امت مسلمہ کی کشتی نجات

Rate this item
(0 votes)
امت مسلمہ کی کشتی نجات

امام خمینی (رح) کی نگاہ میں ایک اہم اور بنیادی موضوع طالب علم اور یونیورسٹی ہے۔ موضوعِ طالب علم امام خمینی (رح) کی گفتگو میں کافی نمایاں رہا ہے اور اس سلسلہ میں آپ (رح) نے بہت زیادہ تاکید کی ہے: امام (رح) فرماتے ہیں:

ملک کی تقدیر میں طالب علم کا کردار

طالب علم قوم کے خزانے ہیں، ہمارے ملک کی آئندہ تقدیر موجودہ طالب علموں کے ہاتھ میں ہے یعنی ملک کے مختلف پہلو طالب علموں کے ہاتھوں میں ہیں اور ملکی سعادت کی چابی استاد اور طالب علم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ استاد ہی ہے جسے مختلف نوجوانوں کو تربیت کرنا چاہئے اور پھر نوجوان و طالب علم ہیں جنہیں ملک چلانا ہے اس بنا پر دنیا میں ہر ملک کی باگ ڈور استاد اور طالب علموں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

انبیاء کے راستہ کو دوام بخشنا

اے نوجوانو اور طالب علمو تم اس ملک کی امید ہو اس راستہ کو جاری رکھتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہونچانا ہے، اس تحریک میں بہت جانفشانی کی گئی ہے لہذا اسے جاری رکھنا پڑے گا، یہ سیدھا راستہ جسے انبیاء نے انسانوں تک پہونچایا ہے اور سب سے اشرف و اعلی آخری نبی حضرت محمدؐ نے بھی اسی راستہ کو دوام بخشا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی جانب دعوت دیتے ہوئے انہیں ہدایت دی انبیاء نے انسانیت کو تمام قسم کے کفر و شرک اور ظلمات سے نکال کر نور مطلق کی جانب ہدایت کی، لہذا اے نوجوانو تمہیں اسی راستہ کو دوام بخشنا ہے تا کہ رسول اکرمؐ اور حضرت صادقؑ کے مذہب کے حقیقی پیروکار بن جاؤ۔

امت مسلمہ کی کشتی نجات

طول تاریخ میں ذمہ دار نوجوان اور بالخصوص موجودہ اور آئندہ نسل میں مسلمان طالب علم، اسلام اور اسلامی ممالک کی امید ہیں۔ یہی طالب علم و نوجوان ہیں جو اپنی ذمہ داری، ارادہ،استقامت اور پائداری کے ذریعہ اپنے ملک اور امت مسلمہ کی کشتی نجات بن سکتے ہیں، قومی ترقی، آزادی اور استقلال انہی عزیزوں کی زحمات کی مرہون منت ہے۔ استعمار اور استعماری طاقتوں کا نشانہ یہی عزیز ہیں اور سب انہیں شکار کرنا چاہتے ہیں اور ان کے شکار کے نتیجہ میں تمام ممالک اور قومیں کمزوری کا شکار بنتے ہوئے برباد ہوجاتی ہیں۔

طالب علم قوموں کی اصلاح یا بربادی کا سرچشمہ

یونیورسٹی کے عزیز جوانوں کو یونیورسٹی کے مسائل پہ توجہ رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ ایک قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور یونیورسٹی کے ذریعہ ہی ایک قوم برباد ہوتی ہے یہ یونیورسٹی ہی کی تربیت ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان کس جانب حرکت کریں مغرب کی طرف جائیں یا مشرق کی طرف۔ یا مغرب کا غلبہ آجائے یا مشرق کا۔ مغربی کلچر ہماری سب چیزیں ہم سے چھیننے کی کوشش میں ہے اور وہ ہماری قوم کو بربادی کی جانب لے جا رہا ہے۔ نوجوانوں و طالب علموں کو یونیورسٹیز میں اپنے ایمان کو تقویت پہونچانا چاہئے۔ ایسا ایمان جو انہیں شرافت سے لبریز کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بارگاہِ خدا میں بھی صاحب عزت بنو گے۔

اسلام کا دفاع

تمام مسلمانوں اور بالخصوص علماء کرام اور یونیورسٹیز کے عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ اسلام اور اس کے حیاتبخش احکامات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کا دفاع کریں کیونکہ اسلامی احکامات استقلال، آزادی کے ضامن ہیں۔ لہذا فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان سے مستفید ہوں یونیورسٹیز میں موجودہ طلاب کو اپنی باتیں بیان کرنا اور تحریر کرنا چاہئے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر تمام انسانی معاشروں تک پہونچانا چاہئے۔

یونیورسٹیز میں پرچم اسلام کو بلند کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، مذہبی تبلیغ کرنا چاہئے، مسجدوں کی تعمیر کریں اور با جماعت نماز ادا کرنا چاہئے۔ مذہبی اتحاد ضروری ہے اسی مذہبی اتحاد کے نتیجہ میں عظیم الشان اتحاد قائم ہوتا ہے لہذا اگر ایرانی آزادی چاہئے تو مذہبی اتحاد قائم کرو۔

منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کریں

آج ہمارا ملک آزاد ہوچکا ہے مغرب و مشرق کے قید سے ہم آزاد ہو چکے ہیں ملک اور یونیورسٹیز بھی آزاد ہیں لہذا یونیورسٹیز کے جوانوں کو زیادہ سے زیادہ ملکی ترقی کی خاطر علوم و فنون حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کرنا چاہئے اور انہیں ہرگز یونیورسٹیز کے مقدس ماحول کو منحرف و استعمار سے وابستہ افراد کے منفی پروپگنڈوں سے آلودہ ہونے سے بچانا چاہئے

اسلام ترقی کا خواہاں ہے، اسلام ان تمام ادیان میں سرفہرست ہے جنہوں نے تعلیم  و ترقی کی تعریف کی ہے اور لوگوں کو بھی دعوت دی ہے، اس نے دعوت دی ہے کہ علم جہاں بھی ہو اسے حاصل کرو حتی اگر کافر سے حاصل کرنا پڑے البتہ اسے اسلام اور ملک کی خدمت میں لگانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو علم و تعلیم حاصک کرو اور اسے اپنے ملک کے خلاف استعمال کرو۔

تعلیم زندگی کی آخری سانسوں تک

انسان اپنی عمر کی آخری سانسوں تک تعلیم، تربیت اور پرورش کا محتاج ہے، کوئی انسان ایسا نہیں جو تعلیم، تربیت اور پرورش سے مستغنی ہو جیسا کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہماری تعلیم کا وقت گزر چکا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ تعلیم کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ تعلیم و تربیت کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ گہوارہ سے لے کر قبر تک تعلیم حاصل کرو اگر انسان جان کنی کے عالم میں بھی ایک کلمہ سیکھ لے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ جاہل اس دنیا سے جائے۔

حکومت اسلامی کا استقبال

یونیورسٹیز کے طلاب بہت ہوشیار ہوتے ہیں تمہیں مطمئن ہونا چاہئے کہ اگر اسلامی حکومت اور اسلامی مذہب کو حقیقی طور پر ان کے سامنے پیش کرو گے اور اسے انہیں متعارف کراؤ گے تو یقیناً وہ اس کا استقبال کریں گے، یونیورسٹیز کے طلاب ظلم و استبداد کے مخالف ہیں وہ لوگوں کے عمومی اموال کی غارتگری کے مخالف ہیں، حرام خوری اور جھوٹ کے مخالف ہیں جس اسلام میں اجتماعی حکومت اور تعلیم و تربیت پائی جاتی ہے اس اسلام کا نہ کوئی طالب علم مخالف ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی۔

تعلیم یافتہ بالخصوص یونیورسٹی کے طلاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہوشیاری کے ساتھ اسلام اور اپنے ملک کی خدمت کریں اور تمام قسم کے حالات و ماحول کو مد نظر رکھیں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے ادارے انہی مسائل کی جانب گامزن نہ ہو جائیں جن میں وہ پہلے مبتلا تھے۔

حوالہ: hawzeh.net                  

Read 734 times