پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اتوار یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جی بی کو عبوری صوبائی حیثیت اور آئینی حقوق دینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم پاکستان کا واضح لفظوں میں کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کیا واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں یہ اقدام موثر ہوگا؟ پاکستان کے پاس اس اقدام کے علاوہ کیا آپشن ہے۔؟ تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آگیا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔
گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ پاکستان حکومت کا گلگت بلتستان کو اس کی عوام کے دیرینہ مطالبے کے تحت عبوری صوبہ قرار دینا اسی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبوری کس لیے جبکہ بھارت اس کے مقابلے میں مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست میں ضم کرنے کا قانون پاس کرچکا ہے اور اس نے اس سلسلے میں مقبوضہ وادی میں اقدامات کو بھی تیز کر دیا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں فوجیں رکھنے اور اس کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دینے کا قانون اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے منافی ہے۔ 14-15 اگست 1947ء کو برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، چھوٹی آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اکتوبر 1947ء میں کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہوگئے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو ہندو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے، تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ کشمیر کے بہت سے علاقے مسلمانوں نے آزاد کروا لیے اور مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔ 5 فروری 1948ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔
اکتوبر 1950ء میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا، تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ 30 مارچ 1951ء اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے، ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 17-20 اگست 1953ء کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی، جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہوگئے، تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔
مارچ 1965ء کو بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا، جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہوگئے۔ 10 جنوری 1966ء کو بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہوگئے، جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے پر متفق ہوگئے۔ 2 جولائی 1972ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا، جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا، مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔ مارچ 1993ء میں سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔ 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا، جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔
اس دوران میں مقبوضہ وادی میں اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے بھارت نے متعدد سیاسی اور عسکری اقدامات کیے۔ مقبوضہ وادی میں پارلیمنٹ کا قیام وہاں انتخابات کا انعقاد، کٹھ پتلی حکمرانوں کی تعیناتی، آبادی کی منتقلی، جبر و تشدد، گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی کونسا ایسا حربہ ہے جو بھارتی ریاست نے مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے نہیں اپنایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے آزاد کشمیر کے انتظامات کو چلانے کے لیے وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اعلان کیا، جبکہ گلگت اور بلتستان کے علاقہ میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور اسی طرح کے قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا۔ گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کرکے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے، چونکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ افواج سے باقاعدہ جنگ لڑ کر اس علاقے کو آزاد کروایا تھا۔
کشمیری گلگت بلتستان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیئے، جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، حالانکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہوگی، جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔ شاید اسی لیے پاکستان ماضی میں مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔ آج جبکہ حکومت پاکستان نے ملک کی سلامتی اور مفادات کے مدنظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے اور مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو، ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ عبوری کے لفظ سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔
یہاں یہ سوال قابل ذکر ہے کہ عبوری صوبے کی حیثیت کیا پاکستان کے دیگر صوبوں جیسی ہوگی یا کچھ فرق ہوگا۔ کل یعنی اتوار کا روز گلگت بلتستان کی تاریخ میں اہم ہے، جب اس خطے میں پہلی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں جو قوت بھی برسر اقتدار آتی ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا۔؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ حیثیت کو ہی اس مسئلہ کا عملی حل سمجھا جائے، یعنی مقبوضہ وادی پر بھارت کا تسلط ہو اور آزاد کشمیر ایک نیم خود مختار ریاست کے طور پر کام کرے نیز گلگت بلتستان پاکستان میں ضم ہو کر اس کا صوبہ قرار پائیں۔ میرے خیال میں یہ سب عارضی حل ہیں، مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل استصواب رائے ہی ہے۔ اگر مقبوضہ وادی میں آبادی کا حق ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت سے اپنے الحاق کا فیصلہ کریں، اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے یہ فیصلہ عوامی انتخابات میں شرکت اور عملی سیاست کا حصہ بن کر دے دیا ہے۔ رہا سوال مقبوضہ وادی کا تو اقوام عالم کے سامنے عیاں ہے کہ وہاں ظلم و استبداد اور کرفیو کے سائے میں حکومتیں قائم کی گئیں جبکہ وہاں کی اکثریت آزادی مانگ رہی ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے کوشش کرنی ہے کہ مقبوضہ وادی کے لوگ بھی بزور بازو اپنی آزادی بھارت سے چھین لیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سوال ہے تو وہ ریکارڈ کے طور پر رکھنے کے لیے بہترین ہیں، ان سے بہرحال پاکستان
کے موقف کو ہی اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ایل او سی کی خلاف ورزی کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوامی انتخابات اور اس میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شمولیت کو نہیں چھپا سکتا۔
تحریر: سید اسد عباس