نارتھ لندن کی مسجد اور اسلامک سنٹر کو شہید کئے جانے کے بعد برطانوی مسلمانوں کے ذہنوں میں فوری طور پر یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ آیا وہ اب اس ملک کے اندر محفوظ ہیں؟ نسل پرستوں نے جس طرح صبح کے ایسے پہر میں مسجد پرحملہ کیا جب سب سوئے ہوئے تھے۔ اس طرح وہ کہیں بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ ان کا اگلا نشانہ کوئی اور مسجد یا کسی مسلمان یا ایشیائی کا گھر ہوسکتا ہے۔ یا پھر وہ کسی مسلمان کے کاروبار پر بھی حملہ کرسکتے ہیں اس تازہ ترین منظر نامے نے مزید کئی سوالوں کو جنم دیا ہے مثلاً یہ کہ آیا انگلش ڈیفنس لیگ(EDL) نے وولچ میں دو انتہاپسند کو مسلموں کی جانب سے برطانوی فوجی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کئے جانے کے واقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارے برطانوی مسلمانوں کے خلاف جنگ کا طبل بجادیا ہے یا پھر یہ کہ آیا مسلمانوں اور سفید فام باشندوں کے اندر موجود انتہا پسندوں برطانوی کمیونیٹز کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ مزید برآں یہ کہ جس طرح بعض امریکی اور مغربی مبصرین نے یہ پیشگوئیاں کر رکھی تھیں کہ مسلم اور مغربی تہذیبوں کے درمیان تصادم کو روکا نہیں جاسکتا تو کیا تہذیبوں کے درمیان تصادم شروع ہوگیا ہے۔ اگرچہ مسجد کو شہید کرنے کا واقع مسلمانوں کے لئے سخت دل آزاری کا باعث ہے مگر اس واقع کی مذمت کرنے میں ساری کمیونیٹز پیش پیش ہیں خاص طور پر نارتھ لندن کی ساری کمیونٹیز نے اس کی مذمت کی ہے اور پولیس بھی اس کو دہشت گردی کا واقع تصور کررہی ہے۔ اس کی تحقیقات بھی اندار دہشت پولیس کررہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ دہشت گردی صرف مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہورہی بلکہ EDL اور BNP کے انتہا پسند بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں جس طرح انہوں نے مسجد میں آگ لگائی ہے۔ اس سے لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک بھی ہوسکتی تھی تاہم ان دہشت گردوں کا مقصد شاید مسلمانوں کو جانی نقصان پہچانا نہیں تھا بلکہ ڈرانے دھمکانا تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ کے مسلمان عمومی طور پر اور نارتھ لندن کے مسلمان خصوصی طور پر خود کو محفوظ تصور کررہے ہیں اور بات کا اظہار صومالی اسلامک سینٹر کے ایک رہنما ابوبکر علی نے بھی کیا ہے برطانوی مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کی اس فضا کو قائم کئے جانے کے پیچھے خود بعض مسلمان انتہا پسندوں کا ہاتھ بھی ہے۔ ایک طرف تو دو سیاہ فام نو مسلموں نے لی رگبی کو سر عام دن دیہاڑے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں نہ صرف ہلاک کیا بلکہ اس کی گردن کاٹنے کی بھی کوشش کی اور ابھی یہ واقعہ تازہ تھا کہ ایک اور سفید فام نو مسلم نے پرنس ہیری کو نقصان پہچانے کی دھمکی دے ڈالی یہی نہیں بلکہ خود کو مسلمانوں کا لیڈر کہنے والے انتہا پسند سکالر انجم چوہدری نے باقاعدہ یہ بیان داغ دیا کہ لی رگبی پر اب جہنم میں بھی تشدد ہوگا۔ کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھا اس بیان کی باقاعدہ ویڈیو ریکاڈنگ موجود ہے اس میں انجم چوہدری نے بہت سی اور بھی باتیں کی ہیں ان کے اس بیان کو اخبارات نے نمایاں انداز میں شائع کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے یہ استفسار بھی کیا ہے کہ اس نے انجم چوہدری کو گرفتار کرکے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ انہوں نے مرے ہوئے برطانوی فوجی کے خلاف اس قدر زہریلے اور توہین آمیز ریمارکس کیوں دےئے ہیں اگرچہ ان کے خلاف مذہبی منافرت کے قانون کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے تاہم پولیس اس سلسلے میں تحقیقات کررہی ہے کہ ان کے خلاف قانون کی کس شق کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مسجد پر ہونے والے حملے میں انجم چوہدری کی بھی کئی باتوں کا اثر بھی شامل ہو،تاہم وولچ کے واقعہ کے بعد برطانیہ کے بعض بڑے سیاسی رہنماؤں کے جانب سے بھی ایسے بیان سامنے آرہے ہیں جن سے EDL کی حوصلہ افزائی ہورہی ہیں۔ ان لیڈروں میں ایک بڑا نام سابق وزیراعظم ٹونی بلےئر کا ہے جنہوں نے چند روز قبل یہ بیان دیا کہ وولچ میں لی رگبی کے قتل سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ دراصل اسلام کے اندر کوئی مسئلہ موجود ہے اس سے قبل ٹونی بلےئر ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں کے اسلام ایک پر امن مذہب ہے مگر اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے اپنے کہے کی نفی کردی ہے۔ اور اسلامی آئیڈیالوجی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ہوسکتا ہے کہ ان کے اس بیان سے بھی EDL کے انتہاپسندوں کے حوصلے بڑھے ہوں اور انہوں نے ٹونی بلےئر سے متاثر ہوکر اسلام کے ایک مرکز کو اڑانے کے لئے نارتھ لندن کے اسلامی سینٹر اور مسجد کا انتخاب کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں کے جذبات بپھرے ہوئے ہیں، لی رگبی کو جس انداز میں قتل کیا گیا اورجس طرح میڈیا میں یہ معاملہ پیش کیا گیا اس سے لوگوں کے اندر جذبات پائے جاتے ہیں۔ EDL اور بی این پی جیسی نسل پرست پارٹیاں ایسے بھی مواقع کا انتظار کرتی ہیں تاکہ نفرت کو ابھارا جاسکے۔ چنانچہ ان نسل پرستوں اور انتہا پسندوں نے مسلمانوں پر کئی وار کئے ہیں۔ صرف دو افراد کے کارروائی کا غصہ سارے مسلمانوں پر اتارا جارہا ہے اور ان سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں ٹونی بلےئر جیسے بڑے رہنماؤں کو اپنے ریمارکس دینے یا کوئی تحریر لکھتے وقت اپنے الفاظ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ای ڈی ایل اور دوسرے انتہا پسند تو مواقع کی تلاش میں ہوتے ہے اور وہ جہاں عاقبت نا اندیش مسلم انتہا پسندوں کے کرتوتوں کو وائیڈر کمیونٹی کے سامنے رکھتے ہیں وہاں ان کے بارے میں قومی رہنماؤں کے بیانات کو بھی نفرت کے لئے استعمال کرتے ہوں لی رگبی کے قتل کے فوراً بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے فوری طور پر یہ بیان دیا تھا کہ اس واقعہ کا اسلام کے ساتھ کچھ دینا نہیں ہے اس ایک بیان کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف فوری طور پر اتنا بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا جتنا کے خود مسلمانوں کو خدشہ تھا۔ تاہم بعد میں سامنے آنے والے بعض لیڈروں کے بیانات نے صورتحال کو خراب کرنے میں مدد ضروری ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کیمرون نے چھٹیاں گزار کر واپسی پر ہاؤس آف کامنز میں جس طرح برطانیہ میں انتہاپسندی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا ہے اس سے برطانوی مسلمانوں کو اس ملک کے قوانین میں آنے والے دنوں میں سختیوں کا اندازہ ہوجانا چاہئے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے بار بار پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو بعض ایسے اختیارات دے دیئے جائیں کہ وہ انتہا پسندوں کی موثر انداز میں جاسوسی کرسکیں۔ ان کی بنائی ہوئی ٹاسک فورس اس حوالے سے کیا اقدامات کرے گی ان کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ بات طے ہے کہ قوانین کو مزید سخت کیا جائے گا۔ قوانین کو سخت کرنے کا یہ سلسلہ ایک دم شروع نہیں ہوا بلکہ 9/11 اور 7/7 کے واقعات اور ان کے بعد پکڑے گئے بعض منصوبوں کے نتیجے میں صدر کا رخ تبدیل ہورہے۔ یہ وہی ملک ہے جس میں مسلمان خود کو سب سے زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ آج کیا وجہ ہے کہ وہ خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں یہ بات خود برطانوی مسلمانوں کو بھی سوچنی چاہئے اور اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کو باہر نکالنا چاہئے۔ جنہوں نے ان کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
بشکریہ جنگ آن لائن