سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت اگرچہ کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اتر چکی ہے اور انھیں بجا طور پر ’’سردار دلہا‘‘ یعنی دلوں کا سردار کہا جاتا ہے، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ ابھی تک دنیا سردار قاسم سلیمانی کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہے۔ ایک عظیم عبقری اور روحانی شخصیت کے پرت رفتہ رفتہ ہی کھلتے ہیں اور پھر قرنوں پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ قاسم سلیمانی بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ شہید آیت اللہ سیدباقر الصدرؒ نے امام خمینیؒ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علیؑ ایک شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور چلے گئے بلکہ ایک شخصیت تھے جو آج بھی زندہ ہے۔‘‘ دنیا میں جب بھی بڑی شخصیات ظہور کرتی ہیں تو ان کے دمِ مسیحائی سے اور بھی بہت سے بڑے انسان ظاہر ہوتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے ساتھ اور ان کی تحریک کے نتیجے میں جس درجے کی بڑی شخصیات سامنے آئی ہیں، وہ عصر حاضر میں ہمارے اس دعوے کی دلیل ہیں۔ یہ سلسلہ ان کی قیادت میں آنے والے انقلاب کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔
ہم ماضی میں بھی ایسی بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں، تاہم اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے بالآخر وعدہ الٰہی کے مطابق پوری دنیا پر غالب آکر رہنا ہے، اس لیے بھی اس کی جامع تعلیمات کے نتائج مختلف صدیوں میں نکلتے رہے ہیں اور عالمی سطح کی بڑی شخصیات سامنے آتی رہی ہیں۔ آپ کے اہل بیت اطہارؑ اور عظیم المرتبت صحابہؓ کے بعد بھی اسلامی تاریخ میں نوابغ کی کمی نہیں رہی۔ البتہ جامع شخصیات کبھی کبھی سامنے آتی ہیں۔ سردار قاسم سلیمانی بہت جہت دار روشن دماغ، عمیق روح، عصری علوم سے آگاہ اور انسان دوست شخصیت ہونے کے اعتبار سے رفتہ رفتہ معرض شناخت میں آرہے ہیں۔ جہاد، استقامت، شہامت، منصوبہ بندی اور دشمن شناسی میں وہ پوری تاریخ کے کم نظیر جرنیلوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ شوق شہادت ان کے پورے وجود سے آشکار تھا، ان کی زندگی کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا دل اس شوق سے کبھی بھی خالی نہیں رہا اور اس شوق کے بغیر وہ کسی معرکے میں نہیں اترے۔
شاید ان افراد کو شمار نہیں کیا جاسکتا، جن سے انھوں نے اپنی اس تمنا کے پورا ہو جانے کے لیے ’’التماس دعا‘‘ نہ کہا ہو۔ انھوں نے کسی بڑی ہستی کی ضریح کو بوسہ دیتے ہوئے اپنی اس تمنا کے اظہار میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آخری دنوں میں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ یہی آرزو لیے کبھی کسی بڑی شخصیت کے پاس جاتے ہیں اور دعا کی التجا کرتے ہیں اور کبھی کسی دربار پر حاضر ہو کر مقام شہادت تک پہنچنے کے لیے فریاد کناں ہوتے ہیں۔ یہ آرزو اتنی پختہ، گہری، سچی اور عظیم تو تھی کہ آپ کو جو شہادت کا درجہء رفیعہ حاصل ہوا، وہ اپنی مثال آپ بن گیا۔ دنیا کے سب سے بڑے شیطان نے آپ کے قتل کا حکم صادر کیا اور پھر اس کا اعلان بھی کیا۔ چھوٹے چھوٹے شیطانوں کا کسی مجاہد کو قتل کرنے کا فیصلہ تو ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن مجاہد کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دور حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی قوت کا طاقتور ترین آدمی یہ اعلان کرتا ہے کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے دیا تھا۔
بعید نہیں کہ وہ جو وائٹ ہائوس سے چمٹا رہنا چاہتا ہے اور اس سے باہر نہ آنے کے لیے سو سو حیلے کرتا پھرتا ہے، اس پر اسلام کے اسی بطل جلیل کی شہادت نے خوف طاری کر رکھا ہو، جس کا وہ اظہار نہیں کرپا رہا اور ابھی وائٹ ہائوس میں مزید پناہ گزین رہنا چاہتا ہے اور امریکی صدر کو حاصل اختیارات اور سکیورٹی اپنی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اگر ہم تک ایران کے روحانی پیشوا جنھیں بجا طور پر ’’مرشد دلہا‘‘ کہا جاسکتا ہے کا خطبہ پہنچ گیا ہے، جو انھوں نے ’’سردار دلہا‘‘ کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک پروگرام میں دیا ہے تو ہم سے پہلے یقیناً وائٹ ہائوس کے پناہ گزین تک پہنچ چکا ہوگا، جس میں انھوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ جس شخص نے سردار قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا ہے، اس سے بدلہ لیا جائے گا۔
تحریر: ثاقب اکبر