بیت المقدس یا قدس شریف محض ایک مقدس مقام ہی نہیں بلکہ ایسی سرزمین ہے جس کا انبیاء الہی اور ابراہیمی ادیان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہزاروں سال سے الہی ادیان نے اس پر نظریں جما رکھی ہیں اور اسے اپنا "نقطہ آغاز" اور "مقصد" قرار دیتے ہیں۔ بندگی کا نقطہ آغاز اور بندگی کا مقصد۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہزاروں برس کے دوران قدس شریف جنی اور انسی شیاطین کی جانب سے شدید یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ الہی ادیان کے آغاز سے ہی قدس شریف کی آزادی اور اسارت ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں اور بیت المقدس بعض اوقات آزاد جبکہ بعض اوقات مقبوضہ رہا ہے۔ اس کی آزادی کی علامت اس مقدس مقام میں تمام ادیان سے وابستہ افراد کی آزادی سے مذہبی رسومات اور عبادت کی ادائیگی جبکہ اس کی اسارت کی علامت بعض کینہ توز اور متعصب عناصر کی جانب سے اس مقدس مقام کو اپنے تک محدود کرنا اور دیگر مذاہب سے وابستہ افراد کو وہاں آنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی سے محروم کرنا ہے۔ آج یہ مقدس مقام مقبوضہ ہے اور اسارت کی حالت میں ہے اور ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں سے اپنی آزادی کی فریاد کر رہا ہے۔ قدس شریف آزادی کیلئے انسانیت کو اپنی جانب پکار رہی ہے اور زخمی قدس شریف کی اس پکار کے پہلے مخاطب دیندار اور مذہبی افراد ہیں۔
قدس شریف اپنی آزادی کیلئے ہمیں پکار رہا ہے اور ہمیں آزاد ہونے کی ترغیب دلا رہا ہے۔ قدس شریف کو آزاد کروانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم خود آزاد ہوں۔ خوف سے آزاد، انسان نما شیطانوں کی غلامی سے آزاد، وقت کے طاغوت اور فرعونوں سے آزاد، ہر اس چیز سے آزاد ہوں جس نے ہمارے پاوں باندھ کر ہمیں زمین سے چپکا رکھا ہے، پرانی اور نئی سازشوں اور پراپیگنڈوں سے آزاد، تن آسانی اور عیاشی سے آزاد، جھوٹی طاقتوں کے رعب اور دبدبے سے آزاد، موت کے خوف سے آزاد، فرعونوں، نمرودوں، ابوسفیانوں اور ابوجہلوں سے آزاد ہوں۔ جی ہاں، قدس شریف چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں۔ جیسا کہ ہمارے زمانے کے بت شکن امام خمینی رح نے فرمایا ہے: "یوم قدس تمام مسلمانوں اور مستضعفین عالم کی آزادی کا دن ہے۔" قدس شریف آج ایک ایسی "نسل" کے قبضے میں ہے جس نے پوری انسانیت کو "یرغمال" بنا رکھا ہے۔ صہیونزم ایک نسلی سازش ہے اور صہیونی انسانیت کو "یہودیت" کے مساوی اور مترادف قرار دیتے ہیں۔ وہ انسانیت کا کوئی اور معنی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اس چیز کے برعکس جو دکھائی دیتی ہے، یہودیت اور یہودی بھی دو ایک جیسی چیزیں نہیں جو قدس شریف میں اکٹھی ہو گئی ہوں۔ یہودیت ایک نسل پرستانہ سوچ ہے جو یہود اور یہودیوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہودی صہیونزم کو دین نہیں سمجھتے اور صہیونی بھی حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کو خرافات قرار دیتے ہیں اور ہر اس چیز سے دوری اختیار کرتے ہیں جس میں "خدا" کا نام پایا جاتا ہو۔
صہیونزم کی نظر میں قدس شریف کی کوئی عزت اور حیثیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم ماضی میں مشاہدہ کر چکے ہیں ایریل شیرون فوجی بوٹوں اور تلوار کے ساتھ قدس شریف اور قبہ الصخرا میں داخل ہوا، وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور عبادت کے پرسکون ماحول کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس سے 52 سال پہلے بھی صہیونیوں نے مسجد اقصی کو آگ لگا دی تھی جس کے اثرات آج بھی اس مسجد کی دیواروں، چھت، منبر اور محراب پر قابل مشاہدہ ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے صہیونی قدس شریف کے نیچے کھدائی میں مصروف ہیں جس کے باعث اس مقدس مقام کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور اس کی نابودی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ وہ "ہیکل داود" نامی ورثہ تلاش کرنے کے بہانے اس ابراہیمی ورثے کو نابود کر رہے ہیں۔ اسی طرح جیسے انہوں نے الخلیل کو "ہیبرون" کے نام پر عبادت اور مذہبی رسومات سے عاری کر ڈالا ہے۔ الخلیل کی تقسیم انسانوں اور انسانیت کی تقسیم تھی ورنہ ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صہیونزم ایک دین نہیں ہے اور صہیونی کسی دین کے پیروکار بھی نہیں ہیں۔ صہیونزم ایک سیاسی فرقہ "کالٹ" (Kalt) ہے۔ ایسا سیاسی فرقہ جس کا آغاز سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک بیانیے سے ہوا اور اس کی جڑیں 15 ویں اور 16 ویں صدی (قرون وسطایی) کے دولت مند اور سرمایہ دار خاندانوں تک پہنچتی ہیں۔ روتھ شیلڈز اور راک فلرز نامی خاندان جو نسل پرست سرمایہ دار تھے۔
صہیونزم عالم بشریت کیلئے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے درپے ہے۔ ایسی تاریخ جس میں "خون" کی حکومت ہو اور جو زیادی خونخوار ہو اسے حکومت کرنے کا زیادہ حق حاصل ہو۔ وہ اپنی عبادت خون سے شروع کرتے ہیں، ان کی سجدہ گاہوں پر بھی خون جاری ہوتا ہے اور ان کے محراب سے خون کی بو آتی ہے۔ صہیونیوں کیلئے خون کہانی کا آغاز ہے اور "قابیل" ان کا سب سے بڑا لوگو ہے۔ صہیونزم کے پنجے جو خاموش مشعل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اپنے مرکز میں "صلیب" تک جا پہنچتے ہیں تاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بے رحمانہ قتل میں ان کے اسلاف کی یاد تازہ کر سکیں۔ وہ آج دنیا بھر میں عیسائیوں کے طاقت کے مراکز پر مسلط ہو چکے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے قصے بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتے جنہیں خداوند متعال نے ان کے چنگل سے نجات دلائی تھی۔ صہیونزم کے مرکزی رہنماوں کی نظر میں یہودا اور عیسی علیہ السلام کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہر عیسائی کو یہودا کی نسل کے سامنے صہیونزم کے پنجوں کا زخم برداشت کرنا ہو گا۔ صہیونزم نے عیسائیت کے قتل اور نابودی کیلئے کمر کس رکھی ہے اور آج مستی کے عالم میں الیزے، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن وہ اس حد تک راضی نظر نہیں آتے اور جب تک چرچ کی آواز مکمل طور پر بند نہیں کر دیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
صہیونزم ایک "کالٹ" ہے اور اس کا انحصار نسل اور خون پر ہے اور وہ خون کے ذریعے تاریخ لکھ رہا ہے اور خون کے ذریعے ہی تاریخ کا آغاز کرتا ہے۔ صہیونزم اگرچہ یہودی نہیں لیکن یہودیوں کے نام پر خیبر واپس پلٹنا چاہتا ہے۔ صہیونزم مسلمانوں کی سرزمین بنی قریظہ، بنی المصطلق اور بنی قینقاع کے سپرد کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عرب اقوام کی طاقت ختم ہو چکی ہے لہذا حجاز، ابوظہبی، کویت، مسقط اور دوحہ کے محلوں میں غلاموں کی تلاش میں ہے تاکہ ان کی مدد سے بنی قریظہ کی نیابت میں صہیونیت کو سرزمین وحی میں پھیلا سکے۔ صہیونزم نے یہاں بھی خون سے شروع کیا ہے اور خون کے ذریعے تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ یمن میں جنگ، عرب مسلمانوں میں نفرت کی آگ پھیلانے اور عرب اور عجم میں دشمنی ڈالنے کے ذریعے آج کے ابوسفیانوں، ابوجہلوں اور عکرموں کے ساتھ اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ قدس شریف ہے۔ سکے کا دوسرا رخ الہی تقدیر کے ذریعے تشکیل پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود پر غلبہ، حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون کے مقابلے میں کامیابی، حضرت عیسی علیہ السلام کا ہامان، یہودا اور ہیدرین کے فتنہ انگیز افراد کو شکست دینا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیبر اور خاقان پر غلبہ، حضرت علی علیہ السلام کا ابوسفیان کی اولاد پر غلبہ اور صہیونزم کے مقابلے میں قدس شریف کی فتح۔
اس ابراہیمی سلسلے کی کہانی سرزمین کی کہانی نہیں، مادی تسلط پسندی بھی نہیں، تسلط اور قبضہ نہیں، امن کے مقابلے میں اسلحہ کا انتخاب نہیں بلکہ اس کی کہانی آزادی کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں قدس شریف آزادی کی علامت ہے۔ انسان کی آزادی، دین کی آزادی، انبیاء کی آزادی اور خدا کی آزادی۔ اس وقت جب کسی محدودیت کے بغیر اس کی پرستش کی جائے، اس وقت جب کوئی کسی بندے کا غلام نہ ہو اور ہر سلام اور سجدے سے بندگی کے پھول نکھر رہے ہوں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے: "لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرا" (کسی کے بندے نہ بنو بالتحقیق خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔) صہیونزم مسلح ہو کر میدان میں آیا ہے تاکہ مومنین کے درمیان امن کا خاتمہ کر دے اور اس کے بعد امن کے نام پر انسانیت کو اپنا غلام بنا لے۔ لیکن آج صہیونزم کا اسلحہ اور امن اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور بندوں کے درمیان امن حاصل ہو چکا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے چالیس سال پہلے صہیونزم کی حقیقت کو "وہم" میں تبدیل کر دیا اور اس کی مشینری روک دی۔ اس کے بعد سے صہیونزم کیمپ ڈیوڈ، ایناپولس وغیرہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس وقت صہیونزم ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کے محاصرے میں آ چکا ہے۔ حزب اللہ لبنان، فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی، شام میں اسلامی مزاحمت اور دسیوں بریگیڈز خطے کے چپے چپے میں موجود ہیں اور اسرائیل دلدل میں ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔
آج تل ابیب کی حکومت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ الیکشن پر الیکشن اور واپس پہلے خانے میں۔ فلسطین کو یہودیانے کی کوششیں بے سود ہو چکی ہیں اور "سینچری ڈیل" دم توڑ چکی ہے۔ فلسطین کو یہودیانے کی مشینری گذشتہ ستر برس سے ناکارہ ہو چکی ہے اور صہیونزم کی باقیماندہ عمر میں بھی کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔ شاہی دربار اور وقت کے عبدالعزیز اب مزید کاغذوں پر دستخط کر کے فلسطین کو یہودیانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وقت کے بن سلمان اور بن زاید اور دیگر بادشاہ زادے اب کچھ نہیں کر سکیں گے۔ صہیونزم اس وقت اپنے پرچم میں دو نیلی لکیروں سے امید وابستہ کرنے کی بجائے ان دیواروں کے بارے میں سوچ رہا ہے جو اسے فلسطینیوں کی نفرت آمیز نگاہوں سے بچا سکیں۔ نیل سے فرات تک کا صہیونزم اس وقت تل ابیب میں نیم مردہ حکومت کا روپ دھار چکا ہے۔ نیل سے فرات تک اور ہر جگہ تک اس وقت تل ابیب سے مغربی بیت المقدس تک محصور ہو چکا ہے۔ صہیونزم آج مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں کے قریب جنگی مشقیں منعقد کرتا ہے تاکہ شاید ان سرنگوں کا سراغ لگا سکے جن سے ہر لمحہ حزب اللہ کے مجاہدین کے حملہ ور ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین کی جنوبی سرحدوں پر غزہ سے لے کر صحرائے سینا اور وہاں سے لے کر مغربی کنارے تک ان سرنگوں کی تلاش میں ہے جن میں سے حماس اور اسلامک جہاد کے مجاہدوں کے ممکنہ حملوں کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔
صہیونزم نے آج واشنگٹن اور آئی پیک سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن انتہائی مایوسی سے عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کے انجام کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ وہی انجام جسے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے سے امریکی انخلاء کی صورت میں شہید قاسم سلیمانی کا خون بہا قرار دیا ہے۔ خونخوار صہیونزم بخوبی جانتا ہے کہ الیزہ، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس کے ساتھ اس کی روایتی دوستی اور قربت اب مزید معجزات دکھانے سے قاصر ہے اور مغرب کے تمدنی اور سیاسی عروج کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ صہیونزم جانتا ہے کہ مغرب جو گذشتہ 72 سالوں کے دوران اس کی اصلی پناہ گاہ رہی ہے آج خود بے شمار مشکلات اور بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اس سے اپنی بقا کیلئے مدد کی امیدیں وابستہ کرنا بیہودہ امر ہے۔ لہذا آج تل ابیب کی چھاونیوں اور آبادیوں میں اسرائیل کے اختتام کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ صہیونزم کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جیسا کہ مصر میں رمضان کی سیریل میں کہا گیا ہے اسرائیل اپنی سو سالہ سالگرہ نہیں دیکھ پائے گا۔ لیکن اس کے باوجود صہیونزم اب بھی خونریزی میں مصروف ہے، اب بھی بمب گرا رہا ہے، اب بھی ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے، اب بھی لبنان کی فضا سے شام میں جارحیت کر رہا ہے، اب بھی سازشیں کر رہا ہے اور غزہ کے محصور فلسطینیوں پر آگ برسا رہا ہے۔ اس وقت بھی انتہائی کم قیمت میں عرب غلاموں کو خرید رہا ہے، خطے کے درباروں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری للکار برقرار رہنی چاہئے، ہاتھ بلند رہنے چاہئیں اور قدم استوار رہنے چاہئیں۔ قدس شریف آزادی کے دہانے پر ہے اور ہمیں آخر تک یہ راستہ جاری رکھنا ہے۔
قدس شریف کی آزادی، تمام ابراہیمی ادیان کی آرزو
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے