حال ہی میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کی رپورٹ یا آئی اے ای اے کے بورڈز آف گورنرز کی قرارداد کے نتیجے میں امریکہ اور چند یورپی ممالک کی جانب سے ایران پر دباو میں مزید شدت آ جانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کو اس کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے؟ گذشتہ 17 برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کئی بار یورپ سے لے کر امریکہ تک اپنے دشمن ممالک کو آزما چکا ہے اور ہر بار اسے تقریباً واضح جواب موصول ہوا ہے۔ ایران کے اندر بعض بااثر شخصیات اور سیاسی قوتیں ابتدا سے ہی خبردار کرتے آئے ہیں کہ نہ تو امریکہ اور نہ ہی یورپی ممالک اس قابل نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔ حتی ایسے سیاسی حلقے جو امریکہ یا یورپی ممالک سے مثبت توقعات قائم کئے ہوئے تھے بھی اب اس نتیجے پر آن پہنچے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے گذشتہ 17 برس کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک سے مذاکرات کے دوران انتہائی قیمتی تجربات حاصل کئے ہیں۔ یہ تجربات مستقبل میں ایران اور دیگر ممالک کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ چند اہم تجربات درج ذیل ہیں:
1)۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر شدید دباو ڈالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن امور کا سہارا لے کر ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈالا گیا ان کا ایران کے جوہری پروگرام سے دور دور تک کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا اصلی ترین مقصد ایران کو اسلامی انقلاب سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانا ہے جب ایران مغرب کی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔
2)۔ اس وقت ایران کے دشمن ممالک کے پاس جو واحد ہتھکنڈہ باقی بچ گیا ہے وہ اقتصادی نوعیت کا ہے۔ یہ بات منطقی لحاظ سے بھی انتہائی واضح ہے اور امریکہ اور مغربی حکمرانوں کے اعترافات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اقتصاد سے ہٹ کر جنگ یا فوجی ہتھکنڈہ ہوتا تو وہ اسے ضرور ایران کے خلاف بروئے کار لاتے۔ کیونکہ اقتصادی جنگ کے مقابلے میں فوجی جنگ بہت زیادہ آسان اور کم پیچیدگیوں کی حامل ہے۔ لہذا اگر امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے خلاف شدیدترین بیان بازی کے بعد اقتصادی ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فوجی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔
3)۔ دشمن ممالک کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اقتصادی دباو بذات خود اصلی مقصد نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں اور عوام کی سوچ اور اعتقادات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا بانی رچرڈ نفیو اپنی کتاب "پابندیوں کا فن" میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی حکومت اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل مقصد ایران کو امریکہ اور یورپ کا پیرو اور تابعدار بنانا ہے۔
4)۔ امریکہ کی بنیادی پالیسیوں میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ اگرچہ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سیاست دان شدت پسندانہ سوچ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ سیاست دان پرامن سوچ کے مالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحشیانہ پن اور بربریت میں ڈیموکریٹک پارٹی کسی طور ریپبلکن پارٹی سے کم نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے خلاف سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ موثر اقتصادی پابندیاں براک اوباما کے دور میں عائد کی گئی تھیں۔ اس بات کی تصدیق امریکہ کے اعلی سطحی مذاکرات کار ویلیم برنز نے اپنی کتاب "درپردہ کینال" میں کی ہے۔
5)۔ دشمن کے ہاتھ میں موجود واحد ہتھکنڈے کے طور پر اقتصادی پابندیاں بھی بے نہایت اور نامحدود نہیں ہیں۔ جیسا کہ رچرڈ نفیو نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے اور امریکی اور یورپی حکمران بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایک حد تک موثر ہیں۔ اس وقت ایران کے خلاف عائد پابندیاں اپنی شدید ترین حد تک ہیں۔ لہذا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ ایران کے خلاف وسیع ترین پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو رچرڈ نفیو نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں 2011ء میں ہی عائد کر دی گئی تھیں۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیتے ہیں اور اقتصادی دباو کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ گذشتہ سترہ برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنے مسلمہ حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور مغربی ممالک ایران میں حتی ایک سنٹریفیوج بھی چلنے کے مخالف تھے لیکن ایران کی استقامت اور شجاعت کے باعث محدود پیمانے پر یورینیم انرچمنٹ کا حق حاصل کر چکا ہے۔
1)۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر شدید دباو ڈالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن امور کا سہارا لے کر ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈالا گیا ان کا ایران کے جوہری پروگرام سے دور دور تک کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا اصلی ترین مقصد ایران کو اسلامی انقلاب سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانا ہے جب ایران مغرب کی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔
2)۔ اس وقت ایران کے دشمن ممالک کے پاس جو واحد ہتھکنڈہ باقی بچ گیا ہے وہ اقتصادی نوعیت کا ہے۔ یہ بات منطقی لحاظ سے بھی انتہائی واضح ہے اور امریکہ اور مغربی حکمرانوں کے اعترافات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اقتصاد سے ہٹ کر جنگ یا فوجی ہتھکنڈہ ہوتا تو وہ اسے ضرور ایران کے خلاف بروئے کار لاتے۔ کیونکہ اقتصادی جنگ کے مقابلے میں فوجی جنگ بہت زیادہ آسان اور کم پیچیدگیوں کی حامل ہے۔ لہذا اگر امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے خلاف شدیدترین بیان بازی کے بعد اقتصادی ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فوجی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔
3)۔ دشمن ممالک کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اقتصادی دباو بذات خود اصلی مقصد نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں اور عوام کی سوچ اور اعتقادات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا بانی رچرڈ نفیو اپنی کتاب "پابندیوں کا فن" میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی حکومت اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل مقصد ایران کو امریکہ اور یورپ کا پیرو اور تابعدار بنانا ہے۔
4)۔ امریکہ کی بنیادی پالیسیوں میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ اگرچہ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سیاست دان شدت پسندانہ سوچ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ سیاست دان پرامن سوچ کے مالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحشیانہ پن اور بربریت میں ڈیموکریٹک پارٹی کسی طور ریپبلکن پارٹی سے کم نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے خلاف سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ موثر اقتصادی پابندیاں براک اوباما کے دور میں عائد کی گئی تھیں۔ اس بات کی تصدیق امریکہ کے اعلی سطحی مذاکرات کار ویلیم برنز نے اپنی کتاب "درپردہ کینال" میں کی ہے۔
5)۔ دشمن کے ہاتھ میں موجود واحد ہتھکنڈے کے طور پر اقتصادی پابندیاں بھی بے نہایت اور نامحدود نہیں ہیں۔ جیسا کہ رچرڈ نفیو نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے اور امریکی اور یورپی حکمران بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایک حد تک موثر ہیں۔ اس وقت ایران کے خلاف عائد پابندیاں اپنی شدید ترین حد تک ہیں۔ لہذا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ ایران کے خلاف وسیع ترین پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو رچرڈ نفیو نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں 2011ء میں ہی عائد کر دی گئی تھیں۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیتے ہیں اور اقتصادی دباو کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ گذشتہ سترہ برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنے مسلمہ حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور مغربی ممالک ایران میں حتی ایک سنٹریفیوج بھی چلنے کے مخالف تھے لیکن ایران کی استقامت اور شجاعت کے باعث محدود پیمانے پر یورینیم انرچمنٹ کا حق حاصل کر چکا ہے۔