صدی کی ڈیل! فلسطین کو لاحق خطرات

Rate this item
(1 Vote)
صدی کی ڈیل! فلسطین کو لاحق خطرات

مسئلہ فلسطین تاریخ انسانیت میں ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کی بنیاد کو تلاش کیا جائے تو ایک سو سال قبل یعنی1917ء میں برطانوی سامراج کی جانب سے پیش کیا جانے والے اعلان بالفور تھا کہ جس کی بنیاد پر تمام یورپی و مغربی حکومتوں نے فلسطین پر ایک صہیونی جعلی ریاست قائم کرنے کی تجویز کو منظور کیا۔ فلسطینی عوام نے اس وقت بھی اس اعلان بالفور کو مسترد کیا تھا اور بعد میں بھی اقوام متحدہ کی چار بین الاقوامی سازشوں کے نتیجہ میں منظور کی جانے والی قرار دادوں کو بھی مسترد کیا جاتا رہا۔ یہ یقیناً فلسطین کے عوام کا بنیادی حق تھا اور ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ خود کریں، نہ کہ دنیا کی استعماری قوتیں فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ فلسطین کی غیور ملت نے ہر ایسی قرارداد اور عمل کی شدید مخالفت کی کہ جس کا فائدہ براہ راست یا بالواسطہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام یا پھر اس کے بعد صہیونیوں کے حق میں جاتا تھا۔ فلسطینی عوام نے نہ صرف ایسی کوششوں کو مسترد کیا بلکہ جس حد تک ممکن ہوا جدوجہد بھی کی، ہڑتالوں سے لے کر مظاہروں تک اور ہر محاذ پر احتجاج کا دروازہ کھولے رکھا۔

بہرحال فلسطین کے مسئلہ کو اعلان بالفور سے اب تک ایک سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دراصل فلسطین پر صہیونی قبضہ اور فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کی اصل تاریخ بھی ایک سو سالہ ہی بنتی ہے۔ اس دوران عالمی سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ ان ہتھکنڈوں میں فلسطین کے عوام پر جنگیں مسلط کرنا، ظلم و بربریت کرنا، گھروں سے بے گھر کرنا، جبری طور پر جلا وطن کرنا، بنیادی حقوق سے محروم کرنا سمیت خطے میں دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر مسئلہ فلسطین کو مسلم دنیا میں صف اول کا مسئلہ بننے سے دور رکھنا۔ ایک سو سالہ دور میں فلسطینی تحریکوں کے سربراہان کو مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا گیا، لیکن نتیجہ میں امریکہ اور عالمی قوتوں نے ہمیشہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے بڑھتے ہوئے صہیونی عزائم کے سامنے سرتسلیم خم رکھا جبکہ ان نام نہاد مذاکرات کا ہمیشہ فلسطینیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اب صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونیوں نے غزہ کی پٹی کو گذشتہ بارہ سال سے محاصرے میں لے رکھا ہے۔ انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ایسے حالات میں فلسطین کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

فلسطین پر صہیونیوں کے ایک سو سالہ مظالم کی تاریخ کی سرپرستی کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی سامراج اور دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ نے فلسطین کا سودا کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ایک سو سال پہلے سوداگر برطانوی سامراج کی شکل میں آئے تھے۔ پھر ایک سو سال تک امریکی سامراج فلسطینی عوام پر ہونے والے صہیونی مظالم کی سرپرستی کرتا رہا۔ اب ایک سو سال مکمل ہونے پر امریکی صدر نے خود کو دنیا میں چیمپئین منوانے اور اپنے اگلے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے صہیونیوں کے ساتھ کئے گئے وہ تمام وعدے پورے کرنے کی ٹھان رکھی ہے، جو امریکی صدر ٹرمپ کو امریکہ میں صہیونی لابی کی حمایت دلوا سکتے ہیں۔ ان تمام وعدوں میں سب سے بڑا وعدہ مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کا ہے، جس کے لئے امریکہ نے ایک پلان ترتیب دیا ہے، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ ڈیل امریکی صدر کے داماد کوشنر نے صہیونی جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ترتیب دی ہے۔

اس ڈیل کے نتیجہ میں امریکہ چاہتا ہے کہ پورے خطے پر صہیونی بالادستی قائم ہو جائے اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکی خواہشات اور صہیونی من مانی کے مطابق ختم کر دیا جائے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا چرچہ گذشتہ ایک برس سے جاری ہے، لیکن اس معاہدے کے تفصیلی خدوخال مکمل طور پر سامنے نہیں آئے ہیں، کیونکہ امریکہ نے اس ڈیل کو خفیہ طور پر خطے کی تمام عرب و مسلمان حکومتوں سمیت یورپ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مخفی رکھا ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی ’’صدی کی ڈیل‘‘ نامی منصوبہ دراصل فلسطینیوں کو ان کے حق واپسی محروم کرنا چاہتا ہے، فلسطینی جو فلسطین واپسی کی عالمی تحریک چلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی ہو۔ اس واپسی کے عمل کو امریکہ اور اسرائیل صدی کی ڈیل کے تحت روکنا چاہتے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ فلسطین میں موجود تمام فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیل کر زمین کا کوئی چھوٹا ٹکڑا دے دیا جائے اور فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر دیا جائے، جبکہ فلسطین کے عوام کا ایک ہی نعرہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔

اسی منصوبہ کا ایک حصہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس سے متعلق ہے کہ جس پر امریکی صدر نے پہلے ہی یکطرفہ اعلان کیا تھا کہ یروشلم شہر فلسطین کا نہیں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہے، جبکہ تین ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یروشلم فلسطین کا ابدی دارالحکومت تھا۔ صدی

کی ڈیل کے خدوخال کے مطابق مرحلہ وار امریکی صدر نے امریکن سفارتخانہ کو بھی مقبوضہ فلسطین کے تل ابیب شہر سے نکال کر یروشلم میں منتقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے ان اقدامات کو دنیا بھر میں مذمت کا سامنا رہا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایسے فیصلوں کو مسترد کیا ہے۔ حالیہ دنوں امریکی صدر کی جانب سے شام کے علاقہ جولان کی پہاڑیوں سے متعلق بھی اسرائیل کا حق تسلیم کیا تھا، جس کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا سامنا رہا اور مسلم دنیا سمیت یورپ نے بھی ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ مسلسل ایک سال میں امریکی صدر کے فلسطین و القدس سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات نے یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل امریکہ صدی کی ڈیل کے خدوخال پر ہی کاربند ہے اور آہستہ آہستہ اس معاہدے کے خدوخال کو اپنے جارحانہ عوامل کے ذریعے آشکار کر رہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے لئے فلسطین کو ختم کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔ اس مقصد کے لئے صدی کی ڈیل نامی معاہدے کے تحت خطے کی تمام عرب و مسلمان ریاستوں کو امریکہ نے معاشی پیکج کے نام پر اربوں ڈالر کا لالچ دے رکھا ہے جبکہ کئی ایک شہزادوں اور بادشاہوں کو اگلے پچاس برس کی بادشاہت کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ بدلے میں امریکہ کو صدی کی ڈیل پر ان تمام عرب و مسلمان ممالک سے حمایت درکار ہے۔

موجودہ اطلاعات کے مطابق خطے کی تمام عرب خلیجی ریاستوں نے امریکہ کے فلسطین دشمن صدی کی ڈیل نامی معاہدے پر دستخط کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جبکہ ابھی تک اردن نے اس ڈیل کو مسترد کر رکھا ہے یا اس کے کچھ تحفظات ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں ایک سو سال بعد اعلان بالفور کی طرح ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کو ہی خطرات لاحق ہیں اور فلسطین کا مستقبل خطرے میں ہے، کیونکہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ چاہے ماضی میں بالفور کرے یا حال میں ٹرمپ کرے، کبھی فلسطین کے حق میں ہو نہیں سکتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان و عرب حکومتیں فلسطین کے عوام کے ساتھ ہونے والی اس بدترین خیانت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور امریکہ کی کاسہ لیسی ترک کر دیں۔

تحریر صابر ابومریم

Read 1064 times