دوسری ہجری قمری کے آغاز میں واصل بن عطاء(80 -131 ) نے مذھب اعتزال کی بنیاد رکھی اس زمانے میں ارتکاب گناہ کبیرہ اور اس کے بارے میں حکم دنیوی اور اخروی کا مسئلہ مورد بحث تھا خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے والوں کو کافر اور حسن بصری نے منافق قرار دیاتھا
جبکہ مرجئہ انہیں بدستورمومن سمجھتے تھے اس درمیان واصل بن عطاء نے جو حسن بصری کے شاگرد تھے ایک نیا نظریہ اپنایا وہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافر ،اس نطریے کی منزلۃ بین المنزلتین کے عنوان سے شہرت ہوئي اور واصل بن عطا نے اس نظریے کے اعلان کے بعد اپنے استاد حسن بصری کے درس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس کی وجہ سے ان کے پیرو معتزلہ کے طور پر پہچانے جانے لگے ۔
معتزلہ تاریخ کے نشیب و فراز میں
امویوں کے دور میں حکام عقیدہ جبر کی حمایت کرتے تھے اور چونکہ معتزلہ آزادی و ارادہ میں قدریہ کے نظریات کے حامل تھے لھذا انہوں نے نرم رویہ اپنایا لیکن امویوں کے زوال کے بعد اپنے عقائد کی ترویج کرنی شروع کی ،معتزلہ کے بانی واصل بن عطاء نے اپنے شاگردوں جیسے عبداللہ بن حارث کو مراکش اور حفص بن سالم کو خراسان کی طرف روانہ کیا ،امویوں کے بعد عمروبن عبید نے جو اعتزال کے دیگر بانیوں میں شمارہوتے ہیں اور منصور کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان سے اور دیگر معتزلہ علماءسے حکام وقت نے زنادقہ اور ان کی الحادی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا البتہ یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت کہ واصل بن عطاء نفس زکیہ کے قیام کی حمایت کی بناپر حکومت کے عتاب کاشکار ہوگۓ تھے اسی زمانے میں فلسفی کتب کاعربی میں ترجمہ ہوا اور اعتزالی متکلمین فلسفی نظریات سے آشنا ہوۓ تدریجا معتزلہ کے اوج کا زمانہ شروع ہوا اور ان کے آراء و عقاید حکومت کی حمایت سے رواج پانے لگۓ یا بالفاظ دیگر اعتزال حکومت کا سرکاری مذھب قرارپایا اور ان امربمعروف و نہی ازمنکر کے بارے میں ان کے عقائد کے مطابق ان کے مخالفین (اہل حدیث و حنابلہ ) کے خلاف سخت رویہ اپنایاگیا۔
سختیوں کا زمانہ (مخانفین معتزلہ کے لۓ)
مامون سے واثق باللہ کے زمانے میں معتزلہ متکلمین نے حکومت میں اثر و رسوخ پیداکرکے اپنے نظریات مسلط کرنے شروع کردۓ اور یہ کا شدت پسندی کا رخ اختیارکرگيااسی دور کو تفتیش عقائد کادور کہا جاتاہے مامون نے 218 ہجری قمری میں بغداد میں اپنے کارندے کو حکم دیا کہ عوام کو مسئلہ خلق قرآن سے آشناکریں اور جو بھی اس نظریے کو قبول نہ کرے اسے سزادی جاے ،مامون کی موت کے بعد واثق نے بھی انہی انتہا پسندانہ پالیسوں کو جاری رکھا اور نظریہ خلق قرآن کے مخالفین کو اذیت و آزار پہنچاتا رہا یہی تشد پسند طریقے آیندہ چل کر معتزلہ کے سقوط کا باعث بنے۔
معتزلہ کے عقائد
الف:الھیات، اصول مذھب معتزلہ
1- توحید : معتزلہ نے توحید و نفی صفات زائد از ذات احدیت کے مسائل میں اپنے نظریات کی بناپر خود کو موحدہ کہتے تھے ان کے یہ نظریات صفاتیہ اور مجسمہ کے مقابل ہیں یہ دو گروہ صفات ثبوتیہ کو جن میں جسمانی پہلو کا شائبہ ہوتا ظاہری معنی میں لیتے ہیں لیکن معتزلہ اس مسئلہ میں تاویل کے قائل ہیں جو قدم ذات ،نفی صفات زائد بر ذات اور نفی رویت و نفی شریک کا مستلزم ہے ۔
2- عدل :معتزلہ کو عدلیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے انسان کے لۓ اختیار و تفویض کا اثبات کیا جو مجبرہ کے مقابل ہے ،اس اصل کے تحت خلق افعال انسان ،ذات خدا سے ظلم کی نفی ،مسئلہ تولد ،عوض ،تکلیف،لطف،مسئلہ حسن وقبح عقلی وغیرہ آتے ہیں ۔
3 -وعد و وعید
خدا کا عادل ہونا اس بات کا متقاضی ہےکہ اس پر واجب ہےکہ آخرت میں نیک اعمال انجام دینے والوں کو جزا دے اور برے کام کرنے والوں کو سزادے اس اصل کے تحت جہنم میں کافروں کا خلود ،مسئلہ شفاعت ،اور توبہ و غیرہ شامل ہیں ۔
4 -المنزلۃ بین المنزلتین :معتزلہ کاخیال ہےکہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافربلکہ ان مقاموں کے درمیان مقام میں ہے جس کو المنزلۃ بین المنزلتین سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
5- امربمعروف ونہی اومنکر:معتزلہ اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ابو علی جبانی نے اوروے عقل اور ابوہاشم نے ازروے نقل اسے واجب قراردیا ہے ،ان کے نزدیک امربالمعروف اور نہی ازمنکر کے مراتب کراھت قلبی سے لیکر طاقت کے استعمال تک ہیں ۔
ب:طبیعیات ۔معتزلہ کے نزدیک جسم ذات لایتجزا سے مرکب ہے ،بو ہوامیں معلق ذرات سے عبارت ہے اور نورایسے ذرات سے مرکب ہے جو ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور اجسام کا تداخل ایک دوسرے میں محال نہیں ہے ۔
طبقات و مشاہیر
معتزلہ بغداد و بصرہ کے دو اہم گروہوں میں تقسیم ہونے کے علاوہ بیس گروہوں میں منقسم ہیں اوران کے درمیان پانچ مذکورہ اصولوں کے علاوہ اکثر مسآئل میں اختلافات پاے جاتے ہیں ان فرقوں میں واصلیہ ،ھذیلیہ ،نظامیہ ،بشریہ ،کعبیہ ،ھشامیہ،جبانیہ ،جاحظیہ ،معمریہ ،خیاطیہ،مرداریہ ہیں ۔
تیسری صدی ہجری مین معتزلہ کے بزرگوں میں ابوھاشم (و321 )ابوالقاسم کعبی 317 جاحظ پیدائیش 225 ھ ق صاحب کتاب البیان والتبیین و کتاب البخلاء ،نظام وفات 231 ھ ق ،صاحب الرد علی الثنویہ ،چوتھی صدی ہجری میں ابوبکر احمد بن علی الاخشیدی ،پانچوین صدی ہجری میں قاضی عبدالجبار صاحب کتب شرح الاصول الخمسہ ،المغنی والمحیط بالتکلیف ،چھٹی صدی ہجری میں معتزلہ کے معروف متکلمین میں زمخشری صاحب کشاف ہیں اور ساتویں صدی ہجری میں معتزلہ کے متکلمین میں نہج البلاغہ کے معروف شارح ابن ابی الحدید کانام لیا جاسکتا ہے اور بیسویں صدی میں معتزلہ کے پیرووں میں شیخ محمد عبدہ قابل ذکر ہیں ۔
ماخذ
فرھنگ عقائد و مذاھب اسلامی ۔ آيت اللہ جعفر سبحانی
تاریخ معتزلہ محمد جعفر لنگرودی
ملل ونحل شہرستانی
تاریخ مذاھب اسلامی محمد ابوزہرہ ۔ترجمہ علی رضا ایمانی۔