انقلاب ِ اسلامی ایران کے ٣٧ سال

Rate this item
(0 votes)
انقلاب ِ اسلامی ایران کے ٣٧ سال

تحریر :  سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ
١٠ فروری ١٩٧٩ ء کو ریڈیو تہران سے اعلان کیا گیا کہ توجہ فرمائیے: '' یہ انقلاب کی آواز ہے'' یہ اعلان کرتے ہوئے ریڈیو نے در حقیقت  ٢٥٠٠ سالہ شہنشاہی اور ظالم شاہی نظام کی سر نگونی کی نوید اور باطل پر حق کی فتح کی خوشخبری دی ۔ ٣٧  برس قبل اسلامی انقلاب ١٠ فروری  ١٩٧٩ء کو  بیسویں صدی کے عظیم رہنما امام روح اللہ الموسوی الخمینی علیہ رحمہ کی سرپرستی ،رہنمائی اور قیادت میں قیام پذیر ہوا اور خطے سے شیطانی و طاغوتی قوتوں کا  ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔ عمر خیام، سعدی، فردوسی، حافظ ، شمس تبریز اور حسین بن منصور حلاج کی سرزمین ایران میں انقلاب آج اسی آب و تاب اور پورے جوش و ولولے کے ساتھ ترقی کرتا ہوا اپنی منزلوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ انقلاب  نہ صرف دن کی روشنی میں خورشید اور رات کی تاریکیوں میں مہتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے بلکہ دنیا بھر کی مظلوم قوموں کی حمایت اور عالمی سامراجی اور طاغوتی  طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر آواز بلند کرنے میں سر فہرست خطے میں موجود ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مظلوم، مجبور اور محکوم اقوام کی حمایت و نصرت کوفرضِ عین سمجھ کر اسکی ادائیگی میں مصروف عمل ہے ۔ جسکی روشن مثال قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنا اور فلسطینیوں کی تحریک کی حمایت ہے۔  اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چند سو جوانوں کا اسرائیل کے حملوں کے جواب میں مزاحمت ، حزب اللہ کی طرف سے لبنان وشام میں اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ اور اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبا کر ذلت و رسوائی کے ساتھ شکست سے ہمکنار کرنا بھی انقلابِ اسلامی ایرانی کے ثمرات میں سے ایک ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے۔  مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں القاعدہ، دولتِ اسلامیہ، جنداللہ، طالبان، آئی ایس آئی ایس اور داعش کے خلاف برسرِپیکار ہونا اور بوسنیا ، چیچنیا، کشمیر میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت بھی انقلابِ اسلامی ایران کی بدولت ممکن ہو سکا۔ اخلاقی و انسانی اقدار کی پامالی اور عالمی استعمار و استبداد کے خلاف برپا ہونے والے اس انقلاب نے سرمایہ داری اور اشتراکی نظام میں بٹی دنیا میں ایک ہمہ گیر ارتعاش برپا کر دیا۔ اپنی خصوصیت کے اعتبار سے سامراج دشمن انقلاب جوآج  ٣٧  سال گذر جانے کے بعد نہ صرف مزید طاقتور ہو رہا ہے بلکہ اسی اسلامی انقلاب کی بہاریں دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور خطے میں شروع ہونے والی اسلامی بیداری اور شعور و فکر کی لہر بھی انقلابِ اسلامی ایران کی مرہون منت ہے۔ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس اور بیسویں صدی کے انقلاب روس اور چین کے بعد انقلابِ ایران تاریخ کا ایک سنہری حصہ ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت، آمریت اور مطلق العنانیت کا خاتمہ کرکے ملک میں ''ولایت فقہیہ''  نافذ کی گئی لیکن ملک کو جمہوری راستوں پر چلانے کا بھی عزم کیا گیا۔ قدامت پسند سخت گیر قیادت بھی رہی اور اصلاح پسند بھی حکومت میں رہے لیکن ایران جمہوری طریقے سے اپنی مضبوط قومی سوچ اور منظم انداز میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر آگے بڑھا اور اس دوران ایرانی قوم کسی بھی موقع پر تقسیم کا شکار ہوتے نظر نہیں آئی۔ ایرانی قیادت کے ساتھ ایرانی قوم نے بقاء کی غیر معمولی جبلت کے ساتھ حالات کا سامنا اور اسکا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا اور ایران کی معیشت اور سماج کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ان ٣٧ سالوں میں ایران کے ارد گرد خوفناک انتشار اور افراتفری کی آگ کے شعلے بہت تیزی کیساتھ بھڑکتے رہے، تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک خانہ جنگی کا شکار رہے اور انکی معیشت آئے دن کمزور ہوتی رہی،  لیکن ایران سیاسی، سماجی ، مذہبی اور معاشرتی طور پر ایک مستحکم ریاست میں تبدیل ہوتا رہا اور اسکی معیشت مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی۔ اس دوران ایران کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے اپنے تدبر ، سیاسی بصیرت ، گڈ گورننس ،بہترین خارجہ و داخلی پالیسیوں اور کامیاب سفارت کاری کے ذریعے اس خطے کی جیو پولیٹک اور جیو اسٹریٹیجک میں ایران کو مرکزی حیثیت بھی دلائی۔ انقلاب ِاسلامی ایران ایک ایسی آئیڈیالوجیکل تحریک تھی جو جغرافیائی سرحدوں میں پابند نہیں تھی اور یہی نقطہ مغربی دنیاکی ایران سے دشمنی کا آغاز تھا۔  وہ خوفزدہ تھے کہ اس انقلاب کے افکار کا دائرہ ایران کی سرحدوں سے باہر پھیلے گا اور دنیا کی آزادی بخش تحریکیں اس انقلاب کی قومی و اسلامی قدروں سے متاثر ہو کر بیدار ہو جائیں گی لہذا سامراج و استبدادی طاقتوں نے انقلاب کے آئیڈیالوجک افکار، اسٹریجیک  اور سیاسی نتائج کی تاثیر کو بھانپ لیا اور شروع دن سے اسے ناکام بنانے کی سازشوں میں مصروف رہے۔ اس تمام عرصے میں عالمی طاقتوں نے انقلاب ِ ایران کو ناکام بنانے، اپنی جنگی معیشت کو فروغ  دینے اور مشرق وسطیٰ کے تیل پر قبضہ کرنے کی غرض سے ایران کے گرد گھیرا تنگ بھی کیا اوراپنی پشت پناہی میں ایران کو عراق کے ساتھ جنگ میں الجھا بھی دیا گیا، جس کے نتیجے میں١٩٨٠ء سے ١٩٨٨ء تک کی ٨ سال کی اس جنگ میں ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کا حامل ملک عراق معاشی طور پر تباہ  اور عدم استحکام کا شکار ہوگیالیکن اس جنگ سے بھی ایران میں سیاسی ، مذہبی اور داخلی  افراتفری پیدا کرنے کی عالمی سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ فرزندانِ توحید نے  مغربی ممالک کی جانب سے دیئے گئے اسلحہ سے لیس اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کی ناپاک سوچ رکھنے والوں کا مسلسل آٹھ سال تک سینہ سپر ہو کر اس یک طرفہ جنگ کاا یمانی قوت و جذبے کیساتھ نہ صرف اپنی سرزمیں کے انچ انچ کا تحفظ کیا  بلکہ  انقلابِ اسلامی کی بھی حفاظت کی اور آخر کار عراق سمیت اسکے پشت بانوں کو اقوام متحدہ کی مدد کا سہارا لیکر جنگ بندی کا مطالبہ کرناپڑا۔عرب دنیا نے جس طرح صدام حسین کی معاشی، سیاسی، اخلاقی، دفاعی پشت پناہی کی وہ بھی ایک کھلا راز ہے اور جسطرح امریکہ کے عزائم کو تقویت پہنچائی وہ بھی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔انقلاب کی وجہ سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا رویہ ایران کیساتھ انتہائی جارہانہ متعصبانہ اور مخاصمانہ  رہا اورامریکہ ،اسرائیل اور اُنکے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ایران پر حملے کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو بنیاد بنا کر ہر طریقے سے ایران کو دبانے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ امریکہ و مغرب کی طرف سے دنیا کے شائد کسی دوسرے ملک کو اس قدر طویل ترین اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو جتنا ایران کو کرناپڑا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ہمارا خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ایران کے پڑوسی ملک افغانستان میں ١٩٧٩ء  میں لگنے والی آگ نے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا مگر ایران اس سے محفوظ رہا۔درحقیقت اس دہشت گردی نے عالمی سامراجی ایجنڈے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس خطے میں اس عالمی ایجنڈے کا سب سے بڑا ہدف ایران تھا ، اس کے باوجود بھی ایران نے اپنی سرزمیں کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک رکھا۔ ان تمام غیر معمولی سازشوں ،پابندیوں  اور جارحانہ رویوں کے باوجودسیاسی ، دفاعی ،داخلی،خارجی و اقتصادی ماہرین اور غیر جانبدار مبصرین یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ایران ہر حوالے سے ایک مضبوط ، منظم اورمستحکم طاقت اور ریجنل لیڈر کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور ان غیر معمولی چیلنجز ، رکاوٹوں اور نامساعد حالات میں ایران میں استحکام اسی طرح حیرت انگیز ہے جس طرح ایران کا انقلاب حیرت انگیز تھا اور انقلاب کے بعد کے ٣٧ سالوں میں ایران کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کی داستان بھی اتنی ہی حیرت انگیز ہے۔ ان ٣٧ سالوں میں ایران میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس نے تعلیمی، سائنس وٹیکنالوجی، میڈیسن، کیمسٹری، ریاضی اور دیگر اقتصادی و سماجی شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی۔  دنیا میں سائنس کے شعبے میں ہونے والی ترقی میں ایران نے گیارہ گناہ  زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔  عہد ِ حاضر میں ایران میں ٧٥٠  ایسے تحقیقاتی سینٹر ، کالج اور حکومت سے متعلق یونیورسٹیاں موجود ہیں کہ جن میں موجود ماہرین کی شبانہ روز محنت کی بنا پر ایران نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ کیمسٹری، میڈیسن، کمپیوٹر سائنس اور ریاضی میں اس کا شمار دنیا کے پہلے ٢٠ ملکوں میں ہوتا ہے۔ایران اسٹیم سیل اور کلوننگ ریسرچ میں دنیا کے ١٠ ملکوں میں شامل ہے۔آئی بائیو امپلانٹس کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔١٩٧٨ء میں ایران میں صرف آٹھ ہزار ڈاکٹر موجود تھے جبکہ اس وقت ایک لاکھ دس ہزار سے زائد قابل ترین ڈاکڑز موجود ہیں۔ایشیا میںنئی دوائیں ایجاد کرنے اور نئی ترکیب والی دوائیں بنانے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے  اور بنیادی سیلوں میں پیوند لگانے میں ایران دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ١٩٧٩ ء سے پہلے صرف پچیس فیصد دوائیں ملک کے اندر سے تیارکی جاتی تھیں لیکن اب یہ شرح ٩٥ فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اب ایران میں ١٢٠٠ سو سے زیادہ ادویات تیار کی جاتی ہیں۔اینجی پارس نامی دوا ایرانی ماہرین طب نے سات سال کی محنت کے بعد دریافت کی ے جو شوگر کے مریضوں کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر کسی مریض کا کوئی اعضا ء کاٹنے کی نوبت بھی آجائے تب بھی اس کے استعمال سے مریض کو شفا ملتی ہے۔نینو ٹیکنالوجی کا علم پیدا کرنے والے ملکوں میں ایران کا دنیا بھر میں ساتواں نمبر ہے۔لیبارٹری میں کام آنی والی مشینیں،  مائیکروسکوپ، ایس ٹی ایم، کیرو میٹر گرافی، اینٹی بیکٹیریا محصولات کی ایجاد، افزائش کی قوت بڑھانے والے نینو میٹرز کی ایجاد اور اسی طرح توانائی کو کنٹرول،گاڑیوں میں ایندھن کا کم خرچ اورانواع اقسام کے ایسے لباس جس پر پانی کا اثر نہ ہو شامل ہیں۔بائیوٹیکنالوجی کے بعد طب کے میدان میں دوسرا بڑا انقلاب  بنیادی خلیوںکی تحقیق کا علم ہے۔ ایران میں قائم تحقیقاتی سینٹرز نے انسان کے بنیادی خلیے تیار کر کے ایران کا نام دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں درج کروا دیا ہے جنہوں نے اس شعبے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انفلیونزا،  ہیپاٹائیٹس اور تپ دق کی بیماریوں کی ویکسین تیار کرنے میں ایران کا پہلا نمبر ہے۔ ایران میں استعمال  ہونے والے ٩٩ فیصد لین لائن اور ٦٢ فیصد موبائل فون  ایران میں  بنائے جاتے ہیں ۔ ایران میں تین کروڑ  ٦٩ لاکھ انٹر نیٹ کے مراکز، موبائل فون کے  ٢٧٣ آپریٹرز،  دنیا کے کے  ١١٢  ممالک کے ساتھ رومنگ کے ذریعے رابطے کی سہولت موجود ہے۔ایران خطے کا وہ واحد ملک ہے جو بغیر کسی بیرونی امداد کے سٹیلائٹ بنانے میں نہ صرف کامیاب ہوا ہے بلکہ دنیا کا آٹھوں ملک ہے جو  اپنے بل بوتے پر سٹیلائٹ فضا میں بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ دنیا کا ٩واں ملک ہے، جس کی اپنی اسپیس ٹیکنالوجی ہے اور جس نے مدار میں کامیابی  سے سٹیلائٹ چھوڑے ہیں۔١٩٨٠ء سے ٢٠١٢ء تک اوسط عمر ، تعلیم تک رسائی اور معیار زندگی کے حوالے سے ایران ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ٦٧  فیصد اضافہ ہوا اور اس انڈیکس میں ایران کا شماردنیا کے سرفہرست ملکوں میں ہے۔  ١٩٧٦ء کے مقابلے میں شرح خواندگی ٣٦ فیصدسے ٩٩ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایران نے اپنی فوج اور ملکی دفاع کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ ڈراؤن ٹیکنالوجی میں ایران نے اتنی ترقی کی ہے کہ اسکی مثال امریکہ کا ڈراؤن صحیح سلامت اتار کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنا ہے۔ اسکے علاوہ ایرانی بحریہ دنیا کی مضبوط ترین اور بہترین تربیت یافتہ بحریہ ہے جس نے گذشتہ دور میں کئی بار امریکہ سمیت غیر ملکی  مداخلت کو روکا اور انہیں نہائت ہی مستعدی سے ہتھیار ڈالنے پر مجبور بھی کیا ۔ ایرانی ریڈار ٹیکنالوجی بھی دنیا کی ایڈوانس ترین ٹیکنالوجی ہے جو کسی بھی قسم کی نقل و حرکت کو بھانپنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ایران کے پاس دنیا کا جدید ترین میزائل سسٹم موجود ہے جو فضا اور زمین میں اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران نے اپنے بل بوتے پر پُرامن مقاصد کے لئے  بیس فیصدیورینیم کی افزدگی کرکے بھی دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈالا ہے۔ بجلی ، گیس، تیل، قدرتی معدنیات و قیمتی دھات کے حوالے سے ایران انتہائی خود کفیل ہے اور وہ یہ چیزیں دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کرتا ہے۔دنیا کے ملکوں کو ضروری  ٦٥  فیصد توانائی اسی علاقے سے گذرتی ہے اس لئے مشرق وسطیٰ کے خطے کی جیو پولیٹیک اور جیو اسٹریٹیجک کی اہمیت کے پیش نظر ایران کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔اسی لئے عرب بہار اور عراق پر امریکہ کے حملے نے ایران کے لئے جہاں نئے چیلنج پیدا کئے وہیں ایران کو نئے مواقع بھی ملے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثر و رسوخ زیادہ ہوا اور یمن، لبنان، بحرین، شام، عراق ان سب خطوں میں ایرانی اثر و رسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اب مشر ق وسطیٰ میں امن کے قیام اور اس خطے میں نئی صف بندی کے لئے ایران کی طرف دیکھا جارہا ہے۔ایران نے ٣٧ سالوں میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مکارانہ چالوں ،سازشوں اور دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اُنکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ایران نے عالمی طاقتوں کو چیلنج بھی کیا اور سفارت کاری کے ذریعے دباؤ باوقار طریقے سے برابری کی بنیاد پر ان کے ساتھ مفاہمت بھی کی۔یہ ایران کی کامیاب سیاسی، سفارتی اور خارجی حکمت عملی ہے کہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں اس  بات پر مجبور ہوئیں کہ اسلامی انقلاب ایران کی حکومت  کے ساتھ  مذاکرات کرنے کے لیے  مذاکراتی  میز پر  ایرانی  شرائط کے ساتھ بیٹھیں اور تمام شرائط مان کر ماضی کی تمام پابندیاں ختم کر کے ایران کی اہمیت و حیثیت اور اسے خطے کی ایک بڑی اسلامی طاقت کے طور پر تسلیم کیا،  حالانکہ ان سامراجی و طاغوتی طاقتوں کی یہ تاریخ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی شرائط پر دنیا کی اقوام سے بات کی ہے اور اپنے سے کمزور ممالک پر  ہمیشہ فوجی چڑھائی  کے ذریعے اپنے مطالبات  تسلیم کروائے ہیں۔لیکن ایران نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعے خطے کی سیاست میں اپنی اہمیت و کردار کو تسلیم کروایا۔  چین کے صدر  شی چن پنگ کا  ٨٠٠  افراد کے ہمراہ کسی بھی ملک کا سب سے پہلا دورہ  اور دونوں ملکوں کی تجارت کاحجم ٦٠٠ ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق،  یورپی یونین اور ایران کے درمیان تجارتی لین دین چھ گناہ سے زیادہ  بڑھانے کے اعلانات،  جرمنی کے وزیر اقتصادی امورکا اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ اور اس کے بعد جرمنی اور فرانس کی  بڑی بڑی کمپنیوں کے نمائندہ وفود کی تہران آمد،    روس کے صدر پیوٹن، جرمنی کے چانسلر اور دیگر مغربی ممالک کا بڑے  پیمانے پر  ایران میںسرمایہ کاری اور امریکہ کی طرف سے  ١٠٠  ارب ڈالر سے زائد کے منجمد اثاثے ایران کو واپس کرنے کا اعلان بھی ایران کی بڑی کامیابیاں ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے حالیہ تنازعہ کو حل کرنے میں پاکستان کے علاوہ چین، روس اور امریکہ کی قیادت کے کردار کا کچھ عرصہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔  اس طرح کے تنازعات پہلے بھی پیدا ہوئے لیکن ان میں ایران کو ہی عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ایران کی کامیابیوں اور انقلابِ ایران کے ثمرات کی ایک طویل داستان  ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر۔۔۔۔۔!

Read 1456 times