لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے عرب نیوز چینل المنار کو دیئے گئے انٹرویو میں خطے کی تازہ ترین صورتحال اور عالمی تسلط کے استکباری نظام کی نئی سازشوں کے حوالے سے مفصل گفتگو کی ہے۔ عرب نیوز چینل المنار کے بانی و چیئرمین غسان بن جدو کو انٹرویو دیتے ہوئے سربراہ حزب اللہ سید حسن نصراللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت کے حوالے سے عیسائی برادری کو مبارک باد اور شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی، ابومہدی المہندس اور رفقاء کی پہلی برسی کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو تعزیت پیش کی۔
سید مقاومت نے امریکہ کے موجودہ صدر کی جانب سے آئندہ دنوں میں کسی فوجی اقدام کے انجام دیئے جانے کے امکان سے متعلق میزبان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو بڑائی کے پاگل پن میں مبتلا ہے، سے کسی بھی قسم کے اقدام کا ارتکاب بعید نہیں جبکہ یہ تمام بیانات مزاحمتی محاذ کے خلاف امریکی و اسرائیلی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس مدت کے دوران برپا کئے جانے والے شور شرابے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی خاص اقدام اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے باقی ماندہ ایام میں کوئی فوجی اقدام اٹھا لے البتہ.. اگر وہ اقتدار منتقل کرنا چاہتا ہو (جو بعید نظر آتا ہے)!
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کے رہنماؤں اور کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ خواب ہے جبکہ میرے خلاف ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی کے بارے بھی اپنے ذرائع کی جانب سے کئی مرتبہ انتباہ جاری کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل یا بعد؛ میری ٹارگٹ کلنگ امریکی و اسرائیلی اہداف میں شامل تھی جبکہ صدارتی انتخابات سے پہلے سے اس حوالے سے ان کی کوششیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ٹرمپ کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ حتی سعودی عرب بھی ان فریقوں میں شامل ہے جو مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ایک دورے کے دوران اس حوالے سے امریکیوں سے باقاعدہ درخواست بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب سالہا سال قبل، خصوصا یمن پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد سے مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کا آرزومند ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ، شہید عماد مغنیہ اور شہید محسن فخری زادہ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے برعکس اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے انجام دیا جانے والا کھلم کھلا اقدام تھا! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا اقدام صرف امریکہ کی جانب سے ہی انجام نہیں دیا گیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب بھی اس میں برابر کے شریک ہیں چاہے ان کی مشارکت اس حوالے سے واشنگٹن کو قائل کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک انسان دوست اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے جبکہ جو لوگ انہیں نہیں جانتے تھے وہ بھی ان سے انتہائی حد تک متاثر ہو جاتے تھے۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے، میں کئی مواقع پر، سخت دنوں میں، مشکل اور بہت زیادہ مسائل سے روبرو ہوتے ہوئے اور خوشی و غمی کے مواقع پر اُنہیں اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کی شہادت سے قبل ان کے لئے بہت پریشان رہتا تھا جبکہ اس حوالے سے میں نے انہیں بارہا خبردار بھی کیا تھا۔ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو گہرائی تک پہچاننے اور دوسروں کو ان سے متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شہید ابومہدی المہندس جنرل قاسم سلیمانی کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ایک تھے جبکہ اگر جنرل قاسم سلیمانی تنہاء شہید ہو جاتے تو ان کی شہادت کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شخصیت یقینا شہید ابومہدی المہندس ہی ہوتے کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریبی تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ میں شہید ابومہدی المہندس کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراقی وزارت عظمی کے لئے نامزد کئے گئے افراد میں سے ایک تھے تاہم انہوں نے میدانی جدوجہد کو حکومت پر ترجیح دی۔
سید مقاومت نے قدس شریف کی آزادی کے لئے انجام دیئے جانے والے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کی کھل کر حمایت کی اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں تمام فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو باہم متحد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار کا اہم پہلو؛ فلسطینی مزاحمتی گروپس کو اسلحہ پہنچانا اور انہیں میزائل و راکٹس کی تیاری کے لئے ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان کو روسی اینٹی ٹینک میزائل "کورنٹ" (9M133 Kornet) کی فراہمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی وزارت دفاع نے اپنے خرچ پر یہ میزائل روس سے خریدے جبکہ غاصب صیہونیوں کے ساتھ جنگ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے حزب اللہ لبنان نے ان میزائلوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی غزہ کے مزاحمتی محاذ کو بھی یہی میزائل دلوانے کے خواہاں تھے جبکہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو مسلح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
سید مقاومت نے امریکہ کے موجودہ صدر کی جانب سے آئندہ دنوں میں کسی فوجی اقدام کے انجام دیئے جانے کے امکان سے متعلق میزبان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو بڑائی کے پاگل پن میں مبتلا ہے، سے کسی بھی قسم کے اقدام کا ارتکاب بعید نہیں جبکہ یہ تمام بیانات مزاحمتی محاذ کے خلاف امریکی و اسرائیلی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس مدت کے دوران برپا کئے جانے والے شور شرابے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی خاص اقدام اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے باقی ماندہ ایام میں کوئی فوجی اقدام اٹھا لے البتہ.. اگر وہ اقتدار منتقل کرنا چاہتا ہو (جو بعید نظر آتا ہے)!
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کے رہنماؤں اور کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ خواب ہے جبکہ میرے خلاف ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی کے بارے بھی اپنے ذرائع کی جانب سے کئی مرتبہ انتباہ جاری کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل یا بعد؛ میری ٹارگٹ کلنگ امریکی و اسرائیلی اہداف میں شامل تھی جبکہ صدارتی انتخابات سے پہلے سے اس حوالے سے ان کی کوششیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ٹرمپ کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ حتی سعودی عرب بھی ان فریقوں میں شامل ہے جو مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ایک دورے کے دوران اس حوالے سے امریکیوں سے باقاعدہ درخواست بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب سالہا سال قبل، خصوصا یمن پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد سے مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کا آرزومند ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ، شہید عماد مغنیہ اور شہید محسن فخری زادہ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے برعکس اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے انجام دیا جانے والا کھلم کھلا اقدام تھا! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا اقدام صرف امریکہ کی جانب سے ہی انجام نہیں دیا گیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب بھی اس میں برابر کے شریک ہیں چاہے ان کی مشارکت اس حوالے سے واشنگٹن کو قائل کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک انسان دوست اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے جبکہ جو لوگ انہیں نہیں جانتے تھے وہ بھی ان سے انتہائی حد تک متاثر ہو جاتے تھے۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے، میں کئی مواقع پر، سخت دنوں میں، مشکل اور بہت زیادہ مسائل سے روبرو ہوتے ہوئے اور خوشی و غمی کے مواقع پر اُنہیں اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کی شہادت سے قبل ان کے لئے بہت پریشان رہتا تھا جبکہ اس حوالے سے میں نے انہیں بارہا خبردار بھی کیا تھا۔ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو گہرائی تک پہچاننے اور دوسروں کو ان سے متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شہید ابومہدی المہندس جنرل قاسم سلیمانی کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ایک تھے جبکہ اگر جنرل قاسم سلیمانی تنہاء شہید ہو جاتے تو ان کی شہادت کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شخصیت یقینا شہید ابومہدی المہندس ہی ہوتے کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریبی تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ میں شہید ابومہدی المہندس کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراقی وزارت عظمی کے لئے نامزد کئے گئے افراد میں سے ایک تھے تاہم انہوں نے میدانی جدوجہد کو حکومت پر ترجیح دی۔
سید مقاومت نے قدس شریف کی آزادی کے لئے انجام دیئے جانے والے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کی کھل کر حمایت کی اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں تمام فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو باہم متحد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار کا اہم پہلو؛ فلسطینی مزاحمتی گروپس کو اسلحہ پہنچانا اور انہیں میزائل و راکٹس کی تیاری کے لئے ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان کو روسی اینٹی ٹینک میزائل "کورنٹ" (9M133 Kornet) کی فراہمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی وزارت دفاع نے اپنے خرچ پر یہ میزائل روس سے خریدے جبکہ غاصب صیہونیوں کے ساتھ جنگ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے حزب اللہ لبنان نے ان میزائلوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی غزہ کے مزاحمتی محاذ کو بھی یہی میزائل دلوانے کے خواہاں تھے جبکہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو مسلح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔