ہفتہ حکومت کی مناسبت سے چودہویں حکومت سے پہلی ملاقات میں خطاب

Rate this item
(0 votes)
ہفتہ حکومت کی مناسبت سے چودہویں حکومت سے پہلی ملاقات میں خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

سب سے پہلے تو اربعین کے ان ایام کو دل کی گہرائی سے اور اپنے پورے وجود سے تعظیم پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی کے لطف و کرم کی مدد لیتے ہوئے عوام کی اربعین سے متعلق سرگرمیوں پر شکر ادا کرتا ہوں۔

آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ ہفتہ آپ کے ٹرم کے برسوں کے لئے امید و نوید اور مسرور کن رپورٹوں کا ہفتہ ثابت ہو۔

عزیز شہیدوں، شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ جن دو بزرگواروں کے نام سے ہفتہ حکومت منسوب ہے اور اس عنوان کے انتخاب کا خاص رمز ہے۔ رمز یہ ہے کہ حکومت شہیدوں اور  راہ شہدا سے عقیدت رکھنے والی ہو اور بحمد اللہ کم و بیش ایسا ہی رہا ہے۔

اپنے عزیز شہید، صدر جمہوریہ مرحوم جناب رئیسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے لئے یہ ممتاز نام جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کیا دائمی و پائيدار بنا دینے کی اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات اور ان کے مرحوم ساتھیوں منجملہ ان کے وزیر خارجہ (2) کے درجات بلند فرمائے اور دوام عطا کرے۔

ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ صدر محترم کی محنت سے اور پارلیمنٹ کے گراں قدر تعاون کے نتیجے میں کابینہ تشکیل پا گئی۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ بعض گزشتہ حکومتوں میں بعض اوقات تقریبا ایک مہینہ یا اس سے زیادہ وقت لگ جاتا تھا حکومت تشکیل پانے میں اور سارے وزرا کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ نہیں مل پاتا تھا۔ اللہ نے آپ پر، ہم پر اور ملک پر یہ لطف کیا کہ بحمد اللہ سارے وزرا پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیکر باہر نکلے۔ اس تلخ اور غم انگیز واقعے کے بعد جو لوگ ان انتخابات میں اور اس حکومت کی تشکیل میں موثر رہے سب کو بارگاہ خداوندی سے اجر ملے گا، گزشتہ حکومت کے افراد، قومی نشریاتی ادارہ، دوسرے مختلف عہدیداران جنہوں نے مدد کی کہ اس تلخ اور اندوہناک واقعے کے بعد قوم جوش و خروش کے ساتھ انتخابات میں شامل ہو۔ صدارتی انتخابات بھرپور امن و سلامتی کے ماحول میں ہوئے۔ اس کے بعد وزرا کا انتخاب ہوا۔ واقعی ان سب کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی کا بھی ہم واقعی دل سے شکر بجا لاتے ہیں۔ میں چند نکات عرض کروں گا۔ تشکر کے چند کلمات بھی بعد میں عرض کروں گا۔

صدر مملکت بھی ان وزرا کے انتخاب میں جو ان کے ساتھ کام کریں گے، تعاون کریں گے، بڑی محنت اور تندہی سے لگ گئے۔ مجھ سے بھی صلاح مشورہ کیا۔ میں نے کچھ افراد کی تایید کی جنہیں میں جانتا تھا یا قابل اعتماد ذرائع سے جن کے بارے میں مجھے وثوق حاصل ہوا تھا۔ کچھ ناموں پر میں نے تاکید بھی کی۔ زیادہ تعداد ان کی تھی جنہیں میں نہیں پہچانتا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے بارے میں میں کوئی رائے نہیں دوں گا۔ الحمد للہ جناب انتخاب کا کام انجام دینے میں کامیاب رہے اور پارلیمنٹ کو بھی مطمئن کر لے گئے۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

آج یہ سارے محترم وزرا اور آپ عزیز بھائی اور بہن جنہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے، اس ملک کے اعلی رتبہ عہدیداران ہیں۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ آپ کی حمایت کریں، آپ کی مدد کریں، اگر مدد کی ضرورت ہو تو، کوشش کریں کہ ان شاء اللہ آپ اپنے پروگراموں کی انجام دہی میں کامیاب ہوں۔

میں نے چند نکات نوٹ کیے ہیں وہ عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ شکر خدا ہے۔ آپ آج ایسے مقام پر ہیں کہ ملک کی پیشرفت میں اور ملکی امور چلانے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وزارت ایسی پوزیشن آپ کو دیتی ہے۔ یہ اللہ کی نعمت ہے۔ یہ چیز کہ انسان عوام کی خدمت کر سکے، بہت بڑی نعمت ہے۔ بہت سے افراد ہیں جو خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں موقع نہیں ملتا۔ اللہ نے آپ کو یہ موقع دیا ہے۔ اللہ کا شکر بجا لائيے، اس کی قدردانی کیجئے، اللہ تعالی سے مدد مانگئے۔ اس عہدے کو اللہ کی امانت اور عوام کی امانت سمجھئے اور اس عظیم عہدے اور ذمہ داری کی حفاظت کیجئے۔ البتہ یہ چار سال جو انسان کی زندگی کا حصہ ہیں برق رفتاری سے گزر جاتے ہیں۔ 85 سال کی عمر میں میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ تو نظر آتا ہے کہ 85 سال بجلی کی رفتار سے گزر گئے، بیت گئے۔ یہی چیز ہے، چار سال تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن اسی زود گزر مہلت کے اندر بڑے کام بھی انجام دئے جا سکتے ہیں۔ امیر کبیر نے ملک میں تین سال امور مملکت چلائے اور بہت بڑے کاموں کی بنیاد رکھ دی۔ خود ہمارے عزیز رئیسی صاحب نے تین سال ہی حکومت کی، عہدہ صدارت سنبھالا اور آپ نے بہت اچھے کام کئے، کچھ کاموں کی بنیاد ڈالی جن کے ثمرات ان شاء اللہ بعد میں ملک کو حاصل ہوں گے۔ یعنی آپ کام کر سکتے ہیں۔ ان چار برسوں میں ان شاء اللہ سلامتی و عافیت کے ساتھ آپ بڑے کام انجام دینے میں کامیاب ہوں گے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومتی افراد کے کارآمد ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنے وسائل سے آگاہ ہوں، اپنے سرمائے سے باخبر ہوں، توانائیوں اور صلاحیتوں سے مطلع ہوں جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ان برسوں میں مجھے کچھ ایسے عہدیداران بھی نظر آئے جو موجود صلاحیتوں سے باخبر نہیں تھے، ملک کے انسانی وسائل سے باخبر نہیں تھے، ملک کے قدرتی وسائل سے آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ ایک عہدیدار نے ایک موقع پر کہا کہ مجھے ہائی وے کی تعمیر کے لئے غیر ملکی انجینئروں کی خدمات لینے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کے انہیں نوجوانوں کے ہاتھوں ملک کے اندر ہائی وے اور ایکسپریس وے بنے ہیں۔ تو ہمیں ان غیر ملکیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ عدم آگاہی بہت بڑی خرابی ہے۔ دوسری بھی گوناگوں مثالیں میرے ذہن میں ہیں لیکن انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

موجود اثاثوں سے آگاہ رہئے۔ ہمارے پاس موجود ثروت بھی زیادہ ہے اور ہماری توانائیاں اور صلاحیتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جتنی ہم بروئے کار لا چکے ہیں۔ ہمارے پاس کئی طرح کے وسائل اور صلاحیتیں ہیں۔ وہ صلاحیتیں جو بروئے کار لائی گئی ہیں اور جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ایک تو قدرتی وسائل ہیں۔ منرل ریسورسز کے لحاظ سے ہمارے پاس توانائیاں ہیں۔ تیل ہے، گیس ہے، گوناگوں قسموں کے ذخائر و وسائل ہیں۔ اسی ریگستان میں جو آپ دیکھ رہے ہیں، جو لوگ ریگستان کے ماہر ہیں کسی موقع پر مجھے بتا رہے تھے کہ بے پناہ وسائل موجود ہیں، ایسی ثروت ہے جس کی قیمت تیل اور گیس سے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس یہ ساری چیزیں ہیں۔ اس علاقے میں ہمارا منفرد قسم کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ سرزمین کے اعتبار سے دیکھئے تو ہم مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے جنکشن پر واقع ہیں۔ یہ بہت اہم محل وقوع ہے۔  آب و ہوا کے اعتبار سے بھی، آب و ہوا کے تنوع سے بھی ہمارے یہاں بڑے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ یہی مکران کا علاقہ، خوشی کی بات ہے کہ جناب صدر محترم اس موضوع کے بارے میں مجھ سے بات کر رہے تھے تو انہوں نے کئی بار اس کا نام لیا، اس پر ان کی توجہ ہے، اس سے بھی بڑے اہم مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مواقع ہمارے یہاں بہت زیادہ ہیں۔ یہ قدرتی مواقع و وسائل ہیں۔

مواقع اور وسائل کی ایک اور قسم انسانی وسائل کی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان۔ ہمارے ملک میں ملینوں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو کام کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اگر ہم ان سے استفادہ کر سکیں، انہیں پہچانیں، ان کی توانائی سے اور ان کی فکری صلاحیتوں سے استفادہ کر سکیں تو ملک کے بہت سے کام انجام پا جائیں گے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، درخشاں صلاحیتیں، علمی توانائياں، ممتاز استعداد والے نوجوان تیار کرنے کی صلاحیتیں۔ دیکھئے جب ہم خواجہ نصیر الدین طوسی یا ابن سینا یا محمد زکریا رازی  یا ملا صدرا اور بقیہ علمی ہستیوں کو دیکھتے ہیں جو اس زمانے تک ہمارے اس ملک میں پیدا ہوئیں تو اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہماری علمی و فکری پرواز کی سطح بہت بلند ہے اور ہم ان بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہزار سال بعد آج بھی ابن سینا کی کتابیں دنیا میں بحثوں کا موضوع ہیں۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ ہمارے پاس نابغہ روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ یعنی ہمارے نوجوانوں میں سے نابغہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ سب انسانی مواقع، وسائل اور سرمائے ہیں۔

 عوام کا جذبہ ایمانی اہم توانائیوں میں سے ہے۔ عوام کے اندر جو ایمان ہے، دینی ایمان اور سیاسی ایمان، یہ بہت قیمتی ہے۔ یہ بھی ایک توانائی ہے۔ ایک توانائی ملک کی سیاسی توانائی ہے۔ جیسے ہماری اسٹریٹیجک ڈیپتھ۔ ایک زمانہ تھا جب ایران کو قالین اور تیل وغیرہ کے لئے جانا جاتا تھا۔ آج ایران دنیا میں سائنس کے لئے پہچانا جاتا ہے، عسکری پیشرفت کے لئے پہچانا جاتا ہے، علاقائی طاقت کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے پاس ایک اہم موقع ہے۔ دنیا کے ممالک اور علاقے پر اثر انداز ہونے کی توانائی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہت اہم ہے۔ یہ بھی اہم مواقع میں ہے۔

گراں قدر توانائیوں میں سے یہ تجربات ہیں۔ ان تجربات کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ اَلعَقلُ حِفظُ التَّجارِب۔ یہ امیر المومنین کا قول ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام تجربات سے استفادہ کرنے اور تجربات کی حفاظت کو دانشمندی کی نشانی مانتے ہیں۔ وَ خَیرُ ما جَرَّبتَ ما وَعَظَک‌ (۳) جو تجربہ آپ کو درس دے سکتا ہو اور آپ کو نیا راستہ دکھا سکتا ہو۔ ہمارے پاس اچھے تجربات ہیں۔ مختلف حکومتیں آئیں، انہوں نے کام کئے جو ہمارے لئے تجربہ ہے۔ کچھ کام ایسے تھے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے کیا اور ہم نے نقصان اٹھایا۔ کچھ کام تھے جو انہیں کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے نہیں کیا، ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ کام ایسے تھے جنہیں کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کیا تو ہمیں فائدہ پہنچا۔ یہ سب تجربات ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔

اگلا نکتہ ٹیم کے افراد کا انتخاب ہے۔ ظاہر ہے آپ اپنی ٹیم کے لئے کچھ افراد کا انتخاب کریں گے۔ میری سفارش یہ ہے کہ ایسے افراد کی زیادہ مدد لیجئے جن کے اندر یہ خصوصیات ہوں: نوجوان ہوں، مومن ہوں، انقلابی ہوں، فرض شناس ہوں، جوش و جذبے سے بھرے ہوں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں، گوناگوں شعبوں میں جو دنیا کی بڑی سائنسی اور تحقیقاتی گتھیاں تھیں، ان کے سلسلے میں ان نوجوانوں کی ہم نے مدد لی اور ہم آگے بڑھے، بحمد للہ بہت بڑی کامیابیاں ملیں۔ ان کی خصوصیت یہی ہے۔ ان نوجوانوں کی خدمات لیجئے۔ وہ گرہیں کھول دیتے ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جب آپ نوجوانوں کو لاکر نیچے سے اوپر تک الگ الگ سطح کے عہدوں پر رکھیں گے تو آپ مستقبل کے لئے اچھے منتظم اور عہدیدار تیار کریں گے۔ یعنی جب آپ اپنے سسٹم میں نوجوانوں کو لائیں گے تو انہیں تجربہ حاصل ہوگا اور آئندہ کے لئے جوش و جذبے سے بھرے عہدیداروں کی ایک پیڑھی آپ کے لئے تیار ہو جائے گی۔ میری نظر میں یہ چیز بہت اہم ہے۔ جناب صدر محترم سے ہم نے بات کی تو یہ موضوع زیر بحث آیا۔ اگر مثال کے طور پر وہ سو فرض شناس، جوش و جذبے سے سرشار انقلابی نوجوان تیار کر لے گئے اور اپنے ٹرم کے آخر تک یہ سو نوجوان ملک کو دیں تو سمجھئے کہ یہ بہت بڑا کام ہوا ہے۔ بنابریں ٹیم کے افراد کا انتخاب بھی اہم ہے۔ شہید رئیسی مرحوم کو اس میدان میں کافی کامیابیاں ملیں۔ ان شاء اللہ آپ کو کئی گنا زیادہ کامیابیاں ملیں۔

چوتھا نکتہ مہارتوں کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر پزشکیان کے انتخابی کیمپین میں اور بیانوں میں ماہرین سے رجوع ہونے کی بات بار بار کہی گئی۔ ماہرین سے رجوع پر مجھے پختہ یقین ہے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ جب حکومتیں ماہرانہ جائزے کے بعد کام کریں گی تو ان کی حکمرانی عقلمندانہ اور مفکرانہ ہوگی، دوستی و کنبہ پروری پر مبنی حکمرانی نہیں۔ ماہرانہ جائزے پر مبنی کام کی خصوصیت یہ ہے کہ کبھی آپ ماہرین کی رائے کے مطابق ایک کام کرتے ہیں جو آپ کے چند دوستوں، رفقا، شناساؤں اور بااثر افراد کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے، اس طرح آپ انہیں ناراض کر دیتے ہیں مگر قوم کو آپ خوش کر دیتے ہیں، ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ ماہرانہ رائے پر مبنی کام کی یہ خاصیت ہے۔ میں اس کی تایید کرتا ہوں اور ماہرین کی رائے کے مطابق کام کرنے کی تاکید کرتا ہوں۔ لیکن اس میں ایک نکتہ بھی ہے ماہرین کے انتخاب کے بارے میں۔ کبھی کبھی کچھ معاملات میں کسی ماہر کے ذہن کے کسی گوشے میں پڑے غلط خیالات ماہرین کی رائے کے نام سے پیش کر دئے جاتے ہیں، ماہرانہ نظرئے کے پیرائے میں سامنے رکھ دئے جاتے ہیں تو اس سے مشکل کھڑی ہوتی ہے۔ اس ماہر کے ذہن میں پڑے غلط نظریات یا اس کے اخلاقیات آپ پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام اس سلسلے میں بھی بڑی اہم سفارش فرماتے ہیں: لا تُدخِلَنَّ فی مَشوِرَتِکَ بَخیلاً ... وَ لا جَباناً۔ بخیل سے مشورہ نہ کرو۔ کیا مطلب؟ یعنی آپ کا ماہر بخیل نہ ہو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہوگے تو یہ بخیل تمہیں روک دے گا اور کہے گا کہ اس سے آپ کی جیب خالی ہو جائے گی۔ بزدل انسان سے مشورہ نہ کرو۔ بزدل انسان سے ماہرانہ رائے نہ لو۔ اس لئے کہ جو بھی بڑا کام تم کرنا چاہوگے، جو بھی اچھا اور بڑا اقدام کرنا چاہوگے تمہیں ڈرائے گا کہ اگر تم نے یہ کام کیا تو ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا۔  وَ لا حَریصاً (۴) حریص انسان سے بھی مشورہ نہ کرو۔ یعنی اس سے ماہرانہ رائے نہ لو۔ کیونکہ حریص انسان، اپنا حرص تمہارے اندر منتقل کر دے گا۔ یہ کچھ نمونے ہیں۔ یعنی ہم جس سے مشاورت کر رہے ہیں اس کے اخلاقیات اس کے مشورے اور اس کی رائے پر اثر انداز ہوں گے اور ہمارے لئے مشکل کھڑی کر دیں گے۔ لہذا ہم محتاط رہیں اور ایسے ماہرین سے استفادہ کریں جو مومن ہوں، صادق ہوں، ملک کی داخلی و قومی توانائیوں پر یقین رکھتے ہوں، ملی سرمائے کو پہچانتے ہوں۔ ایسے ماہرین کی خدمات نہ لیں جو منسوخ شدہ غیر ملکی نسخے پیش کریں۔ بعض اوقات کوئی اقتصادی یا سماجی یا مثلا سیاسی نسخہ بیرون ملک پچاس سال پہلے، ستر سال قبل پیش کیا گيا، اس کے بعد منسوخ ہو گیا۔ اب ہم وہی نسخہ لاکر یہاں پیش کریں! خیال رکھئے کہ ماہرین اس قسم کے نہ ہوں، ورنہ ماہرین کی رائے کے مطابق کام کرنا بہت ضروری چیز ہے۔

اگلا نکتہ عوام کے درمیان موجود رہنے  سے متعلق ہے۔ اگر آپ نے صوبوں کا سفر کیا اور کہا گیا کہ یہ تو پاپولسٹ ہیں اور عوام کو لبھانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو ان باتوں پر اعتنا نہ کیجئے۔ عوام کی زندگی میں جو حالات ہیں ان کا اندازہ فائلیں اور رپورٹیں پڑھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جائیے اور دیکھئے، خود عوام کی زبان سے سنئے۔ جب انسان جاکر سنتا ہے اور دیکھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ رپورٹ میں جو اطلاعات ہم تک پہنچی تھیں، حالات ان سے کافی الگ ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ساری رپورٹیں غلط ہیں، حقیقت سے دور ہیں! نہیں! اچھی رپورٹیں بھی ہمارے پاس ہوتی ہیں۔ لیکن رپورٹ حقیقت کو پوری طرح منعکس نہیں کر پاتی۔ ابھی ہمیں یہاں آنا تھا تو میں نے ایک صاحب سے جو اربعین کی مشی سے واپس آئے ہیں پوچھا کہ کیسی تھی، اچھی رہی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر سارے علما، سارے شعرا اور سارے اسکالر جمع ہو جائیں تو جو کچھ عینی حالات ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتے! یہ ابھی ایک گھنٹہ پہلے ایک صاحب نے مجھ سے کہا۔ یعنی دیکھنا، یعنی انسان خود قریب سے جاکر دیکھے، بالکل الگ چیز ہے۔ عوام کے درمیان جائیے، جاکر عوام سے بے تکلفی سے گفتگو کیجئے، بات کیجئے۔ کسی جگہ، کسی کاؤنٹی میں، کسی گاؤں میں ضرورت پڑے تو عوام الناس کے گھروں میں جائیے۔ زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جائیے تو ٹینٹ کے اندر جائیے جہاں متاثرین کو رکھا گیا ہے۔ خود ان سے بات کیجئے۔ پھر اس کی بنیاد پر فیصلہ کیجئے۔ تو عوام کے درمیان جانا بہت اچھا ہے۔ صوبائی دورے بہت اچھے ہیں اور ان شاء اللہ اس سے ثمرات بھی حاصل ہوں۔

اگلا نکتہ عدل و مساوات کے بارے میں ہے۔ عدل کا لفظ ہم سب کی زبان سے بار بار ادا ہوتا ہے۔ جناب ڈاکٹر پزشکیان نے بھی انتخابات اور انتخابی کیمپین میں بھی اور اس کے بعد بھی، ہماری اسی آج کی نشست میں بھی عدل و مساوات کے بارے میں اور عدل و مساوات کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ ایسا ہی ہے۔ یعنی میں عدل و مساوات کی ضرورت پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا، یہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی مسلمہ اور بدیہی چیزوں میں ہے۔ اس کے بارے میں بحث نہیں ہے۔ بحث اس بات پر ہے کہ عدل و مساوات کو ہم کیسے نافذ کریں گے؟ اس کا لائحہ عمل کیا ہے؟ ہم سب چاہتے ہیں کہ عدل و مساوات قائم ہو۔ مسلسل قانون، ضوابط و اصول اور پروگرام وغیرہ تیار کئے جا رہے ہیں، بیان کئے جا رہے ہیں، نافذ کئے جا رہے ہیں، ان سب کا عدل و مساوات میں کیا رول ہے؟ جو عدل و مساوات ہمیں پسند ہے اور جس کی ہم بار بار بات کرتے ہیں اس کو عملی جامہ پہنانے میں ان کا کس حد تک کردار ہے؟ میں نے چند سال قبل عدل و مساوات کے ضمیمے کی بات کی تھی۔ (5) میں نے کہا کہ آپ جو بھی قانون پاس کرتے ہیں، جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، اہم فیصلہ اور اہم قانون سازی، اس کے ساتھ عدل و مساوات کا ایک ضمیمہ بھی ہو۔ جناب رئیسی مرحوم اس مسئلے میں کسی حد تک آگے بڑھے تھے، انہوں نے کچھ کام کئے لیکن وہ چیز ادھوری رہ گئی۔ میں آپ کو سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ عدل و مساوات کا ضمیمہ لازمی ہے۔ عدل و مساوات کا ضمیمہ ایک دفتری پروٹوکول اور رسم ادائیگی کا فارم نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی چیز ہے۔ یعنی پلاننگ ادارے جیسے مراکز جو پروگرام تیار کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، فیصلے کے لئے مقدمات فراہم کرتے ہیں، قانون کا مسودہ تیار کرتے ہیں، حکومت کے قوانین کا مسودہ لکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ ذرا نگرانی کریں۔ خود وہ افراد یا ایسے لوگ جنہیں صدر مملکت معین کریں، اس بات پر نظر رکھیں کہ اس قانون کا اثر، اس پروگرام کا اثر سماجی فاصلے کو مٹانے میں کتنا ہے، اس سے فاصلہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے، اس کا اثر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ الگ الگ طبقوں کے فاصلے کو کم کرتا ہے یا زیادہ کرتا ہے۔ اس کی نگرانی کریں۔ اگر انہیں نظر آئے کہ اس پروگرام کی وجہ سے طبقوں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے تو اس پروگرام کو ختم کر دیں، یا پروگرام کے اس متعلقہ حصے کو ختم کر دیں۔ عدل و مساوات کے ضمیمے کا یہ مطلب ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے یونہی ایک پیپر ضمیمے کے طور پر ساتھ رکھ دیا ہے اور کچھ شرطیں رکھ دی ہیں۔ نہیں! خود قانون میں ہونا چاہئے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ بڑا سخت کام ہے۔ مشکل کام ہے۔ البتہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ کچھ با صلاحیت نوجوانوں نے اس مقصد کے تحت ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو رابطہ کر سکتے ہیں، انہیں بلا سکتے ہیں، اگر آپ کو پسند آئے تو استعمال کیجئے۔ بہرحال عدل و مساوات کا معاملہ ایسا ہے کہ زبان سے، گزارش کرکے، درخواست کرکے، بار بار دوہرا کر، دھمکی دیکر اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے عملی جامہ پہننے والا نہیں ہے۔ عدل و مساوات کے لئے اجرائی اقدام کی ضرورت ہے، جذبے کی ضرورت ہے، میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ جذبہ موجود ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جناب کے اندر (6) اس کا جذبہ موجود ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ اب اس کا راستہ تلاش کیجئے۔ اس سمت میں قدم بڑھائیے اور دیکھئے کہ کیسے عدل و مساوات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس انداز سے عمل کیجئے کہ کوئی بھی منتظم اور کوئی بھی عہدیدار اس روش کی خلاف ورزی نہ کر پائے جو عدل و مساوات کے لئے معین کی گئی ہے۔

اگلا نکتہ ترجیحات کا خیال رکھنے سے متعلق ہے۔ ہمارے پاس وقت کم ہے، بجٹ بھی کم ہے اور کام بہت زیادہ ہیں۔ تو دیکھئے کہ ترجیحات کیا ہیں۔ دو طرح کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ خواہ وہ انفراسٹرکچرل اور بنیادی کاموں کی ترجیحات ہوں یا فوری کاموں کی ترجیحات ہوں۔ بعض ترجیحات فوری کاموں سے متعلق ہوتی ہیں۔ سماج کے اندر ان چیزوں کو کسی طرح مناسب انداز میں حل کرنا چاہئے۔ گرانی کا مسئلہ، انفلیشن وغیرہ کا مسئلہ۔ بعض مسائل انفراسٹرکچرل ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے آج انہیں انجام نہ دیا تو دس سال بعد شروع کرنا پڑے گا۔ یہ جو بعض افراد ایٹمی انرجی کے بارے میں شک و تردد ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ، یہ ان کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ ملک خود کو دنیا کی اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ اگر آج آپ نے شروع نہ کیا تو دس سال بعد لا محالہ شروع کرنا  پڑے گا۔ مگر اس وقت آپ دس سال پیچھے ہوں گے۔

مثال کے طور پر میں نے جغرافیائی محل وقوع کا ذکر کیا۔ اس وقت حکومت کے پاس نارتھ ساؤتھ اور ایسٹ ویسٹ کاریڈور سے متعلق کچھ پروجیکٹ ہیں۔ البتہ شمال جنوب کاریڈور زیادہ اہم ہے۔ یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک کا شمالی حصہ کچھ ایسے ملکوں سے متصل ہے جو یورپ اور دوسری جگہوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے جنوب میں سمندر ہے، بحر ہند ہے اور عظیم ایشا کا بڑا حصہ ہے۔ بیچ میں ہم واقع ہیں۔ یہ ایک نفراسٹرکچرل ترجیح ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر کام کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس اس طرح کی انفراسٹرکچرل ترجیحات ہیں۔

فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ اہم ترجیحات میں ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے سلسلے میں گندم کی پیداوار میں خود کفالت بہت اہم ہے۔ زراعت میں پانی کے استعمال کی روش کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس نئے طریقے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگوں نے صدر پزشکیان سے مل کر اس پر بات بھی کی ہے۔ ممکن ہے کہ شروع میں کچھ سختیاں ہوں، مہنگے پڑیں لیکن مستقبل میں فائدہ پہنچانے والے ہیں۔ ہمیں ان پر کام کرنا چاہئے۔ یہ انفراسٹرکچرل کام ہیں۔ یہ ہماری ترجیحات ہیں۔

اسی طرح آئل انڈسٹری کا ڈیولپمنٹ ہے۔ آئل انڈسٹری کے بنیادی شعبوں میں، جیسے کنوؤں کے مسئلے میں اور تیل نکالنے کے جو جدید طریقے دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں، ہم ان میں پیچھے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے وسائل کا بنحو احسن استعمال کریں اور ان طریقوں کو حاصل کر لیں۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں جیسے ریفائنری اور فاینل پروڈکٹ تیار کرنے کے سلسلے میں۔ آئل کے شعبے میں آج ہمارا فائنل پروڈکٹ مثلا پیٹرول یا ڈیزل ہے۔ جبکہ فائنل پروڈکٹ حقیقت میں یہ نہیں ہیں۔ جیسا کہ بتایا جاتا ہے دوسرے بھی  پروڈکٹ ہیں اور ہم انہیں تیار کر سکتے ہیں۔ یہ ترجیحات ہیں ان شاء اللہ ان پر توجہ دینا چاہئے۔

اگلا نکتہ جو میں نے نوٹ کیا ہے، جو آٹھواں نکتہ ہے، سائیبر اسپیس سے متعلق ہے۔ سائیبر اسپیس ایک نئی دنیا ہے۔ یقینا آپ مجھ سے زیادہ اطلاع رکھتے ہیں۔ یعنی سائیبر اسپیس آج محض ورچوئل نہیں ہے، عوام کی زندگی میں آج ایک عینی حقیقت ہے اور روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اہم یہ ہے کہ سائیبر اسپیس میں بھی قانونی بالادستی پائی جاتی ہے۔ یہ جو میں نے بعض اوقات کہا کہ سائیبر اسپیس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گيا ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے۔ قانون کی بنیاد پر حکمرانی، اگر قانون نہیں ہے تو قانون بنا لیجئے اور اس قانون کی بنیاد پر امور کی باگڈور سنبھالئے۔ ساری دنیا میں یہی کیا جا رہا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس بیچارے نوجوان کو فرانسیسیوں نے گرفتار کر لیا۔ (7) یعنی اس قدر اور اس حد تک سختی سے پیش آتے ہیں کہ انسان کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ تمہیں بیس سال کی جیل کی سزا دیں گے۔ یہ اس لئے کہ ان کے قانون کی خلاف ورزی کر دی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی قابل برداشت نہیں ہے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک ملک ہے اور اس کے تعلق سے آپ کی ذمہ داریاں ہیں، اس کے تعلق سے آپ کے فرائض ہیں۔ آپ کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی، اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ اقتدار اعلی کا یہ معاملہ ہے۔ میں نے ورچوئل اسپیس کے بارے میں اپنی بات اور اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ کچھ لوگ کسی اور انداز سے بیان کرتے ہیں، یا نہیں سمجھتے ہیں، یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ تاہم میرا موقف یہ ہے: ملک میں ورچوئل اسپیس قانون کے تحت ہو تو یہ اہم موقع میں تبدیل ہو جائے گی۔ اگر ورچوئل اسپیس پر قانون کے دائرے میں ہمارا کنٹرول ہو تو ورچوئل اسپیس ملک کے لئے اہم موقع ثابت ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ممکن ہے کہ خطرے میں تبدیل ہو جائے۔

اسی مناسبت سے میں آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے موضوع کا بھی ذکر کر دوں، ایک دفعہ عوامی مینڈیٹ کی  توثیق کے پروگرام میں بھی میں نے اس کا ذکر کیا تھا۔ (8) آپ دیکھئے آج آرٹیفیشیل انٹیلیجنس حیران کن رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس حیرت انگیز ٹیکنالوجی نے دنیا میں جو رفتار پیدا کر دی ہے اسے دیکھ کر انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے فوجی اور سویلین ادارے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس  کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ہم اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے معاملے میں صرف صارف ہونا کمال کی بات نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی بڑی عمیق پرتیں ہیں اور ان پرتوں پر تسلط حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پرتیں دوسروں کے اختیار میں ہیں۔ اگر آپ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی ان گوناگوں پرتوں کو تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو کل یہ لوگ آئی اے ای اے جیسا کوئی ادارہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے لئے بنا لیں گے، اس وقت وہ اس کے مقدمات تیار کر رہے ہیں، کہ اگر آپ اس منزل تک پہنچ گئے تو پہلے آپ کو اجازت لینی پڑے گی کہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے فلاں شعبے کو استعمال کیجئے، لیکن فلاں شعبے کو استعمال کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے! یہ صورت حال ہے۔ دنیا کے چالاک لوگ، موقع پرست لوگ اور توسیع پسند لوگ ان کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی بھی ایک ایجنسی بنا دی جائے گی اور پھر وہ اجازت نہیں دیں گے کہ آپ فلاں سطح سے آگے بڑھئے۔ آپ خود اس میدان کی عمیق ٹکنالوجی تک خود پہنچئے اور آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی انفراسٹرکچرل پرتوں کو ملک کے اندر تیار کرنے کی کوشش کیجئے۔ جو افراد اس شعبے کے عہدیدار نہیں ان شاء اللہ وہ اس پر کام کریں۔ البتہ تیرہویں حکومت کے دور میں ایک ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آرٹیفیشیل انٹیلیجنس قائم ہوا صدر مملکت کی نگرانی میں۔ یہ اچھا کام تھا لیکن اب وہ ادھورا رہ گيا ہے۔ اب اگر وہی ادارہ موجودہ صدر محترم کے زیر نگرانی کام کرے تو بڑی امیدیں پیدا کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ کام اسی نہج پر انجام پائے۔

اگلا نکتہ اقتصاد سے متعلق ہے۔ اس شعبے کے بارے میں میں زیادہ بات نہیں کروں گا۔ جو باتیں اس شعبے کے متعدد ماہرین اور قابل اعتماد افراد ہم سے کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کا حل پروڈکشن ہے، پروڈکشن کا شعبہ۔ اگر ہم پروڈکشن کو فروغ دینے میں کامیاب ہو جائیں تو انفلیشن کا مسئلہ حل ہو جائے گا، روزگار کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ملکی کرنسی کی قدر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پروڈکشن کے موضوع پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک نیشنل پروڈکشن کے میدان میں ترقی کرے تو حکومت کی مدد ضروری ہے۔ حکومت کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہی کاروبار کی فضا کو بہتر بنانے کا موضوع اور وہ باتیں جو ہمیشہ زیر بحث رہتی ہیں، ان پر عمل ہونا چاہئے۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ انٹرپرینیورز کا ایک گروپ ہم سے آکر ملا اور کچھ باتیں ہوئیں۔ (9) انسان جب ان کی باتیں سنتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ ان انٹرپرینیورز کے پاس جو صلاحیتیں ہیں وہ واقعی مبہوت کن ہیں۔ وہ بہت اچھے کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بسا اوقت بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام بھی انجام دئے ہیں اور اس سے منافع بھی کمایا ہے، فائدہ حاصل کیا ہے اور ملک کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ وہ سب یہ بات بار بار کہتے ہیں کہ انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ ان کی مدد کرے۔

ایک نکتہ ملک کی آبادی اور قبل از وقت بڑھاپے کا بھی ہے جو بہت اہم ہے۔ چالیس سال پہلے ہماری آبادی کی شرح نمو 3.5 فیصدی تھی جو کافی بڑی شرح مانی جاتی ہے۔ کچھ لوگ بوکھلا گئے اور انہوں نے کچھ ضوابط اور رکاوٹیں قائم کر دیں۔ اب ہماری آبادی کی شرح نمو 3.5 فیصدی تو بہت دور کی بات ہے، ویسے اس وقت میرے پاس صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن مثال کے طور پر اعشاریہ 5 فیصدی یا زیادہ سے زیادہ اسی سے ملتی جلتی کچھ ہے۔ ہم اب بھی ضوابط عائد کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں! اس طرح تو کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ ضوابط میں لچک ہونا چاہئے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ آبادی بے تحاشا بڑھتی جا رہی ہے اور آپ اسے کنٹرول کرتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آبادی بڑھنا رک جاتا ہے بلکہ پیچھے کی طرف جانے لگتی ہے اور ملک بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں فوری طور پر ملکی ضرورتوں کے مطابق ضوابط میں اصلاح کرنا چاہئے۔ میں محترم وزیر صحت جناب ڈاکٹر ظفر قندی سے تاکید کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر خاص توجہ دیں، اس پر کام کریں۔ یعنی واقعی اس کے لئے قدم اٹھائیے اور بچوں کی پیدائش کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو جو افسوس ہے کہ کافی زیادہ ہیں، جاری نہ رہنے دیجئے۔ ان پر پوری طرح قابو حاصل کیجئے۔ آپ میں سے بہتوں نے اپنی جوانی میں کچھ کام کئے لیکن اب شاید اس طرح کے کام ممکن ہے کہ نہ کر پائیں۔ تو ہمیں ملک میں نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اگر خدا نخواستہ ملک اس تلخ و سخت انجام سے دوچار ہو گیا، یعنی آبادی کے بڑھاپے کا مسئلہ پیش آ گیا تو پھر کوئی حل نہیں ملے گا۔ آج بہت سے ممالک اس مشکل میں مبتلا ہیں۔ تو یہ آبادی کا مسئلہ ہے۔

ایک اور مسئلہ رکاوٹوں سے نہ ڈرنے کا ہے۔ میں خواتین و حضرات سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ کوئی منصوبہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ کچھ لوگ ہیں کہ انہیں جیسے ہی کوئی رکاوٹ نظر آئی، ان کا پہلا رد عمل ہوتا ہے پسپائی! یہ غلط ہے۔ رکاوٹ سے عبور کرنے کی کوشش کیجئے، رکاوٹ کو بائی پاس کرنے کی کوشش کیجئے۔ جب آپ نے ساری کوششیں کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ انسان کبھی ٹیکٹیکل پسپائی بھی کرے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن یہ نہ ہو کہ جیسے ہی کوئی رکاوٹ نظر آئی ہماری پہلی بات، پہلی رائے یہ ہو کہ واپس لوٹ چلیں! رکاوٹ سے ڈرئے نہیں۔ یہ ہماری اگلی سفارش ہے۔

دشمن سے آس نہ لگائیے۔ جناب (10) نے بھی اشارہ کیا۔ کل اور پرسوں بھی بظاہر محترم وزیر خارجہ (11) نے بھی اشارتا کہا تھا۔ ہم دشمن سے امید نہ لگائیں۔ اپنے پروگراموں کے لئے دشمن اور ان لوگوں کی منظوری کے منتظر نہ رہیں جو ہم سے عناد رکھتے ہیں۔ اس کا اس چیز سے کوئی تضاد نہیں ہے کہ انسان اسی دشمن کے ساتھ کچھ مواقع پر انٹرایکشن کرے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس سے امید نہ لگائيے۔ دشمن پر اعتماد نہ کیجئے۔

آخری نکتہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس عہدے کے زمانے میں جہاں تک ممکن ہو اپنی روحانیت پر زیادہ توجہ دیجئے۔ میرے عزیزو! ہم سب کو ایمان سے آراستہ دل کی ضرورت ہے، بندگی کے اعمال کی ضرورت ہے، قرآن سے زیادہ مانوس ہونے کی ضرورت ہے، اللہ کی بارگاہ میں زیادہ خضوع و خشوع کی ضرورت ہے۔ واقعی ہمیں ان سب کی ضرورت ہے۔ میں جس چیز کی واقعی سفارش کرنا چاہتا ہوں خشوع کے ساتھ نماز ہے، اول وقت نماز ہے، جہاں تک ممکن ہو باجماعت نماز ہے۔ اگر آپ اپنے کام کی جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں تو اپنے کارکنوں کے ساتھ نماز ادا کیجئے۔ یہ بہت اچھا ہے۔ آپ ایک جماعت کے لئے آئیڈیل ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنے کارکنوں کے لئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوام آپ کو دیکھتے ہیں، آپ کا سلوک، آپ کی پوشاک اور آپ کا چہرہ بہت سے افراد کے لئے آئیڈیل ہے۔ اس پر توجہ رکھئے۔ آپ کو کچھ ایسے کام بھی کرنے پڑیں گے اور ایسی چیزوں کی بھی پابندی کرنی ہوگی جن کی پابندی شاید عام انسانوں کے لئے ضروری نہ ہو۔ میں یہ سفارشات عوام الناس کو نہیں کروں گا۔ لیکن آپ سے کروں گا۔ چونکہ آپ آئیڈیل ہیں۔ چونکہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں، آپ سے سیکھتے ہیں، آپ کا برتاؤ اور سلوک ملک میں ایک طرز عمل کو وجود میں لاتا ہے۔ اللہ سے دعا کیجئے، گڑگڑا کے طلب کیجئے کہ آپ کی مدد کرے۔ اگر ممکن ہو اور توفیق ہو جائے تو نافلہ نمازیں بھی پڑھئے، خاص طور پر نافلہ شب۔ اگر سحر کے وقت بیدا ہو سکیں تو بہت اچھا ہے۔ سحر کا وقت اللہ کو تنہائی میں یاد کرنے، اللہ سے باتیں کرنے، اللہ سے طلب کرنے کا بہت اچھا وقت ہے۔ آپ نے خدمت کی وادی میں قدم رکھا ہے، خدمت کے میدان میں آپ وارد ہوئے ہیں۔ قصد قربت کیجئے، للہی نیت کیجئے۔ ممکن ہے کہ لوگ کہیں کہ فلاں صاحب تو دکھاوا کرتے ہیں، یہ سب شیطانی وسوسے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جن سے اگر کچھ کہئے تو جواب دیتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کام کر دیا تو لوگ دکھاوا کرنے کا الزام لگائیں گے، ریا کا الزام لگائیں گے! الزام لگانے دیجئے۔ میرے خیال میں اس وسوسے کے جال میں نہ پھنسئے۔ آپ اللہ سے عہد کیجئے، وعدہ کیجئے، اس پر عمل کیجئے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کی آبرو کی حفاظت کرے گا، آپ کو عزت دے گا، آپ کو بلندی عطا کرے گا اور آپ کا وقار بڑھائے گا۔

ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے۔ گفتگو قدرے طولانی ہو گئی لیکن ان شاء اللہ مفید واقع ہو اور اثر انگیز ہو۔ ہم سب مل کر اس ملک کے لئے، ان عوام کے لئے اور اسلام کے لئے ان شاء اللہ کام کر سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) جناب حسین امیر عبد اللہیان

(3) نہج البلاغہ، مکتوب 31

(4) نہج ‌البلاغہ، مکتوب، 53

(5) صدر اور تیرہویں کابینہ سے ملاقات میں خطاب مورخہ 28 اگست 2024

(6)  صدر مملکت

(7) ٹیلیگرام کے سی ای او پاول دورف کی گرفتاری کی طرف اشارہ  جنہیں فرانس کی پولیس نے عدلیہ کے عہدیداروں سے تعاون نہ کرنے اور ٹیلیگرام کے مجرمانہ استعمال پر روک نہ لگانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

(8) چودہویں صدارتی انتخابات میں ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی تقریب میں تقریر، مورخہ 28 جولائی 2024

(9) اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد اور انٹرپرینیورز سے ملاقات 30 جنوری 2024

(10) صدر مملکت

(11) جناب عباس عراقچی

 
کیورڈس
 

 

 
Read 40 times