : ایک امام مستودع اور دوسرے امام مستقر: امام مستودع وہ امام ہے جو امام کا سب سے بڑا بیٹا ہو، وہ امامت کے تمام اسرار سے واقف ہوتا ہے اور جب تک وہ امام ہے اس وقت تک اپنے زمانہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور اس کو اپنی اولاد کو امامت سپرد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، کیونکہ اس راستہ سے سادات کے علاوہ کوئی دوسرا امام نہیں ہوسکتا اور امامت اس کے پاس امانت اور ودیعہ ہوتی ہے ۔

لیکن امام مستقر وہ ہوتا ہے جس کو امامت کے تمام امتیازات حاصل ہوتے ہیں اور امامت کے تمام حقوق اس کو تفویض کئے جاتے ہیں اور وہ بھی ان حقوق کو اپنے جانشینوں کو عطا کرتا ہے (۴) ۔

اس قانون کے مطابق بعض داعیان ،امام کے القاب اور وظایف کو حاصل کرتے تھے اور اس وقت حقیقی امام پردہ میں رہ کر ان کے اعمال پر نظر رکھتا تھا اور پوشیدہ مام کسی خطرہ میں پڑے عمومی افکار کی ہدایت کرتا تھا ، اس وجہ سے اسماعیلیوں کی بعض کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ مشہور رسائل اخوان الصفا کے مصنف امام احمد نے داعی ترمذی کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو ملاء عام میں امام کے عنوان سے تعارف کروائیں اوراس راستہ میں شہادت کی حد تک آگے بڑھیں، تاکہ اس متعلق ضروری تجربہ حاصل ہوجائے (۵) ۔

جوینی نے کہا ہے : اسماعیلیوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی عالم بغیر امام کے نہیں ہے اور جو بھی امام ہو اس کا والد بھی امام ہوگا اور اس کا والد بھی اسی طرح جتنا بھی اوپر چلے جائیں سب امام ہوں گے ،یہاں تک کہ آدم تک کہ یہ سلسلہ آدم تک پہنچ جائے ۔ پس امام ،امام ہے اور اس کا بیٹا آخر تک امام ہوگا اور اس امام کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تکہ اس کے بیٹے کی ولادت نہ ہوجائے اور پھر وہ بیٹا امام ہوگا ، یا اس کے صلب سے جدا ہوجائے اور کہتے ہیں کہ اس آیت ”ذریةبعضھا من بعض“ اور اس آیت ”وجعلھا کلمة باقیة فی عقبہ“ کے معنی یہی ہیں اور شیعہ اسی پر حجت قائم کرتے ہیں اور حسن بن علی امام تھے لیکن تمام شیعوں کے نظریات کے مطابق ان کی اولاد امام نہیں ہوئی ،کہتے ہیں کہ ان کی امامت مستودع تھی یعنی ثابت نہیں تھی اور ان کو امامت عاریہ میں ملے تھی ،امام حسین (علیہ السلام) امام مستقر تھے ۔ آیت ”فمستقر و مستودع“ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ امام ہمیشہ ظاہر نہیں ہوتا ،ایک مدت تک ظاہر رہتا ہے اورایک مدت تک غائب ،جس طرح روز و شب ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں ۔ ایک زمانہ میں امام کو ظاہر ہونا چاہئے شاید اس کی دعوت پوشیدہ ہو ،لیکن جس زمانہ میں امام پوشیدہ ہو اس زمانہ میں اس کی دعوت ظاہر ہونا چاہئے ،اس کے داعی لوگوں کے درمیان معین ہوں، تاکہ مخلوق کو خدا کے اوپر حجت نہ ہو ۔ پیغمبروں کے پاس کتابیں ہوں اور ائمہ اصحاب تاویل ہیں، اورکوئی بھی زمانہ اور انبیاء کا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں رہا ․․․ اسلام سے پہلے ”ستر“ (پوشیدہ) کا زمانہ تھا اورائمہ پوشیدہ تھے اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ سے ائمہ ظاہر ہونے لگے اور ان کے زمانہ سے اسماعیل اور محمد بن اسماعیل کے زمانہ تک ظاہر رہے اور پوشیدہ ہونے کا زمانہ اسماعیل سے شروع ہوا اور محمد تک جو کہ آخری امام ہیں پردہ میں پوشیدہ رہیں گے اور ان کے بعد بھی امام مستور رہیں گے یہاں تک کہ ظاہر ہوجائیں اور کہتے ہیں کہ موسی بن جعفر، اسماعیل کے فادی النفس تھے ،علی بن موسی الرضا ، محمد بن اسماعیل سے فادی النفس تھے۔حضرت ابراہیم ، ذبح اور ”،فدیناہ بذبح عظیم“ کا واقعہ اس صورت کی طرف اشارہ تھا (۶) ۔

استاد تریتون (۷) لکھتے ہیں : مستودع کی اصطلاح اور امامت کا ودیعہ ہونا شیعہ غلات کے درمیان مشہور تھا ۔ لیکن مستودع کو ”الامام الحفیظ“ بھی کہتے ہیں ، کیونکہ خطروں کے وقت وہ امامت کے لقب کو قبول کرتے تھے تاکہ امام حق پردہ استتار میں محفوظ رہے (۸) ۔

یمن کے داعیوں میں سے ایک داعی سیدنا الخطاب بن حسن حسین بن ابی الحافظ حمدانی (متوفی ۵۳۳) کی کتاب ”غایة الموالید“ میں نقل ہوا ہے : امام جعفر صادق کی مرجعیت سے جو چیز مربوط ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے امامت (امر) کواپنے بیٹے اسماعیل کو تفویض کیا تھا اوراسماعیل نے غیبت اختیار کرلی، امامت ان کے پاس سے واپس نہیں ہوہوگی (شیعہ دوازدہ امامی کے عقیدے کے برعکس) اور ہرگز کسی دوسرے کو کبھی بھی تفویض نہیں ہوگی۔ اس (اسماعیل) نے اپنے بیٹے کو میمون القداح جو کہ حجت تھے ، کے پاس ودیعہ کے طور پر رکھدیا ، انہوں نے بچپنے میں اس کو پوشیدہ رکھا اور اس کو اپنی نظارت میں پرورش کی اور ان کے بزرگ ہونے تک ان کی حمایت کرتے رہے ۔ جس وقت وہ (محمد بن اسماعیل) بڑے ہوگئے تو انہوں نے اپنا ودیعہ دریافت کیا ۔ امامت ان کی نسل میں جاری رہی اور باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ علی بن حسین بن احمد بن محمد بن اسماعیل امام ہوئے اور ان کے ذریعہ آفتاب طلوع ہوا۔ (یعنی مغرب میں فاطمی خلافت برقرار ہوگئی) جس وقت شمال افریقہ اور یمن میں یہ آفتاب طلوع ہوا تو علی بن حسین افریقہ شمالی کی سر زمین پر خدا کے والی مستقر ہوئے ۔ جس وقت انہوں نے شام پہنچ کر غیبت کی تو اپنی حجت سعید الخیر معروف بہ المہدی کو اپنا جانشین بنایا۔ سعید نے دعوت کے اصولوں کو جاری کیا ،پھرسجلماسہ میں دشمنوںخصوصا افریقہ شمالی کے حکام کی طرف سے کچھ چیزں ان کے پاس آئیں اورخداوند عالم نے اپنے ولی کی مدد کی اور جس وقت مہدیہ میں ان کا انتقال ہوا تو سعید نے اپنا ودیعہ ، امام مستقر کو تفویض کردیا اور محمد بن علی القائم بامر اللہ اس کے مالک ہوگے اور پھر امامت ان کی نسل میں جاری رہی (۹) ۔

امامت کو دو قسموں مستودع اور مستقر میں تقسیم کرنے سے ہمارے سامنے یہ احتمال آتا ہے کہ ائمہ قداحی یا وہ ائمہ جو عبداللہ بن میمون قداح کی اولاد سے دورہ ”ستر“ میں امام ہوئے وہ سب مستودع یا حفیظ امام تھے۔ اس وجہ سے ”دروز“ کے جدول میں جواماموں کے نام آئے ہیں ان سے ائمہ مستودع کی طرف اشارہ ہے جن کا شمار ان کی اولاد میں ہوتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ”ائمہ دروز“ کا شجرہ اسماعیلیہ کے جدول کے ناموں پر حاوی ہے اور سعید بن عبیداللہ جو خطروں کے زمانہ کا امام ہے وہ قداحیوں کا آخری امام شمارہوتا ہے ان کی وفات کے بعد ابوالقاسم محمد القائم ان کی جگہ پر بیٹھا اور وہ ان کا بیٹا نہیں تھا اور وہ مستقر تھا ان سے پہلے سعید ،مستودع امام کا عہدیدار تھا (۱۰) ۔

دروزی کی کتابوں اور غایة الموالید کے ذریعہ پوشیدہ ائمہ کی دو نسلوں کو پیش کیا جاسکتا ہے : ایک ائمہ علوی یا مستقر اور دوسرے ائمہ قداحی یا مستودع:

۱۔ ائمہ علوی یا مستقر : محمد بن اسماعیل ، احمد ،حسین، علی (معلی)محمد (القائم) (۱۱) ۔

۲۔ ائمہ قداحی یا ائمہ مستودع : عبداللہ،محمد، حسین، احمد ، سعید (۱۲) ۔ ان دونوں فہرستوں کے ذریعہ سات ”فلک“ کی فہرست جوکہ ”دروزی“ کے رسالہ تقسیم العلوم(۱۳) میں بیان ہوئی ہے، درک کیا جاسکتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ اسماعیل، ۲۔ محمد ، ۳۔ احمد، ۴۔ عبداللہ، ۵۔ محمد ، ۶۔ حسین ، ۷۔ احمد (سعید کے والد) ۔

ان میں شروع کے تین ناموں کے علاوہ سب کے سب میمون القداح کی نسل سے ہیں اور ان کو امام مستودع کہا جاتا ہے ۔شروع کے تین افراد کا شمار ائمہ مستقر علوی میں ہوتا ہے ، اس بناء پر یہ فاطمی خلفاء کے اجداد علی المعل میں شمار ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ کی یہ دونوں نسلیں مولفین اورمصنفین کو شک میں ڈال دیتی ہیں اوران کی اطلاعات کو غلط کردیتی ہیں،لہذانہوں نے مختلف نسب نامے پیش کئے ہیں (۱۴) ۔

اسماعیلیوں کے مختلف القاب

فرقہ اسماعیلیہ کے مختلف القاب و عناوین ہیں ، جیسے : باطنیہ ، قرامطہ،تعلیمیہ،فاطمیہ ، سبعیہ، ملاحدہ ، حشیشیہ ، نزاریہ، مستعلویہ اور سفاکین۔

اسماعیل بن جعفر کی پیروی کرنے کی وجہ سے ان کو ”اسماعیلیہ کہا جاتا ہے اور چونکہ یہ کہتے تھے کہ قرآن وسنت کی ہر چیز میںظاہر و باطن ہے اورظاہر بجائے کھال اور باطن بجائے مغز ہے اس لئے ان کو باطنیہ کہتے ہیں اور ان میں سے بعض گروہ ”حمدان قرامط “کی پیروی کرتے تھے اس لئے ان کو ”قرامطہ “ کہا جاتا تھا۔ ”تعلیمیہ“ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حقیقی تعلیم کو فقط امام زمانہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ان کو ”فاطمی“ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ان کے تمام ائمہ، فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد سے ہیں۔

اور ان کو ”سبعیہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ ائمہ کو شمار کرنے میں سات دور کے قائل تھے اور ساتویں امام کو آخری ادوار سمجھتے تھے ۔” ملاحدہ“ کا لقب ان کے دشمنوں نے خصوصا ایران میں اسماعیلیوں کو دیا تھا اور یہ ملحد کی جمع ہے ، اس کے معنی بے دین کے ہیں ۔

ان کو ”حشیشیہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ حسن صباح اور اس کے جانشین ، اسماعیلیوں کو حشیش کھلا کر اپنے مخالفین کو قتل کرنے پر مجبور کرتے تھے ، ان کو ”نزاریہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ اسماعیلیوں کا ایک گروہ ”مستنصر فاطمی“ کے بڑے بیٹے ”نزار“ کا طرفدار تھا۔ان کو ”مستعلویہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ اسماعیلیوں کا ایک گروہ ”مستنصر فاطمی“ کے بیٹے ”مستعلی“ کی امامت کا قائل تھا(۱۵) ۔

اسماعیلیوں کے فرقے

عصر حاضرمیں اسماعیلیہ دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں :

۱۔ اسماعیلیہ نزاری جو کہ حسن صباح سے مربوط ہیں اور اب شام (مصیصہ علاقہ) میں ، عمان مں اور ایران کے بعض علاقوں (محلات کے پہاڑی علاقوں) میں اور شمال افغانستان میں موجود ہیں ، آج کے بدخشان (افغانستان کے شمال مشرق ) میں تمام لوگ نزاریان سے تعلق رکھتے ہیں ، بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک تاجیکستان کے مشرق کے تمام لوگ اور پامیر(جو کہ آج پہاڑی علاقہ بدخشان کے خود مختار علاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے )کے تمام لوگ نزاری تھے۔

روسی محقق پطروشفکی نے لکھا ہے : نزاریان کا اصلی مرکز ہندوستان منتقل ہوگیا ، ان لوگوں نے تیری صدی عیسوی سے ہندوستان مہاجرت کرنا شروع کیا ، خصوصا سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک انہوں نے بہت زیادہ ہجرت کی ،ان کے راہنما جو کہ عام طور سے اپنے اس عہدہ کو میراث میں حاصل کرتا ہے، لقب ”آقا خان“ ہے اور یہ بمبئی کے نزدیک زندگی بسر کرتے ہیں ، آقا خان اول نے ۱۳۳۸ عیسوی میں ایران (محلات کے علاقہ)سے ہندوستان ہجرت کی اوران کے مذہب میں آقاخان کی نسل کو نئی امید سمجھا جاتا ہے ، نزاریہ ،آج کے آقا خان (کریم) کو امام علی (علیہ السلام) کے بعد اڑتالیسواں امام سمجھتے ہیں۔

کریم آقا خان کے پاس کروڑوں روپے کی زمین ہے ، تمام نزاری ان کو اپنی درآمد کا دسواں حصہ (عِشر) ادا کرتے ہیں ، اس کے مرکز سے آج بھی بہت سے داعی اور مبلغ دوسرے شہروں میں تبلیغ کیلئے جاتے ہیں اور یہ خود بھی افریقہ میں تبلیغ کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں تقریبا ڈھائی لاکھ نزاری زندگی بسر کرتے ہیں (۱۶) اس گروہ میں تقریبا دس لاکھ افراد ہیں جو ایران، ایشیا اور افریقہ میں منتشر ہیں (۱۷) ۔

۲۔ معتدلی اسماعیلی جو ”مستعلوی“ سے تعلق رکھتے ہیں وہ آج بھی یمن اور ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں ہندوستان (گجرات) میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد ”مستعلیہ“ سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کو وہاں پر ”بُہرہ“ یعنی تجارت کرنے والے کہا جاتا ہے ،ان کا موجودہ بادشاہ مولانا سیف الدین ہے (۱۵) ۔ جزیرة العرب، سواحل خلیج فارس،حماة، لاذقیہ میںزندگی بسر کرتے ہیں (۱۹) ۔

البتہ یہ اصطلاح فقط مسلمانوں میں منحصر نہیں ہے جیسا کہ ۱۹۰۱ کی مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ۶۶۵۳ ، اور چین میں ۲۵ افراد ”بُہرہ“ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔

بُہرہ دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں ،ان میں سے اہم گروہ شیعہ تاجروں سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا گروہ دیہاتی اورکسانوں سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اکثر و بیشتر اہل سنت ہیں ۔ ”گجرات کے راندیر کے اہل سنت ”برما“ سے تجارت کرتے ہیں اور ان کا شمار ثروت مندوں میں ہوتا ہے ۔ اسماعیلی بُہرہ کے بعض خاندان دعوی کرتے ہیں کہ ان کی نسل سعودی عرب سے چلی ہے (۲۱) ۔

البتہ ہندوستان کے بُہروں کے اجداد و غیرہ نے اسماعیلی داعی اور مبلغین کے ذریعہ اس مذہب کو اختیار کیا ہے ان کے ایک مشہور داعی کا نام عبداللہ تھا جس کو امام مستعلی کے ذریعہ ہندوستان میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ۱۰۶۷ میں مغرب ہندوستان کے ایک شہر کامبای میں زندگی بسر کی اور وہاں پر بہت زیادہ تبلیغ کی ، یہ واقعہ ”الترجمة الظاہرة لفرقة البھرة الباھرة“ نامی کتابی میں لکھا ہوا ہے اور اس کے بعض نسخہ بمبئی کے کتابخانہ میں موجود ہیں اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا ہے (۲۲) ۔

اس فرقہ کا رہبر ۱۵۳۹ تک یمن میں مقیم تھا اور بُہرہ اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور اس کو (عِشر) دوسواں حصہ ادا کرتے تھے اور اپنے کاموں میں اس سے مشورہ کرتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود ”یوسف بن سلیمان“ نے ۱۵۳۹ عیسوی میں ہندوستان ہجرت کی اور بمبئی میں قیام کیا ۔ داؤد بن قطب شاہ داعی کے مرنے کے تقریبا پچاس سال بعد اس فرقہ میں دوسرے بہت سے فرقہ پیدا ہوگئے ۔ گجرات کے بُہرہ جن کی تعداد بہت زیادہ تھی ، داؤد بن قطب شاہ کو اپنا جانشین انتخاب کرلیا اور اس کو منتخب کرنے کی دلیل یمن میں اپنے ہم مسلک افراد کو بھیج دی ، لیکن بعد میں اس فرقہ کے بعض اشخاص نے سلیمان نامی شخص کو جس نے دعوی کیا تھا کہ وہ داؤد بن قطب شاہ کا اصلی جانشین ہے ، حمایت کی ۔ یہ سند آج بھی سلیمانی کے اختیار میں ہے لیکن اس کے صحیح اور غلط ہونے کے متعلق آج تک کوئی قانونی اور علمی تحقیق نہیں ہوئی ہے (۲۳) ۔

اسماعیلیوں کے دونوں فرقہ (نزاری اور مستعلوی) آج اپنے بزرگوں کے برخلاف مسالمت آمیز فرقوں میں تبدیل ہوگئے اور ان میں آج کوئی مشترک رابطہ نہیں پایا جاتا ۔ ساتویں نزاری امام محمد شاہ آقا خان جس کا بھی جلدی ہی انتقال ہوا ہے ، برطانیہ میں علم حاصل کیا تھا اس نے ہندوستان میں برطانیہ حکومت کی بہت زیادہ خدمت کی اور اس کو برطانیہ کی طرف سے ”سر“ کا لقب بھی ملا (۲۴) ۔

ان دونوں فرقوں کے درمیان ”براون“ کسی فرق کا قائل نہیں ہے اس کاعقیدہ ہے کہ ان کے دونوں فرقہ ”المستنصر“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ مصر کے فاطمی خلفاء کا آخری خلیفہ تھا ، بُہرہ،مستعلی کے معتقد اور آغا خانی جو کہ نزاریہ سے پہچانے جاتے ہیں ، مستنصر کے بڑے بیٹے نزاریہ کی پیروی کرتے ہیں (۲۵) ۔

ان دونوں فرقوں میں دوسرے فرقہ بھی اضافہ ہوے ہیں جیسے دروزی وغیرہ۔ دروزی ایک مستقل فرقہ ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ”حضرت آدم کی روح امام علی بن ابی طالب میں اور علی بن ابی طالب کی روح فاطمی خلفاء میں منتقل ہوگئی ہے ، اسی طرح ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے(۲۶) ۔

ان دو فرقوں کے علاوہ اسماعیلیوں کے اہم ترین فرقے مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ آغا خانی : یہ نزاریہ کے باقی بچے ہوئے افراد ہیں اور چونکہ ان کے امام کا نام آغا خان تھا اس لئے ان کو آغا خانی کہاجاتا ہے (۲۷) ۔

۲۔ ابوسعیدیہ : ابوسعید حسن بن بہرام الجنابی کے پیرو کار وں کو ابوسعیدیہ کہا جاتا ہے یہ شخص ایرانی الاصل تھا اور اس کی پیروی کرنے والے بدو عرب، نبطیان اور ایرانی تھے ، انہوں نے بحرین کے احساء علاقہ میں اپنی حکومت بنائی اور اس کا پایتخت ہجر کو قرار دیا ، آخر کار ۳۰۱ ہجری میں اس کے ایک نوکر نے حمام میں قتل کردیا (۲۸) ۔

۳۔ برقعیہ : اسماعیلی فرقہ میں محمد بن علی برقعی کے ماننے والوں کو برقعیہ کہا جاتا ہے ، محمد بن علی برقعی نے ۲۵۵ ہجری میں اہواز میں قیام کیا اور اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جب کہ وہ خود علوی نہیں تھا ، بعض علویوں نے اس کی ماں سے نکاح کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اپنی ماں کے شوہر سے منسوب کرتا تھا ، بعد میں یہ خوزستان، بصرہ اور اہواز پر والی ہوگیا۔ عباسی خلیفہ معتضد نے ایک لشکر بھیجا اور اس کو سکشت دی ، آخر کار ۲۶۰ ہجری میں اس کو اسیر کرکے بغداد لے گئے ، معتضد نے اس کو قتل کرکے سولی پر لٹکا دیا (۲۹) ۔

۴۔ خطابیہ : غلات اور اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اجدع کوفی کے اصحاب تھے جو ابوالخطاب کی نبوت کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ ائمہ ،پیغمبری کے عہدے پر پہنچنے کے بعد الوہیت کے رتبہ پر فائز ہوتے ہیں ، یہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو خدا سمجھتے تھے ، ابوالخطاب، عباسی خلیفہ منصور کے ہم عصر تھا اوراس کے حکام کے ذریعہ قتل ہوا (۳۰) ۔

۵۔ خلیطہ : جو کچھ قرآن مجید اور احادیث میں نماز، روزہ، زکات، اور حج وغیرہ کے متعلق بیان ہوا ہے ان سب کو ان کے معانی پر محمول کرتے تھے اور اس کے دوسرے معنی مراد نہیں لیتے تھے ، قیامت ، بہشت اور دوزخ کا انکار کرتے تھے (۳۱) ۔

۶۔ باسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے بُہرہ: یہ مغرب ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ اکثر و بیشتر ہندو ہیں جو یمنی اعراب سے مخلوط ہوگئے ہیں ، یہ فرقہ مستعلویہ کے باقی بچے ہوئے افراد ہیں ،ان کے مخالف نزاریہ اور آغا قانی ان کو ہندوستان میں ”خوجہ“ کہتے ہیں (۳۲) ۔

۷۔ خنغریہ : یمن میں علی بن فضل الخنغری داعی اسماعیل کے ماننے والوں کو خنغریہ کہتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ تمام محرمات کو حلال سمجھتے تھے ، مسجدوں کو خراب کیا اور نبوت کی دعوت دی (۳۳) ۔

۸۔ تعلیمیہ : اسماعیلی دوسرے فرقہ کا نام تعلیمیہ ہے : یہ عقلیات کو حجت قرار نہیں دیتے اور مجبورا حقایق کو معصوم کے ذریعہ سیکھتے ہیں : اسماعیلیہ کو اکثر و بیشتر خراسان میں تعلیمیہ کہتے تھے (۳۴) ۔

۹۔ دروزیہ : ان کانام کلمہ ”دروزی“ ، اس گروہ کے موسس کے نام سے لیا گیا ہے ، اس مذہب کا موسس حمزة بن علی دروزی تھا جو فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کو خدا کی روح سمجھتا تھا ، اس وقت یہ لوگ لبنان اور شام میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں (۳۵) ۔

۱۰۔ صباحیہ : حسن بن صالح کے ماننے والوں کو صباحیہ کہا جاتا ہے (۳۶) ۔

۱۱۔ عبیداللھیہ : عبیداللہ مہدی اور ان کی اولاد کی الوہیت کے قائل تھے(۳۷) ۔

۱۲۔ غیاثیہ : ”غیاث “ سے منسوب ہیں یہ شخص ادیب اور شاعر تھا اور اصول اسماعیلیہ میں ایک کتاب ”بیان“ کے نام سے تحریر کی ۔ وضو، نماز، روزہ اور دوسرے احکام کے معنی کو باطنیہ کے عقیدے کے مطابق بیان کیا ، یہ کہتے ہیں : شارع کی مراد بھی یہی ہے اور جو کچھ عوام سمجھتے ہیں وہ سب خطا اور غلط ہے (۳۸) ۔

۱۳۔ قرامطہ : اسماعیلیہ اور غلات کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو حمدان میں مقیم ہیں ۔ اور یہ محمد بن اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں وہ ان کے قیام کے منتظر ہیں ۔ یہ فرقہ کہتا ہے کہ غدیر خم کے بعد رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت سلب ہو کر حضرت علی (علیہ السلام) کو مل گئی (۳۹) ۔

۱۴۔ مبارکیہ : اسماعیلی قدیم ہیں جو کہ اسماعیل کے آزاد کردہ غلام ”مبارک “ کے ماننے والے ہیں ، یہ فرقہ محمد بن اسماعیل کے بعد ان کے بیٹے کو امام سمجھتا ہے (۴۰) ۔

۱۵۔ مہدویہ : فاطمی پہلا خلیفہ ابوعبیداللہ مہدی (متوفی ۳۲۳) کے ماننے والے جو کہ اپنے آپ کو ”المہدی“ کہتے تھے (۴۱) ۔

۱۶۔ ناصریہ : اسماعیلی شاعر اور دانشور حمید الدین ناصر خسرو قبادیانی اس گروہ کے داعی کے ماننے والے تھے یہ لوگ ماوراء النہر، خراسان اور طبرستان میں زندگی بسر کرتے تھے (۴۲) ۔

۱۷۔ مسقطیہ : نزاریہ کا دوسرا لقب مسقطیہ ہے ،ان کو ”سقطیہ“ بھی کہتے ہیں ،کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ امام ، فروع کا مکلف نہیں ہے اور وہ بعض یا تمام تکالیف کو لوگوں سے ساقط کرسکتا ہے (۴۳) ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسماعیلیوں پر بہت سے ادوار گذرے ہیں اور یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوئے لیکن اسماعیلیہ فرقہ میں قدرم مشترک یہ ہے کہ تمام شیعہ اسماعیلی فرقوں میں باطنی گری کا نظریہ پایا جاتا ہے ۔

حواله جات:

1. ڈاكٹر كامل حسين محمد، طائفة الاسماعيلية، ص 1723، طبع قاهره‏1959م.

2.پطروشفسكى، اسلام در ايران، ترجمه كريم كشاورز، ص 297.

3. ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعه و... ص 207.

4. برنارد لويس، پيدايش اسماعيليه، ترجمه آژند، ص 60.

5. همان مدرك.

6. جوينى، علاء الدين عطا ملك، تاريخ جهانگشاى، ج‏3/152 149، چاپ ليدن به اهتمام محمد قزوينى.

7.

8. به نقل ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعه... ص 208.

9. بنا به نقل «برنارد لويس‏» در مقاله پيدايش اسماعيليه، ص 62.

10. اصول الاسلاميه، ص 127 126.

11. غاية المواليد. 12. دوساسى،ج‏1/85. 13. دوساسى، ج‏2/578.

14. اسماعيليان در تاريخ، مقاله برنارد لويس، پيدايش اسماعيليه، ص 87.

15. براون، تاريخ ادبى ايران، ج‏1/596 - 595 ; اقبال، خاندان نوبختى، ص 250; ڈاكٹر كامل حسين، طائفه

اسماعيليان، ص 63.

16. اسلام در ايران، ترجمه كريم كشاورز، ص 320 319.

17. گلدزيهر، العقيدة والشريعة، ص 216.

18. الشيعة في التاريخ، ص 62.

19. محمصانى، فلسفة التشريع، ص 57; طائفة الاسماعيليه، ص 110.

20. آصف نيعى، اسماعيليان، هند، ص‏392 - 391.

21. همان مدرك. 22.همان مدرك، ص 392.

23. همان مدرك،24، اسلام در ايران، ص 320.

25. براون، تاريخ ادبى ايران، ج‏2/247.

26. آدم متز، الحضارة الاسلامية، طبع قاهرة، ص 66.

27. دائرة المعارف اسلام (طبع فرانسه، ماده آغا جان).

28. غالب مصطفى، اعلام الاسماعيليه، بيروت 1964، ص 53; ابن جوزى، تلبيس ابليس، ص‏105، طبع مصر،

1928،

29.غلام حليم صاحب دهلوى، تحفة اثنى عشريه، ص 9، چاپ سنگى 1896.

30. مقالات اشعرى،، ص 11 10; الفرق بين الفرق، ص 242; طرق الشيعة، نوبختى، ص 38 37، 40، 58، 60و

64.

31. تحفة اثنى عشرية، ص 16.

32. ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعة، ص 232.

33. الحور العين، ص 200 199.

34. ابن جوزى، تلبيس ابليس، ص 112.

35. دائرة المعارف اسلام، ماده دروز، به نقل ڈاكٹر مشكور ص 233.

36. بيان الاديان، ص 161; تبصرة العوام، ص 423.

37. ابن حزم، الفصل في الملل، ج‏4/143.

38. تحفه اثنى عشريه، ص 9.

39. نوبختى، فرق الشيعة، ص 61; تلبيس ابليس، ص 110.

40. نوبختى فرق الشيعة، ص 58; مقالات اشعرى، 27; خطط مقريرى، ج‏4/172.

41. تحفه اثنى عشريه، ص 16.

42. بيان الاديان، ص 166; تبصرة العوام ص 425.

43. تحفه اثنى عشريه، ص 16.

44. همبستگى ميان تصوف و تشيع، ص 216، ترجمه مرحوم ڈاكٹر شهابى.

45. مقدمه ابن خلدون، ترجم فارسى، ج 2/984.

46. قدس زندگى منصور حلاج، ترجمه فرهادى، ص 71; طرايق الحقايق، ج‏3/136.

مآخذ:

فصلنامه كلام اسلامى شماره 18

Read 5817 times