جدید نسل کی مستقل شناخت کے ساتھ تربیت کی جائے

Rate this item
(0 votes)
جدید نسل کی مستقل شناخت کے ساتھ تربیت کی جائے

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں اساتذہ سے ملاقات میں اساتذہ کے طبقے کی کوششوں اور زحمتوں کی قدر دانی کرتے ہوئے جدید نسل کی آزاد اور مستقل شناخت، عزت دار، مذہبی، ممتاز نمونوں اور کچھ کر گذرنے کی ہمت کی بنیاد پر تربیت کو ادارہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کا اصلی اور بہت عظیم وظیفہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر معاشرہ ان خصوصیات کے ساتھ تشکیل پائے تو یقینی طور پر تیل کی صنعت سے استفادہ کئے بغیراستقامتی معیشت، آزاد اور مستقل ثقافت کا حامل ہونا، کفایت شعاری اور دھونس و دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت اور مزاحمتی رویہ با معنی کہلائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے پیشے کو ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جو کام بھی مخلصانہ اور خدا کے لئے ہو وہ باقی رہنے والا اور نجات کا باعث ہے اور مخلصانہ کام انجام دینے کے مواقع اساتذہ کے پیشے میں مکمل طور پر موجود ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہید آیت اللہ مطہری کی سرگرمیوں اور انکے علمی آثار کو مخلصانہ اور با برکت کام کا درخشاں نمونہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس زمان شناس اور ضرورت شناس عالم دین کے اخلاص کے نتیجہ ان کے برجستہ آثار کی صورت میں اس طرح موجود ہے کہ انکی شہادت کے دسیوں سال گذر جانے کے باوجود آج بھی اہل فکر ان کے آثار سے بہترین انداز میں بہرمند ہو رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ البتہ اساتذہ کے طبقے کا اخلاص اور قناعت اس بات کا سبب نہ بنے کہ حکام اس محنتی طبقے کے مادی اور معیشتی مسائل سے غافل ہو جائیں اور اسی طرح جس طرح کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر کہوں گا کہ تعلیم وتربیت کے شعبے میں جو اخراجات اور بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے وہ دراصل سرمایہ گذاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسکے بعد اپنی اصل گفتگو کا آغاز کیا اور فرمایا کہ بنیادی موضوع یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا ادارہ کن خصوصیات کی بنا پر آئندہ آنے والی نسلوں کی پرورش اور تربیت کرنا چاہ رہا ہے اور ہمارے ملک کو اپنے اصل راستے پر چلنے کے لئے کس طرح کی نسل کی ضرورت ہے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ضروری خصوصیات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ہمارا مقابلہ کسی خالی فضا یا میدان میں نہیں ہے بلکہ ہمیں بین الاقوامی تسلط پسند نظام جیسے فریق کا سامنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ بعض افراد تعجب کریں کہ تعلیم و تربیت اور بین الاقوامی تسلط پسند نظام کے درمیان کیسا ربط ہے۔ حالآنکہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم بالخصوص ایرانی جوانوں کے لئے تسلط پسند نظام نے پروگرام تشکیل دیا ہوا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ، صیہونی سرمایہ داروں اور بعض استکباری حکومتوں کو بین الاقوامی تسلط پسند نظام کا مظہر قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تسلط پسند نظام چاہتا ہے کہ اقوام عالم کی آئندہ نسلیں، ایسی نسلیں ہوں کہ جو عالمی مسائل میں انکی مورد نظر فکر، ثقافت، نظریے اور سلیقے کو اپنائیں اور بالآخر پڑھے لکھے افراد، سیاست دان اور با اثر شخصیات اسی طرح فکر اور عمل کریں جیسا وہ چاہتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استعمار کے اس ثقافتی پروگرام کی قدمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی مفکرین نے بارہا کہا ہے کہ انیسویں صدی میں استعمار کی جانب سے کشور کشائی کے بجائے بہترین اور سستا طریقہ اقوام عالم کی نوجوان نسل میں اپنی فکر اور ثقافت منتقل کرنا اور ایلیٹ اور اشرافیہ افراد کی اپنے مطابق تربیت کرنا ہے کہ جو تسلط پسند نظام کے سپاہیوں کے طور پر کام کریں گے۔
آپ نے خطے کی بعض حکومتوں کو استکبار کی اس پلاننگ کا واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومتیں آج بھی وہ کام انجام دیتی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے اور حتی انکے تمام تر اخراجات بھی خود ہی اٹھاتی ہیں اور انہیں اس سلسلے میں کوئی امتیاز بھی نہیں ملتا اور اس کے صلے میں امریکہ ان حکومتوں کی حفاظت کرتا ہے اور انکا تختہ الٹنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارے مقابل فریق نے ہماری آئندہ آنے والی نسل کے لئے اس طرح کا منصوبہ بنا رکھا ہے، مقامی زبان، ثقافت اور افکار کی ترویج پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات فارسی کی ترویج کے بجائے انگریزی کی ترویج کی جاتی ہے اور اب بات یہاں تک جا پہچنی ہے کہ نرسری اور دیفر چھوٹی کلاسوں میں بھی بچوں کو انگریزی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اس کا مطلب کسی خارجی زبان کی مخالفت کرنا نہیں ہے بلکہ ہماری اس گفتگو کا اصل مقصد ملک کے اندر اور بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان اغیار کی ثقافت رائج کرنے کے موضوع پر بات کرنا ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دوسرے ملکوں میں بھی اغیار کی فرہنگ و ثقافت اور زبان کی ترویج کے سدباب کے لئے پروگرام موجود ہیں، فرمایا کہ افسوس کہ ہمارے ملک میں اس اہم موضوع سے مقابلے کے لئے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں اور اسکی وجہ سے اغیار کی ثقافت کی توسیع کے لئے ہم نے میدان کھلا چھوڑ رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض مغربی ممالک میں فارسی زبان کی ترویج کی راہ میں رکاوٹیں اور سختیاں پیدا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے موقع پر کہ جب وہ فارسی زبان کی ترویج کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں ہم ان کی زبان اور انکی ثقافت کو ترویج دیں آیا یہ کام حقیقت میں عقلی اور منطقی ہے ؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ یہ گفتگو اسکولوں میں انگریزی زبان پر پابندی کے لئے نہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ کس طرح کے مقابل فریق کا ہمیں سامنا ہے اور ہمارے مد مقابل نے ہمارے ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کس طرح کی پلاننگ کر رکھی ہے۔
آپ نے اس کے بعد ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ضروری اور اہم خصوصیات اور مثالی سسٹم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اہم ترین خصوصیت کہ جو اسکولوں کے طالبعلموں کے نہایت ضروری ہے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کی عزت مند، مذہبی اور انکی مستقل اور آزاد شناخت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں اور جوانوں کی اس انداز میں تربیت کرنی چاہئے کہ وہ اپنی آزاد سیاست، معیشت اور ثقافت کے حصول کے درپے ہوں اور اس سلسلے میں ہر طرح کی وابستگی مذموم شمار کی جائے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس موضوع کے لحاظ سے ملک کو آسیب زدہ قرار دیا اور فرمایا کہ ثقافتی تعبیروں سے حد سے زیادہ دلچسپی رکھنا اس آسیب کا ایک نمونہ ہے کہ جو طاغوتی دور حکومت سے ہمیں وراثت میں ملا ہے۔
آپ نے استقامتی معیشت کے احیاء کے ضروری لوازمات میں سے ایک نوجوانوں اور جوانوں کو ایک مستقل اور آزاد شناخت دیئے جانے کو قرار دیا اور فرمایا کہ جب تک آزادی، استقامت اور مزاحمت کا جذبہ موجود نہ ہو اگر حکام استقامتی معیشت کے لئے سینکڑوں اجلاس بھی بلا لیں تب بھی اس کام کا نتیجہ مکمل اور صحیح طور پر سامنے نہیں آئے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ استقامتی معیشت، تیل پر تکیہ نہ کرنے والی معیشت اور آزاد ثقافت اس وقت با معنی ہوں گی کہ جب معاشرے میں آزاد اور مستقل شناخت تشکیل پا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے طالبعلموں میں اعلیٰ تدابیر اور موثر مفاہیم پیدا کرنے کو اساتذہ اور ادارہ تعلیم وتربیت کی ایک سنگین ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ تفکر، ایمان، سماجی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد، اور اصلاح الگو مصرف ان اہم خصوصیات میں سے ہیں کہ جنہیں آئندہ آنے والی نسلوں میں پروان چڑھنا چاہئے۔
آپ نے ملک میں موجودہ مشکلات خاص طور پر کفایت شعاری کے سلسلے میں چند مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال اور دسیوں اور سینکڑوں پر تعیش اشیاء کی اسمگلنگ، ملک میں عدم کفایت شعاری کی چند مثالیں ہیں کہ جنکی اصلاح ہونی چاہئے اور ان اصلاحات کی ایک بنیاد جوان نسل میں اس ثقافتی اصلاحات کا رائج کیا جانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مد مقابل کو تحمل اور برداشت کرنا آئندہ آنے والی نسل کی ایک اور نمایاں خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ معاشرے میں اپنے مد مقابل کو برداشت کیا جانا رائج نہیں ہو پایا ہے کیونکہ جیسے ہی کوئی شخص چھوٹا سا بھی طعنہ دیتا ہے اس پر گھونسوں کی بارش کردی جاتی ہے، یعنی اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ادب اور باادب ہونے اور تدین اور اشرافیت کا شکار نہ ہونے کو طالبعلموں کی تربیت کے لئے ایک اور اہم خصوصیت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آئندہ نسلوں میں ان نمونوں کو رائج کیا جانا اور انکے بارے میں ثقافتی حوالے سے کام کیا جانا عظیم اساتذہ اور ادارہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کی کہ ادارہ تعلیم و تربیت تن تنہا اس مقدس وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا، آپ نے اس سلسلے میں مختلف اداروں، شعبوں اور آرگنائزیشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ادارہ تعلیم و تربیت میں شعبہ تربیت ان شعبوں میں سے ایک ہے کہ جو اس سلسلے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے اور اس کی اہم ذمہ داریاں ہیں اور اس ادارے کو چاہئے کہ مسلسل، ہدف مند اور بھرپور جدوجہد اور اعتقادی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے سالم اقدامات کے زریعے اس راستے میں قدم بڑھائے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی کوتاہی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت پر کاری ضرب ثابت ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے نشریاتی ادارے صدا و سیما کو آئندہ نسل میں ان اہم خصوصیات اور نمونوں کو عملی جامہ پہنانے والے اداروں میں سے ایک اہم ادارہ گردانتے ہوئے اور قومی نشریاتی ادارے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ سال بھی نشریاتی ادارے میں جوان نسل کے لئے منظم اور صحیح پلاننگ کے سلسلے میں گفتگو کی تھی لیکن افسوس کے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ صدا و سیما صاحب فکر اور ماہر افراد سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم وتربیت کے لئے اپنے پروگراموں میں ایک خاص حصہ مختص کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے طالبعلموں سے ہونے والی ملاقات میں ایک طالبعلم کی جانب سے صدا و سیما میں جوانوں کے لئے مناسب اور موثر پروگرام پیش نہ کئے جانے کی شکایت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارے کو چاہئے کہ ہنرمندانہ اور ماہرانہ انداز میں جوانوں کی فکری، روحانی، مذہبی اور علمی تقویت کے لئے پروگرام ترتیب دے اور بعض ٹی وی چینلوں میں آج کل پیش کئے جانے والے پروگرام اس موضوع سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتے۔
آپ نے وزارت مواصلات کو بھی آئندہ آنی والی نسلوں کی تربیت کے لئے ایک اہم ادارہ قرار دیتے ہوئے اور سائبر اسپیس اور اس کی رفتار میں روز بروز اضافے اور جوانوں کے سائبر اسپیس سے مستقل رابطے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی بھی شخص سائبر اسپیس کا مخالف نہیں ہے بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ اس میدان میں کہ جس میں لغزشوں کے امکانات بہت زیادہ ہیں ضروری ہے کہ اس سے صحیح طور پر استفادے کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں نہ یہ کہ سائبر اسپیس آزاد اور غیر قابل کنٹرول رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت مواصلات اور سائبر اسپیس کی اعلیٰ کونسل سے شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ سائبر اسپیس پر پابندی لگا دی جائَے کیونکہ یہ کام عقلمندانہ نہیں ہے لیکن جب دوسرے ممالک اپنی ثقافت کی حفاظت کی خاطر سائبر اسپیس سے استفادے کے لئے قوانین مقرر کرتے ہیں تو ایسے موقع پر ہم نے کیوں اسے آزاد چھوڑ دیا ہے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اساتذہ میں جوان اور شاداب روح پھونکے جانے کو دارہ تعلیم و تربیت کی ایک اور ذمہ داری قرار دیا اور اسی زاویے سی ملک کے تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل پر تاکید کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قدیمی اور فرسودہ تعلیمی نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ تعلیمی نظام یورپی تعلیمی نظام سے حاصل کردہ نظام ہے اور یہ اب تک آثار قدیمہ کے طور پر باقی ہے اور پرانا ہوچکا ہے، حالانکہ اس کی از سر نو تشکیل نہایت ضروری ہے۔
آپ نے مغربی تقلید میں اور مغرب کی تحریر کردہ خطوط پر تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کو غلط کام قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ تجربات سے فائدہ اٹھانا اچھی بات ہے لیکن صاحبان فکر و اندیشہ کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت کے سسٹم میں تبدیلی لانے کے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے نئے اور جدید تعلیمی نظام کو تشکیل دیں اور اسکا اجرا کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جوان نسل کی مہارتوں اور صلاحیتوں میں اضافے کے سلسلے میں ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز کو اہمیت دیئے جانے کو ادارہ تعلیم و تربیت کی ایک اور اولویت قرار دیا اور مزید فرمایا کہ رپورٹوں کے مطابق، معاشرے میں بارہ ہزار اقسام کے مشغلے موجود ہیں، لیکن مختلف توانائیوں کے حامل تمام طالبعلموں کو کیا اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے یکساں اور واحد راستہ ہی طے کرنا پڑے گا؟
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم طالبعلموں کی استعداد اور انکی صلاحیتوں کی شناسائی کریں اور انہیں پروان چڑھائیں تاکہ انکی پرورش یافتہ صلاحیتیں مختلف مشاغل میں خلاقیت کا سبب بن سکے۔
لفظ اسکاوٹس جیسے بعض ناموں اور علامتوں سے استفادہ کئے جانے پر تنقید جن کا تعلق زمانہ طاغوت سے ہے، ادارہ تعلیم و تربیت کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کا ایک اور محور تھا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ ادارہ تعلیم وتربیت میں " بسیج دانش آموزی" اور " اتحادیہ انجمنھای اسلامی دانش آموزان" جیسے عناوین اور اداروں کے ہوتے ہوئے ہمیں ایسے الفاظ اور اصطلاحات کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ مخصوص معنی منتقل کرتے ہوں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ تعلیم و تربیت آئین میں ایک بنیادی اور اہم مسئلہ کے طور پر سرفہرست ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسکی تمام تر ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر ہے، لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنا سرگرم کردار ادا کرے اور اسی بنا پر سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تبدیل کرنے کا عمل کہ جن میں سے بعض کی فیسیں بہت زیادہ ہیں کوئی اچھا عمل اور سنجیدہ عمل نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سرکاری اسکولوں کے معیار کو اتنا بہتر ہونا چاہئے کہ لوگوں کی ان اسکولوں کی جانب رغبت میں اضافہ ہوتا رہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے وزیر تعلیم کی فکری اور عملی سلامتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس ادارے کی جانب سے اس بھاری وظیفے کی انجام دہی کے موقع سے فائدہ اٹھانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی "فرہنگیان" ایک بہت اہم مرکز ہے کہ جس کی کمیت اور کیفیت میں توسیع کے لئے سرمایہ گذاری کی جانی چاہئے۔
آپ نے اپنے گفتگو سمیٹتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی اور اسے مضبوط کرنے اور اس راستے میں اساتذہ کے اہم کردار پر تاکید کرتے ہوئے، علم کو داقتور ترین عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ طاقت صرف اسلحے کا حامل ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ، علم، اینام، قومی شناخت، استقامت اور انقلابی تشخص قدرت و طاقت میں اضافہ کرنے والے عناصر ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ دشمن جب آپ کی قدرت و طاقت کو دیکھتا ہے تو وہ عقب نشینی پر مجبور ہوجاتا ہے، لیکن جب دشمن کے مقابلے میں اپنے مبانی اور عناصر کے اظہار میں ہم اجتناب کریں یا ڈر و خوف کا اظہار کریں تو دشمن گستاخ ہوتا چلا جائے گا۔
آپ نے ایران کی سمندری مشقوں کے بارے میں کہ جو ابھی جاری ہیں امریکی کانگریس کے پلان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دشمن ایسی بات کرتا ہے کہ جو اسکے منہ سے بھی بڑی ہے اور مثلا پلاننگ کرتا ہے کہ ایران خلیج فارس میں فوجی مشقیں نہ کر سکے، حالانکہ یہ باتیں انکی اضافی غلطیاں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی عظیم اور بیدار ملت کی جانب سے بڑی طاقتوں کے بے جا مطالبات کو جواب کے قابل قرار دیا اور فرمایا کہ خلیج فارس ملت ایران کا گھر اور اور انکی اقامت گاہ ہے اور خلیج فارس کے ساحل اور بحر الکاہل کے بہت سارے ساحل اس طاقتور ملک کی ملکیت ہیں، بنا برایں ہمیں چاہئے کہ ہم اس علاقے میں اپنی موجودگی، فوجی مشقیں اور اپنی طاقت کا اظہار کریں، اور یہ امریکی ہیں کہ جو اس بات کا جواب دیں گے کہ وہ دنیا کے اس کونے سے اٹھ کر اس کونے میں کیوں آئے ہیں اور فوجی مشقیں کر رہے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بے جا مطالبات کرنے والی طاقتوں کے ساتھ اس طرح بات کی جانی چاہئے اور اس طرح کا رویہ اپنانا چاہئے۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بقا اور اسکی توانائی اور طاقت میں مسلسل اضافے کو دشمنوں کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کچھ اس طرح سے تیار کریں ہمارا دشمن ہمیشہ ہم سے دہشت زدہ اور خوف میں مبتلا رہے۔ 

Read 1413 times