گذشتہ سے پیوستہ
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے بعد آپ کے جانشین حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت پر تاکید فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایران اسلامی کی مجموعی پالیسی اتحاد و اتفاق پر استوار ہے۔ آپ نے اپنے ایک خطاب میں سنی شیعہ اختلاف پھیلانے والی سامراجی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسان خدا، قرآن، پیامیر، نماز، کعبہ، حج اور دینی مسائل میں ہم عقیدہ ہیں، ان کے درمیان مشترکات بہت زیادہ اور اختلافات بہت کم ہیں۔ اگر یہ لوگ بہت زیادہ مشترکات کو نظرانداز کرکے چند اختلافات کو سامنے رکھ کر آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کر دیں تو اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا، ان طاقتوں کو جو اسلام، خدا، قرآن اور پیغمبر کے مکمل خلاف ہیں یا مسلمان طاقتوں کو جن کے درمیان اختلافات صرف چند فروعات تک محدود ہیں۔؟
رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں اسلامی وحدت سے مراد اسلام کے بارے میں مشترکہ فہم، مشترکہ صلاحیتوں اور گنجائشوں سے استفادہ اور دشمن کے مقابلے میں مشترکہ اتحاد و انسجام ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اسلامی وحدت کو ایک اسٹریٹجی سمجھتے ہیں نہ کہ ٹیکنیک۔ آپ ہمیشہ علماء، روشن خیال دانشوروں اور اسلام کی سیاسی و ثقافتی شخصیات کو پیغمبر اور قرآن کی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حبل اللہ سے متمسک ہونے کی تلقین فرماتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ سنی اور شیعہ کے دو مکتب ہیں اور دونوں کے پیروکار ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ وحدت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ سنی شیعہ ہو جائے اور شیعہ سنی۔ وحدت سے مراد باہمی اخوت و برادری ہے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ تفرقہ بازی اور تکفیریت نے اسلام کو سخت مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
سنی شیعہ سب ایک قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا قرآن ایک ہے، خدا واحد و یکتا کی عبادت کرتے ہیں اور رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی محبت دونوں کے قلوب میں موجزن ہے۔ آج دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کوشاں ہے، وہ اسلامی ممالک پر غلبہ پانے کے لیے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اتحاد و وحدت کی دعوت دینا ایک شرعی فریضہ ہے اور اس دعوت پر لبیک کہنا مسلمانوں کی عزت و سعادت کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کے لیے جہاں اور بہت سے مشترکات ہیں، ان میں سب سے اہم اور نمایاں رسول گرامی کی ذات مقدس ہے، جس پر تمام مسلمان مکاتب متفق اور متحد ہیں اور آپ کی ذات گرامی کو اپنے لیے آئیڈیل اور مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ رسول خدا کی ذات اقدس مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکتی ہے اور آپ کی ذات ہر دور کے انسان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن پاک بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوِئے کہتا ہے کہ مسلمانوں تم میں سے اس کے لیے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ آرٹیکل میں آپ کی مدنی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے انجام پانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کے ہم اصل موضوع پر آئیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول خدا نے ایک ایسے عالم میں جزیرۃ العرب میں خدا کا پیغام پہنچایا کہ وہ مکہ و مدینہ کا معاشرہ جاہلیت کے اندھِیروں میں گم تھا اور قبائل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ قبائل کے درمیان اختلافات برسوں پر محیط تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ نے مدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایا تو اس وقت مدینہ منورہ میں دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان قبائل جنگ عروج پر تھی اور جنگ کا یہ سلسلہ گذشتہ 128 برسوں پر مشتمل تھا۔
قبائل کے درمیان اختلافات کا سلسلہ اتنا طویل اور گمراہ کن تھا کہ حعفر ابن طالب نے حبشہ ہجرت کے موقع پر حبشہ کے بادشاہ کو مکہ و مدینہ کی معاشرتی صورت حال کو کچھ اس انداز سے بیان کیا۔ ہم ایسے افراد تھے کہ بتوں کی پوچا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، برے اعمال انجام دیتے تھے۔ رشتہ داروں سے قطع رحم کرتے، ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور عہد و پیمان کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے طاقتور کمزورں کا استحصال کرتے تھے۔ ہماری صورتحال اس طرح تھی کہ خدا نے ہمارے درمیان ایک نبی بھیجا۔ رسول نے ہمیں خدا کی طرف دعوت دی، تاکہ ہم اسے واحد و یکتا معبود قرار دیں اور اس کی عبادت کریں۔ رسول خدا نے اس طرح کے معاشرے میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اور برائیوں اور بدعنوانیوں میں گھرے معاشرے میں توحید، صداقت، سچائی اور باہمی امور کو مہر و محبت سے انجام دینے کا پیغام دیا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک معاشرے کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس معاشرے کی ثقافت اور ذہنیت کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ رسول خدا نے جاہل اور بت پرست معاشرے کو توحید کی طرف دعوت دی، قرآن بھی اس طرح دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن پاک سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں ارشاد فرماتا ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اور اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں نکال لیا اور اس طرح اپنی آیات بیان کرتا ہے کہ شاہد تم ہدایت یافتہ بن جائو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(2)
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے