باہمی شناخت کی ضرورت
(وَجَعَلْناکُمْ شُعُوْباًوَقَبائِلَ لِتَعارَفُوْا)(١)اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی ، جس نے (اس وقت ) عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ،اور اسلام سے وابستہ گروہوں کو ہر ظالم و جابر سے بچالیا ،اور ان کی پشت و پناہی کی ،جس کی بناپر یہ امت تمام اقوام عالم میں محترم قرارپائی ،اور سرکش جباروں کی نگاہوں میں رعب و دبدبہ اور ہیبت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ لیکن یہ سب چیزیں نہیں وجود میں آئیں مگر امت مسلمہ کے درمیان آپس کا اتحادو وحدت اور تمام گروہوں کاباہمی ارتباط رکھنے کی بنا پر ،جوکہ د ین اسلام کے سایہ میں حاصل ہواتھا ،حالانکہ ان سب کی شہریت ، رائے ، ثقافت، پہچان ، اور تقلید الگ الگ تھی ، البتہ اصول و اساس ، فرائض و واجبات میں اتفاق و اتحاد کافی حد تک موجود تھا، یقیناً وحدت قوت، اور اختلاف کمزوری ہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ باہمی جان پہچان اور آپسی میل جول کی جگہ اختلافات نے لے لی ، اور تفاہم کی جگہ ایک دوسرے سے منافرت آگئی ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کفر کے فتوے دینے لگا ، اس طرح فاصلے پر فاصلے بڑھتے گئے، جس کی وجہ سے جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی رخصت ہوگئی ،اور مسلمانوں کی ساری شان و شوکت ختم ہوگئی اور سارا رعب و دبدبہ جاتا رہا ، اورحالت یہ ہوئی کہ قیادت کی علمبردار قوم سرکشوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانے پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی نشو و نما کے دہانوں میں لومڑی اور بھیڑئے صفت افراد قابض ہوگئے ،یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کے اندر تمام عالم کی برائیاں،ملعون اشخاص اور نوع بشرکے مبغوض ترین افراد گھس آئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارا مال ومنال لوٹ لیا گیا ،اور ان کے مقدسات کی توہین ہونے لگی ، اور ان کی عزتیں فاسقوں و فاجروںکی مرہون منت ہوگئیں ،اور تنزلی کے بعد تنزلی ، انحطاط کے بعد انحطاط ، اور شکست کے بعد شکست ہونے لگی، کہیں اندلس میں شکست فاش، کہیں بخارا، سمر قند، تاشقند ،بغداد ، ماضی اور حال میں ، اور فلسطین اور افغانستان میں ہار پہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور حال یہ ہوگیا کہ لوگ مدد کیلئے بلاتے تھے لیکن کوئی جواب دینے والا نہ تھا ، فریاد کرنے والے تھے مگر کوئی فریاد رس نہ تھا ۔ ایسا کیوں ہوا ، اس لئے کہ مرض کچھ اور تھا اور ا س کی دوا اور ، اﷲ نے تمام امور کی باگ ڈور ان کے ظاہری اسباب پر چھوڑ رکھی ہے ،کیا اس امت کی اصلاح اس چیز کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس سے ابتداء میں ہوئی تھی؟ آج امت اسلام اپنے خلاف کئے جانے والے سماجی ، عقیدتی اوروحدت کے مخالف شدید اور سخت ترین حملہ سے جوجھ رہی ہے ، مذہبی میدانوں میں اندر سے اختلاف کیا جارہا ہے ، اجتہادی چیزوں کو اختلافی چیز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اور یہ حملہ ایسا ہے کہ اس کا ثمرہ اور اس کے ( برے ) نتائج ظاہر ہونے ہی والے ہیں ،کیا ایسے موقع پر ہم لوگوں کے لئے سزاوار نہیںکہ اپنی وحدت کی صفوں کومتصل رکھیں، اور آپسی تعلقات کو محکم اُستوار کریں ؟ ہم مانتے ہیں کہ اگر چہ ہمارے بعض مذہبی رسومات جدا جدا ہیں مگر ہمارے درمیان بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو مشترک ہیں جیسے کتاب و سنت جو کہ ہمارا مرکز اور سر چشمہ ہیں وہ مشترک ہیں ، توحید و نبوت ، آخرت پر سب کا ایمان ہے، نماز و روزہ ، حج و زکاة ، جہاد ،اور حلال و حرام یہ سب حکم شریعت ہیں جو سب کیلئے مشترک ہیں ، نبی اکرمۖ اور ان کی آل سے محبت ، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا ہمارے مشترکات میںسے ہیں ، البتہ اس میں کمی یا زیادتی ضرور پائی جاتی ہے ، کوئی زیادہ محبت و دشمنی کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی کم ، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک ہاتھ کی تمام انگلیاں آخر میں ایک ہی جگہ( جوڑ سے) جاکرملتی ہیں ،حالانکہ یہ طول و عرض اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یا اس کی مثال ایک جسم جیسیہے ، جس کے اعضاء و جوارح مختلف ہوتے ہوئے ہیں، مگر بشری فطرت کے مطابق جسمانی پیکر کے اندر ان میںہر ایک کا کردار جدا جدا ہوتا ہے اور ان کی شکلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ ایک ہی جسم کہلاتا ہے۔ چنانچہ بعید نہیں کہ امت اسلامیہ کی تشبیہ جو ''ید ِواحد''اور ایک بدن سے دی گئی ہے اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ سابق میں مختلف اسلامی فرقوںا ور مذاہب کے علماء ایک دوسرے کیساتھ بغیر کسی اختلاف وتنازعہ کے زندگی گزارتے تھے ، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مددکیا کرتے تھے ، حتی بعض نے ایک دوسرے کی کلامییا فقہی کتابوں کے شرح تک کی ہے، اور ایک دوسرے سے شرف تلمذ حاصل کیا ،یہاں تک کہ بعض تو دوسرے کی تکریم کی بناپر بلند ہوئے، اور ایک دوسرے کی رائے کی تائید کرتے ، بعض بعض کو اجازۂ روایت دیتے ، یا ایک دوسرے سے اجازۂ نقل روایت لیتے تھے تاکہ ان کے فرقے اور مذہب کی کتابوں سے روایت نقل کرسکیں ، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ،اور انھیں امام بناتے ، دوسرے کو زکاة دیتے، ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے تھے ، خلاصہ یہ کہ تمام گروہ بڑے پیار ومحبت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے زندگی گزارتے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ، جبکہ ان کے درمیان تنقیدیں اور اعتراضات بھی ہوتے تھے لیکن یہ تنقیدیں مہذب اور مؤدب انداز میں کسی علمی موضوعی رد ہوتی تھی ۔ اس کے لئے زندہ اور تاریخی دلیلیں موجود ہیں ،جو اس عمیق اور وسیع تعاون پر دلالت کرتی ہیں ، مسلم علماء نے اسی تعاون کے ذریعہ اسلامی ثقافت اور میراث کو سیراب کیا ہے،انھیں چیزوںکے ذریعہ مذہبی آزادی کے میدان میں انھوں نے تعجب آور مثالیں قائم کی ہیں بلکہ وہ اسی تعاون کے ذریعہ دنیا میں قابل احترام قرار پائے ہیں ۔ یہ مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ علمائے امت مسلمہ ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں ، اور صلح و صفائی سے کسی مسئلے میں بحث و مباحثہ نہ کرسکیں ، اور کسی اختلافی مسئلے میں اخلاص و صدق نیت کے ساتھ غور و خوض نہ کرسکیں، نیز ہر گروہ کی دلیلوں اور براہین کو نہ پہچان سکیں۔ جیسے یہ بات کتنی معقول اورحسین ہے کہ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہی و فکری موقف کو آزادانہ طور پر اور واضح فضا میں پیش کرے ، تاکہ ان کے خلاف جو اتہام، اعتراض خصومت اور بیجا جوش میں آنے کا جو امورسبب بنتے ہیں وہ واضح اور روشن ہوجائیں،اوراس بات کو سبھی جان لیں کہ ہمارے درمیان مشترک ،اور اختلافی مسائل کیا ہیں تاکہ اس سے لو گ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی چیزیں زیادہ ہیں جن پر سب کااتفاق ہے، اور ان کے مقابلہ میں اختلافی چیزیں کم ہیں ، اس سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کے فاصلے کم ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک آجائیں گے ۔ یہ رسالہ اسی راستہ کا ایک قدم ہے ، تاکہ حقیقت روشن ہو جائے ، اور اس کو سب لوگ اچھی طرح پہچان لیں ،بیشک اﷲ توفیق دینے والا ہے ۔ (١)سورہ حجرات١٣. |