تحریر: زین عباس
ویسے تو امریکی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اب تک وہ اس "سب کچھ" کے بے شمار مظاہر دکھا چکے ہیں، وہ عراق اور افغانستان میں بمباری ہو یا گوانتانامو بے اور ابو غریب جیل میں تفتیشی طریقے، عراق اور شام پہ حملہ کرنے سے پہلے کا جھوٹ ہو یا ویتنام اور افغانستان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کا ہنر۔۔۔ لیکن اس سب کچھ میں ایک قدرِ مشترک جھوٹ ہے! جدید محاذ اسی پراپیگنڈا کی بنیاد پہ چلتا ہے، پچھلے سال پاک انڈیا تنازعے میں بھی ہم اس کی طاقت کا مشاہدہ کرچکے ہیں، لیکن اس بار سب سے اہم بات یہ کہ اب تک کسی کو بھی، حتیٰ عراقی فوج اور انٹیلیجنس کو بھی عین الاسد بیس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعض افراد گذشتہ روز کی پریس کانفرنس سے ایک بار پھر اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ امریکی صدر سچ تو نہیں بول رہا، تو اس سے پہلے کہ آپ میڈیا کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ٹرمپ کی باتوں کو دل پہ لینے لگیں، چند عرائض گوش گذار کرتا چلوں۔
کسی ملک سے بیلسٹک میزائل مارے جانے کے بعد چار صورتیں ہوسکتی ہیں:
1) بیلسٹک میزائل ہوا میں اینٹی میزائل سیسٹم سے نشانہ بنایا جائے اور وہ زمین تک پہنچ ہی نہ سکے۔ ایران نے ان حملوں کے لیے فاتح اور ذوالفقار میزائل استعمال کیے ہیں، جن میں یہ صلاحیت ہے کہ امریکی بیس میں موجود جدید ترین پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم کے راڈارز کو بھی جیم کرسکیں، جس کے نیتجے میں زیادہ سے زیادہ جو دعویٰ امریکی کرسکے ہیں، وہ یہ کہ ایک میزائل ہوا میں روکا گیا، البتہ اس کے لیے بھی بطور ثبوت کوئی ویڈیو جاری نہیں کی گئی۔
2) دوسرا امکان اس سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ گرنے والے میزائل گریں، لیکن پھٹ نہ سکیں۔ اس صورت میں میزائل ایک عام لوہے کے ٹکڑے کی طرح زمین پہ گر کر بکھر جاتا ہے، جس کا ملبہ با آسانی دکھایا جا سکتا ہے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ دو میزائل ایسے تھے کہ جو گرے ہیں اور پھٹے نہیں ہیں، البتہ اس کے لیے بھی کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی جا سکی۔
3) تیسری صورت یہ ہے کہ میزائل راڈار سسٹم سے بچتا ہوا، بالآخر زمین پہ پہنچ جائے اور پھٹ بھی جائے، لیکن وہ اپنا نشانہ بنانے میں غلطی کرے، جس کے نتیجے میں بیس میں موجود خالی علاقوں میں پھٹے اور زمین کھودنے کے علاوہ کوئی کام انجام نہ دے سکے۔ اس صورت میں اپنے دشمن کو شرمندہ کرنے کے لیے میڈیا کو دعوت دی جاتی ہے یا خود ان تصاویر کو شائع کر دیا جاتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار ایسا بھی کچھ نہیں دیا گیا۔
4) چوتھا اور حتمی امکان یہ ہے کہ میزائل نشانے پہ جا لگے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنائے، جس کے نیتجے میں نقصان پہنچ جائے، جو کہ پہنچنے شرمندگی اور ذلت کی بات ہے۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ اپنی عزت بچانے اور لوگوں کا ابہام میں رکھنے کے لیے وہی کام انجام دیا جاتا ہے، جو امریکہ نے انجام دیا۔۔۔
اس حوالے سے چند چیزیں جو اب تک سامنے آچکی ہیں، ان میں رائٹرز اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے دی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر ہیں کہ جن میں کم از کم پانچ ہوائی اڈوں کو منہدم ہوا دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کنٹرول ٹاور اور رن ویز کی تباہی کے ساتھ ساتھ دس ملٹری ٹینٹس کی بربادی اور ایک پریڈیٹر ڈرون کو نقصان پہنچنے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے باوجود بھی جانی نقصان سے مطلق انکار کرنا اس جھوٹ کو بالکل ہی واضح کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوز ویک کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کا نہ ہونا عراقی انٹیلیجنس کی طرف سے ہوشیار کیے جانے کے سبب ممکن ہوا کہ جس کے نیتجے میں فوجیوں کو محفوط مقامات پہ پہنچا دیا گیا۔
البتہ یہ بات بعید از قیاس ہے، کیونکہ فوجی اڈے پہ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوج چوکنی ہو جائے، نہ یہ کہ سب فوجی دبک کر بیٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ میزائل حملوں کے فوراً بعد براہ راست حملہ کر دیا جاتا، کیونکہ عراقی امریکی بیس کے اطراف میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ سب فوجی محفوط مقامات پہ پناہ لے لیں اور حتٰی ائیر کنٹرول ٹاور میں بھی کوئی موجود نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے امریکی صدر کی بریفنگ کو اس حساس موضوع پہ بدترین بریفنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کے خطاب میں اس حملے کے علاوہ دنیا کے تمام اہم موضوعات پہ روشنی ڈالی ہے اور ان نقصانات کی تفصیلات جو فوجی قاعدے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں، نہیں بتائی گئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ذرائع سے نقصانات کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند روز تک مارے جانے والے افراد کی لاشیں بھی سامنے آہی جائیں گی۔ بہرحال ٹرمپ صاحب اگر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی بجائے اگر چند فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سنا دیتے تو شاید دنیا کے لیے ماننا آسان ہوتا اور اگرچہ ٹرمپ کی سیاسی ناکامی سامنے آجاتی، لیکن کچھ نہ کچھ سچے ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔
4) چوتھا اور حتمی امکان یہ ہے کہ میزائل نشانے پہ جا لگے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنائے، جس کے نیتجے میں نقصان پہنچ جائے، جو کہ پہنچنے شرمندگی اور ذلت کی بات ہے۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ اپنی عزت بچانے اور لوگوں کا ابہام میں رکھنے کے لیے وہی کام انجام دیا جاتا ہے، جو امریکہ نے انجام دیا۔۔۔
اس حوالے سے چند چیزیں جو اب تک سامنے آچکی ہیں، ان میں رائٹرز اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے دی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر ہیں کہ جن میں کم از کم پانچ ہوائی اڈوں کو منہدم ہوا دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کنٹرول ٹاور اور رن ویز کی تباہی کے ساتھ ساتھ دس ملٹری ٹینٹس کی بربادی اور ایک پریڈیٹر ڈرون کو نقصان پہنچنے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے باوجود بھی جانی نقصان سے مطلق انکار کرنا اس جھوٹ کو بالکل ہی واضح کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوز ویک کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کا نہ ہونا عراقی انٹیلیجنس کی طرف سے ہوشیار کیے جانے کے سبب ممکن ہوا کہ جس کے نیتجے میں فوجیوں کو محفوط مقامات پہ پہنچا دیا گیا۔
البتہ یہ بات بعید از قیاس ہے، کیونکہ فوجی اڈے پہ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوج چوکنی ہو جائے، نہ یہ کہ سب فوجی دبک کر بیٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ میزائل حملوں کے فوراً بعد براہ راست حملہ کر دیا جاتا، کیونکہ عراقی امریکی بیس کے اطراف میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ سب فوجی محفوط مقامات پہ پناہ لے لیں اور حتٰی ائیر کنٹرول ٹاور میں بھی کوئی موجود نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے امریکی صدر کی بریفنگ کو اس حساس موضوع پہ بدترین بریفنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کے خطاب میں اس حملے کے علاوہ دنیا کے تمام اہم موضوعات پہ روشنی ڈالی ہے اور ان نقصانات کی تفصیلات جو فوجی قاعدے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں، نہیں بتائی گئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ذرائع سے نقصانات کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند روز تک مارے جانے والے افراد کی لاشیں بھی سامنے آہی جائیں گی۔ بہرحال ٹرمپ صاحب اگر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی بجائے اگر چند فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سنا دیتے تو شاید دنیا کے لیے ماننا آسان ہوتا اور اگرچہ ٹرمپ کی سیاسی ناکامی سامنے آجاتی، لیکن کچھ نہ کچھ سچے ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔