انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔
موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔
اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔
اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔
ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
پورا فلسطین فلسطینی عوام کا ہے
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے