قرآن کی حفاظت

Rate this item
(3 votes)

 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

 

یہ چند ایک افراد اور ناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیاستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نورکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے۔

 

کفار نے بہت بہانہ سازیاں کیں ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور قرآن کے بارے میں استہزا کیا ۔ زیر بحث آیت میں ایک عظیم اور نہایت اہم حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ یہ بیان حقیقت ایک طرف تو پیغمبر اکرم کی دلجوئی کے لئے ہے : ہم یقینی طور پر اس کی حفاظت کریں گے (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔ ایسا نہیں کہ یہ قرآن کسی یاور و مددگار کے بغیر ہے اور وہ اس کے آفتابِ وجود کو کیچڑ سے چھپادیں گے یا اس کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں گے یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لئے غروب ہونا نہیں ہے ۔

یہ چند ایک افراد اورناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیاستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نورکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے ۔

قرآن کی حفاظت سے مراد کن امور کی حفاظت ہے اس سلسلے میں مفسریں کے مختلف اقوال ہیں :

۱۔ بعض نے کہا ہے کہ تحریف و تغیر اور کمی بیشی سے حفاظت مراد ہے ۔

۲۔ بعض نے کہا ہے کہ آخر دنیا تک فطا و نابودی سے حفاظت مراد ہے ۔

۳۔ بعض دیگر نے کہاہے کہ قرآن کے خلاف گمراہ کرنے والی منطق کے مقابلے میں حفاظت مراد ہے ۔

لیکن یہ تفاسیر یہ صرف کہ ایک دوسرے سے تضاد نہیں رکھیتیں بلکہ ” إِنَّا لَہُ لَحَافِظُون“ کے عام مفہوم میں شامل ہیں تو پھر کیوں ہم اس محافظت کو ایک کونے میں محصور کردیں جبکہ یہ مطلق طور پر اور اصطلاح کے مطابق حذف متعلق کے ساتھ آئی ہے حق یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن کی ہر لحاظ سے حفاظت و نگہداری کرے گا اسے ہر قسم کی تحریف سے بچائے گا ۔

اسے فنادی نابودی سے محفوظ رکھے گا اور وسوسے پیدا کرنے والے سوفسطائیوں اور بد یہات کے منکردین سے اس کی محافظت کرے گا ۔

باقی رہا بعض قدماء مفسرین کا یہ احتمال کہ یہاں ذاتِ پیغمبر مراد ہے اور” لَہُ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات ( مثلاً طلاق ۱۰) میں لفظ ”ذکر “ کا اطلاق ذاتِ پیغمبر پر ہوا ہے یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیر بحث آیت سے قبل آیت میں لفظ ” ذکر “ صراحت کے ساتھ قرآن کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ مسلم ہے کہ یہ بعد والی آیت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

عدم تحریف ِقرآن

تمام شیعہ سنی علماء مشہور و معروف یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی اور جو قرآن آج ہمارے ہاتھ میں ہے ، بالکل وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوا، یہاں تک کہ اس میں کوئی لفظ اور کوئی حرف بھی کم یا زیادہ نہیں ہوا ۔

قدماء اور متاٴخرین میں سے وہ عظیم شیعہ علماء کہ جنہوں نے اس حقیقت کی تصریح کی ہے ان میں سے کوئی حسب ذیل علماء کے نام لئے جاسکتے ہیں :

مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنی مشہورکتاب ”تفسیر بیان “ کے آغاز میں اس سلسلے میں روشن واضھ اور قطعی بحث کی ہے ۔

۲۔ سید مرتضیٰ جو چوتھی صدی ہجری کے اعاظم علما ء امامیہ میں سے ہیں ۔

۳۔ رئیس المحدثین مرحوم صدوق محمد بن علی بن بابویہ وہ عقائد امامیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔” ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی “۔

۴۔ عظیم مفسر مرحوم طبرسی سے بھی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس سلسلے میں ایک واضح بحث کی ہے ۔

۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو بزرگ علماء متاٴخرین میں سے ہیں ۔

۶۔ مرحوم محقق یزدی نے کتاب عررہ الوثقیٰ میں جمہور مجتہدین شیعہ سے عدم تحریف قرآن نقل کیا ہے ۔

۷۔ بہت سے دوسرے بزرگواروں مثلاً شیخ مفید ، شیخ بہائی ، قاضی نور اللہ اور دیگر شیعہ محققین نے یہی عقیدہ نقل کیا ہے ۔ اہل سنت کے بزرگ اور محققین بھی زیادہ تر یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔

اگر چہ بعض شیعہ اور سنی محدثین کہ جن کی اطلا عات قرآن کے کے بارے میں ناقص تھیں انھوں نے قرآن میں وقوعِ تحریف کا ذکر کیا ہے لیکن دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی وضاحت سے یہ عقیدہ باطل قرار پاکر فراموش ہو چکا ہے ۔

یہاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ہیں :

”صحت نقل قرآن دنیا کے مشہور شہروں ، تاریخ کے عظیم واقعات اور مشہور معروف کتب کے بارے میں ہماری اطلا عات کی طرح واضح اور روشن ہے ۔

کیا کوئی شخص مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے شہروں کے ہونے میں کوئی شک و شبہ کرسکتا ہے اگر چہ اس نے کبھی بھی ان شہروں کی طرف سفر نہ کیا ہو ۔

کیا کوئی شخص ایران پر مغلوں کے حملے ، فرانس کے عظیم انقلاب یا پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا منکر ہو سکتا ہے ۔

ایسا کیوں نہیں ہوسکتا اس لئے یہ تمام چیزیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں-

قرآن کی آیات بھی اسی طرح ہیں اس تشریح کے ساتھ کہ جو ہم بعد میں بیان کریں گے ۔

اگر بعض افراد نے اپنے مفادات کی غرض سے شیعہ سنی میں تفرقہ ڈالنے کے لئے شیعوں کی طرف تحریف کے اعتقاد کی نسبت دی ہے تو ان کے دعوی کے بطلان کی دلیل علماء شیعہ کی بڑی اور عظیم کتب ہیں ۔

یہ بات عجب نہیں کہ فخر رازی جیسا شخص کہ جو شیعوں سے مربوط مسائل میں خاص حساسیت اور تعصب رکھتا ہے محل بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے کہ یہ آیت ” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“مذہب شیعہ کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ وہ قرآن میں تغیر اور کمی بیشی کے قائل ہوتے ہیں ۔

ہم صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد بزرگان اور محققین شیعہ ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اس قسم کاعقیدہ نہیں رکھتا تھا اور نہ رکھتا ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اس سلسلے میں میں شیعوں کے درمیان ایک ضعیف قوم موجود ہے تو اس کی نظیر اہل ِ سنت میں بھی موجود ہے کہ جس کی نہ وہ اعتناء کرتے ہیں نہ ہم۔

معروف محقق کاشف الغطاء اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں کہتے ہیں :۔

لاریب انہ ”ای القراٰن “ محفوظ من النقصان بحفظ الملک الدیان کما دل علیہ صریح القراٰن وجماع العلماء فی کل زمان ولاعبرة بنادر ۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن کی حفاظت کے سائے میں ہر قسم کی کمی اور تحریف سے محفوظ رہا ہے جیسا کہ صریح قرآن اس پر دلالت کرتا ہے او رہر زمانے کے علماء کا اس پر اجماع رہا ہے اور شاذ و نادر افراد کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ( تفسیر آلاء الرحمن ص۳۵)

تاریک اسلام نے اس قسم کی ناروا نسبتیں کہ جن کا سر چشمہ تعصب کے سوا کچھ نہیں ، بہت دیکھی ہیں ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بعض دشمنون کی طرف سے پیدا کردہ غلط فہمیاں تھیں کہ جو اس قسم کے مسائل کھڑے کرتے تھے کہ مسلمانوں کی صفوں اتحاد و حدت ہر گز بر قرار نہ رہے ۔

معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مشہور حجازی موٴلف عبد اللہ القصیمی اپنی کتاب الصراع میں شیعوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

شیعہ ہمیشہ سے مساجد کے دشمن تھے یہی وجہ ہے کہ جو شیعوں کے شہروں میں جائے ، شمال سے جنوب تک ، اور مشرق سے مغرب تک اسے بہت کم مساجد دکھائی دیں گی ۔ 2

خوب غور کریں کہ ہم ان تمام مساجد کو شمار کرتے تھک جاتے ہیں کہ جو شاہراہوں ، بازاروں ، کوچوں بلکہ شیعہ محلوں میں موجود ہیں ۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی علاقے میں اتنی مسجدیں ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس کر، آوٴ کوئی او رکام بھی کرو ۔

لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مشہور موٴلف اس صراحت سے ایسی بات کرتا ہے جو ہم جیسے لوگوں کے نزدیک تو محض مضحکہ خیز ہے کہ جو ان مناطق اور شیعہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر فخر رازی کوئی ایسی نسبت دیتا ہے تو زیادہ تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔

عدم تحریف ِ قرآن کے دلائل

۱۔ حافظان قرآن : عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ دلائل و براہین موجود ہیں ان میں زیادہ واضح اور روشن زیر بحث آیت اور قرآ ن کی کچھ اور آیات کے علاوہ اس عظیم آسمانی کتاب کی تاریخ بھی ہے ۔

مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد ہانی ضروری ہے کہ وہ ضعف اقلیت کہ جس نے تحریف ِ قرآن کا احتمال ذکر کیا ہے ، وہ صرف قرآن میں کمی کے سلسلے میں ہے ۔ ورنہ کسی نے بھی یہ احتمال پیش نہیں کیا کہ موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔( غو ر کیجئے گا )

یہاں سے گذر کر اگر ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ قرآن مسلمانوں کے لئے کچھ تھ قانون ِ اساسی ، زندگی کا دستور العمل ، حکومت کاپروگرام ، مقدس آسمانی کتاب اور رمز عبادت سب کچھ تو قرآن تھا تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ۔

قرآن ایک ایسی کتاب تھی کہ پہلے دور کے مسلمان ہمیشہ نمازوں میں ، مسجدوں میں،گھرون میں ، میدان جگ میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکتب کی حقانیت پر استدلال کرنے کے لئے اسی سے استفادہ کرتے تھے یہان تک کہ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن عورتوں ک اھق مہر قرار دیتے تھے اور اصولی ور پر تنہا وہ کتاب کہ جو تمام محافل کا موضوع تھی اور ہر بچے کو ابتدائے عمر سے جس سے آشنا کیا جاتا تھا اور جو شخص بھی اسلام کا کوئی درس پڑھنا چاہتا اسے اس کی تعلیم دی جاتی تھی جی ہاں وہ قرآن یہی قرآن مجید ہے ۔

کیا اس کیفیت کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ شخص کویہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آسمانی کتاب میں تغیر و تبدل ہو گیا ہو خصوصاًجبکہ ہم نے اسی تفسیر کی جلد اول کی ابتداء میں ثابت کیا ہے کہ قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں اسی، موجود ہ صورت میں خود زمانہ پیغمبر میں جمع ہو چکا تھا اور مسلمان سختی سے اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے کو اہمیت دیتے تھے ۔اصولی طور پر اس زمانے میں افراد کی شخصیت زیادہ تر اس بات سے پہچانی جاتی تھی کہ انھیں قرآن کی آیات کس حد تک یا د ہیں ۔

قرآن کے حافظوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تواریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ایک جنگ میں قرآن کے چار سو قاری مارے گئے تھے ۔ ۱

”بئر معونہ“ مدینہ کی نزدیکی آبادیوں میں سے تھی ۔ یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہو گی تھی ۔یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہوگئی ۔ اس جنگ میں اصحاب پیغمبر میں سے قاریانِ قرآن کی ایک کثیر جماعت نے شربت ِ شہادت نوش کیا یہ تقریباًستّر افرد تھے ۔۲

ان سے اور ان جیسے دیگر واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ و قاری اور معلمین قرآن اس قدر زیادہ تھے کہ صرف ایک میدان ِ جنگ میں ان میں سے اتنی تعداد نے جام ِ شہادت نوش کیا اور تعداد ایسی ہونا چاہئیے تھی کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن مسلمانو کے لئے صرف قانون اساسی نہیں ہے بلکہ ان کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے ۔ خصوصاًابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے پاس ا س کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی اور تلاوت و قراٴت اور حفظ و تعلیم تعلّم قرآن کے ساتھ مخصوص تھاقرآن ایک تروک کتاب نہ یہ گھر ی امسجد کے کسی کونے میں فراموشی کے گرد و غبار کے نیچے پڑی ہوئی نہ تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کردیتا ۔

حفظ قرآن کا مسئلہ ایک سنت اور ایک عظیم عبادت کے عنوان سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان تھا اور ہے یہاں تک کہ قرآن ایک کتاب کی صورت میںبہت زیادہ پھیل گیا اور تمام جگہوں پر پہنچ گیا بلکہ آج بھی چھاپہ خانے کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد جبکہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ قرآن ہی چھپتا اور نشر ہوتا ہے پھر بھی حفظ قرآن کے مسئلے نے ایک قدیم سنت اور عظیم افتخار کے طور پر اپنی اہمیت و حیثیت کو محفوظ رکھا ہے اور ہر شہر و دیار میں ہمیشہ ایک جماعت حافظِ قرآن تھی اور آج بھی ہے ۔

اس وقت حجاز اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں ”تحفظ القراٰن الکریم “ یا دوسرے ناموں سے ایسے مدارس موجود ہیں ، جہاںطالب علموں کو پہلے مرحلے میں قرآن حفظ کرایاجاتا ہے ۔ سفرمکہ کے دوران اس شہر مقدس میں ان مدارس ک بر براہوں سے جو ملاقات ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے ان مدارس میں بہت سے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں مشغول تحصیل ہیں ۔ جاننے والوں میں سے ایک شخص نے بتا یا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباًپندرہ لاکھ حافظان قرآن موجود ہیں ۔

جیسا کہ دائرة المعارف فرید وجدی نے نقل کیا ہے کہ جامعة الازھر مصر کی یونیورسٹی میں داخلے کی ایک شرط پورے قرآن کا حفظ ہونا ہے اس کے لئے چالیس میں سے کم کم بیس نمبر رکھے گئے ہیں ۔

مختصر یہ کہ خود آنحضرت کے حکم و تاکید سے کہ جو بہت زیادہ روایات میں آئی ہے حفظ ِ قرآن کی سنت زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک ہر دور میں جاری و ساری ہے ۔ کیا ایسی حالت میں تحریف ِقرآن کے بارے میں کسی احتمال کا امکان ہے ؟

۲۔ کاتبان وحی : ان تمام امور کے علاوہ کاتبانِ وحی کا معاملہ بھی غور طلب ہے یہ وہ افراد تھے جو آنحضرت کے حکم اور تاکید سے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہونے کے بعد انھیں لکھ لیتے تھے ان کی تعداد چودہ سے لے کر تنتالیس تک بیا ن کی گئی ہے ۔

ابو عبد اللہ زنجانی اپنی نہایت قیمتی کتاب”تاریخ قرآن “ میں لکھتے ہیں ۔

کان للنبی کتاباًیکتبون الوحی وھم ثلاثة و اربعون اشھر ھم الخلفاء الاربعة و کان الزمھم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔

پیغمبر کے مختلف کاتب اور لکھنے والے کہ جو وحی لکھا کرتے تھے اور وہ تنتالیس افراد تھے کہ جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربعہ تھے ۔ لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طاللب علیہ السلام ۔3

وہ کتاب کہ جسے اس قدر لکھنے والے تھے کیسے ممکن ہے کہ تحریف کرنے والے اس کی طرف ہاتھ بڑھاسکتے ۔

۳۔ تمام رہبران اسلام نے اسی قرآن کی دعوت دی ہے : یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلام کے عظیم پیشواوٴں کے کلمات کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ابتدائے اسلام سے باہم بیک زبان لوگوں کو اسی موجودہ قرآن کی تلاوت ، مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے اور یہ امر خود نشاندہی کرتا ہے کہ یہ آسمانی کتاب اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر بعد تک تحریف ناپذیرمجموعہ کی صورت میں موجود ہی ہے ۔

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات اس دعویٰ کے زندہ گواہ ہیں ۔

خطبہ ۱۳۳ میں آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں :۔

وکتاب اللہ بین اظھر کم ، ناطق لایعیالسانہ، و بیت لاتھدم ارکانہ ، و عزلاتھزم اعوانہ۔

اور اللہ تمہارے درمیان ایسا ناطق ہے جس کی زبان کبھی گنگ نہیں ہوتی ۔ یہ ایسا گھر ہے جس کے ستون کبھی منہدم نہیں ہوتے اور یہ ایسا سرمایہٴِ عزت ہے کے انصارکبھی مغلوب نہیں ہوتے ۔

خطبہ ۱۷۶میں فرماتے ہیں :۔

و اعلموا ان ھٰذا القراٰن ھو الناصح الذی الیغش والھادی الذی لایضل ۔

جان لو کہ یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو اپنی نصیحت میں کبھی خیانت نہیں کرتا او ر ایسا ہادی ہے جوکبھی گمراہ نہیں کرتا ۔ نیز اسی خطبے میں ہے :

وما جالس ھٰذا القراٰن احد الاقام عنہ بزیادة او نقصان،زیادة من ھدی ، او نقصان من عمی ۔

کوئی شخص اس قرآن کا ہم نشین نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پاس زیادتی یا نقصان کے ساتھ اٹھتا ہے ۔ ہدایت کی زیادتی یاگمراہی کی کمی ۔

اسی خطے کے آخر میں ہے :

ان اللہ سبحانہ لم یعظ احداًبمثل ھٰذا القراٰن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین۔

خدا نے کسی کو اس قرآن جیسی وعظ و نصیحت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ خدا کی محکم رسی اور اس کا قابل اطمینان وسیلہ ہے ۔خطبہ ۱۹۸ میں ہے :۔

ثم انزل علیہ الکتاب نوراً لاتطفاٴ مصابیحة، و سراجاً لایخبوتوقدہ، و منھا جا لا یضل نھجہ و فرقاناً لایخمد بر ھانہ

اس کتاب کے بعد خدا نے اپنے نبی پر ایک کتاب نازل کی وہ کتاب جو خاموش نہ ہونے والا نور ہے اور جو ایسا چراغ پر فروغ ہے کہ جس میں تاریکی آہی نہیں سکتی اور یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والے گمراہ نہیں ہوسکتے اور یہ حق کی باطل سے جدائی کا ایسا سبب ہے جس کی برہان خاموش نہیں ہوتی ۔

ایسی تعبیرات حضرت علی السلام اور دیگر پیشوایانِ دین کے کلمات و ارشادات میں بہت زیادہ ہیں ۔

فرض کریں کہ اگر دست تحریف اس آسمانی کتاب کی طرف بڑھا ہوتا تو کیا پھر بھی ممکن تھا کہ اس کی طرف دعوت دی جاتی ۔ اور اسے راہ کشا ، حق کی باطل جدائی کا ذریعہ ، نہ بجھنے والانور ، خاموش نہ ہونے والا چراغ، خدا کی محکم رسی اور اس کا امین و قابل اطمینان وسیلہ قرار دے کر تعارف کروایا جاتا ۔

۴۔ آخری دین اور ختم نبوت کا تقاضا :۔ اصولی طور پر پیغمبر اسلام کی خاتمیت قبول کرلینے کے بعد اور یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ دین اسلام آخری خدائی دین ہے اور قرآن کا پیغام دنیا کے خاتمے تک بر قرار رہے گا کس طرح یہ باور کیا جا سکتا ہے خدا اسلام اور پیغمبر خاتم کی اس واحد سند کی حفاظر نہیں کرے گا ۔

اسلام کے ہزاروں سال کے بعد باقی رہنے ، جاوداں ہونے اور آخری دنیا تک رہنے کے ساتھ کیا تحریف ِ قرآن کاکوئی مفہوم ہو سکتا ہے ؟

۵۔ روایات ِ ثقلین :۔ روایات ثقلین کہ جو طرق معتبر و متعدد ہ سے پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہےں قرآن کی اصالت اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہنے پر ایک ایک اور دلیل ہیں کیونکہ ان روایات کے مطابق پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

میں تمہارے درمیان میں سے جارہاہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تماہرے لئے بطور یاد گار چھوڑے جارہاہوں، پہلی اور دوسری میری اہل بیت ۔ اگر تم نے ان کا دامن نہ چھوڑا ، تو ہ رگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ ۱

۱۔حدیث ثقلین متواتر احادیث میں سے ہے یہ حدیث اہل سنت کی بہت سے کتب میں صحابہ کی ایک جماعت کی وساطت سے پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے ان صحابہ میں ابو سعید خدری ، زید بن ارقم ، زید بن ثابت، ابو ہریرہ ،حذیفہ بن اسید ، جابر بن عبد اللہ انصاری ، عبد اللہ حنطب، عبدبن حمید، جبیر بن مطعم ، ضمرہ اسلمی ، ابوذر غفاری ، ابو رافع اور ام سلمہ وغیرہ شامل ہیں ۔

کیا ایسی با ت کسی ایسی کتاب کے لئے صحیح ہے جو تحریف کا شکار ہو گئی ہو ۔

۶۔ قرآن جھوٹی اور سچی روایات کے لئے کسوٹی ہے :ان سب پہلووٴں سے قطع نظر قرآن کا تعارف سچی اور جھوٹی روایات و احادیث کو پرکھنے کے لئے معیار کے طور پر کروایا گیا ہے بہت سے روایات کہ جو منابع اسلام میں آئی ہیں ان میں سے کہ جو حدیث کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں شک کرو اسے قرآن کے سامنے پیش کرو، جو حدیث کے موافق وہ حق ہے اور جو حدیث اس کے مخالف ہے وہ باطل اور غلط ہے ۔

فرض کریں کہ قرآن میں کمی کے لحاظ سے ہی تحریف ہوتی تبب بھی ہر گز ممکن نہ تھا کہ اس کا تعارف حق و باطل کو پرکھنے کی کسوٹی کے طور پر کر وایا جاتا ۔

۱۔ البیان فی تفسیر القرآن ص ۲۶۰ بحوالہ منتخب کنزالعمال ۔

۲۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۵۷۔

3۔تاریخ القرآن ص۳۴۔

روایات ِ تحریف

مسئلہ تحریف کے بارے میں جو بعض لوگوں کے ہاتھ اہم ترین دستاویز ہے وہ ایسی مختلف روایات ہیں جن کا حقیقی مفہوم نہیں سمجھا گیا یا پھر ان کی سند کے بارے میں تحقیق نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس قسم کی بری تعبیر وجود میں آئی ہے ۔

ایسی روایات مختلف قسم کی ہیں:

۱۔ ایسی روایات جن میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے قرآن جمع کرنا شروع کیا جب اسے جمع کرچکے تو اسے صھابہ کے ایک گروہ کے پاس لے آئے انہوں نے مقامِ خلافت کے ارد گرد کو گھیر رکھا تھا ۔ آپ نے پیش فرمایا تو انھوں نے اسے قبول نہ کیا اس پر حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا :پھر تم اسے کبھی نہ دیکھو گے ۔

لیکن ان روایات میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو قرآ تھا وہ دوسرے قرآنوں سے مختلف نہیں تھا ۔ البتہ تین چیزوں کا فرق تھا ۔

پہلا یہ کہ اس کی آیات اور سورتیں ترتیب ِ نزولی کے مطابق منظم کی گئی تھیں ۔

دوسرا یہ کہ ہر آیت اور سورة کی شان ِ نزول اس کے ساتھ لکھی گئی تھی ۔

تیسرا یہ کہ جو تفاسیر آپ نے پیغمبر اکرم سے سنی تھیں وہ اس میں درج تھیں ، نیز اس میں آیاتِ ناسخ و منسوخ کی نشاندہی بھی کی گئی تھی ۔

لہٰذا وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام نے جمع کیا تھا اس میں اس قرآ ن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہ تھی اور جو چیز زیادہ تھہ تھی وہ تفسیر تاویل ، شان ِ نزول اور ناسخ و منسوخ کی تمیز وغیرہ تھی دوسرے لفظوں میں وہ قرآن بھی تھا اور قرآن کی اصلی تفسیر بھی تھی ۔

کتاب سلیم بن قیس میں ہے :۔

ان امیر الموٴمنین (علیہ السلام) لما رای غدر الصحابة وقلة و فائھم لزم بیتہ، و اقبل علی القرآن ، فلما جمعہ کلہ، وکتابہ بیدہ، و تاٴویلہ الناسخ و المنسوخ، بعثت الیہ ان اخرج فبایع، فبعث الیہ انی مشغول فقد آلیت علی نفسی لا ارتدی بردائی الا لصلاة حتی اوٴلف القراٰن و اجمعہ ۔1

جس وقت امیر المومومنین (علیہ السلام) نے صحابہ کی بے وفائی اور دوستوں کی کمی دیکھی تو گھر نہ چھوڑا اور قرآن کی طرف توجہ ہوئے آپ قرآن جمع کرنے اور اسے اپنے ہاتھ سے لکھنے میں مشغول ہوگئے یہان تک کہ تاویل اور ناسخ و منسوخ سب کو جمع کرلیا اس دورانمیں انہوں نے آپ کے پاس کسی کو بھیجا کہ گھرسے باہر نکلےں اور بیعت کریں آپ نے جواب میں کہلابھیجا کہ مشغول ہو ں، میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں سوائے نماز کے عباکندے پر نہیں ڈالوں گا ۔

۲۔ روایات کی دوسری قسم وہ ہے جو تحریف معنوی کی طرف اشارہ کرتی ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تحریف تین طرح کی ہے :۔

۱۔ تحریف لفظی

۲۔ تحریف معنوی

۳۔ تحریف معنوی

۱۔ لفظی یہ ہے کہ قرآن کے الفا اور عبارت میں کمی بیشی اور تغیر کیا جائے اور یہ وہ تحریف ہے جس کا ہم اور تمام محققین ِ اسلام شدت سے انکار کرتے ہیں ۔

۲۔ تحریف معنوی یہ ہے کہ آیت کا معنی اور تفسیر اس طرح سے کی جائے کہ وہ اس کے حقیقی مفہوم کے برخلاف ہو ۔

۳۔ تحریف عملی یہ ہے کہ اس کے خلاف عمل کیا جائے ۔

مثلاً تفسیر علی بن ابراہیم میں ابو ذر منقول ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی :۔

یوم بیض وجوہ و تسوةوجوة

جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید ہوں گے اور کچھ کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ (آلِ عمران ۱۰۶) ۔

تو پیغمبر نے فرمایا:۔

روز قیامت لوگوں سوال کیا جائے گا تم تم نے ثقلین ( قرآن و عترتِ پیغمبر ) کے ساتھ کیا سلوک کیا تو لوگ کہیں گے :

اما الاکبر فحرقناہ،ونبذناہ وراء طھورن

ہم نے ثقل اکبر ( قرآن ) کی تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دی

واضح ہے کہ یہاں تحریف سے مراد وہی مفہوم قرآن کو دگر گوں کرنا اور اسے پس، پشت ڈال دیناہے ۔

۳۔ تیسری قسم ان روایات کی ایسی روایا ت ہیں ۔ یہ روایات دشمنوں، منحرفوں یا ناداں نے قرآن کو بے اعتبار کرنے کے لئے گھڑی ہیں مثلاً وہ متعدد روایات جو احمد بن سیاری سے نقل ہوئی ہیں کہ جن کی تعداد ایک سو اٹھاسی (یہ تعداد کتاب”برہان روشن“ کے موٴلف نے لکھی ہے ) ۔ تک جاپہنچی ہے ۔ مرحوم حاجی نوری نے کتاب ”فصل الخطاب“ میں انھیں فروانی سے نقل کیا ہے ۔

ان احادیث کاراوی سیاری بہت سے بزرگ علماء ِ رجال کے بقول فاسد المذہب، ناقابل اعتماد ضعیف الحدیث تھا اور بعض کے بقول صاحب غلو، منحرف ، تناسخ کے ساتھ مشہور اورکذاب تھا ۔ مشہور صاحب ِ کتاب رجال کشی کے بقول امام جواد علیہ السلام نے اپنے خط میں سیاری کے دعووں کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے ۔

 

البتہ روایاتِ تحریف سیاری میں منحصر نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ ترحصہ اسی کی طرف سے ہے ۔

ان جعلی روایات میں کچھ مضحکہ خیز روایات بھی نظر آتی ہیں جو شخص تھوڑا بہت بھی مطالعہ رکھتا ہے وہ فوراً ان روایات کی خرابی کو سمجھ لیتا ہے مثلاًایک روایت کہتی ہے کہ سورہٴ نساء کی آیہ ۳ میں ”وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ماطاب لکم من النساء“( اور اگر تمہیں ڈر ہو کے تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں اچھی لگتی ہیں ) شرط اور جزاء کے درمیان میں سے ایک تنہائی سے زیادہ قرآن ساقط ہو گیا ہے ۔

حالانکہ ہم سورہ ٴ نساء کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں کہ اس اایت میں شرط اور جزاء پوری طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں یہاں تک کہ اس مین سے ایک لفظ بھی ساقط نہیں ہوا ۔

علاوہ ازیں ایک تہائی سے زیادہ تو پھر اس حساب سے کم ازکم چودہ پاروں کے برابر بنتا ہے ۔

یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ان سب کا تبان، وحی اور زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک قرآن کے حافظوں اور قاریوں کے ہوتے ہوئے اس کے چودہ پارے ضائع ہوگئے او رکوئی آگاہ نہ ہوا ۔

ان جھوٹوں اور جعل سازوں نے اس تاریخی حقیقت کی طرف توجہ نہیں کہ قرآن کہ جو اسلام کاقانون اساسی ہے اور شروع سے مسلمانوں کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے رات دن گھروں اور مسجدوں میں اس کی تلاوت ہوتی رہتی ہے کیا اس عالم میں اس کا ایک لفظ بھی ساقط کیا جا سکتا ہے تھا چہ جائیکہ اس کے چودہ پارے غائب کردئے جائیں ۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ایسی احایدث گھڑنے والوں کے پیدا ہونے کی واضح دلیل ہے ۔

بہت سے بہانہ تراش کتاب فصل الخطاب کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس کتاب کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے یہ مرحوم حاجی نوری کی تالیف ہے اور تحریف کے سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کے ابرے میں ہم نے جو کچھ اوپر کہا ہے اس کے علاوہ اس با تی اس کی کیفیت واضھ ہو جاتی ہے کہ مرحوم حاج شیخ آقابزرگ تہرانی کہ جو مرحوم حاجی نوری کے شاگرد مبرز ہیں ، اپنے استاد کے حالات کے ذیل میں ”مستدرک الوسائل “ کی پہلی جلد میں لکھتے ہیں :۔

باقی رہا کتاب ” فصل الخطاب“ کے بارے میں تو میں نے بارہا اپنے استاد سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ وہ مطالب جو فصل الخطاب میں ہے وہ میراذاتی عقیدہ نہیں ہے ۔ یہ کتاب تو میں نے بحث و اشکال کے لئے لکھی ہے اور اشارتاًعدم تحریف کے بارے میں اپنا عقیدہ بھی بیان کردیا ہے اور بہتر تھا کہ میں کتاب کا نام ” فصل الخطاب فی عدم تحریف الکتاب“ رکھتا ۔

اس کے بعد مرحوم محدث تھرانی کہتے ہیں :

عملی لحاظ سے ہم اپنے استاد کی روش اچھی طرح دیکھتے تھے کہ وہ روایات تحریف کو کچھ بھی وزن دینے کے قائل نہ تھے بلکہ انھیں ایسی ورایات سمجھتے تھے جنہیں دہوار پر دے مارنا چاہئیے ۔ ہمارے استاد کی طرف تحریف کی نسبت وہی شخص دے سکتا ہے جو ان کے عقیدہ سے آشنائی نہ رکھتا ہو ۔

آخری بات یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جو مسلمانوں کے لئے اس آسمانی کتاب کی عظمت کو محسوس نہیں کرتے تھے انھوں نے کوشش کی کہاس قسم کے خرافات اور اباطیل سے قرآن کو اس کی اصالت اور بنیاد سے گرادیں ۔ گذشتہ اور موجودہ زمانے میں بہت سی آیات تبدیل کردیں لیکن یہ ان کا اندھا پن تھا ،علماء ِ اسلام فوراً دشمن کی اس سازش سے آگاہ ہوئے اور ان نسخوں کو اکھٹا کرلیا ۔ یہ سیاہ دل دشمن نہیں جانتے تھے کہ قرآن میں سے ایک نقطہ بھی تبدیل ہو جائے تو قرآن کے مفسرین ، حفاظاور قارئین فوراً اس سے آگاہ ہو جائیں گے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ نور ِ خدا کو بجھا دیں لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے ۔

"يُريدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُون"( توبہ ۔ ۳۲)

۱۔اس کی عبارت اس طرح ہے ۔ و الشیعة ھم ابدا اعداء المساجد ولھٰذا یقل ان یشاھد الضارب فی طول بلادھم عرضھا مسجداً

1۔تاریخ القرآن ص۳۴۔

Read 10834 times