آئی ٹی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے علامہ ساجد علی نقوی کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریک پاکستان کے ذمہ دارروں کوآئندہ قومی انتخابات سے قبل سیاسی طور پر حلقوں میں جانا چاہیے ،تاکہ رابطہ عوامی مہم کے ذریعے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں سیاسی بحث و مباحثہ اور لیکچرز کے ذریعے راہ ہموار کی جائے انہوں نے کہا کہ آئند ہ انتخابات میں بھر پور مہم چلائیں گے،تاکہ عوام کو درست رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مختلف مسائل کا شکار ہے مزید کسی بحران ،ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتا، جے آئی ٹی کے بعد مختلف آرا سامنے آئی ہیں جوجمہوری معاشرے کی عکاس ہونی چاہیے ہیں ۔قائد ملت جعفریہ نے زوردیا کہ سیاسی اختلاف کو تصادم بننے سے بچانا ہوگا یہی ملکی استحکام و جمہوری نظام کی مضبوطی کےلئے ضروری ہے۔
پاکستان کے اصل مسائل دہشتگردی،ناانصافی،غربت ، بے روزگاری ہے ، ملکی استحکام کےلئے سیاسی و ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر غور کرنے کی ضرورت ہے، اسلامی تحریک پاکستان عام انتخابات میں حصہ لے گی، ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد پر بھی غور کیا جارہاہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہے، سی پیک سمیت اہم منصوبے زیر تکمیل ہیں جس سے معاشی اعشاریے بہتر ہونگے خطے کی بدلتی صورتحال ، عالمی منظر نامہ پر وقوع ہونیوالے عوامل پربھی غور کرنے کی ضرورت ہے ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ تمام مسائل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل ہوں۔
پانامہ لیکس اور دیگر کیسز کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے وسیع تر تناظر میں مثالی فیصلوں کی امید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے مثالی فیصلے قوم کے لئے قابل قبول ہوں گے جبکہ اسلامی تحریک پاکستان نے پانامہ لیکس کے حوالے سے آمدہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مختلف سیاسی جماعتوں کے متضادبیانات کوتمام جماعتوں کا جمہوری حق قرار دیتے ہوئے موقف اپنایاکہ رپورٹ پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی وسیع تر تناظر میں کیے گئے فیصلے ہی ہمارے لیے قابل قبول ہوں گے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی کا مزید کہا کہ اس وقت ملکی آبادی جوکہ 20کروڑسے تجاوز کرچکی ہے رپورٹس کے مطابق 6کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ ملکی آبادی کے بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، توانائی بحران اور دہشت گردی کے باعث معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے۔
سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس کے دوران عام انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے پر اتفاق کیاگیا، ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد پر بھی غور کیاگیا۔