حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری سید حسن نصراللہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے نیوز چینل پریس ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: شہید قاسم سلیمانی مکتب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پروردہ تھے۔ میری شہید قاسم سلیمانی سے پہلی ملاقات تقریبا بیس سال پہلے ہوئی وہ ہمیشہ دوستوں کی ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ جہادی موضوعات پر گفتگو کو توجہ سے سنتے تھے۔ وہ خود بھی ہمیشہ میدان جہاد میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ اس خصوصیت کی وجہ سے میدان میں جنگ میں بہت زیادہ کامیاب جرنیل تھے۔
انہوں نے مزید کہا: شہید قاسم سلیمانی کی اچھی خصوصیات میں سے ایک ان کا حسن سلوک تھا۔ وہ ہمیشہ مجاہدین کے حامی اور ان سے محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے اخلاق سے یہاں کے افسران بہت متأثر تھے۔ وہ سب کی آراء اور نقطہ نظر کو سنتے تھے اور صرف ان کے دفتر میں جاکر ان سے ملاقات کرنے والوں کے نقطۂ نظر پر ہی اکتفا نہیں کیا کرتے تھے۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: وہ صرف کمانڈروں کی جانب سے انہیں موصول ہونے والے تحریری اسناد پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ خود میدان جنگ میں جاتے اور اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرتے اور مختلف سطح کے لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ خصوصیت صرف شہید قاسم سلیمانی کی ہے۔ جو دوسرے کمانڈروں میں بہت کم پائی جاتی ہے۔البتہ ایران میں تمام بڑے کمانڈرز آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں مجاہدین اور سپاہیوں سے ملاقات کے لیے خود جایا کرتے تھے لیکن اس طرح کا طرز عمل ایران سے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔
انہوں نے مزید کہا: شہید قاسم سلیمانی کی ایک اور خصوصیت ان کا انتھک ہونا تھا۔ ہم سب ممکن ہے تھک جائیں اور احساس کریں کہ مشکلات نے ہمیں بہت زیادہ دباؤ میں ڈال رکھا ہے لیکن شہید قاسم سلیمانی کبھی کام اور جدوجہد سے ہاتھ نہیں کھینچتے تھے بلکہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں ان کا صبر و استقامت بہت زیادہ تھا۔ یہ میں مبالغہ نہیں کر رہا۔ اب تک میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا ہے کہ جو شہید قاسم سلیمانی کی طرح مشکلات کا مقابلہ کرے ۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا وہ بہت جدوجہد کرنے والی شخصیت تھے۔
شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ وقت سے بھرپور استفادہ کریں۔ شہید قاسم سلیمانی بے مثال تھے۔ وہ معمولی افراد سے بھی بہت عاجزی سے پیش آیا کرتے تھے۔ یہ مکتب قاسم سلیمانی کی ایک جھلک ہے۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: مکتب شہید سلیمانی یعنی خطرات سے کھیلنا۔ انہیں ہر لمحے موت کا خطرہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر ہوتے تھے۔ میں ہمیشہ اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کرتا تھا اور میری کوشش ہوتی تھی کہ انہیں فرنٹ لائن سے پیچھے لے کر آؤں لیکن ہم میں کوئی بھی انہیں فرنٹ لائن سے پیچھے نہیں لا سکا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: شہید قاسم سلیمانی پر خطر اور سخت دنوں میں بھی مشکلات کو بہت زیادہ تحمل کیا کرتے تھے مثلا اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ کے موقع پر وہ جنوری ۲۰۰۶ء کو تہران سے دمشق پہنچے ۔انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ جنوبی لبنان آنا چاہتے ہیں۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی سے کہا: آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ان حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔ تمام پل اور سڑکیں بند ہیں۔ اسرائیلی جہاز ہر ہدف پر حملہ کر رہے تھے اور ایک مکمل جنگ کی کیفیت تھی۔ کوئی بیروت یا جنوب لبنان نہیں آ سکتا تھا لیکن شہید قاسم سلیمانی کا اصرار تھا کہ اگر آپ گاڑی نہیں بھیج سکتے تو میں تنہا آ جاؤں گا۔ ان کا بہت زیادہ اصرار ہی تھاکہ آخر کار وہ لبنان پہنچ گئے۔
انہوں نے کہا: ۳۳ روزہ جنگ میں شہید قاسم سلیمانی نے ہماری بہت زیادہ مدد کی اور عراقی کمانڈرز ہمیں بتا رہے تھے کہ تکفیری داعشیوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ عراقی اور شامی فوجیوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر موجود ہوا کرتے تھے۔ یہ شہید قاسم سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت ہے۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکتب شہید قاسم سلیمانی کا سرچشمہ مکتب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی رہنمائی اور دفاع مقدس کا تجربہ ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا: جنگ کے ابتدائی دنوں میں شہید قاسم سلیمانی کی لبنان میں موجودگی بہت زیادہ اہم تھی۔ وہ تہران میں بیٹھ کر بھی جنگ کی اخبار کا مطالعہ کیا کر سکتے تھے یا دمشق جاکر نزدیک سے جنگ کی صورتحال کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ ان دنوں میں دمشق اسرائیلی حملوں سے محفوظ تھا لیکن شہید قاسم سلیمانی کا اصرار تھا کہ وہ ہر صورت میں لبنان آئیں گے۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکریٹری نے کہا: جب شہید قاسم سلیمانی لبنان پہنچے تو ایک میٹنگ ہوئی۔ وہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں لبنان پہنچے تھے۔ میٹنگ کے بعد وہ چند دنوں تک لبنان میں رہے اور پھر تہران واپس لوٹے تاکہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کو جنگ کے متعلق رپورٹ دے سکیں حالانکہ ان دنوں تہران واپس جانا بھی بہت خطرناک تھا۔
میں پھر کہتا ہوں کہ وہ اس بار بھی تہران یا دمشق رہ سکتے تھے لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ لبنان ہی لوٹ کر جائیں گے اور پھر وہ جنگ کے آخری دنوں تک لبنان میں رہے۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: جب شہید قاسم سلیمانی تہران سے لبنان واپس لوٹے تو اپنے ساتھ ہمارے لئے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام لائے تھے جو خود قاسم سلیمانی کے ہاتھوں سے لکھا ہوا تھا۔
اس پیغام کا متن اس طرح تھا کہ یہ جنگ بہت سخت اور شدید ہوگی اور اس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ ۳۳ روزہ جنگ خندق (احزاب) کے مشابہہ ہے۔ اور رہبر انقلاب اسلامی نے جنگ احزاب کے متعلق کچھ قرآنی آیات بھی اس پیغام میں ذکر کیں۔ انہون نے اس پیغام میں یہ پیشین گوئی بھی کی کہ یہ جنگ سخت اور شدید ہوگی جس میں کامیابی ہماری ہوگی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم بہت خوش تھے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے انتہائی یقین سے ہماری کامیابی کی نوید سنائی ہے جبکہ پوری دنیا کہہ رہی تھی کہ کیسے ممکن ہے کہ حزب اللہ امریکہ یورپ اور بعض عرب ممالک کی جانب سے اس جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے باوجود ثابت قدمی دکھا پائے گی۔ لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے فرما دیا تھا کہ اس جنگ میں فتح و کامرانی ہمیں نصیب ہوگی بس ہمیں ثابت قدم رہنا تھا اور خدا پر توکل کرنا تھا۔ یہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے بہت اہم پیشن گوئی تھی اور اس سے بھی اہم یہ کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس جنگ میں فتح کے بعد ہم خطے کی بہت بڑی طاقت میں تبدیل ہو جائیں گے کہ خطے میں کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہ کرسکے گی اور ہمیں شکست نہیں دے سکے گی۔
انہوں نے آخر میں کہا: زندگی میں مجھے خدا نے بہت ساری نعمتوں کے ساتھ ساتھ ایک نعمت شہید قاسم سلیمانی سے آشنائی کی صورت میں عطا کی۔ میں ہمیشہ آمادہ تھا کہ اپنی جان شہید قاسم سلیمانی پر فدا کردوں۔