رہبر انقلاب اسلامی نے یوم ولادت دختر رسول جناب فاطمہ زہرا (س) کے یوم ولادت کی مناسبت سے، اہل بیت اطہار علیہم السلام کے منقبت اور نوحہ خوانوں سے ملاقات کی۔ آپ نے حضرت زہرا (س) کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک حقیقی رہبر، ایک مثالی زوجہ اور ماں کے طور پر مسلمان خواتین کے لئے ایک مکمل نمونہ عمل ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ باذوق شعرا اور اہل بیت کے خوش لحن منقبت خوانوں کو چاہئے کہ آج کے دور کی ضرورتوں اور فرائض کے پیش نظر، ان عظیم ہستیوں کے افکار اور اشاروں کو معاشرے میں ترویج دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سیدۃ النساء العالمین کے روحانی اور الہی مقام کو انسانی ذہن و فکر سے بالاتر قرار دیتے ہوئے رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ زہرا کے اقدامات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیش آنے والے دشوار اور غیرقابل توصیف حالات کہ جس میں معدودے چند صحابیوں کے کسی نے بھی حضرت علی (ع) کا دفاع نہ کیا، اس موقع پر جناب فاطمہ زہرا (س) نے مسجد میں جا کر کھل کر حق کا دفاع کیا اور تقریر کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوحہ اور منقبت خوانوں سے ملاقات کے دوران زور دیکر کہا کہ ولایت کے عہدے کا دفاع اور حقیقی رہبری میں حضرت زہرا کی عظیم تحریک کا قیاس کسی بھی قسم کی ایثار و فداکاری سے نہیں کیا جا سکتا اور اسی عظمت کے پیش نظر امام خمینی (رح) نے جو خود ایک عالم، فقیہ اور عارف تھے، فرمایا تھا کہ اگر جناب صدیقہ کبری مرد ہوتیں، تو پیغمبر کے طور پر منتخب کی جاتیں۔
آپ نے جناب فاطمہ زہرا (س) کو ایک مثالی مسلمان خاتون اور آپ کو بلند ترین رتبے یعنی رہبری کے عہدے پر فائز قرار دیا اور اس تناظر میں مسلم خواتین کے حقیقی مقام کی شناخت پر زور دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ بشر کے تصور سے برتر مقام کی حامل ہونے کے باوجود، آپ ماں، زوجہ اور خاتون خانہ ہونے کے فرائض کو باعث فخر سمجھتے ہوئے انھیں انجام دیتی تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان افراد پر بھی تنقید کی جو خواتین کے متعلق اسلام کے طرز فکر پر مغرب کے ناقص اور کھوکھلے اعتراضات کو دہراتے ہیں۔ آپ نے ایسے افراد کو (غلط طرز فکر کا) فریفتہ اور غافل گردانا جو خواتین کے گھربار سنبھالنے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ گھربار سنبھالنے کا مطلب انسان کی تربیت اور عالم وجود کی برترین پیداوار کو وجود میں لانا ہوتا ہے یعنی بشر۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض موضوعات جو خواتین کا دفاع کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں وہ صنف نسواں کو کمزور کردیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ مغربی دنیا میں خواتین کو ناپاک نفسانی خواہشات اور لذتوں میں استعمال کرنا، صیہونی سازشوں کا حصہ ہے جس کا مقصد انسانی معاشروں کو تباہ کرنا ہے۔ آپ نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ ملک میں حتی کہ بعض اسلامی مراکز میں خواتین کے ایسے فرائض سونپے جاتے ہیں اور ان سے ایسی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو در حقیقت، صنف نسواں کی تحقیر اور تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ خدا نے روحانی بلندیوں تک پہنچنے، قیادت کی صلاحیت اور انسانوں کی ہدایت سمیت کسی بھی شعبے میں مردوں اور عورتوں میں کسی بھی قسم کا فرق نہیں رکھا ہے تاہم زندگی کے انتظامات سنبھالنے میں یہ دونوں شخصیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس کی واضح سی مثال جناب فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی دنیا میں جنسی مساوات اور جنسی برابری جیسے موضوعات کی بات کی جاتی ہے حالانکہ انصاف کے معنی، خدا کی جانب سے عطا شدہ صلاحیتوں کی شناخت اور اس کو فروغ دینا ہے۔ آج مغربی مفکرین اور جنسی مساوات کا پرچار کرنے والے افراد اب اپنے ہی ان اقدامات سے جو فساد کا باعث بن گئے ہیں، اظہار پشیمانی کر رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی منقبت خوانی اور مداحی کو ایک انسانی، ایمانی اور ہنر سے مالامال اقدام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کم نظیر ہنر کو اسلام اور مسلمانوں کے فائدے میں اور خدا کی خوشنودی کی خاطر انجام دینا چاہئے کیونکہ صرف دنیاوی تعریف اور تحسین کا کوئی فائدہ نہیں۔
دریں اثنا رہبر انقلاب نے منقبت خوانی کے انداز کو آرٹ کا ایک خصوصی طرز قرار دیتے ہوئے اچھی اور مؤثر آواز جیسی نعمت کی حفاظت کرنے پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ منقبت خوانی کو دوسرے آرٹ سے مخلوط نہیں کرنا چاہئے اور اہل بیت کی شان میں کہے گئے مرثیوں اور منقبتوں کو ان ترانوں کے انداز میں نہیں پڑھنا چاہئے جس کا پڑھنے والا شخص دین اور معنویت سے دور، فساد اور مادیات میں ڈوبا ہوا ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اشعار کے مضمون پر توجہ کو بھی اہل بیت علیہم السلام کی معرفت کی شناخت اور دینی ذمہ داریوں سے عوام کو آشنا کرنے کا باعث قرار دیا اور موجودہ دور اور وقت کے تقاضوں ، ذمہ داریوں اور نظریات کے مطابق منقبت خوانی اور مداحی اہل بیت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دفاع مقدس کے ایام میں شاعروں اور مداحان اہل بیت نے بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو ملک کے دفاع کے لئے تیار کیا اور تیس سال گزر جانے کے باوجود "فکہ" اور "شلمچہ" کے علاقوں میں پیش آنے والے واقعات آج بھی زندہ ہیں۔ اس لئے کہ آج جو استقلال، آزادی، عزت، اپنی شناخت اور عوام کے ناموس کی حفاظت کا جذبہ ابھرا ہے اور دشمن کو ملک پر مسلط ہونے میں ناکامی رہی ہے، یہ سب فکہ، شلمچہ اور اس دور کے جذبہ ایثار کا نتیجہ ہے۔
آپ نے اس دوران اس بات پر زور دیا کہ ہر دور میں پیش کئے جانے والے افکار اور نظریات اس دور کے مطابق ہونے چاہئیں اور مذہبی اشعار نے جس طرح سے ترقی کی منازل طے کی ہیں، اسی طرح اب خامیوں کو دور کرتے ہوئے اسے انحراف سے بچانے کی ضرورت ہے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی حقیقی خدمت گذاری یہ ہے کہ ان کے افکار کو فروغ دیا جائے اور ان کے راستوں پر چلنے والوں کی سمت کو درست رکھا جائے ۔ انھوں نے ایسی تحریک کو ملک، اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام اور عوام کی عزت و اقتدار کی بہبودی اور مشکلات سے دوری کا باعث قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اگر ہمارا معاشرہ، مستحکم اور منظم ہو اور اس میں استقلال اور آزادی کا جذبہ موجود ہو، تو یہ معاشرہ اسلام کی اشاعت کا باعث ہوگا۔