بغداد میں امریکی فورسز کے ایک دہشتگردانہ اقدام میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مھدی المھندس کی شہادت پر ایران کیطرف سے عراق میں واقع عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر ایرانی ابتدائی جوابی کارروائی کے حوالے سے انتہائی محتاط تحریر میں صیہونی اخبار "اسرائیل ٹائمز" نے اسرائیلی صحافی مایا جبیلی کے قلم سے لکھا ہے کہ عراق میں موجود عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر ایرانی بیلسٹک میزائلز کے پڑتے ہی وسیع آسمان پر موجود امریکی فوج کے قیمتی اور پیشرفتہ ڈرون طیاروں سے امریکیوں کا رابطہ منقطہ ہوگیا تھا۔
اسرائیل ٹائمز لکھتا ہے کہ 8 جنوری 2020ء کی رات 1 بجکر 35 منٹ پر جب ایرانی جوابی کارروائی کا آغاز ہوا, تب امریکی فوج کے 7 پیشرفتہ ڈرون طیارے عراقی آسمان پر محوِ پرواز تھے, تاکہ وہ عراق کے اندر موجود امریکی اتحادی اڈوں کو پوری رصد پہنچا سکیں, جبکہ ان ڈرون طیاروں میں ایم کیو ون سی گرے ایگل (MQ-1C Grey Eagle) نامی ڈرون طیارے بھی شامل تھے, جو 4 عدد ھیل فائر (Hellfire) میزائلوں کیساتھ 27 گھنٹے کی مسلسل پرواز کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ یہ اسرائیلی اخبار کیسٹن ھیروئنگ نامی امریکی ڈرون پائلٹ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم پر زمینی حملہ کیا جائیگا, لہذا ہم نے ڈرون طیاروں کو مسلسل اڑا رکھا تھا۔
اسرائیل ٹائمز نے ایرانی جوابی کارروائی کے وقت عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 1500 بتائی ہے اور لکھا ہے کہ ان میں سے اکثر پہلے ہی الارم پر 2 گھنٹوں کیلئے بنکرز میں منتقل ہوگئے تھے لیکن ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے والے عملے کے 14 افراد اندھیرے کنٹینرز میں ہی موجود رہے، تاکہ ڈرون طیاروں کو اڑاتے اور تصاویر حاصل کرتے رہیں۔ اس صیہونی اخبار نے ڈرون پائلٹ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلے ایرانی میزائل کے پڑتے ہی بڑی مقدار میں دھول مٹی اور دھواں ہماری پناہ گاہ میں داخل ہوگیا، تاہم بعد میں ہونیوالے دھماکے نزدیک سے نزدیک تر آنے لگے، جبکہ ہم اس قدر ڈر چکے تھے کہ اپنی جگہ جمے ہوئے اپنی تقدیر کا انتظار کرنے لگے۔ اس ڈرون پائلٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے سمجھا کہ اب ہمارا کام تمام ہے، البتہ اصلی بحران تو اسکے بعد آنیوالا تھا۔
امریکی فوجیوں کے مطابق ایرانی میزائل، ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے والے پائلٹس کے کنٹینرز کے قریب قریب ہی پڑتے رہے، جبکہ یہ حملہ 3 گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ ویسلی کلیپاٹرک نامی ایک اور امریکی فوجی اپنے رابطوں کے منقطع ہو جانے کے بارے میں کہتا ہے کہ آخری دھماکے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ کمیونیکیشن سسٹم جل چکا ہے، جو پائلٹس کی ورچوئل کاک پٹس، اینٹیناز اور سیٹیلائٹس کا رابطہ "گرے ایگل" نامی ڈرون طیاروں کیساتھ برقرار کرتا اور ان سے نشر ہونے والی تصویریں موصول کرتا ہے۔ ویسلی کلیپاٹریک کہتا ہے کہ کمیونیکیشن سسٹم کے جل جانے کے باعث ڈرون طیاروں کیساتھ رابطہ منقطع ہوچکا تھا اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ کوئی ڈرون طیارہ کہاں ہے اور زمین پر کیا ہو رہا ہے، حتی ان ڈرون طیاروں میں سے اگر کوئی گر جاتا تو بھی معلوم نہیں ہوسکتا تھا۔
اسرائیل ٹائمز امریکی فوجی ویسلی کلیپاٹریک سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ یہ ڈرون طیارے بہت قیمتی ہیں، جبکہ انکے اندر بہت سا ایسا سازوسامان بھی موجود ہے، جس کے بارے میں ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی اور کے پاس نہ ہو اور خصوصاً یہ کہ وہ دشمن کے ہتھے بھی نہ چڑھے۔ امریکی فوج کے سال 2019ء کے بجٹ کے مطابق ہر ایک امریکی گرے ایگل نامی ڈرون طیارے کی قیمت 7 ملین ڈالرز ہے، جبکہ یہ ڈرون طیارے سال 2017ء سے عراق میں استعمال ہو رہے ہیں۔ صیہونی اخبار لکھتا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس امریکی ڈرون طیارے "گرے ایگل" کی پرواز کیلئے عراقی حکومت سے اجازت نامہ لیا جاتا ہے، جو ایرانی میزائل حملوں سے چند روز قبل ہی ختم ہوچکا تھا جبکہ ان دنوں عراقی آسمان پر اس طیارے کی تمام پروازیں غیر قانونی تھیں۔
امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر جوابی ایرانی حملہ، صیہونی اخبار کی زبانی
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے