تحریر: محمد حسن جمالی
شہادت کا درجہ بہت بلند ہے، یہ ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتا، اس عظیم مقام کو پانے کے لئے انسان کو بڑی محنت اور ریاضت کرنا پڑتی ہے، تمام آلودگیوں سے اپنے نفس کو پاک کرکے راہ خدا میں اخلاص سے جہاد کرنے کے نتیجے میں ہی انسان شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوسکتا ہے، اگر کرہ ارض کے مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں شہادت کی فضیلت اور شہید کے عظیم مقام کا ادراک ہو جائے تو وہ سارے شہادت کی آرزو لے کر میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ضرور کوشش کرتے۔ تاریخ اسلام شہداء کی قربانیوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، راہ حق کے مجاہدوں کے پاکیزہ لہو سے ہی اسلام کی آبیاری ہوئی ہے، بنی امیہ کے زمانے میں دین کا حقیقی چہرہ مسخ ہوچکا تھا، حق اور باطل کا تشخص مٹ چکا تھا، اسلام کی روح نکل چکی تھی، ایسے میں حسین ابن علی (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت اور قربانی نے اس میں دوبارہ روح ڈالی، اسلام کو حیات نو بخشی، حق اور باطل کا چہرہ نمایاں کیا، مسلمانوں میں ایثار و فداکاری کا جذبہ پیدا کیا اور قیامت تک آنے والی نسل بشریت کو حریت، استقامت اور مقاومت کا عظیم درس دیا۔
واقعہ کربلا کے بعد حریت پسند مسلمان کربلا والوں کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ایران کی سرزمین پر آج سے 42 سال قبل مکتب حسینی میں پرورش و تربیت پانے والی عظیم شخصیت امام خمینی نے اپنے جد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داخلی و خارجی استکباری طاقتوں سے بھرپور مقابلہ کیا اور انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا، اس طرح آپ نے دنیائے بشریت کو ایک بار پھر اسلام کی حقانیت کا روش چہرہ دکھایا اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ استکبار جہاں کی غلامی سے نجات پانے کا واحد راستہ میدان میں ڈٹ کر استقامت اور مقاومت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چنانچہ محور مقاومت کو مستحکم کرنے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تاسیس 1357 ہجری شمسی میں حضرت امام خمینی (رہ) کے فرمان سے ہوئی، جس میں مکتب آل محمد کے تحصیل کردہ، اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ تربیت یافتہ، تقویٰ اور ایمان کی دولت سے مالا مال شجاع اور فداکار جوانوں کو بھرتی کیا، جن میں سے ایک شہید قاسم سلیمانی تھے۔
مکتب خمینی (رہ) کے پروردہ عظیم مجاہد اور امریکہ کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو جنرل قاسم سلیمانی مسلسل چالیس سال استکبار جہاں کے ساتھ مجاہدت کرکے 3 جنوری 2020ء کو بغداد کی سرزمین پر جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے، یاد رہے کہ قاسم سلیمانی گرچہ ایران کی سرزمین پر پلے بڑھے تھے، اسی سرزمین سے آپ نے علمی، فکری اور جہادی تغذیہ حاصل کیا تھا، مگر آپ کی جہادی زندگی ہرگز ایران کے دفاع کی حد تک محدود نہ رہی بلکہ اسلام کے مراکز کی حفاظت کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی، یہی وجہ کہ پوری دنیا کے آزادی خواہان آپ کی شخصیت کو شیطان بزرگ امریکہ سمیت ظالم استکباری طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے والی مزاحمتی علامت کے طور پر جانے اور پہچانتے ہیں۔ آپ نے اپنی جنگی ماہرانہ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر شام اور عراق میں شجرہ خبیثہ داعش کی بیخ کنی کرکے امریکا، اسرائیل اور بین الاقوامی صیہونیزم کو ذلت آمیزشکست سے دوچار کرانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب داعش کو تشکیل دے کر علاقے میں شورش، جنگ و خونریزی اور بحران پیدا کرنے کے درپے تھے، مگر نصرت الہیٰ، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حامنہ ای کی مدبرانہ قیادت، عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کی رہنمائی، سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بے مثال فوجی کمان، عراق و شام کی عوامی رضاکار فورس کے جہاد اور جذبہ شہادت، عراق اور شام کی حکومتوں کی ثابت قدمی نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام اور برے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں کی مساجد اور مقامات مقدسہ کی مسماری، بے گناہ انسانوں کا قتل عام، لوگوں کا سر قلم کرنا اور عام شہریوں کو زندہ جلا دینا، خبیث داعشی گروہ کے ناپاک اہداف میں شامل تھا۔
یہ نجس ٹولہ اسلام کو عقل اور فطرت انسانی کا مخالف، خوفناک و خشن مذہب کے طور پر دنیا میں متعارف کراکر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنا چاہتا تھا، مگر سردار رشید اسلام شہید قاسم سلیمانی جیسے اسلام کے ہیروز نے نہ فقط ان کو پھلنے پھولنے نہیں دیا بلکہ عراق میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی دعویدار داعش کے وجود کو ہی عراق و شام کی سرزمین سے مٹا دیا اور اس کا منفور چہرہ دنیا کے سامنے آشکار کرانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ قاسم سلیمانی زندگی بھر فلسطین، یمن و کشمیر کے مظلومین سمیت عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی زبانی اور بعض جگہوں پر عملی حمایت کرتے رہے، جب دو دن پہلے ان کی شہادت کی خبر پوری دنیا کے میڈیا و سوشل میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں چلنے لگی تو امریکہ اسرائیل اور ان کے دسترخوان پر پلنے والے ممالک کے ذمہ دار افراد نے دبے الفاظ میں بظاہر تو خوشی کا مظاہرہ کیا، لیکن ایرانی حکام کے ٹھوس بیانات، غم و غصے سے لبریز عوامی سمندر سے فضاء میں گونجنے والی فلک شگاف نعروں کی آواز، خصوصاً ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا امریکہ کو کمر توڑ اور دندان شکن انتقامی کاروائی کرانے کا قاطعانہ بیان دیکھ اور سن کر ان کے حواس باختہ ہوچکے ہیں۔
ان پر اضطراب کی کیفیت طاری ہے، سخت پریشانی کی حالت میں ان کے دن رات گزر رہے ہیں، استکبار کی اس سے زیادہ حماقت اور کیا چیز ہوسکتی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو اپنے راستے سے ہٹا کر وہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ مشرق وسطیٰ میں سکھ کا سانس لے سکے گا، جہاں چاہے آسانی سے اپنے اہداف حاصل کرسکے گا، مگر اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ سپاہ پاسداران انقلاب کا ہر جوان قاسم سلیمانی ہے، چالیس سال پر مشتمل عرصہ میں شہید سلیمانی جوانوں کو مقاومت اور مجاہدت کی تربیت دے کر ہزاروں افراد کو مقاومت کے میدان میں اپنا وارث بنا کر چلے گئے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان کی شہادت کے فوراً بعد سردار قاآنی کو شہید کی جانشینی کے منصب پر فائز کیا گیا، جن میں شہید کی طرح دور اندیشی اور دشمنوں کی سازشوں کو بروقت بے نقاب کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، وہ جنگی فنون میں ماہر ہونے کے علاوہ اس میدان میں طولانی تجربہ بھی رکھتے ہیں، انہوں نے کمان سنبھالتے ہی یہ جاندار اور شجاعانہ بیان دے کر امریکہ کو یاس و نامیدی سے دوچار کرکے اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کہ بہت جلد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جسد کے ٹکڑے دیکھیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قاسم سلیمانی کی مظلومانہ شہادت نے بالعموم دنیا کے حریت و امنیت پسند انسانوں کے ذہنوں میں خاص طور پر ایرانی عوام کے ذہنوں میں امریکہ کے بارے میں موجود نفرت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور شہید کے لہو کی حرارت ان کی رگوں کے خون میں شامل ہوکر قطعی طور وسیع پیمانے پر امریکہ سے انتقام لینے کی توانائی میں بدل چکی ہے۔ رہبر کبیر انقلاب کی نظر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو احیاء کرکے دوبارہ اپنی جگہ استوار کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہے، میدان میں سینہ تان کر مقاومت کرنا ہے، البتہ میدان جہاد میں وارد ہونے سے پہلے جوانوں کا علمی اور فکری طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہےـ شہید قاسم سلیمانی علم، ایمان، تقویٰ، عبادت اور فداکاری میں کم نظیر تھے، وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے پوری زندگی راہ حق میں جہاد کرتے رہے، بلاشبہ شہید سلیمانی مقاومت کا درخشان ستارہ ہیں۔
شہادت کا درجہ بہت بلند ہے، یہ ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتا، اس عظیم مقام کو پانے کے لئے انسان کو بڑی محنت اور ریاضت کرنا پڑتی ہے، تمام آلودگیوں سے اپنے نفس کو پاک کرکے راہ خدا میں اخلاص سے جہاد کرنے کے نتیجے میں ہی انسان شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوسکتا ہے، اگر کرہ ارض کے مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں شہادت کی فضیلت اور شہید کے عظیم مقام کا ادراک ہو جائے تو وہ سارے شہادت کی آرزو لے کر میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ضرور کوشش کرتے۔ تاریخ اسلام شہداء کی قربانیوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، راہ حق کے مجاہدوں کے پاکیزہ لہو سے ہی اسلام کی آبیاری ہوئی ہے، بنی امیہ کے زمانے میں دین کا حقیقی چہرہ مسخ ہوچکا تھا، حق اور باطل کا تشخص مٹ چکا تھا، اسلام کی روح نکل چکی تھی، ایسے میں حسین ابن علی (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت اور قربانی نے اس میں دوبارہ روح ڈالی، اسلام کو حیات نو بخشی، حق اور باطل کا چہرہ نمایاں کیا، مسلمانوں میں ایثار و فداکاری کا جذبہ پیدا کیا اور قیامت تک آنے والی نسل بشریت کو حریت، استقامت اور مقاومت کا عظیم درس دیا۔
واقعہ کربلا کے بعد حریت پسند مسلمان کربلا والوں کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ایران کی سرزمین پر آج سے 42 سال قبل مکتب حسینی میں پرورش و تربیت پانے والی عظیم شخصیت امام خمینی نے اپنے جد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داخلی و خارجی استکباری طاقتوں سے بھرپور مقابلہ کیا اور انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا، اس طرح آپ نے دنیائے بشریت کو ایک بار پھر اسلام کی حقانیت کا روش چہرہ دکھایا اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ استکبار جہاں کی غلامی سے نجات پانے کا واحد راستہ میدان میں ڈٹ کر استقامت اور مقاومت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چنانچہ محور مقاومت کو مستحکم کرنے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تاسیس 1357 ہجری شمسی میں حضرت امام خمینی (رہ) کے فرمان سے ہوئی، جس میں مکتب آل محمد کے تحصیل کردہ، اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ تربیت یافتہ، تقویٰ اور ایمان کی دولت سے مالا مال شجاع اور فداکار جوانوں کو بھرتی کیا، جن میں سے ایک شہید قاسم سلیمانی تھے۔
مکتب خمینی (رہ) کے پروردہ عظیم مجاہد اور امریکہ کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو جنرل قاسم سلیمانی مسلسل چالیس سال استکبار جہاں کے ساتھ مجاہدت کرکے 3 جنوری 2020ء کو بغداد کی سرزمین پر جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے، یاد رہے کہ قاسم سلیمانی گرچہ ایران کی سرزمین پر پلے بڑھے تھے، اسی سرزمین سے آپ نے علمی، فکری اور جہادی تغذیہ حاصل کیا تھا، مگر آپ کی جہادی زندگی ہرگز ایران کے دفاع کی حد تک محدود نہ رہی بلکہ اسلام کے مراکز کی حفاظت کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی، یہی وجہ کہ پوری دنیا کے آزادی خواہان آپ کی شخصیت کو شیطان بزرگ امریکہ سمیت ظالم استکباری طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے والی مزاحمتی علامت کے طور پر جانے اور پہچانتے ہیں۔ آپ نے اپنی جنگی ماہرانہ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر شام اور عراق میں شجرہ خبیثہ داعش کی بیخ کنی کرکے امریکا، اسرائیل اور بین الاقوامی صیہونیزم کو ذلت آمیزشکست سے دوچار کرانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب داعش کو تشکیل دے کر علاقے میں شورش، جنگ و خونریزی اور بحران پیدا کرنے کے درپے تھے، مگر نصرت الہیٰ، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حامنہ ای کی مدبرانہ قیادت، عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کی رہنمائی، سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بے مثال فوجی کمان، عراق و شام کی عوامی رضاکار فورس کے جہاد اور جذبہ شہادت، عراق اور شام کی حکومتوں کی ثابت قدمی نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام اور برے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں کی مساجد اور مقامات مقدسہ کی مسماری، بے گناہ انسانوں کا قتل عام، لوگوں کا سر قلم کرنا اور عام شہریوں کو زندہ جلا دینا، خبیث داعشی گروہ کے ناپاک اہداف میں شامل تھا۔
یہ نجس ٹولہ اسلام کو عقل اور فطرت انسانی کا مخالف، خوفناک و خشن مذہب کے طور پر دنیا میں متعارف کراکر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنا چاہتا تھا، مگر سردار رشید اسلام شہید قاسم سلیمانی جیسے اسلام کے ہیروز نے نہ فقط ان کو پھلنے پھولنے نہیں دیا بلکہ عراق میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی دعویدار داعش کے وجود کو ہی عراق و شام کی سرزمین سے مٹا دیا اور اس کا منفور چہرہ دنیا کے سامنے آشکار کرانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ قاسم سلیمانی زندگی بھر فلسطین، یمن و کشمیر کے مظلومین سمیت عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی زبانی اور بعض جگہوں پر عملی حمایت کرتے رہے، جب دو دن پہلے ان کی شہادت کی خبر پوری دنیا کے میڈیا و سوشل میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں چلنے لگی تو امریکہ اسرائیل اور ان کے دسترخوان پر پلنے والے ممالک کے ذمہ دار افراد نے دبے الفاظ میں بظاہر تو خوشی کا مظاہرہ کیا، لیکن ایرانی حکام کے ٹھوس بیانات، غم و غصے سے لبریز عوامی سمندر سے فضاء میں گونجنے والی فلک شگاف نعروں کی آواز، خصوصاً ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا امریکہ کو کمر توڑ اور دندان شکن انتقامی کاروائی کرانے کا قاطعانہ بیان دیکھ اور سن کر ان کے حواس باختہ ہوچکے ہیں۔
ان پر اضطراب کی کیفیت طاری ہے، سخت پریشانی کی حالت میں ان کے دن رات گزر رہے ہیں، استکبار کی اس سے زیادہ حماقت اور کیا چیز ہوسکتی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو اپنے راستے سے ہٹا کر وہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ مشرق وسطیٰ میں سکھ کا سانس لے سکے گا، جہاں چاہے آسانی سے اپنے اہداف حاصل کرسکے گا، مگر اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ سپاہ پاسداران انقلاب کا ہر جوان قاسم سلیمانی ہے، چالیس سال پر مشتمل عرصہ میں شہید سلیمانی جوانوں کو مقاومت اور مجاہدت کی تربیت دے کر ہزاروں افراد کو مقاومت کے میدان میں اپنا وارث بنا کر چلے گئے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان کی شہادت کے فوراً بعد سردار قاآنی کو شہید کی جانشینی کے منصب پر فائز کیا گیا، جن میں شہید کی طرح دور اندیشی اور دشمنوں کی سازشوں کو بروقت بے نقاب کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، وہ جنگی فنون میں ماہر ہونے کے علاوہ اس میدان میں طولانی تجربہ بھی رکھتے ہیں، انہوں نے کمان سنبھالتے ہی یہ جاندار اور شجاعانہ بیان دے کر امریکہ کو یاس و نامیدی سے دوچار کرکے اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کہ بہت جلد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جسد کے ٹکڑے دیکھیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قاسم سلیمانی کی مظلومانہ شہادت نے بالعموم دنیا کے حریت و امنیت پسند انسانوں کے ذہنوں میں خاص طور پر ایرانی عوام کے ذہنوں میں امریکہ کے بارے میں موجود نفرت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور شہید کے لہو کی حرارت ان کی رگوں کے خون میں شامل ہوکر قطعی طور وسیع پیمانے پر امریکہ سے انتقام لینے کی توانائی میں بدل چکی ہے۔ رہبر کبیر انقلاب کی نظر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو احیاء کرکے دوبارہ اپنی جگہ استوار کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہے، میدان میں سینہ تان کر مقاومت کرنا ہے، البتہ میدان جہاد میں وارد ہونے سے پہلے جوانوں کا علمی اور فکری طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہےـ شہید قاسم سلیمانی علم، ایمان، تقویٰ، عبادت اور فداکاری میں کم نظیر تھے، وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے پوری زندگی راہ حق میں جہاد کرتے رہے، بلاشبہ شہید سلیمانی مقاومت کا درخشان ستارہ ہیں۔