بہت نایاب ہوتی ہیں ایسی شخصیات کہ جو اپنی زندگی کے ہر پہلو سے اتنی مکمل ہوں کہ انہیں بیان کرنے کیلئے ذخیرہ الفاظ کم پڑ جائے۔ خطاب و مراتب کے سابقے، لاحقے ان کے سامنے پست محسوس ہوں اور ان کی مثال یا نعم البدل ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ انہی نایاب شخصیات میں سے ایک شخصیت شہید حاج قاسم سلیمانی کی ہے کہ جو ہر پہلو سے اتنی مکمل اور کامیاب ہے کہ عصر حاضر میں ڈھونڈے سے بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ مستقبل سے متعلق یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نعم البدل صدیوں میں بھی میسر ہو تو عالم اسلام کیلئے انعام الہیٰ شمار ہوگا جبکہ عہد ماضی میں کھوج کریں تو فقط کربلا والوں میں ایسی شخصیات ملتی ہی کہ سالار زندہ قاسم سلیمانی کو جن کی مثال قرار دیا جا سکے۔
3 جنوری 2020ء عصر حاضر کے شیطانی لشکر (امریکہ) نے اپنے بزدلانہ اور مخفی حملے میں کربلائے وقت کے سپہ سالار حاج قاسم سلیمانی کو بغداد میں شہید کیا۔ جائے شہادت کی ابتدائی تصاویر میں تن سے جدا ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر جو پہلی شخصیت ذہن میں آئی وہ سالار کربلا حضرت عباس علمدار (ع) کی تھی۔ دونوں شخصیات کے میدان جنگ کے حالات اور شہادت کے واقعات میں بھی ربط دکھائی دیتا ہے۔ حضرت عباس علمدار (ع) جس لشکر کے سپہ سالار تھے، وہ لشکر کسی خاص ریاست، ملک یا خطہ زمین سے متعلق نہیں تھا بلکہ اہل اسلام کا وہ نمائندہ قافلہ تھا کہ جو آل رسول (ع) اصحاب رسول پہ مشتمل تھا۔ تاریخ اسے حسینی لشکر کے نام سے یاد رکھتی ہے جبکہ اس لشکر میں مختلف قبائل، اقوام اور خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے حسینی موجود تھے۔
کئی عزیز از جاں سپاہی حضرت عباس علمدار کی نظروں کے سامنے بیدردی سے شہید ہوئے مگر اس سپہ سالار کے عزم میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ ہی دشمن کی تعداد و ہیبت سے مرعوب ہوئے بلکہ ظاہری طاقت کے اعتبار سے کئی گنا بڑے یزیدی لشکر پہ حضرت عباس کا رعب طاری تھا۔ تاریخ کربلا گواہ ہے کہ شہدائے کربلا کی لاشوں پہ مختلف عزیز و اقارب کے گریہ و نوحے ملتے ہیں، مگر کسی شہید کی لاش پر حضرت عباس کا کوئی گریہ یا نوحہ نہیں ملتا۔ سامنے لاکھوں کے لشکر کو چیر کر فرات کے کنارے پر حسینی پرچم نصب کرکے تمام یزیدی لشکر پر اپنے غلبے کا ثبوت پیش کرنے والے حضرت عباس علمدار (ع) کو جب دشمن نے اپنے بزدلانہ مخفی حملے میں نشانہ بنایا تو سالار کربلا کا جسم اطہر خاک کربلا پہ ٹکڑوں کی صورت بکھرا پڑا تھا۔
سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی بھی ایسے لشکر کے سپہ سالار تھے کہ جو کسی خاص علاقے، قوم، ملک سے متعلق نہیں بلکہ عالم اسلام کی محافظت کی غرض سے ہر میدان میں ہمہ وقت موجود ہے۔ یہ عالم اسلام کا وہ نمائندہ لشکر ہے کہ جو قبلہ اول، بیت المقدس سمیت پورے عالم اسلام کو یہود و نصاریٰ کے پنجہ استبداد سے محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر میں مصروف جنگ ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا براہ راست شیطان بزرگ امریکہ سے ہے۔ (ایران، عراق، شام)۔ کہیں یہ لشکر عالم اسلام اور اہل اسلام کے سینوں میں خنجر کی مانند پیوست ناجائز اور غیر قانونی قوت اسرائیل سے حزب اللہ کی صورت برسرپیکار ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا اسلام کے نام پہ امریکہ و اسرائیل ساختہ دہشتگرد تنظیموں (داعش، جبہة النصرہ،جنداللہ وغیرہ) سے اور کہیں یہ لشکر یہود و نصاریٰ کے ہم نوالہ، ہم پیالہ اور نمک خواروں سے اپنی سرزمین کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہے۔ جس طرح اہل یمن 34 ملکی جنگی اتحاد کے جارحانہ دہشتگردانہ زمینی و فضائی حملوں کا سامنا کرنے پہ مجبور ہیں۔
اس سپہ سالار کی جنگی ڈاکٹرائن ملاحظہ فرمائیں کہ ہر میدان میں اس کا پالا اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر سے ہے۔ جو ہتھیاروں، جنگی ساز و سامان، حربی آلات، افرادی قوت اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر پھر بھی اس سپہ سالار کی تدابیر سے عاجز ہے۔ شہید قدس، سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی گرم جنگی محاذ پر اگلے مورچوں پہ رہ کر اپنے جوانوں کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف لڑتے۔ مشکل سے مشکل محاذ پر ان کی موجودگی فتح کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اس دوران ان کے عزیز از جان کئی پیارے ساتھی ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے، کئی ساتھیوں نے ان کے ہاتھوں میں جام شہادت نوش کیا، مگر کسی شہادت نے انہیں کبھی مغموم نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک شہادت ایک ایسا رتبہ تھا کہ جو ہر مجاہد کو میسر رتبے سے بھی کئی درجہ اعلٰی و ارفع تھا۔
وہ خود شہادت کے شیدائی تھے، شہداء کا تذکرہ اس شوق و محبوبیت سے کرتے کہ ان کی ایک ایک گفتگو گھنٹوں پہ محیط ہوتی۔ شہید حسین ہمدانی کی یاد میں منعقدہ تقریب سے انہوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے شہید ہمدانی کی شخصیت و کردار اور میدان جنگ کے حالات و شہادت پہ گفتگو کی۔ اس گفتگو میں حاج قاسم سلیمانی کہتے ہیں کہ ''شہادت کے دن وہ بہت ہی ہشاش بشاش تھے اور ہنس رہے تھے، بہت زیادہ۔ انہوں نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ آو ہم دونوں ایک ساتھ ایک تصویر بنواتے ہیں، شاید یہ تمہارے ساتھ میری آخری تصویر ہو۔ وہ ایسی طبیعت کے مالک نہیں تھے کہ کسی چیز پر اصرار کریں یا کسی سے اپنی یا کسی اور شخص کی تصویر بنانا چاہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ اشعار آئے''
رقص و جولان بر سر میدان می کنند
وہ میدان میں رقص کرتے ہیں اور جھومتے ہیں
رقص اندر خون خود مردان می کنند
مرد اپنے خون میں رقص کرتے ہیں
چون رہند از دست خود دستی زنند
جب وہ اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں
چون جہند از نقص خود رقصی کنند
جب وہ اپنے نقائص سے آزاد ہوتے ہیں تو رقص کرتے ہیں
یہ حالت ایک بہت ہی خوبصورت حالت ہے جو قطرہ سمندر سے متصل ہو جاتا ہے قطرہ نہیں رہتا سمندر بن جاتا ہے، میں نے یہ تالیاں اور رقص اس شہید میں دیکھا ہے، یہ پرواز کی حالت، یہ اشتیاق کی حالت، یہ عروج کی حالت۔'' شہادت کا ایسا والہانہ اصرار سالار زندہ شہید حاج قاسم سلیمانی کی گفتگو کے سوا کہیں نہیں ملتا۔
کئی سو گنا بڑے طاقتور دشمن کے سامنے پوری تمکنت کے ساتھ قیام سالار زندہ قاسم سلیمانی کا خاصہ تھا۔ ان کی حربی تدبیروں کے سامنے یہ طاقتور دشمن کس طرح ڈھیر ہوتے رہے، اس کا اندازہ ان دو تاریخی واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 33 روزہ جنگ میں اسرائیل دنیا کے جدید ترین ''مرکاوا ٹینکس'' کے ساتھ جنوبی لبنان میں داخل ہوا۔ اسرائیلی افواج کی پیشقدمی اتنی تیز اور جارحانہ تھی کہ دنیا بھر کے جنگی تجزیہ کار لبنان کو نئی صہیونی کالونی قرار دیئے بیٹھے تھے، مگر یک لخت قاسم سلیمانی حکمت عملی نے پانسہ پلٹ دیا۔ وہی مرکاوا ٹینکس کہ جو اپنے عملے کو ایٹمی اثرات سے بھی محفوظ رکھنے کی استعداد رکھتا ہے، لبنان کے صحراؤں میں مٹی کے ڈھیر بن گئے۔ داعش جنونی وحشی دہشتگردانہ قوت کے طور پر یک لخت ابھری اور برق رفتاری سے سرحدی حد بندیوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی۔ آگے کیوں نہ بڑھتی شیطان بزرگ امریکہ اور ناجائز صہیونی قوت اسرائیل کی فضائی، خلائی اور تکنیکی مدد اسے حاصل تھی۔
عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب، عرب امارات ،بحرین وغیرہ کی مالی مدد حاصل تھی۔ دنیا بھر سے دہشتگردانہ، جنگجوانہ افرادی کمک یہاں تک یورپ، عرب، ایشیا، افریقہ سمیت پوری دنیا سے یہاں پہنچائی گئی، یہاں تک کہ اس مقصد کیلئے کئی ممالک بالخصوص پاکستان ، افغانستان میں جیلیں توڑ کر دہشتگردوں کو نکال کے عراق و شام میں پہنچایا گیا۔ عالمی میڈیا تجزیے پیش کر رہا تھا کہ کتنے عرصے میں حرمین شریفین داعش کے زیرانتظام ہوں گے۔ صدر بشارد الاسد نے شام سے فرار ہونے کیلئے اپنا ذاتی طیارہ منگوا لیا ہے۔ بغداد آج کل میں داعش کے سامنے سرنگوں ہونے والا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں قاسم سلیمانی ڈاکٹرائن وارد ہوتی ہے اور اسلامی دنیا پہ قبضے کا شرانگیز خواب دیکھنے والی داعش عراق و شام میں قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے۔
سالار زندہ، سرباز، شہید قدس، حاج قاسم سلیمانی کس حد تک اسلامی دنیا کے دفاع و تحفظ کیلئے اہمیت، حیثیت اور افادیت رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی شہادت کے پہلے ہی برس میں اہم اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ ایک ڈاکومنٹری میں داعش کے خلاف لڑنے والے رضاکارانہ فورس کے ایک کمانڈر سوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ ہم اپنے سب سے کمزور مورچوں پہ یہ خبر پھیلا دیتے تھے کہ جنرل قاسم سلیمانی آرہے ہیں، بس اس کے بعد ہمارے جوانوں میں کوئی خاص روحانی طاقت آجاتی جبکہ یہی خبر دشمن پہ موت بن کر گرتی تھی۔ وہ دنیا کے ہر خطہ میں شیطان بزرگ اور اس کے مذموم عزائم کے خلاف اپنا ناقابل شکست لشکر ترتیب دینے کا ہنر جانتے تھے۔
مقاومت سے ان کی وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح کربلاء والوں سے متمسک اہل ایمان اپنے گھروں پہ علم عباس علمدار لہراتے ہیں۔ اسی طرح سرخ اسلام سے پیوستہ ہر فرد، مقاومتی گروہ، لشکر سالار زندہ ، سرباز شہید قدس حاج قاسم سلیمانی سے فکری، روحانی اور حربی وابستگی کو لازمی جانتا ہے۔ اپنی ایک گفتگو میں سالار زندہ قاسم سلیمانی فرماتے ہیں کہ ''اپنی شخصیات کو کھو دینے کے بعد ہمیں ان کی قدر و منزلت اور ان کے اعلٰی مقام ہونے کا احساس ہوتا ہے، شہید ہمدانی، شہید خرازی، شہید کاظمی، حسن باکری جو کہ ہماری جنگ کا بہشتی تھا، علی ہاشمی وغیرہ جیسے افراد ہر پانچ سو سال میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں۔'' ہم عہد حاضر کی کربلاء کے اس سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، حاج قاسم سلیمانی، ان کے رفقا اور ان کے وہ ساتھی کہ جو کربلائے حاضر میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے کو سلام پیش کرتے ہیں۔
عہد حاضر کی کربلا کے سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، تجھے سلام
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے