چودہ فروری تیونس کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ اسی دن دو برسوں قبل زین العابدین بن علی فرار ہوا تھا۔ بہت سے تیونسی باشندوں کی نظر میں اس دن ملک کو دوبارہ حیات تازہ ملی تھی۔ چودہ جنوری دوہزار گيا رہ کو تیونس کا سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی تئيس الہ مستبدانہ حکومت کے بعد عوامی انقلاب کے نتیجے میں ملک سے بھاگنے پرمجبور ہوگياتھا۔ سابق ڈکٹیٹر کے فرار کے بعد ملک میں تیونسی باشندوں کو امید کی کرن دکھائي دی کہ اب ملک میں نیا دور شروع ہوگا۔ تیونس کا انقلاب اس وجہ س اہمیت کا حامل ہے کہ یہی انقلاب دیگر عرب ملکوں میں انقلابوں کا سبب بناتھا۔ تیونس میں بن علی کی ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی کے بعد مصر کے ڈکٹیٹر کی حکومت بھی ختم ہوگئی، لیبیا کی تاریخی آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ گيا اور معمر قذافی پینتالیس برسوں تک حکومت کرنے کےبعد نہایت ہی عبرتناک موت کو پہنچااسکے علاوہ علی عبداللہ صالح بھی یمن کی صدارت سے محروم ہوگئے۔ تیونس کے شہر سیدی بوزید میں ایک جوان کی خود سوزی سے جو تحریک شروع ہوئي تھی اس نےعرب ملکوں کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج تک جاری ہے۔
تیونس کی حکومت نے اپنے انقلاب کی کامیابی کی دوسری سالگرہ کے جشن میں شرکت کے لئے مختلف ملکوں کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ تیونس کے حالات کے پیش نظر یہ سوال سامنے آرہے ہیں کہ بن علی کے فرار کو دوبرس گذرنے کے بعد کیا تیونس میں اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے استحکام آیا ہے؟ کیا عوامی تحریک کے اھداف پورے کئے گئےہیں۔ اور کیا عوام کے مطالبات کو پورا کیا جارہا ہے؟ جس چیز عملی طورسے دیکھی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ تیونس میں نیا سیاسی نظام آچکا ہے، منصف المرزوقی صدر ہیں اور حمادی الجبالی وزیر اعظم کے عھدے پر فائز ہیں اور ملک کے اعلی ترین حکام کی حیثیت سے ملک کا انتظام چلارہے ہیں۔ اسکے علاوہ تیونس میں النھضۃ جیسی پارٹیاں بھی میدان میں آچکی ہیں اور اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ان پارٹیوں پر کل تک پابندی تھی ، لیکن کیا تیونس اتنے ہی مسائل میں منحصر ہے؟ تیونس اس وقت شدید معیشتی مسائل سے پریشان ہے۔ برے اقتصادی حالات سے گھبراکر عوام دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر احتجاج کررہے ہیں۔اس احتجاج سے تیونس ایک سنگين بحران میں مبتلا ہوچکا ہے۔ در این اثنا عوام کے مطالبات پورے نہ کئےجانے سے عوام میں بےچینی کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں بھی برہم ہیں جس سے حکومت مزید طوفانوں کی زد میں آگئي ہے۔ انقلاب تیونس کی کامیابی کو دو برس گذرنےکے بعد بھی ملک میں صعنت سیاحت جو ملک کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے اور نہ کوئي ملک اس صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کے بعض حلقے حکومت کو اس صورتحال کا ذمہ دار بتارہے ہیں ان کا کہنا ہےکہ حکومت صحیح تدبیریں نہیں اپنا رہی ہے لیکن کیا یہ الزام تراشی تیونس کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ تیونس ایسا ملک ہےجو عبوری صورتحال سے گذر رہا ہے اور یہ مرحلہ یقینا اس ملک کےلئے نہایت حساس مرحلہ ہے جس نے تئيس برس تک ڈکٹیٹر شپ کو جھیلا ہے۔ اس مرحلے میں حکومت کو نہایت درایت اور تدبیر سے مساغل حل کرنے ہونگے اور عوام کو بھی حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا لیکن لگتا ہے ان دونوں اصولوں کا تیونس میں کوئي مقام نہیں ہے۔ اس وقت تیونس کےحکام نہ صاحب رائے و تدبیر دکھائي دے رہے ہیں اور نہ ہی عوام میں حوصلہ و صبر نظر آرہا ہے۔ تیونس میں عوامی انقلاب کے اھداف حاصل کرنے کےلئے قومی عزم کی ضرورت ہے اور سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔