ماہ مبارک، رحمت، بخشش، عطاء، استغفار

Rate this item
(1 Vote)
ماہ مبارک، رحمت، بخشش، عطاء، استغفار

زندگی کی چکا چوند اور بھاگ دوڑ میں مشغول حضرت انسان کے خالق نے انسانوں کیلئے ان کی فطرت تخلیق کو پیش نظر رکھا اور انہیں کسی مقام، کسی ساعت، کسی گھڑی میں رک جانے، ٹھہر جانے، اپنا جائزہ لینے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے، اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اگلے سفر کو مزید بہترین بنانے کا موقعہ دیا۔ لیجیے ایک بار پھر ماہ مبارک آن پہنچا، اللہ کریم و رحیم کی پاک کتاب میں آیت کریمہ سنائی دی: "یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔"، "اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ۔" ماہ مبارک رمضان وہ مبارک اور باعظمت مہینہ ہے، جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے۔ اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا۔ ہمیں ایک بار پھر اس ماہ مبارک کی سعادت مل رہی ہے تو یہ باعث خوش بختی و خوش نصیبی ہے۔ یقیناً یہ توفیق پروردگار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

پروردگار نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم اس ماہ مبارک و بابرکت میں اپنے گناہوں کیلئے استغفار کرسکیں، نیکیوں کی بہار سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنی آخرت کا ساماں کرسکیں، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں، جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اللہ کریم ان پر اپنا فضل و رحمت نازل کرے۔ اس عنوان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ہم سب کو اس ماہ مبارک و پربرکت کی باسعادت گھڑیوں کی قدر کرنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ  فائدہ اٹھانا چاہیئے، ممکن ہے کہ یہ مبارک گھڑیاں ہماری آخری گھڑیاں ہوں، آئندہ برس یہ مبارک و باسعادت گھڑیاں ملیں یا نا ملیں۔

کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: یارسول اللہ! "ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لیس علی ثواب رمضان قیاس"، "یارسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔" گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی۔ کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی، تاکہ میں اس کو بخشش دوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں: "انّ شھر رمضان، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔"، "ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے، جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے۔ گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے۔"

رئیس مکتب جعفری امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "قال اللہ تبارک و تعالٰی: یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة۔"، "خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ، تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔" یعنی اگر آخرت کی بےبہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں، اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا۔ انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا، بھوک و پیاس کو برداشت کیا تو جب جنّت میں داخل ہونگے تو آواز قدرت آئے گی: "کلوا و اشربوا ھنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة"، "اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔"

علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے، تہذیب نفس کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرسکتا ہے اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔ احادیث و روایات سے ثابت ہے کہ اللہ کریم کو اس کا شکر ادا کرنا بہت زیادہ پسند ہے۔ اس مبارک مہینہ کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں، جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ ہاں تو حضرت انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "من قال أربع مرّات اذا أصبح، ألحمد للہ ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومہ و من قالھا اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلتہ"، "جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا: "الحمد للہ ربّ العالمین" اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا، اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔"

کتنا آسان طریقہ بتا دیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے۔ ایک آیت کا ثواب دس کے برابر، ایک نیکی کا ثواب دس برابر۔۔ کیا ہم ان مبارک ساعتوں میں اس طرح شکر ادا کرکے اپنے رب، جو کریم ہے، اسے راضی نہیں کرسکتے، ہاں یہ کام بھی توفیق الہیٰ سے ہی ممکن ہے۔ لہذا ہمیں ادائے شکر کی توفیق بھی طلب کرنا چاہیئے، جو لوگ اس جانب متوجہ ہی نہیں کہ کسی عمل کی توفیق کا چھن جانا بھی بہت بڑا نقصان ہے، انہیں متوجہ کرنا چاہیئے اور ہر دم توفیق طلب کرتے رہنا چاہیئے۔ یہ ماہ یقیناً پروردگار کی عنایات کا مہینہ ہے، اس میں جو مانگو مل سکتا ہے۔

دوستان عزیز و محترم! نیکیوں کی اس باہرکت اور پربرکت گھڑیوں میں اللہ کریم و رحیم اور آئمہ طاہرین و معصومین ؑنے مخلوق خدا کیساتھ بھلائی اور اچھے برتائو کے بارے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ اس مبارک مہینہ میں دنیا بھر کی طرح اہل پاکستان بھی جی بھر کر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور صدقات و خیرات کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ زوروں پہ ہوتا ہے، بہت سے گروہ، جماعتیں، شخصیات اور انجمنیں اس ماہ مبارک میں مستحقین تک راشن، نقد رقوم اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں، جو ایک قابل تعریف و قابل تقلید عمل ہے، جس کو ہر ایک شخص کو اپنے تئیں اپنانا چاہیئے، ممکن ہے کہ کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو راشن لے کر دینے کی ہو، کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو ایک افطاری یا سحری کروانے کی ہو، اسے یہ عمل سرانجام دیتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ پروردگار سے توفیق مزید طلب کرتے ہوئے اپنے اخلاص سے یہ عمل سرانجام دینا چاہیئے۔

ہاں جن کو مالک و خالق نے بے بہا دیا ہے، انہیں اگر توفیق حاصل ہو تو انہیں ہاتھ کھلا رکھنا چاہیئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انہیں کسی قسم کی تنگی نہیں ہوگی، نہ کمی ہوگی بلکہ جس پروردگار نے انہیں پہلے دیا ہے، وہی اس میں برکت ڈال دیگا اور ان کے رزق میں فراوانی و کشادگی ہوگی۔ ہاں اہل خیر کو مستحقین تک ضروریات پہنچانے میں سستی نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں مجھے مولا کا فرمان یاد آگیا، مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں، ایک کل کا دن، جو گزر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا، اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا، دے دیا۔ اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں، ممکن ہے کہ زندہ رہے، ممکن ہے کہ اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے، جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے، اس دن میں بجا لا۔

اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے، آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سرجھکا لے، خدا رحیم ہے، تیری توبہ قبول کر لے گا۔ یقیناً یہ ماہ مبارک عبادت، بندگی، دعا و مناجات، تزکیہ نفس، خدمت خلق، احساس، درد، بخشش، توبہ کا مہینہ ہے۔ یہ واحد مہینہ ہے، جس میں سانس لینا اور سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے، پروردگار سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماہ مبارک و سعادت میں اس کی مرضی و قرب کے حصول کی منزلیں پانے کی مزید توفیقات عطا ہوں، تاکہ جب امام ؑکا ظہور ہو اور ہم ان کی بارگاہ میں پیش ہوں تو ان کے طرفداروں میں، ان کے یاوروں اور ان کے ساتھیوں میں شمار ہوں۔ وما توقفی الا باللہ۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Read 95 times