کشمیر میں بھارت اسرائیل کی راہ پر

Rate this item
(0 votes)
کشمیر میں بھارت اسرائیل کی راہ پر

تحریر: سید ثاقب اکبر

جب کبھی مسلمان خاص طور پر عرب فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بظاہر سنجیدہ تھے، بھارت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ اب فلسطینی حقوق کے دعویدار عرب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بھارت کو اسرائیل سے اپنے خفیہ مراسم اور دیرینہ آشنائی کو چھپانے کی کیا ضرورت پڑی ہے، لہذا بات اب سر بام آگئی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان تعلقات کا منحوس سایہ مسئلہ کشمیر اور اہلیان کشمیر کے حقوق پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو ایسے سنجیدہ موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ کشمیریوں کے بزعم خویش سفیر کے دور حکومت میں ہمارا وزیر خارجہ بھارتی استبداد اور کشمیر میں وحشیانہ اقدامات کے جواب میں قوم کو ایک منٹ کی خاموشی تجویز کر رہا ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد  پنبہ کجا کجا نہم

بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بھارت نے سترہ ستمبر 1950ء کو اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ممبئی میں اسرائیل کا ایک امیگریشن دفتر کھول لیا گیا، جس کا نام ٹریڈ اینڈ کونسلنگ سینٹر رکھا گیا۔ یہ دراصل اسرائیل کا سفارتخانہ تھا جسے سفارتخانے کا نام نہیں دیا گیا۔ اس زمانے میں اسرائیل کو سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت تھی کہ پوری دنیا سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں منتقل کیا جائے، چنانچہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی باشندوں کو بھارت سے اسرائیل کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ دہائی تک جاری رہا ہے، جب بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل بھجوائے گئے۔

 1992ء میں حالات کو سازگار پا کر دونوں ملکوں نے باقاعدہ سفارت خانے کھول لیے۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، انڈسٹری، تعلیم وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں لیکن سب سے اہم عسکری اور فوجی تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اس قدر اسلحہ خریدا ہے کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے برس بھی آئے کہ جب بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار قرار پایا۔ چنانچہ 2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاونڈ کے عوض راڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل خریدے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے میانمار کو بھی سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان مشقوں کی تفصیلات بہت حیران کن ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے گہرے تعلقات کا بیشتر حصہ اور تفصیلات پردہ اخفاء میں ہیں اور دونوں ملک بیشتر تزویراتی کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔

1999ء میں جب کارگل کا معرکہ پیش آیا تو اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 6.1 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسرائیل میں اسلحہ سازی کے 150 سے زیادہ کارخانے ہیں جو بھارت اور دیگر ملکوں کے آرڈرز کے مطابق دن رات اسلحہ تیار کرتے ہیں۔ 2006ء تک بھارت اسرائیل سے 4.4 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ 2013ء میں اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد بھارت آیا، جس سے بھارتی حکام نے اپنی افواج کی ٹریننگ اور ان کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا، تاہم اسرائیل کو یہ تشویش تھی کہ کہیں بھارت کے ذریعہ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایران منتقل نہ ہو جائے، جس کے لیے بھارت نے اسرائیل کو ہر طرح کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور ایران کے مابین اقتصادی معاہدوں کے ختم ہونے کے پیچھے امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا بھی ہاتھ ہو۔

دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بہت دیرینہ روابط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ را اور موساد 1968ء سے رابطے میں ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ مودی کے دور میں ہونے والے معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دونوں ملک ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ سے مقابلے کے لیے اسرائیل بھارتی کمانڈوز کو باقاعدہ تربیت دے رہا ہے۔ یادر رہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظلوم مسلمانوں اسلامی شدت پسند قرار دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

گذشتہ برس بھارت نے کشمیریوں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور پھر کشمیریوں کے خلاف جو پے در پے اقدامات کیے اسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، اہم ترین مناصب سے مسلمانوں کو ہٹا کر ہندوں اور سکھوں کو تعینات کرنا، مختلف حیلوں سے مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، سرکاری ملازمتوں میں غیر مسلموں کو ترجیح دینا، کشمیر میں کاروبار کو بھارت کے طاقتور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے سے کنٹرول کرنا، انتخابات کے لیے ایسی نئی حلقہ بندیاں کرنا جس سے غیر مسلموں کو زیادہ مواقع میسر آسکیں، مسلمان نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے اٹھا لینا، مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنا یہ سب اقدامات اسرائیلی ماڈل کا حصہ ہیں۔ کیا ان سب کے جواب میں پاکستانی قوم کو احتجاج کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بات تو کہ دی ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

Read 706 times