حجاج کرام کے نام پیغام، عالم اسلام کے کلیدی مسائل کا جائزہ پرنٹ کریں

Rate this item
(0 votes)

بسم الله الرحمن الرحيم

والحمدلله رب العالمين و الصلوة والسلام علي سيدالانبياء و المرسلين و علي آله الطيبين و صحبه المنتجبين

موسم حج کی آمد کو امت اسلامیہ کی عظیم عید سمجھنا چاہئے۔ ہر سال یہ گراں قدر ایام دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو سنہری موقعہ فراہم کرتے ہیں وہ ایسا کرشماتی کیمیا ہے کہ اگر اس کی قدر و قیمت کو سمجھ لیا جائے اور اس سے کما حقہ استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کے بہت سے مسائل اور کمزوریوں کا علاج ہو سکتا ہے۔

حج فیضان الہی کا چشمہ خروشاں ہے۔ آپ خوش قسمت حاجیوں میں ہر ایک کو اس وقت یہ خوش قسمتی حاصل ہوئی ہے کہ نورانیت و روحانیت سے معمور ان مناسک و اعمال کے دوران دل و جان کی طہارت کرکے اس رحمت و عزت و قدرت کے سرچشمے سے اپنی پوری زندگی کے لئے سرمایہ حاصل کریں۔ خدائے رحیم کے سامنے خشوع اور خود سپردگی، مسلمانوں کے دوش پر ڈالے جانے والے فرائض کی پابندی، دین و دنیا کے امور میں نشاط و عمل و اقدام، بھائیوں کے سلسلے میں رحمدلی و درگزر، سخت حوادث کا سامنا ہونے پر جرائت و خود اعتمادی، ہر جگہ ہر شئے کے سلسلے میں نصرت خداوندی کی امید، مختصر یہ کہ تعلیم و تربیت کے اس ملکوتی میدان میں مسلمان کہلانے کے لایق انسان کی تعمیر و نگارش کو آپ اپنے لئے بھی مہیا کر سکتے ہیں اوراپنے وجود کو ان زیوروں سے آراستہ اور ان ذخیروں سے مالامال کرکے اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے اور سرانجام امت اسلامیہ کے لئے بطور سوغات لے جا سکتے ہیں۔

آج امت اسلامیہ کو سب سے بڑھ کر ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو ایمان و پاکیزگی و اخلاص کے ساتھ ساتھ فکر و عمل اور روحانی و معنوی خود سازی کے ساتھ ساتھ کینہ توز دشمنوں کے مقابل جذبہ استقامت سے آراستہ ہو۔ یہ مسلمانوں کے اس عظیم معاشرے کی ان مصیبتوں سے رہائی کا واحد راستہ ہے جن میں وہ آشکارا طور پر دشمنوں کے ہاتھوں یا قدیم ادوار سے قوت ارادی، ایمان اور بصیرت کی کمزوری کے نتیجے میں گرفتار ہے۔

بیشک موجودہ دور مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بازیابی کا دور ہے۔ اس حقیقت کو ان مسائل کے ذریعے بھی واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے جن سے مسلمان ممالک آج دوچار ہیں۔ ایسے ہی حالات میں ایمان و توکل علی اللہ، بصیرت اور تدبیر پر استوار عزم و ارادہ مسلم اقوام کو ان مسائل سے کامیابی اور سرخروئی کے ساتھ نکال سکتا ہے اور ان کے مستقبل کو عزت و وقار سے آراستہ کر سکتا ہے۔ مد مقابل محاذ جو کسی صورت میں بھی مسلمانوں کی بیداری کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہے، اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں اتر پڑا ہے اور مسلمانوں کو کچلنے، پسپا کرنے اور آپس میں الجھا دینے کے لئے تمام نفسیاتی، عسکری، اقتصادی، تشہیراتی اور سیکورٹی کے شعبے سے مربوط حربوں کو استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے لیکر شام، عراق، فلسطین اور خلیج فارس کے ملکوں تک مغربی ایشیا کی تمام ریاستوں، نیز شمالی افریقا میں لیبیا، مصر اور تیونس سے لیکر سوڈان اور بعض دیگر ممالک تک تمام ملکوں پر ایک نگاہ ڈالنے سے بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں۔ خانہ جنگی، اندھا دینی و مسلکی تعصب، سیاسی عدم استحکام، بے رحمانہ دہشت گردی کی ترویج، ایسے گروہوں اور حلقوں کا ظہور جو تاریخ کی وحشی قوموں کے انداز میں انسانوں کے سینے چاک کرتے ہیں، ان کا دل نکال کر دانتوں سے بھنھوڑتے ہیں، وہ مسلح عناصر جو بچوں اور خواتین کو قتل کرتے ہیں، مردوں کے سر قلم کرتے ہیں اور ان کی ناموس کی آبروریزی کرتے ہیں، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بعض مواقع پر یہ شرمناک اور نفرت انگیز جرائم دین کے نام پر اور پرچم دین کے تلے انجام دیتے ہیں، یہ سب کچھ اغیار کی خفیہ ایجنسیوں اور علاقے میں ان کے ہمنوا حکومتی عناصر کی شیطانی اور سامراجی سازشوں کا نتیجہ ہے جو ملکوں کے اندر موافق مقامات پر وقوع پذیر ہونے کا امکان حاصل کر لیتی ہیں اور قوموں کا مقدر تاریک اور ان کی زندگی کو تلخ کر دیتی ہیں۔ یقینا ان حالات میں یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ مسلمان ممالک روحانی و مادی خلا کو پر کریں گے اور امن و سلامتی، رفاہ آسائش، علمی ترقی اور عالمی ساکھ کو جو بیداری اور تشخص کی بازیابی کا ثمرہ ہے حاصل کر سکیں گے۔ یہ پرمحن حالات اسلامی بیداری کو ناکام اور عالم اسلام میں ذہنی اور نفسیاتی سطح پر پیدا ہونے والی آمادگی کو ضائع کر سکتے ہیں اور ایک بار پھر برسوں کے لئے مسلم اقوام کو جمود و تنہائی اور انحطاط کی جانب دھکیل کر ان کے کلیدی مسائل جیسے امریکا اور صیہونزم کی مداخلتوں اور جارحیتوں سے فلسطین اور مسلم اقوام کی نجات کے موضوع کو فراموش کروا سکتے ہیں۔

اس کے بنیادی اور اساسی حل کو دو کلیدی جملوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور یہ دونوں ہی حج کے نمایاں ترین درس ہیں:۔

اول: پرچم توحید کے نیچے تمام مسلمانوں کا اتحاد اور اخوت

دوم: دشمن کی شناخت اور اس کی چالوں اور سازشوں کا مقابلہ

اخوت و ہمدلی کے جذبے کی تقویت حج کا عظیم درس ہے۔ یہاں دوسروں کے ساتھ بحث و تکرار اور تلخ کلامی بھی ممنوع ہے۔ یہاں یکساں پوشاک، یکساں اعمال، یکساں حرکات و سکنات اور محبت آمیز برتاؤ ان تمام لوگوں کی برادری و مساوات کے معنی میں ہے جو اس مرکز توحید پر عقیدہ رکھتے ہیں اور قلبی طور پر اس سے وابستہ ہیں۔ یہ ہر اس فکر و عقیدے اور پیغام پر اسلام کا دو ٹوک جواب ہے جس میں مسلمانوں اور کعبہ و توحید پر عقیدہ رکھنے والوں کے کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے۔ تکفیری عناصر جو آج عیار صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کی سیاست کا کھلونا بن کر ہولناک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور مسلمانوں اور بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں اور دینداری کے دعوے کرنے والے اور علماء کا لباس پہننے والے وہ افراد جو شیعہ و سنی تنازعے یا دیگر اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، یا بات جان لیں کہ خود مناسک حج ان کے دعوے پر خط بطلان کھینچتے ہیں۔

بہت سے علمائے اسلام اور امت اسلامیہ کا درد رکھنے والے افراد کی طرح میں بھی ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہر وہ قول و فعل جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے شعلہ ور ہو جانے کا باعث بنے، نیز مسلمانوں کے کسی بھی فرقے کے مقدسات کی توہین یا کسی بھی اسلامی مسلک کو کافر قرار دینا کفر و شرک کے محاذ کی خدمت، اسلام سے خیانت اور شرعا حرام ہے۔

دشمن اور اس کی روش کی شناخت دوسرا اہم نکتہ ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کینہ پرور دشمن کے وجود کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے اور حج میں چند بار انجام پانے والا رمی جمرات کا عمل اس دائمی توجہ کا علامتی عمل ہے۔ دوسرے یہ کہ اصلی دشمن کی شناخت میں جو آج عالمی استکبار اور جرائم پیشہ صیہونی نیٹ ورک کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، کبھی غلطی نہیں کرنا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کٹر دشمن کی چالوں کو جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی، سیاسی و اخلاقی بدعنوانی کی ترویج، دانشوروں کو رجھانے اور ڈرانے، قوموں پر اقتصادی دباؤ اور اسلامی عقائد کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے عبارت ہیں بخوبی پہچاننا چاہئے اور اسی طریقے سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کے مہروں میں تبدیل ہو جانے والے عناصر کی بھی نشاندہی کر لینا چاہئے۔

استکباری حکومتیں اور ان میں سر فہرست امریکا وسیع و پیشرفتہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے اصلی چہرے کو چھپا لیتے ہیں اور انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسبانی کے دعوؤں سے قوموں کی رائے عامہ کے سامنے فریب دینے والا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ ایسے عالم میں اقوام کے حقوق کا دم بھرتے ہیں کہ جب مسلم اقوام ہر دن اپنے جسم و جان سے ان کے فتنوں کی آگ کی تمازت کا پہلے سے زیادہ احساس کرتی ہیں۔ مظلوم فلسطینی قوم پر ایک نظر جو دسیوں سال سے روزانہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم کے زخم کھا رہی ہے۔ یا افغانستان، پاکستان و عراق جیسے ممالک پر ایک نظر جہاں استکبار اور اس کے علاقائی ہمنواؤں کی پالیسیوں کی پیدا کردہ دہشت گردی سے زندگی تلخ ہوکر رہ گئی ہے۔ یا شام پر ایک نظر جو صیہونیت مخالف مزاحمتی تحریک کی پشت پناہی کے جرم میں بین الاقوامی تسلط پسندوں اور ان کے علاقائی خدمت گزاروں کے کینہ پرستانہ حملوں کی آماجگاہ بنا ہے اور خونریز خانہ جنگی میں گرفتار ہے، یا بحرین یا میانمار پر ایک نظر جہاں الگ الگ انداز سے مصیبتوں میں گرفتار بے اعتنائی کا شکار ہیں اور ان کے دشمنوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔ یا یا دیگر اقوام پر ایک نظر جنہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پے در پے فوجی حملوں، یا اقتصادی پابندیوں، یا سیکورٹی کے شعبے سے متعلق تخریبی کارروائیوں کے خطرات لاحق ہیں، تسلط پسندانہ نظام کے عمائدین کے اصلی چہرے سے سب کو روشناس کرا سکتی ہے۔

عالم اسلام میں ہر جگہ سیاسی، ثقافتی اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ ان حقائق کے افشاء کی ذمہ داری کا احساس کریں۔ یہ ہم سب کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔شمالی افریقا کے ممالک جو بد قسمتی سے ان دنوں گہرے داخلی اختلافات کی لپیٹ میں ہیں، دوسروں سے زیادہ اپنی عظیم ذمہ داری یعنی دشمن، اس کی روش اور اس کے حربوں کی شناخت پر توجہ دیں۔ قومی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان اختلافات کا جاری رہنا اور ان ملکوں میں خانہ جنگی کے اندیشے غفلت ایسا بڑا خطرہ ہے کہ اس سے امت اسلامیہ کو پہنچنے والے نقصانات کا جلدی تدارک نہیں ہو پائے گا۔

البتہ ہم کو اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس علاقے کی انقلابی قومیں جہاں اسلامی بیداری مجسم ہو چکی ہے، اذن پروردگار سے یہ موقعہ نہیں دیں گی کہ وقت کی سوئی برعکس سمت میں گھومے اور بدعنوان، پٹھو اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کا دور واپس آئے، لیکن فتنہ انگیزی اور تباہ کن مداخلتوں میں استکباری طاقتوں کی کردار کی جانب سے غفلت ان کی مہم کو دشوار بنا دے گی اور عزت و سلامتی اور رفاہ و آسائش کے دور کو برسوں پیچھے دھکیل دے گی۔ ہم قوموں کی توانائی اور اس طاقت پر جو خدائے حکیم نے عوام الناس کے عزم و ایمان اور بصیرت میں قرار دی ہے، دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتے ہیں اور اسے ہم نے تین عشرے سے زیادہ کے عرصے کے دوران اسلامی جمہوریہ کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے پورے وجود سے اس کا تجربہ کیا ہے۔ ہمارا عزم تمام مسلم اقوام کو اس سربلند اور کبھی نہ تھکنے والے ملک میں آباد ان کے بھائیوں کے تجربے سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

اللہ تعالی سے مسلمانوں کی بھلائی اور دشمنوں کے مکر و حیلے سے حفاظت کا طلبگار ہوں اور بیت اللہ کے آپ تمام حاجیوں کے لئے حج مقبول، جسم و جان کی سلامتی اور روحانیت سے سرشار خزانے کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام عليكم و رحمة الله

سيّد علي خامنه‌اي

پنجم ذي‌الحجه 1434 (ہجری قمری) مطابق 19 مهرماه 1392 (ہجری شمسی برابر 12 اکتوبر 2013 عیسوی)

Read 1402 times