قرآن نے جس آیه کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ھے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ھے ۔اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ھے جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ھے وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا ۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ھے کہ وہ ھدف کیا ھے ؟اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ھے ؟اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں جنکی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصّہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ھے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ھیں :
ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ھے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“
دوسرے سابقہ امّتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ تا کہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں ۔
تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تا کہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پھونچ سکے ،روزے کے اسرار کو درک کر کے اسکے اھداف کو حاصل کر سکے ۔
روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ھے لھٰذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ھے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچّے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چا ھے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پھلے بچّے کو پیار سے بلاتی ھے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کھتی ھے ،دوسرے بچّوں کی مثال دیتی ھے پھر اسکے فوائد بیان کرتی ھے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے ۔
قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا“صاحب ایمان کھہ کر ایک محترمانہ لھجے میں خطاب کیا،پھر نرمی سے حکم بیان کیا -”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ لکہ دیا گیا ھے ، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“جس طرح تم سے قبل دیگر امّتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ھے ،اسکے بعد روزے کی غرض ،غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون “تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذّت کا احساس ھونے لگے ۔
فلسفہ بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ھے کیوں کہ ممکن ھے انسان کے ذھن میں اور بھت سے سوال اٹھیں اور اگر ان سوالوں کو صحیح جواب نہ ملے تو وہ سوال اعتراض کی شکل میں تبدیل ھو جائیں مثلاً:
(۱)روزہ رکھنے کی صورت میں انسان کو معمول کی زندگی ترک کرنی پڑتی ھے جو اس کے لئے سخت ھے۔
۲) روزہ رکھنے سے انسان ضعیف ھو جاتا ھے ۔دن بھر کی بھوک اور پیاس اگر نا قابل برداشت نھیں توناگوار اور سخت ضرور ھے ، کھانا اور پانی انسانی جسم کا تقاضا ھے جو اسے ملنا چاھیے۔
اپنی محنت سے حاصل کی ھوئی حلال چیزیں انسان پر کیوں حرام ھو جاتی ھیں ؟
(۳)یوں تو تمام عبادتوں میں پابندیاں ھیں لیکن رمضان میں انسان ایک مھینے تک شدید قسم کی پابندیوں میں مقیّدھو جاتا ھے۔
(۴)ایک اعتراض جو روزہ کے علاوہ تمام عبادتوں بلکہ پورے دین پر کیا جاتا ھے وہ یہ کی اگر دین اوراحکام ِدین مطابق فطرت ھیں تو ان کو انجام دینے میں سختی و ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے؟
(۵)اگر انسان روزہ نہ رکھے تو اس کے اندر کون سا نقص پیدا ھو جاتا ھے؟
مندرجہ بالا سوالات و اعتراضات پر گفتگو کرنے سے پھلے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ اسطرح کے سوالات اور اعتراضات در حقیقت روزہ کے اسرار و فلسفہ سے ناواقفیت کی بنا پر ھیں لھٰذا ابتداء ً مذکورہ اعتراضات و مسائل پر گفتگو کے دوران انشاء اللہ بعض اسرار بیان کئے جائیں گے ،اسکے بعد روزہ کے بقیہ اھم اسرار میں سے ان بعض اسرار کی طرف اشارہ ھو گا جو قرآن و احادیث میں بیان ھوئے ھیں ۔