ایران اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو مستقل، پائیدار اور امریکی دبائو سے آزاد ہونا چاہئے

Rate this item
(0 votes)
ایران اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو مستقل، پائیدار اور امریکی دبائو سے آزاد ہونا چاہئے

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جنوبی کوریا کی صدر پارک گئون ہی سے ملاقات میں ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مثبت نگاہ اور ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان مستقل اور پائدار رابطے کو دونوں ملکوں کے لئے مفید قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور معاہدے اس انداز میں ہونے چاہئیں کہ ان پر خارجی عوامل اور پابندیوں کے اثرات مرتب نہ ہوں، کیونکہ یہ بات شایان شان نہیں ہے کہ ایران اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کے تعلقات پر امریکہ کے فیصلے اور ارادے اثر انداز ہوں۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای علمی، سائنس و ٹیکنالوجی، سماجی اور سیکورٹی جیسے مسائل یں تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند قرار دیا اور فرمایا کہ ہمارے درمیان موجود تاریخی اور ثقافتی مشترکات خارجہ سیاست میں ایشیا کی جانب ہماری بہت زیادہ رجحان کی دلیل ہے، اسی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ ان ممالک من جملہ جنوبی کوریا کہ جو ایشیا کے پیشرفتہ ممالک میں سے ایک ہے کے ساتھ تعاون،مفاہمت، معاہدے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے اور دنیا میں موجود سیکورٹی اور امن و امان کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دہشتگردی اور ناامنی سے حقیقی اور صحیح انداز میں نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مستقبل میں اس کا علاج کرنا مشکل ہوجائے گا اور پھر دنیا کو کوئی ملک بھی اس خطرے سے محفوط نہیں رہ سکے گا۔
آپ نے امریکہ کی جانب سے دہشتگردی کو دو مختلف قسموں یعنی اچھی اور بری دہشتگری میں تقسیم کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ دہشتگردی سے مقابلے کا نعرہ تو لگاتا ہے لیکن عملی میدان میں اس سے صادقانہ مقابلہ نہیں کرتا، حالآنکہ دہشتگردی اپنی ہر شکل میں بری ہے اور ملتوں اور اقوام عالم کے لئے خطرناک ہے، کیونکہ امن و امان کے بغیر مطلوبہ پیشرفت اور ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور معاہدوں کے سلسلے میں دو جانبہ تعاون میں اولویت کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان فائدہ مند تعاون شروع ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اس تعاون میں اولویت صرف تجارت اور لین دین کو نہیں بلکہ ایسے معاہدے ہونا ضروری ہے کہ جو ایران کے انفرااسٹرکچر اور معیشت عامہ کے لئے فائدہ مند ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور معاہدوں کو بیرونی مداخلت قبول نہ کرنے کے مسئلے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایران اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو امریکہ کی پابندیوں، اس کی خودغرضیوں اور پابندیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مستقل، پائدار، مضبوط اور بے تکلف ہونا چاہئے۔ آپ نے دونوں ملکوں کے درمیان قدیمی لیکن فراز ونشیب پر مشتمل تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خوش قسمتی کے ساتھ آج جنوبی کوریا کی حکومت ایک موزوں اور ساتھ دینے والی حکومت ہے اور ایران بھی
کثرت سے موجود امکانات، جوان، با صلاحیت اور تعلیم یافتہ افرادی قوت، کی وجہ سے پائیدار تعاون کا حامل ملک ہے۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر روحانی بھی موجود تھے، جنوبی کوریا کی صدر پارک گئون ہی نے اپنے سفر تہران کو دوطرفہ تعاون اور تعلقات کی راہ میں ایک گراں قدر موقع قرار دیا اور کہا کہ ہم نے پابندیوں کے دور میں بھی کوششیں کی کہ جہاں تک ہو سکے ایران میں اپنی موجودگی جاری رکھیں۔
جنوبی کوریا کی صدر نے ایران کو کار آمد اور موثر افرادی قوت اور اسی طرح بہترین جفرافیائی اہمیت کا حامل ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات خاص طور پر اقتصادی تعلقات فروغ پائیں گے۔ محترمہ پارک گئون ہی نے رہبر انقلاب اسلامی کی ایران میں اقتصادی پیشرفت اور آپ کی علمی، اقتصادی اور صنعتی ترقی اور خود مختاری کے بارے میں گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اطمینان ہے کہ ایران میں اقتصادی پیشرفت اور ترقی کے بارے میں آپ کی نصیحتیں آپ کے ملک کے مستقبل کے لئے بہت فاءدہ مند ثابت ہوں گی اور ہم بھی نیز سائنس و ٹیکنالوجی، اقتصاد اور ماحولیات سمیت مکتلف شعبوں میں ایران کے ساتھ اپنے تعاون کے فروغ کے خواہاں ہیں۔

Read 1252 times