۲۰۱۵/۱۲/۲۹ -حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور منتظمین، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف طبقات زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج صبح رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر عظیم الشان ص اور حضرت امام صادق ع کے یوم ولادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اور اسلام اور آنحضرت ص کی ولادت اور بعثت کو مردہ اور آفت زدہ دنیا میں زندگی کی روح پھونکے جانے اور حقیقی معنویت سے تعبیر کرتے ہوئے موجودہ دور میں دنیائے اسلام بالخصوص علماء اور دانشوروں کا اہم ترین وظیفہ ظلم و ستم، نسلی تعصب اور قساوت سے بھری ہوئی دنیا میں حقیقی اسلام اور معنویت کی روح پھونکنے کے لئے مجدانہ اور مجاہدانہ کوشش اور جد وجہد کو قرار دیا اور فرمایا کہ آج دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ اپنے علم و دانش اور عالمی وسائل اسی طرح عقل، خردمندی، تدبر اور بصیرت کو جدید اسلامی ثقافت کے احیاء کے لئے استعمال کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پیغمبر اکرم ص کے یوم ولادت کی تقریبات کے انعقاد کو اس وظیفے کے مقابلے میں بہت چھوٹا قرار دیا کہ جس کی عالم اسلام سے امید ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج دنیائے اسلام کا وظیفہ صرف پیغمبر اسلام ص کا یوم ولادت منانا نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے حصول کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے۔
آپ نے فرمایا کہ جدید اسلامی تمدن، سرزمینوں پر قبضہ کرنے، انسانوں کے حقوق پامال کرنے اور اپنی ثقافت کو دوسری ملتوں پر مسلط کرنے اور ان چیزوں جیسا نہیں ہے کہ جو مغربی ممالک انجام دے رہے ہیں بلکہ اس کے معنی بشریت کو الہی فضیلتیں ہدیہ کرنے اور انسانوں کی بذات خود صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کی جانب سے اپنی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لئے دنیائے اسلام کے علم و دانش و فلسفے سے استفادہ کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ اس تہذیب میں ٹیکنالوجی، تیز رفتاری، سہولت و آسائش اور زندگی کے مختلف آلات و ابزار موجود ہیں لیکن اس میں بشریت کے لئے خوشبختی، سعادت اور عدالت موجود نہیں اور یہ اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ علی الظاہر زرق و برق سے لبریز نظر آنی والی مغربی تہذیب اب اخلاقیات کے لحاظ سے فاسد اور معنویت کے لحاظ سے کھوکھلی ہوچکی ہے اور اس بات کا اہل غرب خود بھی اعتراف کررہے ہیں۔
آپ نے اس بات کی جانب تاکید کرتے ہوئے کہ اب دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے اقدامات کرے فرمایا کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے دنیائے اسلام کے سیاستدانوں سے امید نہیں رکھنی چاہئے اور وہ علمائے کرام اور روشنفکر افراد کہ جو مغرب سے وابستہ نہیں ہیں انہیں چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کے درمیان روشنفکری کے لئے اقدامات کریں اور جان لیں کہ اس تمدن کا احیاء ممکن ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیائے اسلام میں موجود امکانات اور توانائیوں من جملہ بہترین سرزمینوں، ممتاز جغرافیا، فراوان قدرتی ذخائر اور با صلاحیت افرادی قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ امکانات اسلام کی حقیقی تعلیمات کے ہمراہ ہوں تو اسلامی امت اپنی ہنرمندانہ تخلیقات کو علم، سیاست اور ٹیکنالوجی اور اسی طرح سماجی میدان میں محقق کرسکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے نظام کو ان بزرگ اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے علمی، سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے پسماندہ اور سیاسی لحاظ سے انحطاط کا شکار اور ملکی اعتبار سے ایک وابستہ ملک تھا لیکن آج اسلام کی برکت سے ملت ایران نے اپنے آپ کو پہچنوایا اور ملک سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم میں اہم ترقی و پیشرفت کا حامل ہوگیا اور جدید علوم تک رسائی حاصل کر کے آج دنیا کے چند بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
آپ نے اس مثال کو پوری اسلامی دنیا کے لئے قابل تقلید قرار دیا اور فرمایا کہ اس مقام تک پہنچنے کی کچھ شرائط ہیں اور اسکی شرط یہ ہے کہ ملتوں کے اوپر سے بڑی طاقتوں کا بھاری سایہ کم ہوجائے کہ جس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ بڑے اہداف کا حصول قیمت ادا کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی تمدن مغربی تمدن کے برخلاف، کسی بھی ملک کو زبردستی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا فرمایا کہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے ہماری نظریں مغرب کی جانب نہیں ہونی چاہئیں اور ہمیں انکی مسکراہٹ اور انکے غصے کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی توانائیوں اور اپنے پاس موجود امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح سمت حرکت کرنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جدید اسلامی تمدن کا راستہ روکنے کے لئے دشمن کا ایک ہتھیار مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جب سے شیعہ اور سنی کا موضوع امریکی اعلی حکام اور عہدیداروں کے درمیان مطرح ہے اہل فہم اور اہل نظر کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ جدید اور خطرناک سازشوں اور فتنوں کی تلاش میں ہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی اصل اسلام کے مخالف ہیں اور انکی جانب سے بعض فرقوں کی حمایت کے بارے میں اظہار خیال کے فریب میں نہیں آنا چاہئے فرمایا کہ امریکہ کے سابقہ صدر نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اپنی گفتگو میں صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا تھا اور درحقیقت یہ بات عالمی استکبار کی اسلام سے جنگ کی نشاندہی کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ امریکی عہدیداروں کی اسلام کی حمایت پر مبنی گفتگو کو حقیقت کے برخلاف اور انکے نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ امریکی حکمران اصل اسلام کے مخالف ہیں اور اسکے برخلاف اظہار خیال کرتے ہیں ، یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے درپے ہیں اور اس کی واضح مثال داعش اور ان جیسے دوسرے دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانا ہے کہ جو امریکہ سے وابستہ ممالک کی دولت اور انکی سیاسی حمایت کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور دنیائے اسلام میں موجودہ حادثات اور بحران کا سبب بنے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی عہدیداروں کے اہل سنت کی حمایت اور اہل تشیع کی مخالفت میں دیئے گئے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں فرمایا کہ مگر غزہ کے عوام اہل سنت نہیں ہیں کہ جن کو یلغار اور دراندازی کا نشانہ بنایا گیا یا غرب اردن کے عوام سنی نہیں ہیں جن کو اتنا زیادہ دباو میں رکھا گیا ہے۔
آپ نے ایک امریکی سیاستدان کی اس بات کو ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ کا دشمن اسلامیات ہے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکیوں کے لئے شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں، وہ ہر اس مسلمان کے مخالف ہیں کہ جو اسلام کے قوانین اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اسکے لئے جد وجہد کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں سے امریکیوں کی اصل مشکل اسلام کے احکامات اور اسکے احکام پر مسلمانوں کی پابندی اور جدید اسلامی تمدن کے قیام کے لئے جدوجہد کو قرار دیا اور فرمایا کہ اسی وجہ سے جب اسلامی بیداری کا آغاز ہوا تو یہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے اور انہوں نے کوشش کی کہ اس کا راستہ روکیں اور بعض ممالک میں یہ کامیاب بھی ہوگئے لیکن اسلامی بیداری کو نابود نہیں کیا جاسکتا اور خداوند متعال کے کرم سے یہ اپنے اہداف حاصل کر کے رہے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگ اور شام، یمن اور لیبیا جیسے ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کرنا استکباری محاذ کا اصلی ہدف قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں اس سازش کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے اور سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے بلکہ بصیرت کے حصول اور استقامت کی حفاظت کے زریعے اس سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
آپ نے بحرین کے مسلمانوں پر مسلسل دباو کے مقابلے میں عالم اسلام کے سکوت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسی طرح یمن پر ایک سال سے جاری بمباری، شام اور عراق کے حالات اور نائیجیریا کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کیوں اس مومن شیخ مصلح تقریبی کے خلاف اس طرح کا اندوہناک واقعہ برپا کیا جائے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا جائے اور اسکے فرزندوں کو بھی شہید کردیا جائے لیکن دنیائے اسلام خاموش تماشائی بنی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دنیائے اسلام کے دشمنوں کے اہداف نہایت خطرناک ہیں اور اسکے مقابلے میں ہم سب کا وظیفہ ہے کہ ہم با بصیرت اور بیدار ہوں اور علمائے اسلام اور روشنفکر افراد کا وظیفہ ہے کہ وہ عوام اور بیدار ضمیروں کے حامل سیاستدانوں سے ملاقات کریں اور اور انہیں حقیقیت سے آگاہ کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایسے عالم میں کہ جب زر و زور پر مشتمل دنیا دنیائے اسلام کے خلاف خطرناک سازشوں میں مشغول ہے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خواب غفلت کا شکار ہوجائے اور حقیقت سے آشنا نہ ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے صدر مملکت حسن روحانی نے نبی مکرم اسلام ص اور حضرت امام صادق ع کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام ص کو اخلاق اور پاکدامنی کا کامل نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ص دنیا کے لئے وحدت، اتحاد اور برادری کا تحفہ لے کر آئے۔
صدر مملکت نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ گذشتہ ہر دور کے مقابلے میں آج نبی مکرم ص کی پیروی کا بہت زیادہ ضرورت ہے کہا کہ ملی وحدت اور اپنے عظیم رہبر کی ہدایات کے سایے میں ہم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کامیابی کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
انہوں نے اس بات کی جانبا شارہ کرتے ہوئے کہ مجلس خبرگان رہبری اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات درپیش ہیں، ان انتخابات کو ملک کی عظمت و بزرگی کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ان انتخابات میں اسلامی نظام اور اس ملک کی کامیابی کی فکر کریں۔
جناب روحانی نے ۹ دی کو ایرانی عوام کے حماسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ۹ دی خاندان رسالت، نظام، قانون، ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کے دفاع کا دن ہے۔
صدر مملکت نے فرمایا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی سیکورٹی اور امن وامان رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدابیر اور انکے فرمودات کی روشنی میں حاصل ہوئی ہیں اور اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں اور وحدت میں اضافے اور دہشتگردی اور اغیار کی دنیائے اسلام میں مداخلت سے نجات وحدت میں اضفے کے زریعے حاصل ہوگی۔
صدر روحانی نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ دشمنوں نے عالم اسلام کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کردیا ہے کہا کہ اگر عالم اسلام کے بڑے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے عمومی مسائل کی فکر کرتے تو یہ مسائل بہت آسانی کے ساتھ حل ہو سکتے تھے۔
انہوں نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ بعض اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں تعاون کے بجائے خطے سے باہر موجود عوام سے تعاون کرتے ہیں کہا کہ یہ نہیات افسوس کا مقام ہے کہ بعض ممالک سیاسی میدان میں ایک ملک کی کامیابی پر پریشان ہوجاتے ہیں اور عالم اسلام کے سرمایے کو اغیار کے حوالے کردیتے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ جس ملک نے تیل کی قیمت میں کمی لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا اب اپنے اگلے سال کے بجٹ میں سو بیلین ڈالر کی کمی کا اعلان کرچکا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کوئی بھی کسی دوسرے کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ سب سے پہلے خود اسی گڑھے میں گرتا ہے۔
اس محفل کے اختتام پر وحدت اسلامی کانفرنس کے بعض مہمانوں نے رہبر انقلاب اسلامی سے بہت نزدیک سے ملاقات کی
رہبر انقلاب اسلامی سے عوام، اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء کی ملاقات
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے