تحریر: تصور حسین شہزاد
القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایران اور عراق کے عوام میں پیدا ہوتی دُوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ عراقی اب ایرانیوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ کل تک یہ حقیقت ہے کہ عراقی امریکہ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، جس نے صدام جیسے آمر سے انہیں نجات دلائی تھی، مگر اب انہیں سمجھ آ گئی کہ امریکہ یہاں عراقی عوام کی بہبود کیلئے نہیں، بلکہ تیل کے لالچ میں آیا تھا۔ جبکہ داعش کو قائم کرکے امریکہ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ شام اور عراق پر قبضہ کرلے گا۔ مگر جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی نے امریکہ کا یہ خواب چکنا چُور کر دیا۔ اس میں امریکہ کو نہ صرف تذلیل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ امریکہ کو اتنا مجبور کر دیا گیا کہ اسے خود اپنی ہی بنائی ہوئی داعش کے خاتمے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے خطے میں جاری امریکی سازشوں سے پردہ فاش کیا۔ اس حملے سے واضح ہو گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے، جو جسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے نشانہ بنا دیتا ہے۔ امریکہ قانون کا احترام کرتا ہے نہ اںسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملایشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی پر حملے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ مہاتیر محمد کا یہ بیان امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ ملایشیاء کانفرنس بھی اتحاد امت کے اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں آ کر اس میں شرکت نہ کرکے اپنا وقار مجروح کر لیا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایران کو بھی اب محفوظ بنا دیا ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کیخلاف عوامی ردعمل آ رہا تھا۔ مظاہروں کو بیرونی سازشوں کے تحت ہوا دی جا رہی تھی۔ مگر اب حکومت کیخلاف مظاہرے کرنے والے بھی نم دیدہ ہیں کہ ان کا محافظ شہید ہو گیا۔ حکومت کیخلاف نعرے لگانے، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالوں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ وہ لوگ جو تہران حکومت کیخلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے، اب خاموش ہیں اور قاسم سلیمانی کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔ قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ایران کے محافظت کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی انہوں نے ایران کو اور زیادہ محفوظ بنا دیا۔ اب امریکہ کی وہ ساری ’’سرمایہ کاری‘‘ خاک ہو چکی ہے، جو اس نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کیلئے تہران کیخلاف ایران میں کی تھی۔
دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے اس اقدام کو جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ہو سکتی ہے، مگر اب حالیہ صورتحال دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایران نے نہایت حکمت عملی کیساتھ امریکہ سے انتقام لینے کا پلان تیار کیا ہے۔ فوری ردعمل کے طور پر 2 امریکی ایئربیسز پر حملوں کو تو ایرانی قیادت نے صرف ’’تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ ابھی انتقام تو باقی ہے۔ ایران نے تھپڑ کے طور پر اگر امریکہ کے دو ایئر بیس مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں تو انتقام کتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ابھی بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہے، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ دنیا کی بڑی فوج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ مبصرین یہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے امریکہ کے 2 ایئر بیسز پر حملے کر کے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے جدید ہتھیار ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ گو کہ امریکہ نے ابھی تک مذکورہ بالا دونوں ایئر بیسز پر ہونیوالی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کیا جبکہ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بیدار اور متحد کیا ہے، وہیں ان کی شہادت سے پاکستان میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مختلف گروپوں میں تقسیم اہل تشیع متحد ہو گئے ہیں۔ پہلے پاکستان کے اہل تشیع شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک بیداری امت مصطفی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر ناموں کیساتھ مختلف جماعتوں میں تقسیم تھے، مدارس الگ الگ ڈگر پرچل رہے تھے، مگر جنرل سلیمانی کی شہادت اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان میں سازشوں کیخلاف یہ تمام جماعتیں، مدارس اور دھڑے ’’اتحاد امت فورم‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے ہیں اور تمام قائدین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر بند باندھیں گے۔ اس حوالے سے 12 جنوری کو لاہور سمیت ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے لاہور میں پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک ریلی نکالی جائے گی، جس میں تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے اہلسنت نے بھی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی سازشوں کا ادراک کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو امریکہ کی بربادی سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو شہید کرکے مشرق وسطیٰ کی زمین اپنے لئے تنگ کر لی ہے، اب وہ مزید مشرق وسطیٰ میں قیام نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر اعجاز ہاشمی اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے پیر معصوم نقوی سمیت دیگر علمائے و قائدین نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکی جارحیت قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امریکی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کی اہل تشیع جماعتوں کیساتھ ساتھ اہلسنت جماعتیں بھی اس محاذ پر ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مذہبی قائدین نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ایران کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اُدھر ایران کی کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ نے کویت سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے کویت کے وزیر دفاع کو خط پہنچا دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کویت سے 3 روز میں اپنی فوجیں نکال لے گا۔ کویت کے عارف جان کیمپ میں امریکہ کے میرین کوسٹ گارڈ، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح عراق کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوج کے عراق سے فوری انخلاء کی منظوری دے چکی ہے۔ امریکہ نے مستقل بنیادوں پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرے ڈالے تھے اور علاقے کے وسائل اور تیل کیلئے یہاں اڈے بنائے، مگر اب جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کا علاقے میں قیام ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید نہیں کیا بلکہ اپنے مفادات کا سر قلم کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد امریکہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے اندر بھی مزاحمتی تحریک سر اُٹھا رہی ہے، جسے قابو کرنا شائد امریکہ کے بس میں نہ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کیا ہے، وہیں امریکہ کیلئے خطرناک مستقبل کی بنیاد بھی رکھ دی ہے اور شائد یہی وہ سخت انتقام ہے جس کا آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ دیا تھا۔ صیاد خود اپنے دام میں آ چکا ہے۔
القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایران اور عراق کے عوام میں پیدا ہوتی دُوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ عراقی اب ایرانیوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ کل تک یہ حقیقت ہے کہ عراقی امریکہ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، جس نے صدام جیسے آمر سے انہیں نجات دلائی تھی، مگر اب انہیں سمجھ آ گئی کہ امریکہ یہاں عراقی عوام کی بہبود کیلئے نہیں، بلکہ تیل کے لالچ میں آیا تھا۔ جبکہ داعش کو قائم کرکے امریکہ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ شام اور عراق پر قبضہ کرلے گا۔ مگر جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی نے امریکہ کا یہ خواب چکنا چُور کر دیا۔ اس میں امریکہ کو نہ صرف تذلیل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ امریکہ کو اتنا مجبور کر دیا گیا کہ اسے خود اپنی ہی بنائی ہوئی داعش کے خاتمے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے خطے میں جاری امریکی سازشوں سے پردہ فاش کیا۔ اس حملے سے واضح ہو گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے، جو جسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے نشانہ بنا دیتا ہے۔ امریکہ قانون کا احترام کرتا ہے نہ اںسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملایشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی پر حملے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ مہاتیر محمد کا یہ بیان امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ ملایشیاء کانفرنس بھی اتحاد امت کے اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں آ کر اس میں شرکت نہ کرکے اپنا وقار مجروح کر لیا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایران کو بھی اب محفوظ بنا دیا ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کیخلاف عوامی ردعمل آ رہا تھا۔ مظاہروں کو بیرونی سازشوں کے تحت ہوا دی جا رہی تھی۔ مگر اب حکومت کیخلاف مظاہرے کرنے والے بھی نم دیدہ ہیں کہ ان کا محافظ شہید ہو گیا۔ حکومت کیخلاف نعرے لگانے، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالوں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ وہ لوگ جو تہران حکومت کیخلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے، اب خاموش ہیں اور قاسم سلیمانی کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔ قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ایران کے محافظت کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی انہوں نے ایران کو اور زیادہ محفوظ بنا دیا۔ اب امریکہ کی وہ ساری ’’سرمایہ کاری‘‘ خاک ہو چکی ہے، جو اس نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کیلئے تہران کیخلاف ایران میں کی تھی۔
دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے اس اقدام کو جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ہو سکتی ہے، مگر اب حالیہ صورتحال دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایران نے نہایت حکمت عملی کیساتھ امریکہ سے انتقام لینے کا پلان تیار کیا ہے۔ فوری ردعمل کے طور پر 2 امریکی ایئربیسز پر حملوں کو تو ایرانی قیادت نے صرف ’’تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ ابھی انتقام تو باقی ہے۔ ایران نے تھپڑ کے طور پر اگر امریکہ کے دو ایئر بیس مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں تو انتقام کتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ابھی بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہے، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ دنیا کی بڑی فوج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ مبصرین یہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے امریکہ کے 2 ایئر بیسز پر حملے کر کے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے جدید ہتھیار ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ گو کہ امریکہ نے ابھی تک مذکورہ بالا دونوں ایئر بیسز پر ہونیوالی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کیا جبکہ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بیدار اور متحد کیا ہے، وہیں ان کی شہادت سے پاکستان میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مختلف گروپوں میں تقسیم اہل تشیع متحد ہو گئے ہیں۔ پہلے پاکستان کے اہل تشیع شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک بیداری امت مصطفی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر ناموں کیساتھ مختلف جماعتوں میں تقسیم تھے، مدارس الگ الگ ڈگر پرچل رہے تھے، مگر جنرل سلیمانی کی شہادت اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان میں سازشوں کیخلاف یہ تمام جماعتیں، مدارس اور دھڑے ’’اتحاد امت فورم‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے ہیں اور تمام قائدین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر بند باندھیں گے۔ اس حوالے سے 12 جنوری کو لاہور سمیت ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے لاہور میں پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک ریلی نکالی جائے گی، جس میں تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے اہلسنت نے بھی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی سازشوں کا ادراک کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو امریکہ کی بربادی سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو شہید کرکے مشرق وسطیٰ کی زمین اپنے لئے تنگ کر لی ہے، اب وہ مزید مشرق وسطیٰ میں قیام نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر اعجاز ہاشمی اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے پیر معصوم نقوی سمیت دیگر علمائے و قائدین نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکی جارحیت قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امریکی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کی اہل تشیع جماعتوں کیساتھ ساتھ اہلسنت جماعتیں بھی اس محاذ پر ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مذہبی قائدین نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ایران کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اُدھر ایران کی کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ نے کویت سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے کویت کے وزیر دفاع کو خط پہنچا دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کویت سے 3 روز میں اپنی فوجیں نکال لے گا۔ کویت کے عارف جان کیمپ میں امریکہ کے میرین کوسٹ گارڈ، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح عراق کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوج کے عراق سے فوری انخلاء کی منظوری دے چکی ہے۔ امریکہ نے مستقل بنیادوں پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرے ڈالے تھے اور علاقے کے وسائل اور تیل کیلئے یہاں اڈے بنائے، مگر اب جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کا علاقے میں قیام ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید نہیں کیا بلکہ اپنے مفادات کا سر قلم کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد امریکہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے اندر بھی مزاحمتی تحریک سر اُٹھا رہی ہے، جسے قابو کرنا شائد امریکہ کے بس میں نہ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کیا ہے، وہیں امریکہ کیلئے خطرناک مستقبل کی بنیاد بھی رکھ دی ہے اور شائد یہی وہ سخت انتقام ہے جس کا آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ دیا تھا۔ صیاد خود اپنے دام میں آ چکا ہے۔