یہ سوال بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران نے کیا دیا ہے؟ انقلاب اسلامی ایران سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوال سنی، شیعہ مسلمان معاشروں میں دہرایا جاتا ہے۔ ایران و پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ نہیں معلوم کہ سال 1979ء سے پہلے کی دنیا کیا تھی، اس دنیا میں ایران کی حیثیت کیا تھی اور جسے بھی اس سوال کا جواب چاہیئے وہ 1979ء سے پہلے اور بعد کی دنیا کا موازنہ کرلے۔ البتہ اس سوال کا جواب ایک منطقی اور عادلانہ دوسرے سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اس ایرانی اسلامی انقلاب کے مخالفین و دشمن ممالک نے دنیا کو یا انسانوں کو کیا دیا ہے!؟ یہ سوال منطقی اور عادلانہ اس لیے ہے کہ امریکی یورپی زایونسٹ بلاک اور اس کے اتحادی عرب حکمرانوں کے پاس تو وسائل ہی وسائل تھے اور تاحال ہیں۔ ان کے پاس تو سب کچھ کر گذرنے کی طاقت و صلاحیت بھی تھی اور تاحال ایسا ہی ہے تو سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان کے کتے بلی بھی شاہانہ ٹھاٹھ میں رہے، جبکہ صومالیہ کے بچے قحط میں مرگئے! ایسا کیوںا؟ ان کے اتحادی عرب حکمران امریکا و یورپ میں عیاشی کرتے رہے اور فلسطینی پناہ گزینوں میں بھی امن و سکون سے نہ رہ سکے!، ایسا کیوں؟ سوال تو یہ بنتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے فلسطین و کشمیر پر اتنا طویل عرصہ قبضہ کیسے رہا!؟ اور اب تک کیوں ہے!؟ اور یہ کس کے ساتھ ہیں!؟
اس سوال کا جواب صرف وہ انسان دے سکتے ہیں کہ جن میں عقل و عدل دونوں ہی بیک وقت موجود ہو اور یہیں سے انقلاب اسلامی ایران کی اہمیت و افادیت اور مثبت اثرات کو سمجھنے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کو ایک قابل اعتماد حامی اور مددگار ملک اور ریاست دی ہے، یہ ایک عام فائدہ ہے، جو عالم انسانیت کے لیے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف بڑی طاقتوں کے خلاف ایک نظریاتی محاذ قائم کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کے مظلوم و محکوم انسانوں پر جاری ظلم و ستم کے خلاف بیداری کی تحریک کو جنم دیا۔ اس انقلاب کی نظریاتی بیداری تحریک کے نتیجے میں دنیا پر امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک اور خائن و منافق عرب نما مسلمان نما حکمرانوں کی اصلیت ظاہر ہوئی۔ یہ عالمی سطح کے فوائد ہیں، جو انقلاب اسلامی کی وجہ سے ہر مظلوم و محکوم انسان کو پہنچے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائدین کے افکار علمی اور واقعیت پر مبنی رہے۔ یعنی کسی بھی اسلامی ملک، ریاست اور عالم دین کی جانب سے جدید دنیا کے عالمی سیاسی منظرنامے میں پہلی مرتبہ عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ موقف یا انگریزی میں کہیں تو انٹیلیکچول اپوزیشن کا یہ نمونہ انقلاب اسلامی نے ہی پیش کیا۔ اس سے پہلے غیر منطقی جذباتیت کا دور دورہ تھا۔
اس انقلاب پر ایک اعتراض فرقہ و مسلک کی بنیاد پر کرنے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ زمینی حقائق منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ایران نہ تو زبان پرست ہے اور نہ ہی فرقہ پرست، بلکہ ایران قرآن و اہلبیت نبوۃﷺ سے متمسک ایسی شیعہ اسلامی ریاست ہے کہ اس کے اہم ترین ریاستی اداروں میں اہل سنت کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔ حتیٰ کہ مجلس خبرگان رہبری میں بھی اہل سنت علمائے اسلام موجود ہیں۔ ایران نے سنی علمائے کرام کو یہ آئینی و قانونی حیثیت دے کر پوری دنیا کے مسلمان ممالک کے سیاسی نظام کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ خیمہ ولایت میں طلوع فجر کے بعد سنی و صوفی مسلمانوں کی یہ شان و شوکت صرف اور صرف ایران میں ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں تو تکفیریت اور ناصبیت کے آگے سب سرنگوں ہوچکے ہیں اور حکمران طبقہ تو امریکی زایونسٹ بلاک کا اعلانیہ جزو لاینفک ہیں۔ انقلابی اسلامی ایران کے مخالفین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ کرام کی سیاست یہ تھی، جو سعودی بادشاہ سلمان یا آل سعود، اس کے مولوی اور ان کے اتحادی دوست ممالک کے حکمران کر رہے ہیں!؟ اور مغربی بلاک کے بزعم خویش جمہوری چیمپیئن بتائیں کہ ان کے اتحادی مسلمان و عرب ممالک میں جمہوریت کیوں نہیں۔ بحرین کی شیعہ اکثریت پر امریکی اتحادی آل خلیفہ حاکم کیوں؟ اور ایران و عراق کے شیعہ شراکت اقتدار و جمہوریت کے باوجود معتوب کیوں!؟
مزید یہ کہ جس کسی کو ایران میں انقلاب اسلامی کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں، اس کے لیے آج کی دنیا بھی کھلی کتاب کی مانند ہے، موازنہ کیا جاسکتا ہے۔! عرب، عجم، مسلمان و غیر مسلم، سبھی اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقے اور اپنے معاشروں کی موجودہ حالت کو دیکھ لیں اور ایران سے موازنہ کر لیں۔ پوری دنیا کی سیاست و اقتصاد امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک کے کنٹرول میں ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی بالادست ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بالفرض کوئی ملک ان پر پابندی لگا بھی دے، تب بھی ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ڈالر اور یورو دونوں ہی کی حیثیت بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی نظام میں مستحکم ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کے پاس تین ویٹو پاور ہیں اور بقیہ دو بھی فلسطین، یمن، کشمیر سمیت کسی بھی ایشو پر مسلمانوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ جدید ترین سہولیات سے مالا مال امریکی یورپی زایونسٹ بلاک کہ سعودی عرب، امارات و بحرین سمیت بہت سے ممالک انکا اٹوٹ انگ ہیں، پچھلے بیالیس سال سے انہوں نے انسانیت، مسلمانوں یا عربوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے!؟ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی کارکردگی کا موازنہ کر لیں، نتیجہ ظاہر ہے۔!
امریکی یورپی زایونسٹ بلاک سے اور ان کے اتحادی سعودی و اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ سے اور ان کے حامی بتائیں ناں، انہوں نے پچھلے بیالس سال کیا کرتے گذارے۔ کیا فلسطین و کشمیر آزاد کروا دیئے!؟ کیا عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم کر دیں!؟ کیا برابر کے شہری حقوق دے دیئے۔ نہیں، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے لیبیا کو تباہ کر ڈالا، یہ یمن پر بلاوجہ کی فوجی یلغار کر رہے ہیں۔ کل ایک صومالیہ کے ڈھانچے نما بچوں کی مظلومیت پر ہم روتے تھے اور آج پورے عالم اسلام و عرب کو انہوں نے صومالیہ بنا ڈالا ہے۔ سوائے نفرت پھیلانے والے تکفیری و ناصبی مولویوں اور سوائے تباہی پھیلائے والے تکفیری ناصبی دہشت گردوں کے، انہوں نے دنیا کو دیا کیا ہے!؟ بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ پورا ٹولہ خود ہی مجسم گستاخ ہے۔ ان کا اپنا وجود صحابہ کی گستاخی اور بے حرمتی ہے۔ ان کا کردار صحابہ کی توہین ہے۔ عراق میں، شام میں، لبنان میں، پاکستان و افغانستان میں، یعنی ہر اہم مسلمان ملک یا عرب سرزمین پر یہ دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ کیا جوزف بائیڈن، اوبامہ، ٹرمپ، بش، کلنٹن، نیتن یاہو، آل سعود، آل نھیان، آل خلیفہ جیسے حکمرانوں کے یہ ٹاؤٹ صحابہ کے لیے قابل قبول ہوسکتے ہیں!؟ اور ان مغربی ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ نائن الیون سمیت بڑے دہشت گرد حملے کرنے والے تکفیری سعودی و اتحادی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کرنے والے سعودی و اتحادی حکمران امریکا، نیٹو، یورپی یونین کے آج تک لاڈلے کیوں!؟
کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔! حقیقت کا سامنا کریں۔ ہر آزاد انسان، عادل انسان موازنہ کر لے کہ اتنے سارے طاقتور ممالک پر مشتمل یہ پورا بلاک ایک طرف اور تنہا ایران ایک طرف، ایران نے فلسطین کے مظلوموں کی بے لوث مدد کی ہے! ایران عرب تو نہیں ہے، ایران فلسطینیوں کا ہم مسلک تو نہیں ہے۔! یمن اور شام کا عرب بھی ایران کا ہم مسلک نہیں ہے۔ عدل و عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ایران کی برابری ممکن نہیں ہے، کیوں! کیونکہ ایران نے پوری دنیا کے مظلوموں کی دفاعی جنگ لڑی ہے اور خاص طور پر عراق کے کرد، ایزدی، مسیحی، آشوری انسانوں کو بھی دہشت گردی کے شر سے نجات دلائی۔ حتیٰ کہ شام و فلسطین و لبنان کے مسیحی بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ ایران نے مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے قدس فورس بنا کر اپنا جنرل قاسم سلیمانی شہادت کے لیے پیش کیا ہے!؟ شہید بیت المقدس سلیمانی بھی سلمان فارسی کی قوم نے ہی دیا ہے۔
ان خائن عرب حکمرانوں اور ان کے درباریوں کی عربی عصبیت بھی صرف ہم عجمی مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ خائن عرب شاہ و شیوخ اور ان کے درباری ایک طرف ملت سلمان فارسیؓ کو آج بھی مجوس کہتے ہیں، در حال یہ کہ یہ عرب شاہ و شیوخ و درباری خود ہی عرب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مددگار اور اور سہولت کار ہیں۔ یہ خود ہی یمن و شام و عراق و لیبیا کے عربوں کے خلاف بھی اعلانیہ براہ راست یا پراکسی جنگوں میں بھی مصروف ہیں۔ انہوں نے تو اسلام و مسلمین کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ پوری دنیا میں نفرت و دہشت و وحشیانہ درندگی کی علامت کون ہے، سوائے ان کے اپنے مسلک کے!؟!؟ اور جب جب ان کو اسرائیل کی مدد کرنا ہوتی ہے تو یہ پاکستان میں صحابہ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں، کم سے کم پچھلے بیالس برس سے تو یہی تماشا ہو رہا ہے۔ کم سے کم اب تو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے والے مسلمان نما انسانوں کو اللہ کے عذاب و قہر سے ڈر جانا چاہیئے۔ کب تک یہ اوٹ پٹانگ سوال دوسروں سے کرتے رہیں گے۔ یہ اپنا محاسبہ تو کریں، ان کے کریڈٹ میں ہے کیا!؟ ایران اور اس کی قدس فورس تو وہی کر رہی ہے، جو کبھی پاکستانی فضائی افواج کے مایہ ناز افسر ستار علوی جیسے بہادر سپوت کیا کرتے تھے۔ آج اسرائیل کے خلاف ستار علوی جیسوں کا کردار ایران ادا کر رہا ہے، جبکہ ستار علوی کے پاکستان میں حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کا لشکر بزرگان دین کے مزارات کو، مسلمانوں کی مساجد کو خودکش بمبار کے ذریعے دھماکوں سے اڑا رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ پوچھا جا رہا ہے کہ ایران کے انقلاب سے کیا فائدہ ہوا۔! یہ ہے بیالیس سال کی مختصر روداد۔ لو کرلو گل!!!
اس سوال کا جواب صرف وہ انسان دے سکتے ہیں کہ جن میں عقل و عدل دونوں ہی بیک وقت موجود ہو اور یہیں سے انقلاب اسلامی ایران کی اہمیت و افادیت اور مثبت اثرات کو سمجھنے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کو ایک قابل اعتماد حامی اور مددگار ملک اور ریاست دی ہے، یہ ایک عام فائدہ ہے، جو عالم انسانیت کے لیے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف بڑی طاقتوں کے خلاف ایک نظریاتی محاذ قائم کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کے مظلوم و محکوم انسانوں پر جاری ظلم و ستم کے خلاف بیداری کی تحریک کو جنم دیا۔ اس انقلاب کی نظریاتی بیداری تحریک کے نتیجے میں دنیا پر امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک اور خائن و منافق عرب نما مسلمان نما حکمرانوں کی اصلیت ظاہر ہوئی۔ یہ عالمی سطح کے فوائد ہیں، جو انقلاب اسلامی کی وجہ سے ہر مظلوم و محکوم انسان کو پہنچے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائدین کے افکار علمی اور واقعیت پر مبنی رہے۔ یعنی کسی بھی اسلامی ملک، ریاست اور عالم دین کی جانب سے جدید دنیا کے عالمی سیاسی منظرنامے میں پہلی مرتبہ عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ موقف یا انگریزی میں کہیں تو انٹیلیکچول اپوزیشن کا یہ نمونہ انقلاب اسلامی نے ہی پیش کیا۔ اس سے پہلے غیر منطقی جذباتیت کا دور دورہ تھا۔
اس انقلاب پر ایک اعتراض فرقہ و مسلک کی بنیاد پر کرنے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ زمینی حقائق منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ایران نہ تو زبان پرست ہے اور نہ ہی فرقہ پرست، بلکہ ایران قرآن و اہلبیت نبوۃﷺ سے متمسک ایسی شیعہ اسلامی ریاست ہے کہ اس کے اہم ترین ریاستی اداروں میں اہل سنت کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔ حتیٰ کہ مجلس خبرگان رہبری میں بھی اہل سنت علمائے اسلام موجود ہیں۔ ایران نے سنی علمائے کرام کو یہ آئینی و قانونی حیثیت دے کر پوری دنیا کے مسلمان ممالک کے سیاسی نظام کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ خیمہ ولایت میں طلوع فجر کے بعد سنی و صوفی مسلمانوں کی یہ شان و شوکت صرف اور صرف ایران میں ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں تو تکفیریت اور ناصبیت کے آگے سب سرنگوں ہوچکے ہیں اور حکمران طبقہ تو امریکی زایونسٹ بلاک کا اعلانیہ جزو لاینفک ہیں۔ انقلابی اسلامی ایران کے مخالفین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ کرام کی سیاست یہ تھی، جو سعودی بادشاہ سلمان یا آل سعود، اس کے مولوی اور ان کے اتحادی دوست ممالک کے حکمران کر رہے ہیں!؟ اور مغربی بلاک کے بزعم خویش جمہوری چیمپیئن بتائیں کہ ان کے اتحادی مسلمان و عرب ممالک میں جمہوریت کیوں نہیں۔ بحرین کی شیعہ اکثریت پر امریکی اتحادی آل خلیفہ حاکم کیوں؟ اور ایران و عراق کے شیعہ شراکت اقتدار و جمہوریت کے باوجود معتوب کیوں!؟
مزید یہ کہ جس کسی کو ایران میں انقلاب اسلامی کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں، اس کے لیے آج کی دنیا بھی کھلی کتاب کی مانند ہے، موازنہ کیا جاسکتا ہے۔! عرب، عجم، مسلمان و غیر مسلم، سبھی اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقے اور اپنے معاشروں کی موجودہ حالت کو دیکھ لیں اور ایران سے موازنہ کر لیں۔ پوری دنیا کی سیاست و اقتصاد امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک کے کنٹرول میں ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی بالادست ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بالفرض کوئی ملک ان پر پابندی لگا بھی دے، تب بھی ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ڈالر اور یورو دونوں ہی کی حیثیت بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی نظام میں مستحکم ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کے پاس تین ویٹو پاور ہیں اور بقیہ دو بھی فلسطین، یمن، کشمیر سمیت کسی بھی ایشو پر مسلمانوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ جدید ترین سہولیات سے مالا مال امریکی یورپی زایونسٹ بلاک کہ سعودی عرب، امارات و بحرین سمیت بہت سے ممالک انکا اٹوٹ انگ ہیں، پچھلے بیالیس سال سے انہوں نے انسانیت، مسلمانوں یا عربوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے!؟ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی کارکردگی کا موازنہ کر لیں، نتیجہ ظاہر ہے۔!
امریکی یورپی زایونسٹ بلاک سے اور ان کے اتحادی سعودی و اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ سے اور ان کے حامی بتائیں ناں، انہوں نے پچھلے بیالس سال کیا کرتے گذارے۔ کیا فلسطین و کشمیر آزاد کروا دیئے!؟ کیا عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم کر دیں!؟ کیا برابر کے شہری حقوق دے دیئے۔ نہیں، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے لیبیا کو تباہ کر ڈالا، یہ یمن پر بلاوجہ کی فوجی یلغار کر رہے ہیں۔ کل ایک صومالیہ کے ڈھانچے نما بچوں کی مظلومیت پر ہم روتے تھے اور آج پورے عالم اسلام و عرب کو انہوں نے صومالیہ بنا ڈالا ہے۔ سوائے نفرت پھیلانے والے تکفیری و ناصبی مولویوں اور سوائے تباہی پھیلائے والے تکفیری ناصبی دہشت گردوں کے، انہوں نے دنیا کو دیا کیا ہے!؟ بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ پورا ٹولہ خود ہی مجسم گستاخ ہے۔ ان کا اپنا وجود صحابہ کی گستاخی اور بے حرمتی ہے۔ ان کا کردار صحابہ کی توہین ہے۔ عراق میں، شام میں، لبنان میں، پاکستان و افغانستان میں، یعنی ہر اہم مسلمان ملک یا عرب سرزمین پر یہ دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ کیا جوزف بائیڈن، اوبامہ، ٹرمپ، بش، کلنٹن، نیتن یاہو، آل سعود، آل نھیان، آل خلیفہ جیسے حکمرانوں کے یہ ٹاؤٹ صحابہ کے لیے قابل قبول ہوسکتے ہیں!؟ اور ان مغربی ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ نائن الیون سمیت بڑے دہشت گرد حملے کرنے والے تکفیری سعودی و اتحادی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کرنے والے سعودی و اتحادی حکمران امریکا، نیٹو، یورپی یونین کے آج تک لاڈلے کیوں!؟
کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔! حقیقت کا سامنا کریں۔ ہر آزاد انسان، عادل انسان موازنہ کر لے کہ اتنے سارے طاقتور ممالک پر مشتمل یہ پورا بلاک ایک طرف اور تنہا ایران ایک طرف، ایران نے فلسطین کے مظلوموں کی بے لوث مدد کی ہے! ایران عرب تو نہیں ہے، ایران فلسطینیوں کا ہم مسلک تو نہیں ہے۔! یمن اور شام کا عرب بھی ایران کا ہم مسلک نہیں ہے۔ عدل و عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ایران کی برابری ممکن نہیں ہے، کیوں! کیونکہ ایران نے پوری دنیا کے مظلوموں کی دفاعی جنگ لڑی ہے اور خاص طور پر عراق کے کرد، ایزدی، مسیحی، آشوری انسانوں کو بھی دہشت گردی کے شر سے نجات دلائی۔ حتیٰ کہ شام و فلسطین و لبنان کے مسیحی بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ ایران نے مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے قدس فورس بنا کر اپنا جنرل قاسم سلیمانی شہادت کے لیے پیش کیا ہے!؟ شہید بیت المقدس سلیمانی بھی سلمان فارسی کی قوم نے ہی دیا ہے۔
ان خائن عرب حکمرانوں اور ان کے درباریوں کی عربی عصبیت بھی صرف ہم عجمی مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ خائن عرب شاہ و شیوخ اور ان کے درباری ایک طرف ملت سلمان فارسیؓ کو آج بھی مجوس کہتے ہیں، در حال یہ کہ یہ عرب شاہ و شیوخ و درباری خود ہی عرب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مددگار اور اور سہولت کار ہیں۔ یہ خود ہی یمن و شام و عراق و لیبیا کے عربوں کے خلاف بھی اعلانیہ براہ راست یا پراکسی جنگوں میں بھی مصروف ہیں۔ انہوں نے تو اسلام و مسلمین کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ پوری دنیا میں نفرت و دہشت و وحشیانہ درندگی کی علامت کون ہے، سوائے ان کے اپنے مسلک کے!؟!؟ اور جب جب ان کو اسرائیل کی مدد کرنا ہوتی ہے تو یہ پاکستان میں صحابہ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں، کم سے کم پچھلے بیالس برس سے تو یہی تماشا ہو رہا ہے۔ کم سے کم اب تو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے والے مسلمان نما انسانوں کو اللہ کے عذاب و قہر سے ڈر جانا چاہیئے۔ کب تک یہ اوٹ پٹانگ سوال دوسروں سے کرتے رہیں گے۔ یہ اپنا محاسبہ تو کریں، ان کے کریڈٹ میں ہے کیا!؟ ایران اور اس کی قدس فورس تو وہی کر رہی ہے، جو کبھی پاکستانی فضائی افواج کے مایہ ناز افسر ستار علوی جیسے بہادر سپوت کیا کرتے تھے۔ آج اسرائیل کے خلاف ستار علوی جیسوں کا کردار ایران ادا کر رہا ہے، جبکہ ستار علوی کے پاکستان میں حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کا لشکر بزرگان دین کے مزارات کو، مسلمانوں کی مساجد کو خودکش بمبار کے ذریعے دھماکوں سے اڑا رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ پوچھا جا رہا ہے کہ ایران کے انقلاب سے کیا فائدہ ہوا۔! یہ ہے بیالیس سال کی مختصر روداد۔ لو کرلو گل!!!
تحریر: محمد سلمان مہدی