اہل حدیث

Rate this item
(0 votes)

اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی اور اجتہادی طریقہ تھا ۔ کلی طور پر اہل سنت کے فقیہ اپنی طور طریقہ کی وجہ سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں : ایک گروہ وہ ہے جن کا مرکز عراق تھا اور وہ حکم شرعی کو حاصل کرنے کے لئے قرآن و سنت کے علاوہ عقل سے بھی استفادہ کرتے تھے ۔ یہ لوگ فقہ میں قیاس کو معتبر سمجھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر اس کو نقل پر مقدم کرتے ہیں ۔

یہ گروہ ''اصحاب رائے'' کے نام سے مشہور ہے اس گروہ کے موسس ابوحنیفہ (متوفی ١٥٠ھ) ہیں ۔

دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مرکز حجاز تھا ، یہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔

اہل حدیث ، اپنے فقہی طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اس کو صرف قرآن و سنت کے ظواہر سے اخذ کرتے تھے ۔ یہ لوگ نہ صرف عقاید کے مسائل کو استنباط کرنے کے لئے عقل کو ایک مآخذ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کی مخالفت کرتے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ یہ گروہ اس عقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میں عقاید کا مستقل مآخذ عقل ہے اورایسے نقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میںنقل کے عقلی لوازم کو عقل استنباط کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ یہ گروہ عقاید دینی سے دفاع کے کردار کو بھی عقل کے لئے قبول نہیں کرتے تھے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب ایک شخص نے مالک بن انس سے اس آیت ''الرحمن علی العرش استوی'' کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: عرش پر خدا کا قائم ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجھول ہے، اس پرایمان واجب ہے اوراس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔

بہرحال اہل حدیث ، دین کے متعلق ہرطرح کی فکر کرنے کے متعلق مخالفت کرتے تھے اورعلم کلام کا بنیادی طور پر انکار کرتے تھے ۔ اس گروہ کا معروف چہرہ ، احمد بن حنبل کے اس اعتقادنامہ پر ہے جس میں اس گروہ کے اساسی عقاید کو بیان کیا گیا ہے ، ان اعتقادات کا خلاصہ اس طرح ہے :

١۔ ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ، یعنی اگر کسی شخص سے اس کے ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے تو اس کو جواب میں کہنا چاہئے : انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا تو) میں مومن ہوں ۔

٢۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا ۔ انسانوں کے تمام افعال جیسے زنا، شراب پینا اور چوری وغیرہ خداوندعالم کی تقدیر سے مربوط ہے اوراس متعلق کسی کو خدا پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی گمان کرے کہ خداوند عالم گناہگاروںسے اطاعت چاہتا ہے لیکن وہ معصیت کا ارادہ کرتے ہیں،تو یہ گنہگار بندوں کی مشیت کو خداوند عالم کی مشیت پر غالب سمجھتے ہیں ، اس سے بڑھ کر خداوند عالم پر کوئی اور بہتان نہیں ہوسکتا ۔ جو بھی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوندعالم کو اس جہان ہستی کا علم ہے اس کو قضا و قدر الہی کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔

٣۔ خلافت اور امامت ، قیامت تک قریش کا حق ہے ۔

٤۔ جہاد ، امام کے ساتھ جائز ہے چاہے وہ امام عادل ہو یا ظالم ۔

٥۔ نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔

٦۔ صدقات ، خراج (لگان) اور جو مال بغیر کسی جنگ و وسایل جنگ کے حاصل ہو سب سلاطین کا حق ہے ، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو ۔

٧۔ اگر بادشاہ ، گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے ،لیکن ظالم بادشاہ کے خلاف خروج کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔

٨۔ مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ، مگران جگہوں پر جن کے متعلق حدیث میں وارد ہوا ہے جیسے نماز ترک کرنے والے، شراب پینے والے اور بدعت انجام دینے والے کو ۔

٩۔ عذاب قبر، صراط، میزان، صور پھونکنا، بہشت، جہنم، لوح محفوظ اور شفاعت یہ سب حق ہیں اور بہشت و جہنم ہمیشہ سے رہیں گے ۔

١٠۔ قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ، حتی کہ الفاظ اور قاری قرآن کی آواز بھی مخلوق نہیں ہے اور جو بھی قرآن کریم کو ہر طرح سے مخلوق اور حادث سمجھتے ہیں وہ کافر ہیں ۔

اہل حدیث کے اور دوسرے نظریات بھی ہیں جیسے خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھنا، تکلیف ما لایطاق کا جائز ہونا اور صفات خبریہ کا ثابت کرنا ،ہم ان عقاید کو اشاعرہ کی بحث میں بیان کریں گے ۔

خلاصہ :

١۔ اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی طریقہ تھایہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔

٢۔ اہل حدیث اپنے فقہی طور طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کے مخالف تھے اور اس کے نتیجہ میںیہ علم کلام کا بنیادی طور پرانکار کرتے ہیں ۔ اس متعلق احمد بن حنبل کے نظریات اہل سنت کے درمیان سب سے زیادہ تاثیر گذار ہیں ۔

٣۔ اہل حدیث کے بعض اعتقادات وہ ہیں جو احمد بن حنبل کے اعتقادنامہ میں بیان ہوئے ہیں :

الف : ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ۔

ب : اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا،انسان کو اپنے کسی فعل میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔

ج : جہاد، نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔

د : مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ۔

ھ : قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ۔

اشاعرہ

اشاعرہ ، ابوالحسن اشعری (٢٦٠۔ ٣٢٤ ھ)کے پیروکاروں کو کہتے ہیں ، ابوالحسن اشعری نے عقل سے استفادہ کرنے میں معتزلہ کی افراط اور اہل حدیث کا عقل سے استفادہ کرنے میں تفریط سے کام لینے درمیان ایک تیسرا راستہ اختیار کیا ، دوسری صدی ہجری کے دوران ان دوونوں فکری مکتبوں نے بہت زیادہ وسعت حاصل کی ، معتزلہ عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل مآخذ سمجھتے تھے اور اس کے ذریعہ اسلام سے دفاع کرنے کی تاکید کرتے تھے اور اس کو استعمال کرنے میں افراط سے کام لیتے تھے،دوسری طرف اہل حدیث ، عقل سے ہر طرح کے استفادہ کو منع کرتے تھے اور قرآن و سنت کے ظواہر کو بغیر کسی فکری تحلیل کے اس کو دینی تعلیمات میں ملاک و معیار کے عنوان سے قبول کرتے تھے ، اشعری مذہب نے چوتھی صدی کے شروع میں اہل حدیث کے عقاید سے دفاع اور عملی طور پر ان دونوں مکتبوں کی تعدیل کے عنوان سے عقل و نقل کے موافق ایک معتدل راستہ اختیار کیا ۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری اپنی جوانی میں معتزلہ عقاید سے وابستہ تھے انہوں نے ان کے اصول عقاید کو اس زمانہ کے مشہور استاد ابوعلی جبائی (متوفی ٣٣ھ) سے حاصل کئے اور چالیس سال کی عمر تک معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور اسی موضوع سے متعلق بہت سی کتابیں بھی لکھیں، ۔ اسی دوران انہوں نے اس مذہب سے اعتزال کیا اور معتزلہ کے مقابلہ میں اہل حدیث کے مطابق کچھ نظریات پیش کئے، اشعری ایک طرف تو غیروں کے مآخذ کو کتاب و سنت بتاتے تھے اور اس وجہ سے معتزلہ کی مخالفت کرتے تھے اور اہل حدیث ہوگئے ، لیکن اصحاب حدیث کے برخلاف دینی عقاید سے دفاع اور اس کو ثابت کرنے کے لئے بحث و استدلال کو جائز سمجھتے تھے اورعملی طور پر اس کو استعمال کرتے تھے ، اسی غرض سے انہوں نے ایک کتاب ''رسالة فی استحسان الخوض فی علم الکلام'' لکھی اور اس میں علم کلام سے دفاع کیا ۔ اشعری نے نقل کواصالت دینے کے ساتھ ساتھ عقل کوثابت کرنے اور دفاع کرنے کے لئے قبول کرلیا ، وہ شروع میں معتزلہ کے نظریات کو نقض کرنے کی ذمہ داری سمجھتے تھے لیکن انہوں نے معتزلہ کے عقایدسے جنگ کرتے ہوئے اہل حدیث کے عقلی طریقہ کو ثابت اور تعدیل کیا اور ان کے نظریات کو ایک حد تک معتزلہ کے نظریات سے نزدیک کردیا ۔

اشعری کے نظریات

اس حصہ میں کوشش کریں گے کہ اشعری کی روش کے نتیجہ کو ان کے بعض عقاید میں ظاہر کریں ۔ اس وجہ سے اس کے عقیدہ کے اصحاب حدیث اور معتزلہ کے عقاید کو اجمال کے ساتھ مقایسہ کریں گے ۔

١۔ صفات خبری : علم کلام میں کبھی کبھی صفات الہی کو صفات ذاتیہ اور صفات خبریہ میں تقسیم کرتے ہیں ۔ صفات ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو آیات و روایات میں بیان ہوئے ہیں اور عقل خود بخود ان صفات کو خداوند عالم کے لئے ثابت کرتی ہے جیسے خدا کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرہ کا ہونا ،اس طرح کے صفات کے متعلق متکلمین کے درمیان اختلاف ہے ۔

اہل حدیث کا ایک گروہ جس کو مشبھہ حشویہ کہتے ہیں، یہ صفات خبریہ کو تشبیہ کے ساتھ خداوندعالم کے لئے ثابت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ معتقد ہیں کہ خداوند عالم میں صفات خبریہ اسی طرح پائے جاتے ہیں جس طرح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں اوراس جہت سے خالق اور مخلوق کے درمیان بہت زیادہ شباہت پائی جاتی ہے ۔ شہرستانی نے اس گروہ کے بعض افراد سے نقل کیا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے یہ ہے کہ خداوندعالم کو لمس کیا جاسکتا ہے اور اس سے مصافحہ اور معانقہ کیا جاسکتا ہے ۔

اہل حدیث میں سے بعض لوگ صفات خبریہ کے متعلق تفویض کے معتقد ہیں ۔ یہ لوگ صفات خبریہ کو خداوند عالم سے منسوب کرنے کے ضمن میں ان الفاظ کے مفہوم و مفاد کے سلسلہ میں ہر طرح کا اظہار نظر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اوراس کے معنی کو خداوند عالم پر چھوڑدیتے ہیں ۔ مالک بن انس کا خداوند عالم کے استوی پر ہونے کی کیفیت کے متعلق سوال کے جواب سے ان کا نظریہ معلوم ہوجاتا ہے ۔ لیکن معتزلہ ، خداوند عالم کو مخلوقات سے مشابہ ہونے سے منزہ سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کے ہاتھ اور پیر رکھنے والے صفات کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف قرآن اور روایات میں اس طرح کے صفات کی خداوند عالم سے نسبت دی گئی ہے ۔ معتزلہ نے اس مشکل کوحل کرنے کے لئے صفات خبریہ کی توجیہ اور تاویل کرنا شروع کردی اور یداللہ (خدا کے ہاتھ) کی ''قدرت الہی'' سے تفسیر کرنے لگے ۔

اشعری نے صفات خبریہ کے اثبات میں ایک طرف تو اصحاب حدیث کے نظریہ کو قبول کرلیا اور دوسری طرف ''بلا تشبیہ'' اور بلاتکلیف'' کی قید کو اس میں اضافہ کردیا ۔ وہ کہتے ہیں : ''یقینا خداوند عالم کے دو ہاتھ ہیں، لیکن خدا کے ہاتھ کی کوئی کیفیت نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے : (بل یداہ مبسوطتان) ، (سورہ مائدہ، آیت ٦٤) ۔

اسی طرح خداوند عالم کے آنکھیں بھی ہیں لیکن ان کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے جیسا کہ فرماتا ہے '' تجری باعیننا ) (سورہ قمر، آیت ١٤) ۔

٢۔ جبر واختیار: اہل حدیث نے قضا و قدر الہی پر اعتقاد رکھنے اور عملی طور پر اس اعتقاد کو انسان کے اختیار کے ساتھ جمع کرنے کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ انسان کے لئے اس کے افعال میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ، اس وجہ سے وہ نظریہ جبر میں گرفتار ہوگئے ۔ یہ بات ابن حنبل کے اعتقاد نامہ میں ذکر شدہ اعتقاد سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ، جب کہ معتزلہ انسان کے اختیاری افعال میں اس کی مطلق آزادی کے قائل ہیں اور قضا و قدر اور خداوند عالم کے ارادہ کے لئے اس طرح کے افعال میں کسی نظریہ کے قائل نہیں ہیں ۔

اشعری کا نظریہ یہ تھا کہ نہ صرف قضا و قدر الہی عام ہے بلکہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی خداوند عالم ایجاد اور خلق کرتا ہے دوسری طرف اس نے کوشش کی کہ انسان کے اختیاری افعال کے لئے کوئی کردار پیش کرے ،انہوں نے اس کردار کو نظریہ کسب کے قالب میں بیان کیا ۔ اشعری کا یہ نظریہ بہت ہی اہم اور پیچیدہ ہے اس لئے ہم اس کو یہاں پر تفصیل سے بیان کرتے ہیں :

''کسب'' ایک قرآنی لفظ ہے اور متعدد آیات میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو انسان کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ بعض متکلمین منجملہ اشعری نے اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے اس کلمہ سے فائدہ اٹھایا ہے انہوں نے کسب کے خاص معنی بیان کرنے کے ضمن میں اس کو اپنے نظریہ جبر و اختیار اور انسان کے اختیاری افعال کی توصیف پر ملاک قرار دیا ہے ، اگر چہ اشعری سے پہلے دوسرے متکلمین نے بھی اس متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے ۔ لیکن اشعری کے بعد ، کسب کا لفظ ان کے نام سے اس طرح متمسک ہوگیا ہے کہ جب بھی کسب یا نظریہ کسب کی طرف اشارہ ہوتا ہے تو بے اختیار اشعری کانام زبان پر آجاتا ہے ۔

ان کے بعد اشعری مسلک کے متکلمین نے اشعری کے بیان کردہ نظریہ سے اختلاف کے ساتھاپنی خاص تفسیر کو بیان کیا ۔ یہاں پر ہم نظریہ کسب کو اشعری کی تفسیر کے ساتھ بیان کریں گے ۔ ان کے نظریہ کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ قدرت کی دو قسمیں ہیں: '' ایک قدرت قدیم'' جو خداوند عالم سے مخصوص ہے اور فعل کے خلق و ایجاد کرنے میں موثر ہے ۔ اور دوسری قسم ''قدرت حادث'' ہے جو فعل کو ایجاد کرنے میں موثر نہیں ہے اور اس کافائدہ یہ ہے کہ صاحب قدرت اپنے اندر آزادی اور اختیار کا احساس کرتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ وہ کسی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ۔

٢۔ انسان کا فعل ، خدا کی مخلوق ہے : اشعری کے لئے یہ ایک قائدہ کلی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور تمام چیز منجملہ انسان کے تمام افعال ، خدا کی مخلوق ہیں ۔ وہ تصریح کرتے ہیں کہ افعال کا حقیقی فاعل ، خدا ہے ۔ کیونکہ خلقت میں صرف قدرت قدیم موثر ہے اور یہ قدرت صرف خدا کے لئے منحصر ہے ۔

٣۔ انسان کا کردار، فعل کو کسب کرنا ہے ۔ خداوند عالم ، انسان کے افعال کوخلق کرتا ہے اور انسان ، خداوند عالم کے خلق کردہ افعال کو حاصل کرتا ہے ۔

٤۔ کسب یعنی خلق فعل کا انسان میں قدرت حادث کے خلق ہونے کے ساتھ مقارن ہونا ۔ اشعری خود لکھتے ہیں : '' میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ اکتساب اور کسب کرنے کے معنی فعل کا قوت حادث کے ساتھ اور ہمزمان واقع ہونا ہے ۔ لہذا فعل کو کسب کرنے والا وہ ہے جس میںفعل قدرت (حادث) کے ساتھ ایجاد ہوا ہو ۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی آدمی راستہ چل رہا ہے یا وہ راستہ چلنے کو کسب کررہا ہے ، یعنی خداوند عالم اس شخص میں راستہ چلنے کو ایجاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر قدرت حادث بھی ایجاد کررہا ہے جس کے ذریعہ انسان یہ احساس کرے کہ وہ اپنے فعل کو اپنے اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔

٥۔ اس نظریہ میںفعل اختیاری اورغیراختیاری میں فرق یہ ہے کہ فعل اختیاری میں چونکہ فعل انجام دیتے وقت انسان میں قدرت حادث ہوتی ہے تو وہ آزادی کا احساس کرتا ہے لیکن غیر اختیاری فعل میں چونکہ اس میںایسی قدرت نہیں ہے وہ جبر اور ضرورت کا احساس کرتا ہے ۔

٦۔ اگر چہ انسان فعل کو کسب کرتا ہے لیکن یہی کسب خدا کی مخلوق بھی ہے ۔ اس بات کی دلیل اشعری کے نظریہ سے بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ اولا : گذشتہ قاعدہ کے مطابق ہر چیز منجملہ کسب ، خدا کی ایجاد کردہ ہے ۔ ثانیا : کسب کے معنی انسان میں حادث قدرت اور فعل کے مقارن ہونے کے ہیں، اور چونکہ فعل اور قدرت حادث کو خداوند عالم خلق کرتا ہے ، لہذا ان دونوں کی مقارنت بھی اسی کی خلق کردہ ہوگی ۔ اشعری نے اس مطلب کی تصریح کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات سے تمسک کیا ہے وہ کہتے ہیں : '' اگر کوئی سوال کرے کہ تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ بندوں کے کسب ، خداکی مخلوق ہے تو ہم اس سے کہیں گے کہ کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے : ( خداوند عالم نے تمہیں اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، خلق کیا ہے ) (سورہ صافات، آیت ٩٦) ۔

٧۔ یہاں پر جو سوال بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسب ،خدا کی مخلوق ہے تو پھر اس کو انسان کی طرف کیوں نسبت دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان کاعمل ہے ۔

اس کے جواب میں اشعری معتقد ہیں کہ مکتسب اور کاسب ہونے کا ملاک ، کسب کرنے کی جگہ ہے نہ کہ کسب کو ایجاد کرنا ۔ مثال کے طور پر جس چیز میں حرکت نے حلول کیا ہے اس کو متحرک کہتے ہیں ، جس نے حرکت کو ایجاد کیا ہے اس کو متحرک نہیں کہتے ۔یہاں پر بھی انسان ،محل کسب ہے اس لئے اس کو مکتسب کہتے ہیں ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم کی سنت اس بات پر برقرار ہے کہ جب انسان سے اختیاری فعل صادرہوتا ہے تو خداوند عالم اسی وقت قدرت حادث کو بھی انسان میں خلق کردیتا ہے اورانسان صرف فعل اور قدرت حادث کی جگہ ہے یعنی فعل اور قدرت حادث کے مقارن ہونے کی جگہ ہے ۔ اس بناء پر اشعری کا نظریہ انسان کے اختیاری فعل سے جبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اگر چہ انہوں نے بہت زیادہ کوشش کی ہے تاکہ وہ انسان کے لئے ہاتھ او رپیر کا کردار ادا کریں لیکن آخر کار وہ اسی راستہ کی طرف گامزن ہوگئے جس پر اکثر اہل حدیث اور جبر کے قائل افراد گامزن ہیں ۔

٣۔ کلام خدا : اہل حدیث معتقد ہیں کہ خداوندعالم کا کلام وہی اصوات اور حروف ہیں جو قائم بذات خدا اور قدیم ہیں ۔

انہوں نے اس موضوع میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی جلد اور قرآن کے کاغذ کو بھی قدیم سمجھ لیا ۔

معتزلہ بھی کلام خدا کو اصوات اور حروف سمجھتے ہیں لیکن ان کو قائم بذات خدا نہیں سمجھتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اپنے کلام کو لوح محفوظ یا جبرئیل، یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں خلق کرتا ہے اور اس وجہ سے خدا کا کلام حادث ہے ۔

اشعری نے میانہ راستہ اختیار کرنے کے لئے کلام کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : پہلی قسم وہی لفظی کلام ہے جو حروف اور اصوات میں تشکیل پاتا ہے ،اس متعلق انہوں نے معتزلہ کی بات کو قبول کرتے ہوئے کلام لفظی کو حادث شمار کیا ہے ، لیکن دوسری قسم کلام نفسی ہے اس قسم میں اہل حدیث کی طرح کلام خدا کو قائم بذات اور قدیم شمار کیا ہے ۔ حقیقی کلام وہی کلام نفسی ہے جو قائم بنفس ہے اور الفاظ کے ذریعہ بیان ہوتا ہے ، کلام نفسی واحد اور نامعتبر ہے ۔ جب کہ کلام لفظی تغییر و تبدیل کے قابل ہے ، کلام نفسی کو مختلف عبارات کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے ۔

٤۔ رئویت خدا : اہل حدیث کا ایک گروہ جو مشبھہ حشویہ کے نام سے مشہور ہے ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن معتزلہ ہر طرح کی رئویت خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ اشعری نے اس متعلق درمیانہ راستہ اختیار کیا تاکہ افراط و تفریط سے محفوظ رہے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا وندعالم دیکھا ئی دیتا ہے لیکن خدا کو دوسرے اجسام کی طرح نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظر میں رئویت خدا ، مخلوقات سے مشابہ نہیں ہے ۔ اس متعلق ایک شارح نے لکھا ہے : '' اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کے جسم نہیں ہے اور وہ کسی سمت میںنہیں ہے اس بناء پر اس کے چہرہ اور حدقہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس کے باجود وہ چودہویں رات کے چاند کی طرح اپنے بندوں پر ظاہر ہوسکتا ہے اور دکھائی دے سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے '' ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ '' ہماری دلیل عقل بھی ہے او رنقل بھی ہے لیکن اس مسئلہ میں اصل نقل ہے''۔

اشاعرہ کی دلیل عقلی جو دلیل الوجود کے نام سے مشہور ہے یہ ہے کہ جو چیز بھی موجود ہے وہ دکھائی دے گی مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کسی وجود کا ہونا اس کے رئویت کا تقاضاکرتا ہے اس بناء پر چونکہ خداوند عالم موجود ہے اور اس کے دکھائی دینے کا لازمہ امر محال نہیں ہے پس رئویت خدا ، عقلا ممکن ہے ۔

٥۔ حسن و قبح افعال : معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ افعال میں حسن و قبح ذاتی پایا جاتا ہے اور عقل بھی( کم سے کم بعض موارد میں)اس کے حسن وقبح کو جاننے پر قادر ہے ، بلکہ اصولی طور پر تو یہ افعال کے حسن و قبح واقعی سے انکار کرتے ہیں ۔ کتاب شرح مواقف کے مصنف اس متعلق لکھتے ہیں : '' ہمارے ( یعنی اشاعرہ کے)نزدیک قبیح یہ ہے کہ نہی تحریمی یا تنزیہی واقع ہو اور حسن یہ ہے کہ اس سے نہی نہ ہوئی ہو ،جیسے واجب ، مستحب اور مباح ۔ اور خداوندعالم کے افعال حسن ہیں '' اسی طرح نزاع کی توضیح او ربیان کے وقت حسن و قبح کے تین معنی کرتے ہیں :

١۔ کمال و نقض : جس وقت کہا جاتا ہے : '' علم ، حسن ہے'' اور'' جہل، قبیح ہے'' تو حسن و قبح کے یہی معنی مراد ہوتے ہیں ، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حسن و قبح کے یہ معنی صفات فی نفسہ میںثابت ہیں اور عقل اس کو درک کرتی ہے اور شرع سے اس کا کوئی ارتباط نہیں ہے ۔

٢۔ غرض سے ملایم و منافر ہونا : اس معنی میں جو بھی غرض اور مراد سے موافق ہے وہ حسن ہے اور جو بھی مخالف ہو وہ قبیح ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔ ان دو معنوں کو کبھی ''مصلحت '' اور کبھی ''مفسدہ '' سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس معنی میں بھی حسن و قبح عقلی امر ہیں اور اغراض و اعتبارات کی وجہ سے بدل جاتے ہیں ، مثلا کسی کا قتل ہوجانا اس کے دشمنوں کے لئے مصلحت ہے اور ان کے ہدف کے موافق ہے لیکن اس کے دوستوں کے لحاظ سے مفسدہ ہے اس بناء پر اس معنی میں حسن و قبح کے معنی اضافی اور نسبی ہیں ، حقیقی نہیں ہیں ۔

٣۔ استحقاق مدح : متکلمین کے درمیان جس معنی میں اختلاف ہوا ہے وہ یہی تیسرے معنی ہیں ، اشاعرہ حسن و قبح کو شرعی سمجھتے ہیں ، کیونکہ اس لحاظ سے تمام افعال مادی ہیں اور کوئی بھی فعل خود بخود مدح و ذم یا ثواب و عقاب کا اقتضاء نہیں کرتا ہے اور صرف شارع کی امر و نہی کی وجہ سے ایسی خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے ، لیکن معتزلہ کے نظریات کے مطابق یہ معنی بھی عقلی ہیں ، کیونکہ فعل خود بخود ، شرع سے چشم پوشی کرتے ہوئے یا حسن ہیں جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل مدح اور ثواب کا مستحق ہے ، یا قبیح ہے جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل عقاب اور برائی کامستحق ہے ۔

٦۔ تکلیف ما لا یطاق : تکلیف ما لا یطاق کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم اپنے بندہ کو ایسے فعل کی تکلیف دے جس کو انجام دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو ایسی تکلیف دینا جائز ہے؟ اور اس کے ترک کرنے پر عقاب کرنا جائز ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ اس مسئلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے مسئلہ حسن و قبح کی طرف مراجعہ کرنا پڑے گا ، معتزلہ چونکہ حسن وقبح کو عقلی سمجھتے ہیں لہذا وہ اس طرح کی تکلیف کو قبیح اور محال سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے ایسی تکلیف کے صادر ہونے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ لیکن اشاعرہ چونکہ حسن وقبح کے عقلی ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے اور کسی چیز کو خداپرواجب نہیں سمجھتے ہیں اس لئے ان کا نظریہ ہے کہ خداوند عالم ہر کام منجملہ تکلیف ما لا یطاق کو بھی انجام دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے جو عمل بھی صادر ہو وہ عمل نیک ہے ۔

مذہب اشعری کا استمرار

ابوالحسن اشعری کے مذہب کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ شروع میں علمائے اہل سنت نے ان کے نظریات کو قبول نہیں کیا اور ہر جگہ ان کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی ، لیکن عملی طورپر ان مخالفتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور مذہب اشعری آہستہ آہستہ اہل سنت کی فکروں پر غالب آتا گیا ، ابوالحسن اشعری کے بعد سب سے پہلی شخصیت جس نے اس مذہب کو آگے بڑھا یا وہ ابوبکر باقلانی (متوفی ٤٠٣ ھ) ہے ، انہوں نے ابوالحسن اشعری کے نظریات کو جو کہ دو کتابوں ''الابانہ و اللمع'' میں اجمالی طور سے موجود تھے، ان کی اچھی طرح شرح کی اور ان کو ایک کلامی نظام کی شکل میں پیش کیا ۔

لیکن اشعری مذہب کو سب سے زیادہ امام الحرمین جوینی (متوفی ٤٧٨ھ) نے وسعت بخشی ۔ خواجہ نظام الملک نے بغداد کا مدرسہ نظامیہ تاسیس کرنے کے بعد (٤٥٩ھ)میں جوینی کو تدریس کے لئے وہاں بلایا ۔ جوینی نے تقریبا تیس سال تک اشعری مذہب کی ترویج کی اور چونکہ یہ شیخ الاسلام اور مکہ و مدینہ کے امام تھے اس لئے ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ جوینی کے آثار کے ذریعہ اشعری مذہب بہت زیادہ پھیلا، یہاں تک کہ اہل سنت معاشرہ میں ان کے کلام کو ترجیح دی جانے لگی۔

جوینی نے اشعری کے نظریات کو عقلی اوراستدلالی رنگ دیا اور امام فخر رازی (متوفی ٦٠٦ھ) نے اشعری مذہب کو عملی طور پر فلسفی رنگ دیا ۔ امام فخر رازی نے اشعری کے مذہب سے دفاع اور ان کے مذہب کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ابن سینا کے فلسفی نظریات پر انتقاد کیا ۔ دوسری طرف امام محمد غزالی (متوفی ٥٠٥ھ) جو کہ جوینی کے شاگرد تھے، نے تصوف کو اختیار کرلیا اور اشعری کے نظریات کی عرفانی تفسیر پیش کی ۔ انہوں نے ایک اہم کتاب احیاء العلوم لکھ کر تصوف اور اہل سنت کے درمیان ایک ارتباط برقرار کردیا ۔

Read 5336 times