صرف دوستوں کو نہیں، وہ دشمنوں کو بھی یاد رہے گا۔ دوست اس کے کردار کی عظمت کا تذکرہ کریں گے تو دشمن اس کے کردار سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا اظہار کرتے رہیں گے، وہ بغض سے بھرے ہوئے کچھ لوگوں کو بھی یاد رہے گا۔ وہ سادہ سا آدمی تھا، اسے محلات سے رغبت نہیں تھی، نہ ہی دولت سے الفت تھی۔
اسے عہدوں کی چاہت نہیں تھی نہ اشرفیوں کا لالچ تھا، وہ آخری وقت تک اپنے مشن پر ڈٹا رہا، دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ جب تک وہ زندگی کے کردار میں تھا، اس وقت تک اسرائیل نہ پَر پھیلا سکا، نہ اُس کے پائوں بڑھے۔ اس شخص کے ہوتے ہوئے امریکی منصوبے خاک میں ملتے رہے، اسرائیل خوفزدہ رہا
اس نے مشرق وسطیٰ میں دشمن کی ساری چالوں کو روند کر رکھ دیا تھا، وہ دشمن کے ارادوں پر پانی پھیر دیتا، ان کے ارادے خاک میں ملاتا، ان کے خواب چکنا چور کر کے رکھ دیتا۔ وہ دشمن کی تمام تر منصوبہ بندیوں کو ریت کی دیوار بنا دیتا۔ دوست اس پر ناز کرتے تھے، وہ دوستوں کا نگران ہی نہیں نگہبان بھی تھا، اس نے زندگی بھر مظلوموں کی مدد کی، وہ حق پر رہا اور حق پر رہنے والوں کی مدد کرتا رہا۔
بلا کا ہوشیار، ہر وقت متحرک اور چوکس رہتا تھا، وہ صرف فارسی بولنے والوں ہی کا نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کا ہیرو تھا۔ اس کے عاشق، چاہنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، اس سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
سو عاشقو، دوستو، دشمنو! اس شخص کا نام قاسم سلیمانی شہید ہے۔ مجھے آج اس کے بارے میں یہ سب باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ گزشتہ سال تین جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے باہر اسے ابو مہدی المہندس سمیت شہید کر دیا گیا تھا، اس کی شہادت نے اس کے چاہنے والوں کو غمزدہ کیا، پورا خطۂ عرب غم میں ڈوب گیا مگر اس کے دشمنوں کے لئے یہ چین کا لمحہ بن گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے قاسم سلیمانی کو شہید کر کے اپنے منصوبوں کی راہ میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹا دیا ہے۔
پرسوں اتوار کے دن تین جنوری ہے۔ اس روز قاسم سلیمانی کے چاہنے والے اسے محبت سے یاد کریں گے اور اس کے دشمن اسے ’’بڑی رکاوٹ‘‘ کے طور پر یاد کریں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے صرف دوست یاد کریں بلکہ اسے سب یاد کریں گے۔ وہ عاشقوں، دوستوں اور دشمنوں میں زندہ رہے گا۔ یہی فلسفۂ شہادت بھی ہے کہ شہید زندہ رہتا ہے۔
قاسم سلیمانی خفیہ آپریشنوں کا بہترین کمانڈر تھا، اس نے امریکی سامراج کو مشرق وسطیٰ میں ناکوں چنے چبوائے۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے منصوبوں پر پانی پھیرنے والے قاسم سلیمانی نے خطۂ عرب میں مسلمانوں کے انقلابی گروپوں کی بہت مدد کی، اسی مدد سے وہ گروپ کھڑے رہے، لڑتے رہے، دشمنوں کے قدموں کو روکتے رہے۔
وہ ایرانی ضرور تھا مگر اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ عرب نوجوانوں کا ہیرو تھا، اس نے امریکی منصوبوں کے خلاف منصوبہ بندیوں میں شیعہ سنی کا خیال نہیں کیا، جدوجہد میں مصروف کئی سنی گروپوں نے اس کی مدد سے دشمن کو زیر کیا۔ وہ ایک سچا مسلمان تھا، ایسا مومن جسے مظلوم سے محبت اور ظالم سے نفرت تھی۔
صرف نفرت نہیں بلکہ دشمنی تھی۔ شام، لبنان، فلسطین اور یمن کے بچے اسے سایہ تصور کرتے تھے۔ عراقی، لبنانی اور فلسطینی نوجوان اسے مددگار سمجھتے تھے جبکہ ان ملکوں میں بسنے والی عورتیں اور بزرگ اسے ایک بہادر مسلمان کمانڈر کے طور پر دیکھتے تھے۔
ایران میں تو اس کی ہر دلعزیزی عام تھی۔ گیارہ مارچ 1957ء کو کرمان میں پیدا ہونے والے قاسم سلیمانی نے قدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ کے طور پر کئی یادگار کارنامے سرانجام دیئے۔ ایرانی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی طرف سے ’’شہید زندہ‘‘ کا خطاب پانے والے قاسم سلیمانی کی پوری زندگی عسکری جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔
اس کے حصے میں کئی جنگیں آئیں، وہ ایک پُرعزم مسلمان مجاہد کے طور پر ان جنگوں میں سرخرو ہوا۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ کی مدد کی اور جنوبی لبنان سے اسرائیل کو پسپا کیا۔ اس نے صدام حسین کے بعد عراق کی سیاسی و سفارتی فضا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
اس نے عراق اور شام میں داعش کو شکست دی۔ داعش سے مقابلے کے دنوں میں ایرانی حکومت نے قاسم سلیمانی کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر شائع کیں تو لوگ ان کا ’’چہرہ‘‘ پہچاننا شروع ہوئے ورنہ اس سے پہلے لوگ صرف اس کے نام سے واقف تھے۔ امریکی حکمران اسے امریکی فوجیوں کا قاتل سمجھتے تھے، امریکیوں کے نزدیک اس پورے خطے میں امریکی فوجیوں کو سب سے زیادہ نقصان قاسم سلیمانی نے پہنچایا۔
خواتین و حضرات! قاسم سلیمانی شہید کی قوت کو نہ بھولنا کہ اسے گئے ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے تھے کہ اسرائیل نے پَر پھیلانا شروع کر دیئے، ابھی اسے شہید ہوئے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا کہ بہت سے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
کئی ملکوں نے کاروبار کے لئے اسرائیل کو چن لیا ہے، کئی ملک اسرائیل کے دفاعی اتحادی بن گئے ہیں، پاکستان اور ایران، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ صرف انکاری نہیں بلکہ اسے غاصب اور ظالم سمجھتے ہیں۔
دونوں ملکوں کو دبائو کا سامنا ہے مگر دونوں نے دبائو کو گھاس نہیں ڈالی۔ قاسم سلیمانی کو پاکستان سے بھی خاص محبت تھی، ایک پاکستانی جرنیل، قاسم سلیمانی کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا جب اس نے کہا کہ ’’اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم خون دیں گے‘‘۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ قاسم سلیمانی کی کچھ ٹریننگ ارضِ پاک پر ہوئی تھی۔ تین جنوری کا دن ہمارے سامنے ایک سوال ضرور رکھتا ہے کہ آج اگر قاسم سلیمانی زندہ ہوتا تو کیا اسرائیل اس طرح پَرپھیلا سکتا تھا؟ امریکی منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو سکتا تھا؟ یہ اہم سوال عربوں اور مسلمانوں کو قاسم سلیمانی شہید کا کردار فراموش نہیں کرنے دیتا۔ بقول اقبالؒ ؎
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزئہ فن کی ہے خون جگر سے نمود