۲۰۱۵/۰۶/۳۰ - حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اتوار کے دن عدلیہ کے سربراہ اور دیگر حکام سے ملاقات میں عدلیہ کے سابق سربراہ شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی اور شہید قدوسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آزاد عدلیہ کے قیام اور اسے کسی بھی قسم کے دبائو سے پاک ہونے کو بہت زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ ہمیں چاہئے کہ ہم عدلیہ کی فضا کو نابود کرنے والے عوامل من جملہ دھونس و دھمکی، طمع و لالچ، اور عمومی دبائو کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور عدلیہ کے صحیح کردار اور روش کو اپنائیں۔
آپ نے اقتدار کو عدلیہ کی آزادی کا اہم عنصر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کی اقتدار پسندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عام طور پر سیاسی یا گروہی قدرت پسندی کے مترادف ہو بلکہ اس کا مطلب حق بات پر ڈٹ جانا اور اسکا دفاع کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قانون پر عملدرآمد اور اسکے مکمل طور پر سالم ہونے کو عدلیہ کی آزادی کے دو اہم اور موثر عوامل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ عدلیہ کو مکمل طور پر نقص و عیب سے پاک کرنے کے لئے بہت زیادہ کام انجام دیئے گئے ہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عدلیہ میں کسی بھی قسم کا فساد، معاشرے میں فساد کا زمینہ فراہم کرتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جرائم کی روک تھام کو عدلیہ کا اہم اور حساس مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ اس سلسلے میں دوسرے اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ جرائم کی روک تھام کے لئے سرگرم عمل رہیں لیکن اس کے لئے منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دوسری صورت میں جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور جرائم اس قدر پھیل جائیں گے کہ ان کی روک تھام مشکل ہو جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مسئلہ مالی، اخلاقی اور اجتماعی حوالے سے مشکلات کا باعث ہے اور مختلف زاویوں سے اسکے سدباب کے لئے سنجیدہ کوششیں کئے جانے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی حوالے سے معاشرے میں صلح اور گفت و شنید کی ثقافت کو رائج کرنے اور قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد روکنے کے لئے مقامی اختلافات حل کرانے والی کونسلوں کی تقویت کو ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ منشیات اور مالی مسائل کی وجہ سے قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات کے سدباب کے لئے بھی نئی تجاویز پیش کیا جانا اور اس کا حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جوانوں کی شادیوں میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے اور اسے آسان بنانے کے لئے مزید کوششیں کرنے پر زور دیا اور باہمی اتفاق سے ہونے والی طلاقوں کو فیملی کورٹس کی ایک مشکل بتاتے ہوئے فرمایا کہ جج صاحبان کو چاہئے کہ وہ خاندان کے بزرگ افراد کی مدد سے اس طرح کہ مسائل میں کمی لانے کی کوشش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے منظم منصوبہ بندی، قوانین کی اصلاح اور عدلیہ کے کارکنان کی تربیت کو تین اہم عوامل قرار دیتے ہوئے ان پر تفصیل سے گفتگو کی۔ آپ نے عدلیہ میں منظم منصوبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ایک واضح اور مدون پروگرام پر عمل درآمد کے ذریعے اور صحیح سمت میں توجہ کے ساتھ حرکت ایک لازمی امر ہے جو ہمیں مستقبل میں روزمرہ کے معاملات میں مسائل کا شکار ہونے سے بچائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون کے زریعے ملک کی پیشرفت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں چنانچہ جو قوانین آپس میں متصادم ہیں یا کسی نقص کے حامل ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے لیکن میں کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ قانون سے اجتناب کیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تیسرے نکتہ یعنی عدلیہ کے کارکنان کی تربیت کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ میں ایسے سالم اور مستعد افراد موجود ہیں جنہیں دوسرے بڑے کاموں کے لئے تیار کیا جانا ضروری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہفتہ عدلیہ کی مناسبت سے تبریک پیش کی اور شھید بہشتی اور شھیہ قدوسی کو خراج تحسین پیش کیا۔
آپ نے انقلاب کی جدوجہد کے دوران اور اسی طرح انقلاب کے دوران ملک کے انتظامی امور کے سلسلے میں شھید آیت اللہ بہشتی کی شخصیت اور انکے کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آیت اللہ بہشتی ایک انقلابی، مدیر، مدبر، عصر حاضر کی انمول اور جذاب شخصیت شمار کئے جاتے تھے کہ جن کی زندگی انقلاب اور ملک و قوم کے لئے حقیقتا موثر اور مفید تھی اور انکی شہادت بھی انقلاب کے دوران وحدت اور انسجام کا سبب بنی۔
آپ نے شہید قدوسی کو بھی کہ جو انقلاب کے بعد پہلے اٹارنی جنرل تھے ایک لطیف روح کا حامل، شجاع اور دباو میں نہ آنے والی شخصیت قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح عدلیہ کے سربراہ کے تحرک، جہادی عزم و ارادے، مدیریت اور عدلیہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی سربراہی کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ احسن انداز میں اپنی خدمات انجام دینے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ ملک کے تین بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جس کے زریعے اسلامی احکام کے ایک اہم حصے کا اجرا کیا جاتا ہے لہذا اگر اس سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ یہ جہد مسلسل، کوشش و تلاش اور سختیوں کا سامنا کرے تو یہ توقع درست ہے۔