گذشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی حالات میں بڑی تیزی کیساتھ تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے اپنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے بالادستی اور تسلط کی روش اختیار کی۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ کے باوجود مزاحمتی گروہوں کی جانب سے شکست کے بعد امریکہ کے پاس خطہ سے نکلنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، خطہ میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنے کی خاطر امریکہ نے داعش کے ذریعے عراق اور شام پر حملہ کروایا، جس میں سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کی مدد شامل تھی، جبکہ دوسری طرف صیہونی ریاست ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرحدوں کو توسیع دینے کی خاطر اس منصوبہ میں شامل رہی۔
دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر داعش کو بظاہر امریکہ بھی خطرہ قرار دے رہا تھا اور سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے اس دہشتگرد تنظیم کے خاتمے کیلئے اربوں ڈالرز اور 25 سال کے عرصہ کا تخمینہ لگایا۔ یہاں امریکہ ایک مرتبہ پھر اتحادی ممالک کے ہمراہ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہا تھا۔ اس تمام تر صورتحال میں ایران اور اس کی اتحادی مقاومتی قوتوں نے حالات کی نزاکت، دشمن کی خطرناک منصوبہ بندی اور خطہ پر تسلط کے مزموم ارادوں کو بھانپتے ہوئے بروقت میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور شام و عراق میں کئی ممالک سے جمع کئے گئے دہشتگردوں (داعش) کا راستہ روکنے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ اس تمام تر جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی باگ دوڑ اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھ میں تھی۔
جب کوئی بیرونی حملہ آور آپ کے گھر یا شہر پر حملہ آور ہو تو آپ کو اپنے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے کہ آپ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہر قسم کی دفاعی حکمت عملی اپنائیں اور یہی کام مقاومتی بلاک نے کیا۔ داعش کے اس فتنہ میں چین اور روس بھی امریکی رویہ سے نالاں تھے۔ اس سارے کھیل میں امریکہ کا مقصد طاقت کے توازن کا ایشیاء میں شفٹ سے روکنا، خطہ میں اپنے کمزور ہوتے اتحادیوں کو قدرت مند بنانا، چین، روس اور ایران کو کنٹرول کرنا، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کا قتل عام تھا۔ تاہم جنرل قاسم سلیمانی نے خطہ کے مختلف ممالک کے دورہ جات کئے اور وہاں مسلح گروہوں کو داعش اور جارح طاقتوں کو کیخلاف منظم کیا۔ شہید سلیمانی وہ واحد سپاہ سالار تھے، جو اگلے مورچوں پر خود لڑنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا مقصد خطہ سے بیرونی طاقتوں کا انخلا، دہشتگردی کا خاتمہ اور بلاتفریق مسلک و مذہب بے گناہ انسانی جانوں کا تحفظ تھا، جس میں گزرتے وقت کیساتھ ساتھ وہ کامیابی سے آگے بڑھتے رہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو منصوبہ امریکہ جیسے عیار دشمن نے انتہائی خطیر بجٹ، جدید اسلحہ، افرادی قوت اور کئی اتحادی ممالک کے مکمل تعاون کیساتھ ترتیب دیا تھا، اسے اتنے کم عرصہ میں خاک میں ملا دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ عالم اسلام کے اس شجاع، بہادر، بابصیرت، متقی، سمجھدار، ہوشیار کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کیوجہ سے ہی ممکن ہوا۔ جو کامیابیاں قاسم سلیمانی دشمن کیخلاف حاصل کرچکے تھے، ان کو دیکھا جائے تو ایسے انمول ہیروں کو دشمن جلد اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں، لیکن خدا نے ایسے مجاہدوں سے جس طرح اور جب تک کام لینا ہو، وہ لیتا ہے۔
امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو متعدد مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی، تاہم ناکام رہا۔ آخر کار گذشتہ سال 3 جنوری کی علی الصبح جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے قریبی ساتھی ابو مہدی المہندس اور دیگر رفقاء کے ہمراہ بغداد ائیرپورٹ پر ایک بزدلانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا۔ اب یہاں موضوع بحث یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس خطہ کا کیا مستقبل ہوگا۔؟ یہاں اگر یوں کہا جائے کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنے کام سے زیادہ کر گئے تو غلط نہ ہوگا، عراق کی بات کی جائے تو وہاں حشد الشعبی، کتائب حزب اللہ جیسی دیگر مزاحمتی گروہوں اور تنظیموں کو اس حد تک مضبوط کر دیا گیا ہے کہ وہ آج امریکہ کو دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ عراق سیاسی لحاظ سے بھی ماضی کے مقابلہ میں بہت منظم ہوچکا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اسرائیل سمیت خطہ کی نادیدہ قوتوں کیخلاف کسی موت کے پیغام سے کم نہیں۔
یمن پر حملہ آور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کیلئے وہاں موجود حوثی قبائل اور انصار اللہ درد سر بنے ہوئے ہیں، درحقیقت آل سعود کو وہاں شکست ہوچکی ہے، جس کا صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ شام کی بات کی جائے وہاں بشار الاسد کی حکومت اور فوج آج ایک مستحکم پوزیشن میں ہے، افغانستان میں طالبان اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کو بیدخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ طاقت کا توازن چین کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اسی طرح مقاومتی بلاک کے بانی اسلامی جمہوریہ ایران کو گو کہ جنرل سلیمانی اور محسن فخری زادے جیسے سپوتوں سے محروم ہونا پڑا، مگر عالمی امن کی خاطر ایران کی یہ انمول قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ جنرل قاسم سلیمانی نے شہادت کے باوجود خطہ کا مستقبل پرامن بنا دیا ہے، تاہم ان کے جانشین جنرل اسماعیل قآنی، ایرانی حکومت، مقاومتی و مزاحمتی تنظیموں کے کندھوں پر اب بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی قیادت میں مظلومین جہاں کی آواز بنتے ہوئے استعماری و استکباری طاقتوں کے عزائم ہمیشہ کیلئے خاک میں ملانے کیلئے ’’سلیمانی سفر‘‘ کو جاری رکھیں۔
جنرل سلیمانی کے بعد خطہ کا مستقبل
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے