گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔
سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔
بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔
کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر: محمد ثقلین واحدی