امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا نیا انداز

Rate this item
(0 votes)
امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا نیا انداز

تحریر: حسین الموسوی

دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ دشمنی پر مبنی ہر ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں مدمقابل شخص یا افراد میں رعب اور وحشت کی فضا پیدا ہو جائے اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی ہر ایسا عمل ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں یا غیر ملکی گروہوں اور حکومتوں کے خلاف انجام دیں جس کے نتیجے میں وہ غیر ملکی حکومت یا اس کے شہری خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اگر ہم ریاستی دہشت گردی کی اس تعریف کو سامنے رکھیں تو ہمیں امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں اس کی بہت سی مثالیں اور نمونے مل جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں۔
 
حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے دو جنگی طیارے تہران سے بیروت جانے والے ماہان ایئر کے مسافر بردار طیارے سے انتہائی قریب ہوئے جس کے نتیجے میں مسافرین میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوا۔ پائلٹ نے بھی ممکنہ خطرناک صورتحال سے بچنے کیلئے انتہائی تیزی سے اپنی اونچائی کم کی جس کے نتیجے میں کئی مسافر زخمی بھی ہو گئے۔ یہ ایران کے خلاف امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ تھا اور اس کا انداز بھی ماضی میں انجام پانے والے ریاستی دہشت گردی کے واقعات سے بہت مختلف تھی۔ یاد رہے امریکی حکومت نے ایران کی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے خلاف بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ماہان ایئر کے طیارے فوجی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہیں۔
 
تہران سے بیروت جانے والی مذکورہ بالا پرواز ایک مسافر بردار طیارے کی صورت میں تھی۔ لہذا اسے جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی ملک پر عائد کردہ پابندیاں صرف امریکہ کے قانون کے تحت انجام پاتی ہیں اور بین الاقوامی قانون میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایران کا لبنان جانے والا مسافر بردار طیارہ جس وقت امریکی جنگی طیاروں کی جانب سے خطرے کا شکار ہوا شام کی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔ یعنی یہ طیارہ امریکہ کی فضائی حدود میں نہیں تھا۔ دوسری طرف اس کا فضائی روٹ اور پرواز تمام تر بین الاقوامی فضائی قوانین کے عین مطابق تھا۔ جبکہ شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے جنگی طیاروں کی موجودگی اس ملک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کے عین مخالف تھی۔
 
ایک ملک کے جنگی طیاروں کا غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہو کر تیسرے ملک کے مسافر بردار طیارے کو خطرے کا شکار کرنا ریاستی دہشت گردی کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ عراق میں اس کے جنگی طیارے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے تحت موجود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد داعش مخالف فوجی اتحاد کو نہ تو عالمی برادری اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی قانونی جواز حاصل ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اس اقدام کے بعض ممکنہ انتہائی خطرناک قسم کے اہداف بھی سامنے آ رہے ہیں۔ لبنان میں شام کے سفیر عدنان محمود نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دے کر ایرانی مسافر بردار طیارے کو میزائلوں کا نشانہ بنانا بھی ہو سکتا ہے۔
 
عدنان محمود نے کہا ہے: "میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کے حالیہ اقدام کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دینا تھا۔ امریکی جنگی طیارے چاہتے تھے کہ شام کا میزائل ڈیفنس سسٹم ان کی جانب میزائل فائر کرے اور وہ میزائل ایرانی مسافر طیارے کو آن لگیں۔ لہذا یہ اقدام ایک بین الاقوامی جرم قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو اس پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون توڑنے والی قوتوں کو اس سے پہلے کہ کوئی بڑی تباہی پھیلا دیں روکنے کی ضرورت ہے۔" لہذا ریاستی دہشت گردی کے بارے میں اپنی ہی تعریف کی رو سے امریکہ کا یہ اقدام ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
 
امریکہ گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف مختلف قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کا ارتکاب کرتا آیا ہے جن میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی دہشت گردی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ حکومت اندرونی سطح پر بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ ایسے اقدامات کے ذریعے اپنی عوام کی توجہ ملک سے باہر مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جنگی بحری جہازوں کے ذریعے ایران کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا۔ حالیہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ صرف ایسی صورت میں ہی کوئی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہے۔

Read 769 times